• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب کے کلام میں تعارض اور ٹکراؤ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اصول غامدی:۔
قارئین کرام !ایک جگہ غامدی صاحب فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد یہ زبان حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ ؓ کے ذخائرمیں ملتی ہے اور پھر اس کے بعد کلام عرب میں اور دوسری جگہ کلام عرب (اشعار وغیرہ ) کے متعلق فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔(اصول ومبادی،ص۱۵،۱۶)

جواب:۔
جب غامدی صاحب کا خود کا کلام آپس میں متعارض ہے تو اس پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے رہی بات کلام عرب کی کہ اسی پر قرآن کے بعد اعتماد کیا جاسکتا ہے تو یہ غامدی صاحب کی اپنی سوچ ہے جس کو وہ ائمہ لغت وادب کے اتفاق کا نام دے رہے ہیںبلکہ قرآن مجید کے بعد زبان کی تحقیق میں دوسرے درجے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہی اہل علم لغت وادب کا قول ہے دیکھئے (المزہر فی علوم اللغۃ للسیوطی جلد۱صفحہ۸۸)

ڈاکٹر محمد التونجی اپنی کتاب (المعجم المفصل فی تفسیر غریب الحدیث صفحہ ۵)میں فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث فصیح ہے اور اللہ کے کلام کے بعد سب سے سچی زبان ہے ۔ پھر تیسرے نمبر پر کلام عرب ہے جس سے لغت میں استشھاد کیا جاسکتا ہے ۔آگے غامدی صاحب نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ’’خزانۃ الادب ‘‘کے حوالے سے لکھا ہے ’’جس کلام سے زبان کے معاملے میں استشہاد کیا جاتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک شعرکی صورت اور دوسرا جو شعر کی صورت میں نہیں ہے ۔

ان میں سے پہلی قسم کو اہل علم نے چار طبقات میں تقسیم کیا ہے پہلا طبقہ اسلام سے پہلے کے شعراء جاہلیت کا ہے جیسے ’’امرؤالقیس اور اعشی‘‘۔دوسرا’’ مخضرمین ‘‘جنہوں نے اسلام اور جاہلیت دونوں کا زمانہ پایا ہے ۔جیسے لبید اور حسان ۔۔۔۔۔۔۔ان دونوں طبقات کے بارے اجماع ہے کہ ان کے اشعار سے استشہاد کیا جائے گا ۔‘‘(۱/۳)(اصول و مبادی،ص۱۷)اس سے صرف یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ کلام عرب (شعر جاہلیت وغیرہ )سے استشھاد کیا جائے گا نہ کہ اس بات پر اجماع ہے کہ بعد از قرآن یہی کلام پر اعتماد ہے ۔


اور پھر غامدی صاحب نے آگے اپنے موقف کی تائید میں تفسیر بیضاوی کے حوالے سے سیدنا عمر ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ’’تم لوگ اپنے دیوان کی حفاظت کرتے رہو گمراہی سے بچے رہو گے ،لوگوں نے پوچھا ہمارا دیوان کیا ہے اس لئے کہ ان میں تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معانی بھی ہیں‘‘(
البیضاوی،ج۱،ص۴۵۹بح� �الہ اصول ومبادی،ص۱۷)


اسی طرح المزہر فی علوم اللغۃ کے حوالے سے عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے جس کی تفصیل انشاء اللہ آپ اگلے صفحات میں ملاحظہ کریں گے۔ بیضاوی ؒنے اپنی تفسیرمیں عمر بن خطاب ؓ کا قول بغیر سند نقل کیا ہے اسی طرح عبداللہ بن عباس ؓ کا قول امام سیوطی نے اپنی کتاب (المزہر فی علوم اللغۃ) میں کتاب الوقف لابی بکر انباری ) کے حوالے سے نقل کیا ہے جس کی توثیق وتضعیف کا پتہ نہیں ایک طرف تو غامدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد کلام عرب (شعر جاہلیت وغیرہ)ہی ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔ صحت نقل (یعنی روایت کا صحیح ہونا )اور روایت باللفظ کی بنا پر اور اس وجہ سے ہر زبا ن کی تحقیق میں حجت ہے اور دوسری طرف غامدی صاحب وہ اقوال پیش کررہے ہیں جس کی صحت کاپتہ ہی نہیں(یعنی وہ صحیح ہیں یا نہیں )بلکہ صحت تو دور کی بات ہے سند کا ہی پتہ نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ اقوال روایت بالمعنی نقل کئے گئے ہیں یا روایت باللفظ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب لوگوں کی اصلاح کے بجائے لفاظی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

