• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیرمقلدین کو پُرخلوص دعوتِ فکر وعمل

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

غیرمقلدین کو پُرخلوص دعوتِ فکر وعمل
کیا دین کو جاننے کے لئے صرف کتاب و سنت کافی ہیں؟
بلا شبہ کتاب و سنت اصل ہیں اس کا کوئی منکر نہیں ہے، مگر اس کے باوجود ہمیں اور آپ کو نہ صحابہ کرام سے استغناءہے نہ تابعین اور ائمہ دین اور فقہائے اسلام اور محدثین کرام سے، کتاب و سنت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کے لئے بہر حال ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے اور ان کے تفقہ و علم سے ہمیں کوئی چارہ نہیں ہے، جب ہم صحابہ کرام اور فقہائے اسلام کی رہنمائی کے بغیر اپنے سے کتاب و سنت کا معنی اور مفہوم متعین کریں گے تو بسا اوقات گمراہ ہو جائیں گے۔
صحابہ کرام اور تابعین و ائمہ دین اور فقہائے اسلام نے دین کو جس طرح سمجھا ہے اور اس کے بارے میں ان کی جو رہنمائی ہے وہی اصل دین ہے، کتاب و سنت سے جو مفہوم اور معنی ہم متعین کریں گے وہ دین نہیں کہلائے گا، بلکہ اگر اسلاف سے ہٹ کر ہم نے اپنی عقل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی تو دین کا تماشا بن جائے گا، اور یہی وجہ ہے کہ امت کے تمام بڑوں نے دین کو اسلاف کے بیان و شرح کی روشنی میں سمجھنے کی عام مسلمین کو تلقین فرمائی ہے، ائمہ دین اور فقہائے اسلام اور محدثین کرام نے بھی صحابہ کرام کو دین کے بارے میں آپنا مقتدیٰ ماناہے اور انہوں نے کبھی اس کی جرأت نہ کی کہ صحابہ کرام کو دین کے بارے میں معیار قرار نہ دیں۔ صحابہ کرام و تابعین اور فقہائے اسلام یہ تمام امت کے وہ افراد ہیں کہ صحیح دین کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے ان کی ضرورت ہے، ہم ان کی رہنمائی کے محتآج ہیں۔
ابن تمییہ رحمة اﷲ علیہ علم کا پہاڑ تھے مگر وہ بھی فرماتے ہیں کہ :
جو سنت، حدیث، اقوال صحابہ، اور اقوال تابعین وغیرہم سے باخبر نہ ہو گا وہ دین کو صحیح نہیں سمجھ سکتا، اس وجہ سے کہ سلف نے قران کی کیا تفسیر کی ہے اور خالص سنت کیا ہے اس کا علم انہیں وجوہ سے ہو گا“۔
(منہاح السنہ ج3 ص71)

جن لوگوں کو بخاری پڑھنے پڑھانے کا اتفاق ہے، انہیں معلوم ہے کہ امام بخاری رحمة اﷲ علیہ صحابہ کرام، تابعین، فقہاءو محدثین تمام کے اقوال ذکر کرتے ہیں اور ان سے شرعی مسئلہ ثابت کرتے ہیں،اگر ان حضرات کا قول و فعل حجت نہ ہوتا تو امام بخاری کو ان کے اقوال سے استدلال کرنے کی حآجت کیا تھی، وہ صرف قران کی آیت اور حدیث ذکر کر دیتے یہ کافی تھا، مگر امام بخاری کو وہ بات نہ سوجھی جو ان اہلحدیث حضرات کو سوجھی ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ انحضور ﷺ دو رکعت فجر سے پہلے اور دورکعت عصر کے بعد کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اگر صرف حدیث ہی کو دیکھ کر کسی کو دین سیکھنا ہے تو وہ عصر بعد دو رکعت پڑھے، مگر امت میں کوئی اس کا قائل نہیں ہے، اس لئے کہ ہمیں صحابہ کرام سے معلوم ہوا کہ یہ انحضور ﷺ کی خصوصیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے انہوں نے جب عصرکے بعد ان دو رکعتوں کا معمول بنآیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ان کے ساتھ سختی کرنی پڑی، شیخ الاسلام ابن تمییہ فرماتے ہیں :
قد کان عمر رضی اﷲ عنہ یعزر الناس علی الصلوٰة بعد العصر مع ان جماعة فعلوہ لماروی عن النبی انہ فعلہ وداوم علیہ لکن لما کان من خصائصہ و کان النبی قد نھی عن الصلوة بعد العصر حتی تغرب الشمس و بعد الفجر حتی تطلع الشمس کان عمر یضرب من فعل ھذہ الصلوٰة

