• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مسلموں کے معاملات ان کے مذہب کے ذریعے حل کیے جائیں یا شریعتِ اسلامی کے ذریعے

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
15مارچ کو لاہور کی عیسائی بستی یوحنا آباد میں گرجا گھر کے گیٹ پر بم حملہ ہوا جس میں کم سے کم 15 افراد ہلاک اور درجنوں لوگ زخمی ہوگئے ۔ ایک مجہول الحال جماعت الاحرار کی طرف سے یوحنا آباد کے علاقے میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ۔ جس کے بعد عیسائیوں کی طرف سے تشدد اور خونریزی پر مبنی کاروائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، دو مسلمانوں کو زندہ جلادیاگیا۔ بسوں ، گاڑیوں ،دوکانوں کی توڑ پھوڑ کی گئی ۔ اور اس تمام تر ہنگامے میں مزید ہلاکتیں ہوئیں اورسو کے قریب افراد زخمی ہو گئے۔ یوحنا آباد میں ہونے والا یہ واقعہ ایک لحاظ سے معمول کا واقعہ ہے اور اس کے کچھ پہلو غیر معمولی ہیں۔

معمول کے مطابق میڈیا نے جس گروہ کی طرف سے حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبر نشر کی اس کے ایک اسلامی گروہ ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ اور یہ بھی معمول کا امر تھا کہ یہ حملہ کسی ایسی جگہ یا لوگوں پر نہیں ہوا جس سے امریکہ کے مفادات کو براہِ راست نقصان پہنچے بلکہ ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا کہ جو بے گناہ ہیں اور جن کا خطے میں استعماری طاقتوں کے پھیلائے ہوئےنیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے حملوں میں پاکستان میں موجود بلیک واٹر کے اڈے، امریکی سفارت خانے ، امریکہ کے جاسوس ، کارندے اور امریکہ کے ایجنٹ تو محفوظ رہتے ہیں مگر نشانہ عبادت گاہیں اور بازار بنتے ہیں۔ علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے جبکہ وہ لوگ جن کی زبانیں دن رات اسلام کی بنیادوں پر ضربیں لگا رہی ہیں محفوظ و مامون رہتے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی کاروائیوں کے منصوبہ ساز اصل میں استعماری کفار بذاتِ خود ہیں ، اس کے پیچھے وہ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ہے جو کہ امریکہ کی طرف سے خطے میں جنگ شروع کرنے کے بعد ہمارے حکمرانوں کی آشیر باد سے پاکستان کے طول و عرض میں قائم کیا گیا۔

اور یہ بھی معمول کے مطابق تھا کہ اس تمام تر صورتِ حال کے دوران حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے پر تشدد کاروائیوں کو دیکھتی رہی اوروہ لوگ جو کہ توڑ پھوڑ کر رہے تھےاور مسلمانوں کو زندہ جلا رہے تھے ان کے بچانے کے لیے حرکت میں نہیں آئی۔ رینجرز کو اس وقت بلایا گیا جب اس بات کا اطمینان ہو گیا کہ اتنا فساد ہو گیا ہے کہ جو ان اہداف کو پورا کرسکے جو استعماری کفار پاکستان میں اس طرح کے واقعات سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ یہی حکومت ریاستی رِ ٹ کی پامالی کو روکنے کے نام پر قبائلی علاقوں میں مسلمانوں پر جنگی جہازوں کے ذریعے بے دریغ بمباری کرتی نظر آتی ہے۔ اس رِ ٹ کو بحال کرنے کے نام پر پچھلے کئی سالوں کے دوران ہزاروں فوجی اور سِولین قربان کیے جا چکے ہیں لیکن سانحہ یوحنا آباد کے بعد عیسائیوں کی طرف سے ریاستی رِ ٹ کی پامالی پر حکومت کا خاموش تماشائی بنے رہنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکومت کے نزدیک اصل اہمیت ریاستی رِ ٹ کو برقرار رکھنا نہیں بلکہ خطے میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ،خواہ اس کے لیے اپنے ہی شہریوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا پڑے یا ملکی معشیت کو 100ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو رِ ٹ کی یہ پامالی اس وقت نظر نہیں آتی جب امریکہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا ہے یا پھر سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بناتا ہے۔

