• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوہ ٔ طائف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غزوہ ٔ طائف

یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا امتداد ہے۔ کیونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہوگئے تھے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے حنین سے فارغ ہوکر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال ۸ ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔
اس مقصد کے لیے خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہر اَول دستہ روانہ کیا گیا، پھر آپ نے خود طائف کا رُخ فرمایا۔ راستہ میں نخلہ ٔ یمانیہ ، پھر قرن منازل پھر لیہ سے گزرہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا۔ آپ نے اسے منہدم کروادیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کرلیا۔
محاصرہ نے قدرے طول پکڑا۔ چنانچہ صحیح مسلم میںحضرت انسؓ کی روایت ہے کہ یہ چالیس دن تک جاری رہا۔ اہل سیر میں سے بعض نے اس کی مدت بیس دن بتائی ہے۔ بعض نے دس دن سے زیادہ ، بعض نے اٹھارہ دن اور بعض نے پندرہ دن۔ 1
دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ بلکہ پہلے پہل جب مسلمانوں نے محاصرہ کیا تو قلعہ کے اندر سے ان پر اس شدت سے تیر اندازی کی گئی کہ معلوم ہوتا تھا ٹڈی دَل چھایا ہوا ہے اس سے متعدد مسلمان زخمی ہوئے۔ بارہ شہید ہوئے۔ اور انہیں اپنا کیمپ اٹھا کر موجودہ مسجد طائف کے پاس لے جانا پڑا۔
رسول اللہﷺ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہل طائف پر منجنیق نصب کی ، اور متعدد گولے پھینکے ، جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑگیا۔ اور مسلمانو ں کی ایک جماعت دبابہ کے اندر گھس کر آگ لگانے کے لیے دیوار تک پہنچ گئی۔ لیکن دشمن نے ان پر لوہے کے جلتے ٹکڑے پھینکے ، جس سے مجبور ہوکر مسلمان دبابہ کے نیچے سے باہر نکل آئے، مگر باہر نکلے تو دشمن نے ان پر تیروں کی بارش کردی جس سے بعض مسلمان شہید ہوگئے۔
رسول اللہﷺ نے دشمن کو زیر کرنے کے لیے ایک اور جنگی حکمت ِ عملی کے طور پر حکم دیا کہ انگور کے درخت کاٹ کر جلا دیے جائیں۔ مسلمانوں نے ذرا بڑھ چڑھ کر ہی کٹائی کردی۔ اس پر ثقیف نے اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر گزارش کی کہ درختوں کو کاٹنا بند کردیں۔ آپ نے اللہ کے واسطے اور قرابت کی خاطر ہاتھ روک لیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۸/۴۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دورانِ محاصرہ رسول اللہﷺ کے منادی نے اعلان کیا: جو غلام قلعہ سے اتر کر ہمارے پاس آجائے وہ آزاد ہے۔ اس اعلان پر تیئس آدمی قلعہ سے نکل کر مسلمانوں میں آشامل ہوئے۔1انہیں میں حضرت ابو بکرہؓ بھی تھے۔ وہ قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر ایک چرخی یا گھراری کی مدد سے (جس کے ذریعہ رہٹ سے پانی کھینچاجاتا ہے) لٹک کر نیچے آئے تھے۔ (چونکہ گھراری کو عربی میں بکرہ کہتے ہیں ) اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کی کنیت ابو بکرہ رکھ دی۔ ان سب غلاموں کو رسول اللہﷺ نے آزاد کردیا۔ اور ہر ایک کو ایک ایک مسلمان کے حوالے کردیا کہ اسے سامان بہم پہنچائے۔ یہ حادثہ قلعہ والوں کے لیے بڑا جانکاہ تھا۔
جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قلعہ قابو میں آتا نظر نہ آیا۔ اور مسلمانوں پر تیر وں کی بارش اور گرم لوہوں کی زد پڑی۔ اور ادھر اہلِ قلعہ نے سال بھر کا سامان خورد ونوش بھی جمع کرلیا تھا -تو رسول اللہﷺ نے نو فل بن معاویہ دیلی سے مشورہ طلب کیا۔ اس نے کہا : لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ اس پر ڈٹے رہے تو پکڑلیں گے اور اگر چھوڑ کر چلے گئے تو وہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرما لیا ، اور حضرت عمر بن خطابؓ کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کروادیا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے لیکن یہ اعلان صحابہ کرام پر گراں گزار۔ وہ کہنے لگے: ہونہہ ! طائف فتح کیے بغیر واپس ہوں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اچھا تو کل صبح لڑائی پرچلنا ہے۔ چنانچہ دوسرے دن لوگ لڑائی پر گئے، لیکن چوٹ کھانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کے بعد آپ نے پھر فرمایا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے۔ اس پر لوگوںمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اور انہو ں نے بے چون وچرا رخت ِ سفر باندھنا شروع کردیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہﷺ مسکراتے رہے۔