(فتاوی ص168ج20)

حضرت عمر رضی اﷲ عنہ عصرکے بعد نماز پڑھنے پر سزا دیتے تھے، حالانکہ ایک جماعت کا اس پر عمل رہا، ان کی دلیل تھی کہ نبی اکرمﷺ نے عصر بعد ( دو رکعت) نماز پر مداومت کی ہے، لیکن چونکہ یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیت تھی اور آپ نے فجر اور عصرکے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جو عصرکے بعد نماز پڑھتا تھا اس کو سزا دیتے تھے۔
حضور اکرمﷺ سے کہیں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے عصر کے بعد دو رکعتوں کو اپنی خصوصیت فرمایا ہو،مگر جوصحابہ کرام حضور اکرم ﷺ سے بہت قریب تھے ان کو یہ معلوم رہا کرتا تھا کہ آپ کا کون ساکام محض اپنے لئے ہے اور کون ساکام تمام امت کے لئے ہے۔ اس لئے ان صحابہ کرام کی رہنمائی کے بغیر صحیح سنت کا علم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ایک دوسری مثال لیجئے بخاری و مسلم کی صحیح روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ لیس علے المسلم فی فرسہ ولا عبدہ صدقة یعنی مسلمان کے گھوڑے اور اس کے غلام میں زکوٰة نہیں ہے۔
اس حدیث کا ظاہر مفہوم ہے کہ مسلمان کے پاس کسی طرح کے گھوڑے اور غلام ہوں اس میں زکوٰة واجب نہ ہو گی، اگر کوئی صرف حدیث کو دیکھے گا تو اس کا یہی مذہب ہونا چاہئے، مگر ظاہریہ کے علاوہ کسی نے حدیث کا یہ مطلب نہیں لیا ہے بلکہ جمہور اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ اگر یہ گھوڑے اور غلام تجارت کے لئے ہوں گے تو اس میں زکوٰة واجب ہو گی، خود غیر مقلد عالم مولانا عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں کہ :ان زکوة التجارة ثابتة بالاجماع....فیخص بہ عموم ھذا الحدیث۔
(تحفہ ص7ج2)