جہاں تک اس سانحے کے غیر معمولی پہلو کا تعلق ہے تو واقعے کے بعد عیسائیوں کا ردِ عمل ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور منظم تھا۔ ان کی طرف سے پولیس سپاہیوں کو یرغمال بنایا گیا۔ عیسائیوں کی طرف سے پر تشدد کاروائیوں کے بعد یوحنا آباد کے اردگرد خوف کی فضا قائم تھی ،علاقے کی تمام دوکانیں بند تھیں، فیروز پور روڈ پر ٹریفک انتہائی معمولی تھی۔ عیسائیوں کی طرف سے درجنوں شہروں میں بیک وقت مظاہرے کیے گئے۔ پریس کلب کے باہر مختلف عیسائی تنظیموں نے مظاہرے کئے،کرسچن لائرز فورم کے زیر اہتمام جی پی او چوک پر وکلا ء نے احتجاج کیا۔ گویا یہ ایک فل شو آف فورس تھا جو کہ عیسائی تنظیموں کی طرف سے کیا گیا ۔

اس سانحےکا ایک اور غیر معمولی پہلو یہ تھا کہ اس سانحے کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت کا کھلااظہار دیکھنے میں آیا ۔ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر یہ اظہار نمایاں تھا۔ حالانکہ پاکستان میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ایسی فضاء موجود نہیں ہے۔ اور پاکستان میں بسنے والے عام عیسائی مسلمانوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں اور دفاتر، گلی محلوں اور بازاروں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا میل ملاپ اور کاروبار ی سرگرمی معمول کی چیز ہے۔

جہاں تک سانحۂ یوحنا آباد جیسے واقعات کے پسِ پردہ مقاصد کا تعلق ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کی تقسیم در تقسیم کا عمل کیا جا رہا ہے ۔ ایک طرف لوگوں کو مسلک کی بنیاد پر لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ چنانچہ مساجد ، امام بارگاہوں اور مذہبی جلسے جلوسوں پر منصوبہ بندی سے حملے کروائے جا رہے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان کے نظام اور حکمرانوں نے کراچی اور سندھ میں لسانی تقسیم کو آشیر باد فراہم کر رکھی ہے۔ اور اب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خلیج پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ تقسیم براہِ راست استعماری کفار کے مفاد میں ہے۔ پاکستان میں chaos (انتشار)کی فضاء کو برقرار رکھ کراور جگہ جگہ فتنے کی آگ کو سلگا کر امریکہ خطے میں اپنی موجودگی سے پاکستان کے مسلمانوں کی توجہ کو ہٹاناچاہتا ہے۔ یہ chaos اس چیز کے لیے بھی فائدہ مند ہے کہ پا کستان کو اندرونی مسائل میں الجھائے رکھا جائے جبکہ خطے میں امریکہ کا نیا اتحادی بھارت نریندر مودی کی قیادت میں علاقائی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو پھیلا سکے اور پاکستان بھارت کے ان عزائم کے رستے میں رکاوٹ نہ ہو۔ پاکستان کی افواج کی توجہ بھی داخلی مسائل پر مرکوز ہو اور بھارت کو اپنی مغربی سرحد کی طرف سے اطمینان حاصل ہو جائے۔