اس کے بعد جب لوگوں نے ڈیرہ ڈنڈا اٹھا کر کوچ کیا تو آپ نے فرمایا کہ یوں کہو:
(( آئبون ، تائبون ، عابدون ، لربنا حامدون۔))
''ہم پلٹنے والے ، توبہ کرنے والے ، عبادت گزار ہیں ، اور اپنے رب کی حمد کرتے ہیں۔''
کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ ثقیف پربددعا کریں۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں لے آ۔
جعرانہ میں اموالِ غنیمت کی تقسیم :
رسول اللہﷺ طائف سے محاصرہ ختم کر کے واپس آئے تو جعرانہ میں کئی روز مال ِ غنیمت تقسیم کیے بغیرٹھہرے رہے۔ اس تاخیر کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپ کی خدمت میں آجائے تو اس نے جو کچھ کھویا ہے سب لے جائے۔ لیکن تاخیر کے باوجود جب آپ کے پاس کوئی نہ آیا تو آپ نے مال کی تقسیم شروع کردی، تاکہ قبائل کے رؤساء اور مکہ کے اشراف جو اُچک اُچک کر تاک رہے تھے ان کی زبان خاموش ہوجائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۲۶۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مؤلفۃ القلوب 1کی قسمت نے سب سے پہلے یاوری کی۔ اور انہیں بڑے بڑے حصے دیے گئے۔
ابو سفیان بن حرب کو چالیس اَوْقِیہ (کچھ کم چھ کلو چاندی ) اور ایک سو اونٹ عطا کیے گئے۔ اس نے کہا : میرا بیٹا یزید ؟ آپ نے اتنا ہی یزید کو دیا۔ اس نے کہا : اور میرا بیٹا معاویہ ؟ آپ نے اتناہی معاویہ کو بھی دیا۔ (یعنی تنہا ابو سفیان کو اس کے بیٹوں سمیت تقریبا ۱۸ کلو چاندی اور تین سواونٹ حاصل ہوگئے )
حکیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دیے گئے۔ اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا توا سے پھر ایک سو اونٹ دیے گئے۔ اسی طرح صفوان بن امیہ کو سو اونٹ ، پھر سواونٹ اور پھر سواونٹ (یعنی تین سو اونٹ ) دیئے گئے۔2
حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دیے گئے۔ اور کچھ مزید قریشی وغیر قریشی رؤساء کو سو سو اونٹ دیے گئے کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دیے گئے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ محمدﷺ اس طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انہیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں۔ چنانچہ مال کی طلب میں بَدُّو آپﷺ پر ٹوٹ پڑے۔ اور آپﷺ کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کردیا۔ اتفاق سے آپﷺ کی چادر درخت میں پھنس کررہ گئی۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگو! میری چادر دے دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کردوںگا۔ پھر تم مجھے نہ بخیل پاؤ گے ، نہ بزدل ، نہ جھوٹا۔
اس کے بعد آپﷺ نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہوکر اس کی کوہان سے کچھ بال لیے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا : لوگو! واللہ میرے لیے تمہارے مالِ فے میں سے کچھ بھی نہیں، حتیٰ کہ اتنا بال بھی نہیں۔ صرف خُمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹا دیا جاتا ہے۔
مؤلّفَۃ القلوب کو دینے کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ مالِ غنیمت اور فوج کو یکجا کرکے لوگوں پر غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں۔ انہوں نے ایسا کیا تو ایک ایک فوجی کے حصے میں صرف چار چار اونٹ یا چالیس چالیس بکریاں آئیں۔ جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ یا ایک سو بیس بکریا ں ملیں۔
انصار کا حزن واضطراب:
یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی لیکن پہلے پہل سمجھی نہ جاسکی، اس لیے کچھ زبانوں پر حرفِ اعتراض آگیا۔
ابن اسحاق نے ابو سعید خدریؓ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے قریش اورقبائل عرب کو وہ عطیے دیئے۔ اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار نے جی ہی جی میں پیچ وتاب کھایا۔ اور ان میں بہت چہ میگوئی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ اپنی قوم سے جا ملے ہیں۔ اس کے بعد حضرت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں اور ان کا دل جوڑنے کے لیے انہیں مالی مدد دی جائے تاکہ وہ اسلام پر مضبوطی سے جم جائیں۔