یعنی گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان کی زکوٰة اجماع سے ثابت ہے، پس اجماع سے حدیث عام کا مفہوم خاص کیا جائے گا۔
دیکھا آپ نے حدیث عام تھی مگر اس کو اجماع سے خاص کرنا پڑا، اجماع نہ کتاب اﷲ ہے اور نہ سنت یہ صحابہ کرام و تابعین وغیرہم کا قول و عمل کے اتفاق کا نام ہے۔
اگر صحابہ کرام کا دین میں اور دین کی تشریح و توضیح میں کوئی مقام نہیں ہے صرف کتاب و سنت ہر شخص کے لئے کافی ہیں تو انحضورﷺکا یہ ارشاد معاذ اﷲ لغو ہے، آپﷺ فرماتے ہیں۔اقتدوابالذین بعدی ابی بکر و عمر یعنی میرے بعد جو دو انے والے ہیں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر تم لوگ ان کی پیروی کرو، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو آپ مستقل امت کا مقتدیٰ فرما کر ان کی پیروی و اقتدا کا حکم فرما رہے ہیں علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین فرما کر آپ نے تمام خلفائے راشدین کی سنت کو مستقل دین بتلا کر ان کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا ہے، اگر خلفائے راشدین کا دین میں کوئی مقام نہیں تو آپ کا یہ ارشاد کیوں؟
جن کی نگاہ کتاب و سنت پر ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام اور مجتہدین فقہاءکی رہنمائی کے بغیرکتاب و سنت کو سمجھا نہیں جا سکتا اور نہ پورے و مکمل دین پر عمل کرنا ممکن ہے، صحابہ کرام اور تابعین و ائمہ دین و فقہائے کرام کو ساقط قرار دے کر دین پر ایسا ہی عمل ہو گا جیسا کہ اہل قران کا عمل دین پر ہوتا ہے۔
جب آدمی خودرائی پر اتا ہے اور صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کا مزاج کیسا بن جاتا ہے اور اس کی زبان سے کیا کچھ نکلتا ہے، اس کی ایک مثال سنئے :
مرنے کے بعد مومن اور کافر کی حالت الگ الگ ہوتی ہے، نبی اور غیر نبی کی حالت میں زمین و اسمان کا فرق ہوتا ہے، یہ بات مسلم ہے کسی مسلمان کا اس میں اختلاف نہ ہونا چاہئے۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی غیر مقلدین کے بہت بڑے امام ہیں جب انہوں نے غیر مقلدیت کے ذہن سے اس مسئلہ پر غور کیا اور صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ دین اور فقہائے امت کو بیچ سے نکال کر اس بارے میں سوچا تو اب ان کی رائے اور سوچ یہ تھی، فرماتے ہیں :
”وجملہ اموات از مومنین و کفار از حصول علم و شعور و ادراک و سماع و عرض اعمال دروجواب برزائر برابر اند تخصیص بانبیاءو صلحاءنیست“

(دلیل الطالب ص886)

یعنی تمام مرد ے عام اس کے کہ وہ مومن ہوں یا کافر علم و شعور ادراک سننے اعمال کے پیش ہونے اور زیارت کنندہ کے سلام کا جواب دینے میں برابر اور یکساں ہیں اس میں حضرات انبیاءعلیہم السلام اور صلحاءکی کوئی تخصیص نہیں۔
بھلا بتلایئے کہ مرنے کے بعد کیا کافر کا شعور و علم اور انبیاءعلیہم السلام کا شعور و علم برابر ہے، کیا یہ بات کسی مسلمان کی زبان سے نکل سکتی ہے، کیا قبر میں جس طرح انبیاءعلیہم السلام سنتے ہیں کافر کا بھی سننا اسی طرح سے ہوتا ہو گا۔
ذرا کسی حدیث کا غیر مقلدین اتہ پتہ بتلائیں جس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہو۔نواب صاحب مرحوم سے ایسی شدید لغزش محض اس بنا پر ہوئی کہ انہوں نے دین کو اسلاف سے سمجھنے کے بجائے اپنی رائے سے سمجھنے کی کوشش کی، میرے نزدیک کسی بھی مسلمان کے لئے یہ نہایت خطرناک بات ہے کہ اس میں اسلاف کی عدم تقلید اور ان کےعلم و فہم سے بیزاری کا جرثومہ پیدا ہو جائے۔آجکل غیر مقلدین کا نوجوان طبقہ سلفیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے امت کے نوجوانوں کو اسلاف ہی سے بدظن کر رہا ہے ، یہ وقت حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے، اﷲ اس کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے، اور ہمیں صحابہ کرام و تابعین ، عظام، ائمہ دین، فقہائے امت اور محدثین کے راستہ پر گامزن رکھے انہیں کا ہمیں متبع و مقلد بنائے اور انہیں علم و فہم کی روشنی میں ہمیں دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، تقلید میں دین و ایمان کی سلامتی ہے عدم تقلید کا راستہ نہایت خطرناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے مدون ہو جانے کے بعد ساری امت نے اسی تقلید کے راستہ کو اختیار کیا ہے، ہمارے اور آپ کے بھی دین کی سلامتی کا واحد ذریعہ اور خصوصا اس زمانہ میں بھی تقلید اور اسلاف پر اعتماد ہے۔
(مولانا ابوبکر غازی پوری)