سانحہ یوحنا آباد جیسے واقعات اس تائثر کو مضبوط کرنے میں بھی مددگار ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی پاکستان کا حقیقی داخلی مسئلہ ہے۔ اور اس کا خطے میں امریکہ کے آنے ، افغانستان میں اس کی افواج کی موجودگی اور اسلام کے خلاف جنگ کا خطے میں جاری جنگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان میں حقیقتاً ایسے لوگ موجود ہیں کہ جومذہبی جنونیت میں مبتلا ہیں اور اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ہو گا اور اگر ان کے خلاف فوجی اقدامات بھی کرنا پڑے تو یہ درست اقدام ہے۔ چنانچہ ایسے واقعات حکومت کو یہ جواز مہیا کرتے ہیں کہ وہ فوجی آپریشن کرے،جبکہ ان فوجی آپریشنوں کا ہدف در حقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جو افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں سے سانحہ یوحنا آباد جیسے واقعات کا تسلسل اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے ردِ عمل کے ذریعے پاکستان کے اندر غیر مسلم آبادی کو منظم کیا جارہا ہے اور ان کے وزن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کام پچھلے کچھ سالوں سے تسلسل سے جاری ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں کو دوبارہ مشنریوں کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ ماضی کے مشنری ادارے ہی تھے کہ جنہوں نے مسلمانوں کے اندر تفریق پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کی کچھ تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔ غیر مسلموں کے مذہبی دعوتی بینر اور بل بورڈ اب نمایاں طور پر نظر آنے لگے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا پر غیر مسلم رہنماؤں کو یہ موقع فراہم کیا جا رہا کہ وہ کھلم کھلا ریاست کی بنیادوں ، طرزِ حکمرانی ، نظاموں کی نوعیت کے متعلق بات کریں اور کرپٹ افکار کی ترویج کریں۔ جبکہ اسلام کی رُو سے انہیں یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر اسلام کے نفاذ اور حقوق کی فراہمی کے متعلق بات کر سکیں اور اس معاملے میں ان پراگر ظلم ہو رہا ہے تو وہ بلا روک ٹوک اس کا اظہار کر سکتے ہیں۔ مگر اسلام غیر مسلموں کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس بات پر رائے زنی کریں کہ اسلامی ریاست کن بنیادوں پر استوار ہونی چاہئے ، چہ جائیکہ وہ بے دھڑک یہ بات کہیں کہ ریاست کی بنیاد سیکولر ہونی چاہئے۔

سانحہ یوحنا آباد جیسے واقعات اس تائثر کوبھی مضبوط کرتے ہیں کہ نام نہاد مسلم انتہاء پسندی سے غیر مسلموں کے حقوق اور تحفظ کو خطرہ لاحق ہے۔ اس سلسلے میں داعش کی مثال دی جاتی ہے کہ داعش عراق کے اندر غیر مسلموں کا قتلِ عام کر رہی ہے ۔ داعش کے ان اقدامات کو مغربی میڈیا خوب ہوا دے رہا ہے ۔ اوربالآخرتان اس بات پر آ کر ٹوٹتی ہےکہ مذہبی قوانین کی بنیاد پر ریاست کو نہیں چلایا جا سکتا۔ مغرب نواز لبرل لوگ ایسے واقعات کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر آپ اپنے مذہب کے قوانین کو کیسے غیر مذہب کے لوگوں پر مسلط کر سکتے ہیں۔ اور اگر اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا جو اسلام کو ریاستی سطح پر نافذ کرنا چاہتے ہیں تو وہ تو غیر مسلموں کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ لہٰذا آج اکیسویں صدی کے جدید دور اور روشن خیالی کے عہد میں سیکولر ازم ہی ریاست کی بنیاد کے طور پر درست ہے۔ اس دور میں مذہب کی بنیاد پر ریاست کو استوار کرنا معاشرے کے تمام گروہوں اور مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے لوگوں کو اطمینان اور مسرت و شادمانی کی زندگی فراہم نہیں کر سکتا۔