یہ بات عیاں ہے کہ لغت قرآن کو سمجھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی سب سے بہتر ہے کیونکہ قرآن انہی پر نازل ہوا تھا امام ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ تفسیر کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے اور اگر قرآن میں اجمال ہے تو اس کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کی شرح اور اس کی وضاحت ہے
(تفسیر ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۶)

اس مثال سے بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی
’’الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم‘‘اولٓئک لھم الامن وھم مھتدو ن‘‘( سورہ انعام آیت ۸۲)​
تو صحابہ کرام ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی نفس پر ظلم نہ کرتا ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد وہ ظلم ہے جس کے نہ کرنے کا حکم لقمان ؑ نے اپنے بیٹے کو دیا تھا ۔
(یابنی لا تشرک باللہ)
(سورہ لقمان آیت ۱۳)

اے میرے بیٹے شرک نہ کرناکہ یقینا شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (بخاری کتاب الایمان جلد ۱ حدیث ۱۳،صفحہ ۱۰۹)
صحابہ کرام جو کہ فصحا عرب میں سے تھے لیکن عرب کی فصاحت وبلاغت کے عارفین ہونے کے باوجود قرآن کی اس آیت کو نہ سمجھ سکے ۔جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف رجوع کیا تو اس آیت کا مفہوم واضح ہوگیا لہٰذا یہ بات ضوء النھار کی طرح واضح ہے کہ عربی لغت کی فہم کا خاص طور پر قرآنی لغت کی فھم کو کلام عرب (شعر جاہلیت) سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ضرورت ہے اور ہمیشہ سلف نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور ابھی بھی قرآن کے بعد سب سے زیادہ اسی پر اعتماد کیا جائے گا ۔

غامدی صاحب خود کواپنے تئیںبہت بڑا لغوی اور ادیب گردانتے ہیںاپنی ساٹھ سالہ علمی زندگی کے اندر انہوں نے صرف ایک سو بائیس صفحات عربی میں لکھے ہیں جو کہ مختلف رسائل میں مضامین کی صورت میں شائع ہوئے ہیں ۔ ان مضامین میں استعمال کردہ عربی سے بوسیدگی محسوس ہوتی ہے اس میں زیادہ تر الفاظ متروک الاستعمال ہیں ۔ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی فرماتے ہیں کہ غامدی صاحب کے انداز بیان میں وہ عیب ہے جو عربی زبان میں ’’عجمہ‘‘یعنی عجمیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی عربی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ عربی زبان کے اسلوب سے بے خبر ہیں انہوں نے بیسویں صدی کے مشہور ادباء محمود احمد شاکر ،طہ حسین ،احمد حسن زیات،احمد تیمور پاشا،علی طنطاوی وغیرہ اور اسی طرح عراق سعودی عرب اور مراکش کے ادیبوں اور مصنفین کی تحریروں کو نہیں پڑہا ہے،ورنہ ان کی عربی کا اسلوب ایسا نہ ہوتا کہ جس سے بوسیدگی کی بو آئے یا پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی طالب علم کے سامنے قدیم عربی کی کتابیں ہیں وہ ان کے جملے تشبیہات و استعارات اپنی تحریر میں منتقل کر رہا ہے ۔(دیکھئے ماہنامہ ساحل شمارہ نمبر چار اپریل ۲۰۰۷،صفحہ نمبر ۲۷)۔
 
Top