مسلمان اہلحدیث بھائی اور بہنوں کیلئے دعوت فکر
مسلمان اہلحدیث بہنوو بھائیو آپ کے اکابرین امت مسلمہ سے ہٹ کر آپ کومرزا غلام احمدکے اعمال پر چلا رہے ہیں۔
ان کے بےشمار اعمال میں سے چند عمل ملاحظہ ہوں۔ بحوالہ مرزائیوں کی مشہور فتاوی کی کتاب فتاوی احمدیہ:
مسئلہ نمبر۱:ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک کہنا-(فتاوی احمدیہ جلد 1ص33)
مسئلہ نمبر ۲:نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھنا- (فتاوی احمدیہ جلد 1ص33)
مسئلہ نمبر۳ :فاتحہ خلف الامام کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص34)
مسئلہ نمبر ۴:رفع یدین کے بارے میں حتی لقی اﷲ پیش کرنا۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص34)
مسئلہ نمبر ۵:امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ علیہ کو تابعی ہونے کا انکار کرنا ۔ (فتاوی احمدیہ ص8)
مسئلہ نمبر۶:اٹھ تراویح پڑھنا بیس تراویح نہ پڑھنا ۔ (فتاوی احمدیہ جلد 1ص176)
مسئلہ نمبر۷ :فرض نماز کے بعد دعا کو بدعت کہنا ۔ (فتاوی احمدیہ جلد 1ص26)
مسئلہ نمبر۸:نماز جنازہ جہری (یعنی بلند) اواز میں پڑھنا۔
مسئلہ نمبر۹:سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص37)
غور کیجئے:
مسلمان اہلحدیث بہنوں و بھائیوں کو دعوت فکر ہے کہ آپ اہلحدیث اورسنی علماءدونوں کے دلائل سن کر اور سمجھ کر پھر فیصلہ کریں۔
یعنی صرف ایک مسلک والوں کے دلائل سن کر اس پر عمل کرنا شروع کر دینا کوئی عقلمندی اور دیانتداری نہیں۔ایسے تو پھر (اﷲحفاظت فرمائے)قادیانی بھی اپنے عقائد بتا کر تمہیں پھسلا دے گا۔

مقلدین کو پُرخلوص دعوتِ فکر!!!

فرمانِ باری ہے:
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرو اور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩

حدیث کی اہمیت مقلد کی نظر میں !!!

1235147_521515894590339_675727651_n.jpg



قرآن کی اہمیت مقلد کی نظر میں !!!

1234623_521508251257770_1706643032_n.jpg

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

غیرمقلدین کو پُرخلوص دعوتِ فکر وعمل
کیا دین کو جاننے کے لئے صرف کتاب و سنت کافی ہیں؟
بلا شبہ کتاب و سنت اصل ہیں اس کا کوئی منکر نہیں ہے، مگر اس کے باوجود ہمیں اور آپ کو نہ صحابہ کرام سے استغناءہے نہ تابعین اور ائمہ دین اور فقہائے اسلام اور محدثین کرام سے، کتاب و سنت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کے لئے بہر حال ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے اور ان کے تفقہ و علم سے ہمیں کوئی چارہ نہیں ہے، جب ہم صحابہ کرام اور فقہائے اسلام کی رہنمائی کے بغیر اپنے سے کتاب و سنت کا معنی اور مفہوم متعین کریں گے تو بسا اوقات گمراہ ہو جائیں گے۔
صحابہ کرام اور تابعین و ائمہ دین اور فقہائے اسلام نے دین کو جس طرح سمجھا ہے اور اس کے بارے میں ان کی جو رہنمائی ہے وہی اصل دین ہے، کتاب و سنت سے جو مفہوم اور معنی ہم متعین کریں گے وہ دین نہیں کہلائے گا، بلکہ اگر اسلاف سے ہٹ کر ہم نے اپنی عقل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی تو دین کا تماشا بن جائے گا، اور یہی وجہ ہے کہ امت کے تمام بڑوں نے دین کو اسلاف کے بیان و شرح کی روشنی میں سمجھنے کی عام مسلمین کو تلقین فرمائی ہے، ائمہ دین اور فقہائے اسلام اور محدثین کرام نے بھی صحابہ کرام کو دین کے بارے میں آپنا مقتدیٰ ماناہے اور انہوں نے کبھی اس کی جرأت نہ کی کہ صحابہ کرام کو دین کے بارے میں معیار قرار نہ دیں۔ صحابہ کرام و تابعین اور فقہائے اسلام یہ تمام امت کے وہ افراد ہیں کہ صحیح دین کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے ان کی ضرورت ہے، ہم ان کی رہنمائی کے محتآج ہیں۔



السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !
بالا اقتباس میں پر خلوص دعوت دی گئی ہے اور واقعتا بہت اہم اور مفید بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ لیکن یہ دعوت پرخلوص بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ
''کلمۃ حق أرید بہا الباطل''
کا مصداق محسوس ہوتی ہے ۔ لہذا چند گزارشات پیش خدمت ہیں :
پہلی گزارش :

اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہییں کہ ہم قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کے لیے اور اس سےکما حقہ فائدہ اٹھانے کے لیے صحابہ کرام و تابعین عظام اور دیگر أسلاف امت کے محتاج ہیں اور احتیاج بھی ایسی کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اگر کوئی زبانی کلامی کہتا بھی ہے تو عملا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ نہ تو ہم پر براہ راست قرآن نازل ہوتا ہے اور نہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے ہم فیض یاب ہوتے ہیں لہذا ہم ان لوگوں کے محتاج ہیں جن کے دور میں وحی نازل ہوتی تھی اس لحاظ سے صحابہ ایک دوسرے کے محتاج تھے تابعین صحابہ کے محتاج تھے تبع تابعین ، کا تابعین کے بغیر گزارہ نہیں تھا ۔۔۔ الغرض آخر تک آج میں اپنے قرآن کے استاد کا اور شیخ الحدیث صاحب کا بھی محتاج ہوں جسطرح وہ اپنے سے پہلوں کے محتاج تھے ۔ یعنی حصول دین (کتاب وسنت ) میں ہر کوئی اپنے سے پہلے کا محتاج ہے پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے سوائے بعض گمراہ قسم کے صوفیوں کے جو کہا کرتے تھے یا ہیں '' حدثنی قلبی عن ربی '' ''یعنی میں بلاواسطہء غیر اللہ سے دین حاصل کرتا ہوں '' ۔
دوسری گزارش :

فہم کتاب وسنت یعنی فہم دین کا اس میں بھی ہم صحابہ کرام اور دیگر سلف صالحین کے محتاج ہیں کیونکہ قرآن وسنت کا ہمارے پاس ہونے کے ساتھ اس کا فہم صحیح ہونا بھی ضروری ہے کہ کس آیت قرآنی سے کیا مراد ہے ؟ فلاں حدیث رسول کا کیا مطلب ہے ؟ ان تمام چیزوں کو کما حقہ سمجھنا یہ ہمارے بس کی بات نہیں بلکہ خود صحابہ کرام بعض دفعہ جب وحی نازل ہوتی تو حضور سے استفار کرتے تھے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ اس کا صحیح معنی کیا ہے ؟
آج کل بعض لوگ فہم سلف کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جن کے لیے ہمارے ہاں معروف اصطلاح '' منکرین حدیث '' کی ہے ۔ کیونکہ وہ اسقدر خود کفیل واقع ہوئے ہیں کہ قرآن سمجھنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
خلاصہ ما سبق : حصول دین اور فہم دین ہر دو جگہوں پر ہم صحابہ کرام و دیگر آئمہ دین جن میں آئمہ اربعہ مشہور ہیں ان حضرات سے مستغنی نہیں ہوسکتے ۔
تیسری گزارش :