یہاں ہم قارئین کو یہ یاد دلاتے چلیں کہ ماضی میں مسلم علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے درمیان استعماری کفار کے بھڑکائے ہوئےفتنے و فسادنے جو بھیانک نتائج پیدا کیے، اس کا خمیازہ آج بھی امتِ مسلمہ بھگت رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی Humantarian interventionمسلم علاقوں میں عیسائیوں کے قتل کو روکنے کے بہانے کی گئی تھی۔ ہم اس کا پس منظر اور تفصیل یہاں بیان کریں گے تاکہ قارئین کے سامنے کفار کی ان سازشوں کی سنگینی کو عیاں کر سکیں۔ ہم سب لبنان کے نام سے واقف ہیں، جو کہ شام کی بغل میں واقع ایک چھوٹا سے ملک ہےاور درحقیقت یہ اس بلاد الشام کی بابرکت اسلامی سرزمین کا ہی ایک حصہ ہے جس کے متعلق رسول اللہﷺ کی کئی احادیث موجود ہیں۔ لبنان کا سیاسی سیٹ اَپ کچھ اس طرح سے ہے کہ لبنان کے دستور میں یہ بات طے ہے کہ ملک کا صدر ایک عیسائی ہو گا ،جبکہ وزیر اعظم ایک مسلمان ہو گا۔ اور پارلیمنٹ میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہو گی۔ مسلمان وزیراعظم کا چناؤ عیسائی صدر پارلیمنٹ کی مشاورت سے کرتا ہے۔ لبنان میں رائج اس سیاسی سیٹ اَپ کی جڑیں ان خونی فسادات میں پیوست ہیں جو خلافتِ عثمانیہ کے دور میں اس علاقے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان رونما ہوئے۔ فسادات کی آگ کس طرح بھڑکائی گئی اسے سمجھنے کے لیے ہمیں صلیبی جنگوں کے پسِ منظر پر نظر ڈالنا ہو گی۔

صلیبی جنگوں میں جب عیسائیوں کا مسلمانوں سے مقابلہ ہوا تو عیسائی دو اہم امور پر انحصار کر رہے تھے کہ جن کے ذریعے وہ یہ گمان کیے بیٹھے کہ اب وہ مسلمانوں اور اسلام کا ہمیشہ کیلئے کام تمام کرنے والے ہیں۔ اُن کا پہلا اعتماد اس بات پر تھا کہ عالم ِ اسلام میں بالخصوص شام میں کثیر تعداد میں عیسائی آبادتھے جو اپنے دین پر قائم تھے، مغربی ممالک کو یہ بھروسہ تھا کہ ریاست ِ اسلامی کے عیسائی اُن کے بھائی ہیں چنانچہ وہ اپنے اوپر قائم مسلمان حکمرانوں سے بغاوت کرینگے اور مغربی ممالک کیلئے جاسوسی بھی کرینگے کیونکہ یورپی ممالک صلیبی جنگیں مذہبی جذبات کو بھڑکا کر لڑرہے تھے۔ دوسرا امر جب پر وہ اعتماد کر رہے تھے وہ ان کی افواج کی کثرت اور طاقت میں برتری تھی۔ جبکہ مسلمان تنزل اور آپسی انتشار کا شکار تھے اور ان کا وجود ٹوٹ پھوٹ سے دوچار تھا۔ اس بناء پر عیسائیوں نے یہ امید باندھ رکھی تھی کہ اُنہیں اس مہم میں شکست دے دی جائے تو پھر مسلمان کبھی اُن سے مقابلہ نہ کر پائینگے اور مسلمانوں اور اسلام پرقابو پا نا آسان ہوجائیگا۔

