یہ سن کر وہ لوگ واپس آگئے۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ کر صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا : عضل وقارہ۔ مقصود یہ تھا کہ جس طرح عضل وقارہ نے اصحابِ رجیع کے ساتھ بدعہدی کی تھی اسی طرح یہود بھی بد عہدی پر تُلے ہوئے ہیں۔
باوجودیکہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اخفائے حقیقت کی کوشش کی لیکن عام لوگوں کو صورتحال کا علم ہوگیا۔ اور اس طرح ایک خوفناک خطرہ ان کے سامنے مجسم ہوگیا۔
درحقیقت اس وقت مسلمان نہایت نازک صورت حال سے دوچار تھے۔ پیچھے بنو قریظہ تھے جن کا حملہ روکنے کے لیے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔ آگے مشرکین کا لشکر ِجرار تھا جنہیں چھوڑ کر ہٹنا ممکن نہ تھا۔ پھر مسلمان عورتیں اور بچے تھے جو کسی حفاظتی انتظام کے بغیر بد عہد یہودیوں کے قریب ہی تھے۔ اس لیے لوگوں میں سخت اضطراب برپا ہوا جس کی کیفیت اس آیت میں بیان کی گئی ہے :
إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (۳۳: ۱۰، ۱۱)
''اور جب نگاہیں کج ہوگئیں ، دل حلق میں آگئے ، اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت مومنوں کی آزمائش کی گئی، اور انہیں شدت سے جھنجوڑدیا گیا۔''
پھر اسی موقع پر بعض منافقین کے نفاق نے بھی سر نکالا۔ چنانچہ وہ کہنے لگے کہ محمد تو ہم سے وعدے کرتے تھے کہ ہم قیصر وکِسریٰ کے خزانے کھائیں گے اور یہاں یہ حالت ہے کہ پیشاب پائخانے کے لیے نکلنے میں بھی جان کی خیر نہیں۔ بعض منافقین نے اپنی قوم کے اشراف کے سامنے یہاں تک کہاکہ ہمارے گھر دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں۔ ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔ کیونکہ ہمارے گھر شہر سے باہر ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ بنو سلمہ کے قدم اکھڑرہے تھے۔ اور وہ پسپائی کی سوچ رہے تھے۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے :
وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢﴾ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا (۳۳: ۱۲،۱۳)
''اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جووعدہ کیا ہے وہ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اور جب ان کی ایک جماعت نے کہا کہ اے اہل یثرب! تمہارے لیے ٹھہرنے کی گنجائش نہیں، لہٰذا واپس چلو۔ اور ان کا ایک فریق نبی سے اجازت مانگ رہا تھا۔ کہتا تھا ہمارے گھر خالی پڑے ہیں۔ حالانکہ وہ خالی نہیں پڑے تھے یہ لوگ محض فرار چاہتے تھے۔''
ایک طرف لشکر کا یہ حال تھا۔ دوسری طرف رسول اللہﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ آپ نے بنو قریظہ کی بدعہدی کی خبر سن کر اپنا سر اور چہرہ کپڑے سے ڈھک لیا۔ اور دیر تک چت لیٹے رہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر لوگوں کا اضطراب اور زیادہ بڑھ گیا ، لیکن اس کے بعد آپ پر امید کی روح غالب آگئی۔ اور آپ اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ اور فرمایا : مسلمانو! اللہ کی مدداورفتح کی خوشخبری سن لو ! اس کے بعد آپ نے پیش آمدہ حالات سے نمٹنے کا پروگرام بنایا اور اسی پروگرام کے ایک جزو کے طور پر مدینے کی نگرانی کے لیے فوج کا ایک حصہ روانہ فرماتے رہے تاکہ مسلمانوں کو غافل دیکھ کر یہود کی طرف سے عورتوں اور بچوں پر اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے ، لیکن اس موقع پر ایک فیصلہ کن اقدام کی ضرورت تھی جس کے ذریعے دشمن کے مختلف گروہوں کوایک دوسرے سے بے تعلق کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے سوچا کہ بنو غطفان کے دونوں سرداروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف سے مدینے کی ایک تہائی پیداوار پر مصالحت کرلیں تاکہ یہ دونوں سردار اپنے اپنے قبیلے لے کر واپس چلے جائیں۔ اور مسلمان تنہاقریش پر جن کی طاقت کا بار بار اندازہ لگایا جاچکا تھا۔ ضرب کاری لگانے کے لیے فارغ ہوجائیں۔ اس تجویز پر کچھ گُفت وشنید بھی ہوئی۔ مگر جب آپﷺ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے اس تجویز کے بارے میں مشورہ کیا تو ان دونوں نے بیک زبان عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر اللہ نے آپﷺ کو اس کا حکم دیا ہے تب تو بلاچوں چرا تسلیم ہے۔ اور اگر محض آپﷺ ہماری خاطر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جب ہم لوگ اور یہ لوگ دونوںشرک بت پرستی پر تھے تو یہ لوگ میزبانی یاخرید وفرخت کے سواکسی اور صورت سے ایک دانے کی بھی طمع نہیں کرسکتے تھے تو بھلا اب جبکہ اللہ نے ہمیں ہدایت ِ اسلام سے سرفروز فرمایا ہے ، اور آپ کے ذریعے عزت بخشی ہے ، ہم انہیں اپنا مال دیں گے ؟ واللہ! ہم تو انہیں صرف اپنی تلواردیں گے۔ آ پﷺ نے ان دونوں کی رائے کو درست قرار دیا۔ اور فرمایا کہ جب میں نے دیکھا کہ سارا عرب ایک کمان کھینچ کر تم پر پل پڑا ہے تو محض تمہاری خاطر یہ کام کرنا چاہا تھا۔
پھر -الحمد للہ - اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دشمن میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان کی جمعیت شکست کھاگئی ، اور ان کی دھار کند ہو گئی۔ ہوایہ کہ غطفان کے ایک صاحب جن کانام نُعَیم بن مسعود بن عامر اشجعی تھا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! میں مسلمان ہوگیا ہوں ، لیکن میری قوم کو میرے اسلام لانے کا علم نہیں۔ لہٰذا آپﷺ مجھے کوئی حکم فرمایئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم فقط ایک آدمی ہو(لہٰذا کوئی فوجی اقدام تو نہیں کرسکتے ) البتہ جس قدر ممکن ہوان میں پھوٹ ڈالو اور ان کی حوصلہ شکنی کرو ، کیونکہ جنگ تو چالبازی کا نام ہے۔ اس پر حضرت نعیم فورا ً ہی بنو قریظہ کے ہاں پہنچے۔ جاہلیت میں ان سے ان کا بڑا میل جول تھا۔وہاں پہنچ کر انہوں نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ مجھے آپ لوگوں سے محبت اور خصوصی تعلق ہے۔ انہوں نے کہا : جی ہاں۔ نعیم نے کہا : اچھا تو سنئے کہ قریش کا معاملہ آپ لوگوں سے مختلف ہے۔ یہ علاقہ آپ کا اپنا علاقہ ہے۔ یہاں آپ کا گھربار ہے۔ مال ودولت ہے۔ بال بچے ہیں۔ آپ اسے چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاسکتے مگر قریش وغطفان محمدﷺ سے جنگ کرنے آئے تو آپ نے محمدﷺ کے خلاف ان کا ساتھ دیا۔ ظاہر ہے ان کا یہاں نہ گھر بار ہے نہ مال ودولت ہے نہ بال بچے ہیں۔ اس لیے انہیں موقع ملا تو کوئی قدم اٹھائیں گے۔ ورنہ بوریا بستر باندھ کر رخصت ہوجائیں گے۔ پھر آپ لوگ ہوں گے۔ اور محمدﷺ ہوں گے۔ لہٰذا وہ جیسے چاہیں گے آپ سے انتقام لیں گے۔ اس پر بنو قریظہ چونکے۔ اور بولے : نعیم ! بتایئے اب کیاکیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا : دیکھئے ! قریش جب تک آپ لوگوں کو اپنے کچھ آدمی یرغمال کے طور پر نہ دیں ، آپ ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوں۔ قریظہ نے کہا : آپ نے بہت مناسب رائے دی ہے۔
اس کے بعد حضرت نعیمؓ سیدھے قریش کے پاس پہنچے اور بولے : آپ لوگوں سے مجھے جومحبت اور جذبہ خیر خواہی ہے اسے تو آپ جانتے ہی ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! حضرت نعیمؓ نے کہا: اچھا تو سنئے کہ یہود نے محمدﷺ اور ان کے رفقاء سے جو عہد شکنی کی تھی اس پر وہ نادم ہیں۔ اور اب ان میں یہ مراسلت ہوئی ہے کہ وہ (یہود) آپ لوگوں سے کچھ یرغمال حاصل کر کے ان (محمد) کے حوالے کردیں گے۔ اور پھر آپ لوگوں کے خلاف محمدﷺ سے اپنا معاملہ استوار کرلیں گے۔ لہٰذا اگر وہ یرغمال طلب کریں تو آپ ہرگز نہ دیں۔ اس کے بعد غطفان کے پاس بھی جاکر یہی بات دہرائی۔ (اور ان کے بھی کان کھڑے ہوگئے )