ایک مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بعد کوئی ایسا شخصیت نہیں ہے جس کا فہم معصوم ہو یعنی جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ قرآن کی کوئی آیت یا کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے میں اس سے غلطی نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ ہر انسان محتاج ہے ایک ایسی ذات کا جو اس کی تصحیح کر سکے خود نبی کریم صلی اللہ کی ذات معصوم عن الخطاء ہے تو اس لیے کہ اگر حضور سے کوئی لغزش ہوئی بھی تو وحی کے ذریعے اس کی وضاحت فرما دی گئی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی عالم دین آج اس دور میں دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ قرآن وسنت کی نصوص کا احاطہ کیے ہوئے جبکہ آئمہ أربعہ وغیرہ کے دور میں یہ دعوی اس سے بھی زیادہ مشکل تھا کہ اس دور میں تصنیف و تدوین کے مختلف مراحل جاری تھے ۔
جب دو باتیں سمجھ میں آ جائیں کسی بھی شخصیت کا فہم معصوم نہیں اور تمام نصوص دین کے احاطہ کا بھی کسی کو دعوی نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی عالم دین کے فتوی میں غلطی کے امکان موجود ہیں یا کس مطلوبہ مسئلہ میں اس کو متعلقہ نصوص نہیں ملیں یا پھر دلائل تو موجود تھے لیکن سمجھنے میں غلطی ہو گئی ۔
اسی امکان کے پیش نظر آئمہ اربعہ سمیت دیگر معتبر علماء کرام میں سے کسی نے نہیں کہا کہ کسی مسئلہ میں میرا فتوی یا میرا موقف یا میرا قول حرف آخر ہے ۔
امام مالک نے جب مؤطا لکھی تو حاکم وقت نے کہا کہ ہم اس کو قانونی کتاب کی حیثیت دے دیتے ہیں کہ تمام لوگ اس کے مطابق عبادات وغیرہ سر انجام دیں گے تو امام صاحب نے ایسا کرنے سے منع کردیا کیوں ؟ کیونکہ وہ کتاب امام مالک کا فہم نتیجہ تھا احادیث رسول اس میں وہی تھیں جو امام صاحب تک پہنچ سکیں تھی ممکن ہے کس مسئلہ میں امام مالک کے علاوہ کسی اور کا فہم درست ہو یا اس کے پاس کوئی ایسی حدیث ہو جو امام صاحب کے علم میں نہیں آ سکی ۔
مذکورہ باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم حصول دین اور فہم دین دونوں میں تمام آئمہ (آئمہ اربعہ کے علاوہ بھی ) کے محتاج ہیں تاکہ جو حدیث ایک کے پاس نہیں ہے ہم دوسروں سے لے لیں جس بات کو سمجھنے میں ایک سے غلطی ہو گئ ہے وہ دیگر آئمہ سے سمجھ لیں ۔
ایسے مسائل بھی ہیں جن میں علماء کا اختلاف نہیں ہوا یعنی تمام ایک بات پر متفق ہیں ان کو علمی زبان میں '' متفق علیہ مسائل '' سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
مختلف فیہ مسائل میں کس کا موقف غلط ہے اور کس کا موقف درست ؟ اس کا پیمانہ کیا ہے ؟ کیا جمہوریت کی طرح کثرت و قلت خطاء وصواب میں تمییز کا پیمانہ ہے ؟
شریعت میں ایسا نہیں ہے بلکہ کسی کی بات کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس قرآن وسنت سے دلیل ہو ۔ جس کے پاس قرآن وسنت سے دلیل نہیں ہوکی گویا اس کا موقف درست نہیں ہے ۔
جب ہم یہ کہتےہیں کہ فہم کے درست یا عدم درست ہونے کا فیصلہ قرآن وسنت کرے گا تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سارے آئمہ عظام ایک طرف اور دوسری طرف ہم قرآن و سنت سے کوئی نص لے کر کھڑے ہو جائیں کہ جی میرا موقف درست ہے کہ میرے پاس قرآن و سنت سے دلیل ہے ۔
بلکہ کوئی بھی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے تو اس میں مختلف آئمہ نے اپنے اپنے موقف کی وضاحت کی ہوتی ہے جس کی بات قرآن وسنت کے زیادہ قریب ہے اس کو لے لیا جائے گا باقی کو چھوڑ دیا جائے گا ۔ گویا اگر ہم کسی مسئلہ میں کہتے ہیں کہ فلاں امام کی بات قرآن وسنت کی رو سے درست نہیں بلکہ درست موقف یوں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی انوکھا موقف لے کر آ گئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئمہ کے مختلف اقوال میں سے ہم نے ایک کو اختیار کیا ہے قرآن وسنت سے قریب ہونے کی وجہ سے ۔
بعض لوگ اگر کسی امام صاحب کے موقف کو چھوڑ دیا جائے تو گستاخی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ یہ گستاخی نہیں ہے بفرض تسلیم اگر کسی کے موقف کا قبول و رد ہی احترام یا گستاخی کا پیمانہ ہے تو پھر ہمیں کس نےحق دیا ہے کہ ہم آئمہ میں سے کسی ایک کو احترام کے لیے خاص کر لیں اور باقی تمام کی توہین کرتے رہیں ۔
اب چند باتیں نکات کی صورت میں پیش خدمت ہیں :