2 الشفاء بتعریف حقوق المصطفی قاضی عیاض ۱/۸۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سعد بن عبادہؓ آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپﷺ نے حاصل شدہ مالِ فے میں جو کچھ کیا ہے اس پر انصار اپنے جی ہی جی میں آپﷺ پر پیچ وتاب کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے اسے اپنی قوم میں تقسیم فرمایا۔ قبائل ِ عرب کو بڑے بڑے عطیے دیے لیکن انصار کو کچھ نہ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا : اے سعد ! اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں بھی تو اپنی قوم ہی کا ایک آدمی ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا :اچھا تو اپنی قوم کو اس چھولداری میں جمع کرو۔ سعدؓ نے نکل کر انصار کو اس چھولداری میں جمع کیا۔ کچھ مہاجرین بھی آگئے تو انہیں داخل ہونے دیا۔ پھر کچھ دوسرے لوگ بھی آگئے تو انہیں واپس کردیا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت سعدؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ قبیلہ ٔ انصار آپ کے لیے جمع ہوگیا ہے۔ رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے۔ اللہ کی حمد وثنا کی پھر فرمایا :
انصار کے لوگو! تمہاری یہ کیا چہ میگوئی ہے جو میرے علم میں آئی ہے ؟ اور یہ کیا ناراضگی ہے جو جی ہی جی میں تم نے مجھ پر محسوس کی ہے ؟ کیا ایسا نہیں کہ میں تمہارے پاس اس حالت میں آیا کہ تم گمراہ تھے ، اللہ نے تمہیں ہدایت دی۔ اور محتاج تھے ، اللہ نے غنی بنادیا ؟ اور باہم دشمن تھے ، اللہ نے تمہارے دل جوڑ دیے ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کا بڑا فضل وکرم ہے۔
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : انصار کے لوگو! مجھے جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انصار نے عرض کیا : یارسول اللہ ! بھلا ہم آپﷺ کو کیا جواب دیں ؟ اللہ اور اس کے رسول کا فضل وکرم ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: دیکھو! اللہ کی قسم! اگر تم چاہو توکہہ سکتے ہو ... اور سچ ہی کہوگے اور تمہاری بات سچ ہی مانی جائے گی ... کہ آپ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا ، ہم نے آپ کی تصدیق کی۔ آپ کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا ، ہم نے آپ کی مدد کی۔ آپ کو دھتکار دیا گیا تھا ، ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا۔ آپ محتاج تھے ، ہم نے آپ کی غمخواری وغمگساری کی۔
اے انصار کے لوگو! تم اپنے جی میں دنیا کی ایک حقیر سی گھاس کے لیے ناراض ہوگئے جس کے ذریعے سے میں نے لوگوں کا دل جوڑا تھا تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ اور تم کو تمہارے اسلام کے حوالے کردیا تھا؟ اے انصار ! کیا تم اس سے راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کرجائیں اور تم رسول اللہﷺ کو لے کر اپنے ڈیروںمیں پلٹو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر سارے لوگ ایک راہ چلیں اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ اے اللہ ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں (پوتوں ) پر۔
رسول اللہﷺ کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کی داڑ ھیاں تر ہوگئیں۔ اور کہنے لگے : ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہﷺ ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ واپس ہوگئے اور لوگ بھی بکھر گئے۔ 1
وفد ہوازن کی آمد:
غنیمت تقسیم ہوجانے کے بعد ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر آگیا۔ یہ کل چودہ آدمی تھے۔ ان کا سربراہ اور خطیب زُہیر بن صُرَد تھا۔ اور ان میں رسول اللہﷺ کا رضاعی چچا ابو برقان بھی تھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ان میں ان کے نواشراف تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا۔ بیعت کی۔ اس کے بعد آپﷺ سے گفتگو کی۔ اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! آپﷺ نے جنہیں قید فرمایا ہے ، ان میں مائیں اور بہنیں ہیں۔ اور پھوپھیاں اور خالائیں ہیں۔ اور یہی قوم کے لیے رسوائی کا سبب ہوتی ہیں۔


