- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
غزوہ ٔ طائف
یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا امتداد ہے۔ کیونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہوگئے تھے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے حنین سے فارغ ہوکر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال ۸ ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔
اس مقصد کے لیے خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہر اَول دستہ روانہ کیا گیا، پھر آپ نے خود طائف کا رُخ فرمایا۔ راستہ میں نخلہ ٔ یمانیہ ، پھر قرن منازل پھر لیہ سے گزرہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا۔ آپ نے اسے منہدم کروادیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کرلیا۔
محاصرہ نے قدرے طول پکڑا۔ چنانچہ صحیح مسلم میںحضرت انسؓ کی روایت ہے کہ یہ چالیس دن تک جاری رہا۔ اہل سیر میں سے بعض نے اس کی مدت بیس دن بتائی ہے۔ بعض نے دس دن سے زیادہ ، بعض نے اٹھارہ دن اور بعض نے پندرہ دن۔ 1
دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ بلکہ پہلے پہل جب مسلمانوں نے محاصرہ کیا تو قلعہ کے اندر سے ان پر اس شدت سے تیر اندازی کی گئی کہ معلوم ہوتا تھا ٹڈی دَل چھایا ہوا ہے اس سے متعدد مسلمان زخمی ہوئے۔ بارہ شہید ہوئے۔ اور انہیں اپنا کیمپ اٹھا کر موجودہ مسجد طائف کے پاس لے جانا پڑا۔
رسول اللہﷺ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہل طائف پر منجنیق نصب کی ، اور متعدد گولے پھینکے ، جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑگیا۔ اور مسلمانو ں کی ایک جماعت دبابہ کے اندر گھس کر آگ لگانے کے لیے دیوار تک پہنچ گئی۔ لیکن دشمن نے ان پر لوہے کے جلتے ٹکڑے پھینکے ، جس سے مجبور ہوکر مسلمان دبابہ کے نیچے سے باہر نکل آئے، مگر باہر نکلے تو دشمن نے ان پر تیروں کی بارش کردی جس سے بعض مسلمان شہید ہوگئے۔
رسول اللہﷺ نے دشمن کو زیر کرنے کے لیے ایک اور جنگی حکمت ِ عملی کے طور پر حکم دیا کہ انگور کے درخت کاٹ کر جلا دیے جائیں۔ مسلمانوں نے ذرا بڑھ چڑھ کر ہی کٹائی کردی۔ اس پر ثقیف نے اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر گزارش کی کہ درختوں کو کاٹنا بند کردیں۔ آپ نے اللہ کے واسطے اور قرابت کی خاطر ہاتھ روک لیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۸/۴۵