1۔ قرآن وسنت اصل ہیں جبکہ آئمہ کرام کی آراء اس کے تابع ہیں ۔
2۔ دین قرآن وسنت کے مجموعے کا نام ہے اور اس مجموعے کا حصول اور اس کا صحیح فہم سلف صالحین کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
3 ۔ سلف صالحین کی مدد ہم قرآن وسنت پر عمل کرنے کے لیتے ہیں گویا اگر کوئی شخص یا اس کی کوئی بات قرآن وسنت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا ۔
4۔ ہم تمام سلف صالحین کی پوری جماعت کے محتاج ہیں نہ کہ کسی فرد واحد یا کسی خاص طبقے کے ۔ جو اس سلسلے میں کسی ایک کو خاص کر لیتا ہے اور باقی تمام کی ضرورت نہیں سمجھتا گویا وہ خیر کثیر سے محروم ہو جاتا ہے ۔
5۔ تمام سلف صالحین نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہم تک دین پہنچانے کے لیے خدمات سر انجام دیں جزاہم اللہ عنا خیر الجزاء ۔ اکثر باتیں ان کی قرآن وسنت کے مطابق تھیں ان پر ہم دل و جان سے عمل پیرا ہیں اور بعض مسائل میں ان سے ہونے کی غلطیوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہے ۔
5۔ مختلف فیہ مسائل میں ہم سلف صالحین میں سے اسی کو اختیار کریں گے جو قرآن وسنت کے زیادہ قریب ہوگا ۔
6۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام مختلف فیہ مسائل میں کوئی ایک شخص کی حق پر ہو اور باقی خطاء پر بلکہ عین ممکن ہے ایک مسئلہ میں ایک دوسرے میں کوئی اور تیسرے میں کوئی اور ۔۔۔ بہر صورت جس مسئلہ میں جو بھی قرآن وسنت کے قریب ہوگا اس کو لیا جائے گا ۔

مسلمان اہلحدیث بھائی اور بہنوں کیلئے دعوت فکر
مسلمان اہلحدیث بہنوو بھائیو آپ کے اکابرین امت مسلمہ سے ہٹ کر آپ کومرزا غلام احمدکے اعمال پر چلا رہے ہیں۔
ان کے بےشمار اعمال میں سے چند عمل ملاحظہ ہوں۔ بحوالہ مرزائیوں کی مشہور فتاوی کی کتاب فتاوی احمدیہ:
مسئلہ نمبر۱:ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک کہنا-(فتاوی احمدیہ جلد 1ص33)
مسئلہ نمبر ۲:نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھنا- (فتاوی احمدیہ جلد 1ص33)
مسئلہ نمبر۳ :فاتحہ خلف الامام کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص34)
مسئلہ نمبر ۴:رفع یدین کے بارے میں حتی لقی اﷲ پیش کرنا۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص34)
مسئلہ نمبر ۵:امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ علیہ کو تابعی ہونے کا انکار کرنا ۔ (فتاوی احمدیہ ص8)
مسئلہ نمبر۶:اٹھ تراویح پڑھنا بیس تراویح نہ پڑھنا ۔ (فتاوی احمدیہ جلد 1ص176)
مسئلہ نمبر۷ :فرض نماز کے بعد دعا کو بدعت کہنا ۔ (فتاوی احمدیہ جلد 1ص26)
مسئلہ نمبر۸:نماز جنازہ جہری (یعنی بلند) اواز میں پڑھنا۔
مسئلہ نمبر۹:سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص37)
اگر فکر و نظر کا یہی تقاضا ہے تو ان تمام حوالہ جات کے جواب میں ایک حوالہ کافی ہو سکتا ہے جوکہ مرزا غلام قادیانی کے خلیفہ نوردین کے ایک اقتباس کی صورت میں پیش خدمت ہے لکھتا ہے :
’’مرزا صاحب اہل سنت و الجماعت خاص کر حنفی المذہب تھے اور اسی طائفہ ظاہرین علی الحق میں سے تھے ۔(ملفوظات نور ص 54 )‘‘