فـامنن علینـا رسـول اللہ في کـرم فــإنک المـرء نرجـوہ وننتظــر
امنن علی نسـوۃ قد کنت ترضعہـا إذ فوک تملوہ من محضہا الدرر


پس اے اللہ کے رسول !ہم پر کرم کرتے ہوئے احسان فرمایئے۔ آپﷺ ایسے آدمی ہیں کہ آپ سے امید بھی ہے اور انتظار بھی ہے۔ آپﷺ ان عورتوں پر احسان کیجیے جن کا آپﷺ دودھ پیا کرتے تھے۔ اور ان کے دودھ کے موتیوں سے آپﷺ کا منہ بھر جایا کرتا تھا۔ واضح رہے کہ ماؤں وغیرہ سے مراد رسول اللہﷺ کی رضاعی مائیں ، خالائیں ، پھوپھیاں اور بہنیں ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : میرے ساتھ جولوگ ہیں انہیں دیکھ ہی رہے ہو۔ اور مجھے سچ بات زیادہ پسند ہے۔ اس لیے بتاؤ کہ تمہیں اپنے بال بچے زیادہ محبوب ہیں یا مال ؟ انہوں نے کہا : ہمارے نزدیک خاندانی شرف کے برابرکوئی چیز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : اچھا تو جب میں ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم لوگ اُٹھ کر کہنا کہ ہم رسول اللہﷺ کو مومنین کی جانب سفارشی بناتے ہیں اور مومنین کو رسول اللہﷺ کی جانب سفارشی بناتے ہیں کہ آپ ہمارے قیدی ہمیں واپس کردیں۔ اس کے بعد جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ان لوگوں نے یہی کہا۔ جوابا ً آپﷺ نے فرمایا: جہاں تک اس حصے کا تعلق ہے جو میرا ہے اور بنی عبدالمطلب کا ہے تو وہ تمہارے لیے ہے۔ اور میں ابھی لوگوں سے پوچھے لیتا ہو ں۔ اس پر انصار اور مہاجرین نے اٹھ کر کہا : جو کچھ ہمارا ہے وہ سب بھی رسول اللہﷺ کے لیے ہے۔ اس کے بعد اَقْرَع بن حابس نے کہا : لیکن جو کچھ میرا اور بنو تمیم کا ہے وہ آپﷺ کے لیے نہیں۔ اور عُیَْینہ بن حصن نے کہا کہ جو کچھ میرا اور بنوفزارہ کا وہ بھی آپﷺ کے لیے نہیں۔ اور عباس بن مرداس نے کہا : جو کچھ میرا اور بنوسلیم کا ہے وہ بھی آپﷺ کے لیے نہیں۔ اس پر بنو سلیم نے کہا : جی نہیں ، جو کچھ ہمارا ہے وہ بھی رسول اللہﷺ کے لیے ہے۔ عباس بن مرداس نے کہا : تم لوگوں نے میری توہین کردی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : دیکھو ! یہ لوگ مسلمان ہوکر آئے ہیں (اور اسی غرض سے ) میں نے ان کے قیدیوں کی تقسیم میں تاخیر کی تھی۔ اور اب میں نے انہیں اختیار دیا تو انہوں نے بال بچوں کے برابر کسی چیز کو نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، ایسی ہی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ ۲/۶۲۰، ۶۲۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سمجھا۔ لہٰذا جس کسی کے پاس کوئی قیدی ہو ، اور وہ بخوشی واپس کردے تو یہ بہت اچھی راہ ہے اور جو کوئی اپنے حق کو روکنا ہی چاہتا ہو تو وہ بھی ان کے قیدی تو انہیں واپس ہی کردے۔ البتہ آئندہ جو سب سے پہلا مالِ فے حاصل ہوگا اس سے ہم اس شخص کو ایک کے بدلے چھ دیں گے۔ لوگوں نے کہا : ہم رسول اللہﷺ کے لیے بخوشی دینے کو تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہم جان نہ سکے کہ آپ میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں؟ لہٰذا آپ لوگ واپس جائیں ، اور آپ کے چودھری حضرات آپ کے معاملے کو ہمارے سامنے پیش کریں۔ اس کے بعد سارے لوگوں نے ان کے بال بچے واپس کردیے۔ صرف عُیینہ بن حصن رہ گیا جس کے حصے میں ایک بڑھیا آئی تھی۔ اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا، لیکن آخر میں اس نے بھی واپس کردیا۔ اور رسول اللہﷺ نے سارے قیدیوں کو ایک ایک قبطی چادر عطا فرماکر واپس کردیا۔1
عمرہ اور مدینہ کو واپسی :
رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہوکر جِعّرانہ ہی سے عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ ادا کیا۔ اس کے بعد عَتَّاب بن اسید کو مکہ کا والی بنا کر مدینہ روانہ ہوگئے۔ مدینہ واپسی ۲۴/ ذیقعدہ ۸ ھ کو ہوئی۔2
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ہوازن کے قیدیوں کے واقعے کے لیے ملاحظہ ہو: بخاری مع فتح الباری ۵/۲۰۱
2 تاریخ ابن خلدون ۲/۴۸ ، فتح مکہ ، حنین اور طائف کے ان غزوات اور ان کے دوران پیش آنے والے واقعات کے لیے دیکھئے: زاد المعاد ۲/۱۰۶ تا ۲۰۱ ، ابن ہشام ۲/۳۸۹ تا ۵۰۱ صحیح بخاری ، مغازی ،غزوۃ الفتح واوطاس والطائف وغیرہ ۲/۶۱۲ تا۶۲۲ ، فتح الباری ۸/۳ تا ۵۸
 
Top