اس کے بعد جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات کو قریش نے یہود کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ ہماراقیام کسی سازگار اور موزوں جگہ پر نہیں ہے۔ گھوڑے اور اونٹ مررہے ہیں۔ لہٰذا ادھر سے آپ لوگ اور ادھر سے ہم لوگ اٹھیں۔ اور محمد پر حملہ کردیں ، لیکن یہود نے جواب میں کہلایا کہ آج سنیچر کا دن ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہم سے پہلے جن لوگوں نے اس دن کے بارے میں حکم ِ شریعت کی خلاف ورزی کی تھی انہیں کیسے عذاب سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ علاوہ ازیں آپ لوگ جب تک اپنے کچھ آدمی ہمیں بطور ِ یرغمال نہ دے دیں ہم لڑائی میں شریک نہ ہوں گے۔ قاصد جب یہ جواب لے کر واپس آئے تو قریش اور غطفان نے کہا : واللہ! نعیمؓ نے سچ ہی کہا تھا ، چنانچہ انہوں نے یہود کو کہلا بھیجا کہ اللہ کی قسم ! ہم آپ کوکوئی آدمی نہ دیں گے ، بس آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی نکل پڑیں۔ اور (دونوں طرف سے) محمد پر ہلہ بول دیا جائے۔ یہ سن کر قریظہ نے باہم کہا: واللہ ! نعیمؓ نے تم سے سچ ہی کہا تھا اس طرح دونوں فریق کا اعتماد ایک دوسرے سے اٹھ گیا۔ ان کی صفوں میں پھوٹ پڑ گئی اور ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔
اس دوران مسلمان اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کررہے تھے:
((اللہم استر عوراتنا وآمن روعاتنا۔)) ''اے اللہ ہماری پردہ پوشی فرما۔ اور ہمیں خطرات سے مامون کردے۔''اور رسول اللہﷺ یہ دعا فرمارہے تھے :
(( اللہم منزل الکتاب، سریع الحساب، اہزم الأحزاب، اللہم اہزمہم وزلزلہم۔)) 1
''اے اللہ ! کتاب اتارنے والے اور جلد حساب لینے والے۔ ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ ! انہیں شکست دے اور جھنجوڑکر رکھ دے۔''
بالآخر اللہ نے اپنے رسولﷺ اور مسلمانوں کی دعائیں سن لیں۔ چنانچہ مشرکین کی صفوں میں پھوٹ پڑجانے اور بددلی وپست ہمتی سرایت کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر تند ہواؤں کا طوفان بھیج دیا۔ جس نے ان کے خیمے اکھیڑ دیئے ، ہانڈیاں الٹ دیں ، طَنابوں کی کھونٹیاں اکھاڑ دیں ، کسی چیز کو قرار نہ رہا اور اس کے ساتھ ہی فرشتوں کا لشکر بھیج دیا۔ جس نے انہیں ہلا ڈالا۔ اور ان کے دلوں میں رعب اور خوف ڈال دیا۔
اسی سرد اور کڑ کڑاتی ہوئی رات میں رسول اللہﷺ نے حضرت حُذیفہ بن یمانؓ کو کفار کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ موصوف ان کے محاذ میں پہنچے تو وہاں ٹھیک یہی حالت بپا تھی۔ اور مشرکین واپسی کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے خدمت ِنبویﷺ میں واپس آکر ان کی روانگی کی اطلاع دی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے صبح کی تو (دیکھا کہ میدان صاف ہے ) اللہ نے دشمن کو کسی خیر کے حصول کا موقع دیئے بغیر اس کے غیظ وغضب سمیت واپس کردیا ہے۔ اور ان سے جنگ کے لیے تنہا کافی ہواہے۔ الغرض! اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے لشکر کو عزت بخشی ، اپنے بندے کی مدد کی۔ اور تن تنہا سارے لشکر کو شکست دی چنانچہ اس کے بعد آپ مدینہ واپس آگئے۔
غزوۂ خندق صحیح ترین قول کے مطابق شوال ۵ھ میں پیش آیا تھا۔ اور مشرکین نے ایک ماہ یا تقریباً ایک ماہ تک رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا تھا۔ تمام مآخذ پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محاصرے کا آغاز شوال میں ہوا تھا اور خاتمہ ذی قعدہ میں۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ جس روز خندق سے واپس ہوئے بدھ کادن تھا۔ اور ذی قعدہ کے ختم ہونے میں صرف سات دن باقی تھے۔
جنگِ احزاب درحقیقت خساروں کی جنگ نہ تھی بلکہ اعصاب کی جنگ تھی۔ا س میں کوئی خونریز معرکہ پیش نہیں آیا ، لیکن پھر بھی یہ اسلامی تاریخ کی ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے اور یہ واضح ہوگیا کہ عرب کی کوئی بھی قوت مسلمانوں کی اس چھوٹی سی طاقت کو جومدینے میں نشو نما پارہی ہے ختم نہیں کرسکتی کیونکہ جنگِ احزاب میں جتنی بڑی طاقت فراہم ہوگئی تھی اس سے بڑی طاقت فراہم کرنا عربوں کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے احزاب کی واپسی کے بعد فرمایا :
(( الآن نغزوہم ولا یغزونا، ونحن نسیر إلیہم۔)) 2
''اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے ، وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے، اب ہمارا لشکر ان کی طرف جائے گا۔''
****
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری کتاب الجہاد ۱/۴۱۱ کتاب المغازی ۲/۵۹۰ 2 صحیح بخاری ۲/۵۹۰۔