میرے خیال سےاب حنفی بھائیوں کو کوئی اور مذہب ڈھونڈ لینا چاہیے تاکہ قادیانی کے شریک مذہب ہونے کی قدغن نہ لگ سکے ۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
محمداشرف یوسف نے لکھا :
جن لوگوں کو بخاری پڑھنے پڑھانے کا اتفاق ہے، انہیں معلوم ہے کہ امام بخاری رحمة اﷲ علیہ صحابہ کرام، تابعین، فقہاءو محدثین تمام کے اقوال ذکر کرتے ہیں اور ان سے شرعی مسئلہ ثابت کرتے ہیں،اگر ان حضرات کا قول و فعل حجت نہ ہوتا تو امام بخاری کو ان کے اقوال سے استدلال کرنے کی حآجت کیا تھی، وہ صرف قران کی آیت اور حدیث ذکر کر دیتے یہ کافی تھا، مگر امام بخاری کو وہ بات نہ سوجھی جو ان اہلحدیث حضرات کو سوجھی ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ انحضور ﷺ دو رکعت فجر سے پہلے اور دورکعت عصر کے بعد کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اگر صرف حدیث ہی کو دیکھ کر کسی کو دین سیکھنا ہے تو وہ عصر بعد دو رکعت پڑھے، مگر امت میں کوئی اس کا قائل نہیں ہے، اس لئے کہ ہمیں صحابہ کرام سے معلوم ہوا کہ یہ انحضور ﷺ کی خصوصیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے انہوں نے جب عصرکے بعد ان دو رکعتوں کا معمول بنآیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ان کے ساتھ سختی کرنی پڑی،
الحمدلِلہ ۔ بہت سارے اس کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ فاعل بھی ہیں
دعویٰ خاص کے لیے دلیل خاص کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ آپ کے ذمے ابھی تک باقی ہے ۔
رہی بات حضرت عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم کی ان دورکعت بعدازنماز عصرکے ممانعت کی ۔
تو وہ کہتے تھے جو عصر کی نماز دیر سے پڑھتے ہیں ہم ان کواس وجہ سے منع کرتے ہیں ۔

ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین کی سمجھ کے ساتھ ضرورت ہیں
۔مسلمان اہلحدیث بہنوو بھائیو آپ کے اکابرین امت مسلمہ سے ہٹ کر آپ کومرزا غلام احمد کے اعمال پر چلا رہے ہیں۔
رہی بات قادیانیوں کی ، تو قادیانی خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم فروعات میں حنفی ہیں ۔
مسلمانوں کا کوئی ایسا قول وفعل جو کہ غیرمسلموں سے مشترک ہو تو اس پر عمل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ مثلاً داڑھی رکھنا ، صفائی کرنا ، بھلائی کے کام کرنا وغیرہ ۔
آیہ الکرسی کو پڑھنے سے شیطان سے محفوظ ہونے کا پتہ خود شیطان نے ہی بتایا ہے ۔
ایک دفعہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کے صحابہ رض بڑے اچھے ہیں مگر شرک کرتے ہیں ، آپ ص نے پوچھا کہ شرک کیسے کرتے ہیں ، تو انھوں نے نشاندہی کی وہ ایسے کہتے کہ قسم ہے کعبہ کی، تب جاکر آپ ص نے منع کرکے فرمایا کہ ایسے بولا کرو " قسم ہے رب کعبہ کی "
اب یہ بات مشرکین نے ہی بتلائی لیکن اسلام کے عین مطابق ہے ، اس لیے ہمارے لیے قابل قبول ہیں ۔
علی ھذالقیاس ۔
 
Top