لیکن صلیبیوں کی امیدیں اور خواب پورے نہ ہو سکے۔ اُنہیں اس وقت شدید حیرت ہوئی جب دوران ِ جنگ اُنہوں نے دیکھا کہ عرب میں بسنے والے عیسائی مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملا کرصلیبیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اُن پر صلیبیوں کی پکار کا اثر نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عیسائی مسلمانوں کے ساتھ دار الاسلام میں رہتے تھے اور اُن پر بھی وہی اسلامی احکام و قوانین نافذ ہوا کرتے تھے جو مسلمانوں ہوتے تھے۔ اسلامی ریاست میں بسنے والے اِن عیسائیوں کے حقوق و فرائض بھی وہی تھے جومسلمانوں کے تھے۔ مسلمان اُن کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، عیسائی لڑکیوں سے شادیاں کرتے تھے۔ زندگی کے میدان میں مسلمان و عیسائی اکٹھے تھے کیونکہ اسلام نے غیر مسلموں کے تمام حقوق کی ضمانت دی ہے اور مسلمان خلفاء اور حکام نے ہمیشہ اس کی پاسداری کی تھی، اور اسلامی ریاست میں اسی پر عمل ہوتا تھا۔ دوسری طرف ان کی امیدوں کے برخلاف دوسرا امر بھی پورا نہ ہوا، یعنی اگر مسلمانوں کو ایک لڑائی میں شکست دے دی جائے تو پھر مسلمان کبھی اُن سے مقابلہ نہ کر پائینگے اور مسلمانوں اور اسلام پر قابو پا نا آسان جائیگا۔ ابتداء میں صلیبی عیسائیوں نے مسلمانوں کو بری شکست دی تھی اور شام پرقابض ہو گئے اور اپنی فتح کے بعد انہوں نے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ لیکن مسلمان دشمن کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کرنے میں جُت گئے۔ لہٰذا باوجود یہ کہ صلیبی وہاں تقریباً دو سو سال تک قابض رہے اور انہوں نے شام میں اپنی حکومتیں اور صوبے قائم کرلئے تھے، لیکن مسلمان بالآخر اُن کو وہاں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگئے اور صلیبیوں پر غالب آ گئے۔

جب کفار کو صلیبی جنگوں میں شکست ہوئی تو اس تحقیق میں لگے کہ مسلمانوں کی قوت کا راز کیا ہے؟ اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ راز اسلام کے احکامات کا نفاذ اور مسلمانوں کا اپنے عقیدہ اسلام پر پکا یقین ہے۔ اور اسلام کے عادلانہ قوانین نے ہی اسلامی سرزمین کی مسلم اور غیر مسلم آبادی کو ایک ہی لڑی میں پرو رکھا ہے۔ چنانچہ استعما ری کفار نے عالم ِ اسلام پر حملہ کرنے کی حکمتِ عملی پر غور و خوض کیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ دو کام کرنے کی ضرورت ہے : اول مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے احکامات کے عملی ہونے کے متعلق شکوک پیدا کردئیے جائیں، اُن کے عقیدہ کومتزلزل کر دیا جائے۔ دوم: مسلم اور غیر مسلم رعایا کے رشتے کو کاٹا جائے اور ان کے درمیان خلیج پیدا کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے علاقوں میں مشنریوں کو بھیجنا شروع کیا ، ان مشنریوں نے اسلامی سرزمین پر مختلف ادارے اور انجمنیں قائم کیں جنہوں نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو recruitکرنا شروع کیا ۔ چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کی آڑ میں ان مشنری اداروں نے مسلمانوں کے درمیان انسانی حقوق، آزادی اظہار، مرد و عورت کی مساوات جیسےغیر اسلامی افکار پھیلانے شروع کیےاور اسلام پر تہمت لگانا شروع کی تاکہ اسلام کے افکار اور احکامات پر مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کیا جائے، اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ دوسری طرف ان مشنریوں نے مسلمانوں کے درمیان قومیت کا بیج بویا ۔ ُانہوں نے ترکوں کو اُن کے ترک ہونے کا نعرہ دیا تاکہ نسلی جذبات کو ہوا ملےاورعربوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ وہ ترکوں کے محکوم ہیں اور ان سے آزادی حاصل کر کے ہی بہتر مقام حاصل کر سکتے ہیں اور خلافت تو دراصل عربوں کا حق جسے ترکوں نے غصب کر رکھا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی علاقوں میں بسنے والے مختلف فرقوں کے درمیان خلیج پیدا کی۔ اور اس کے لیے لبنان اور شام کے اندر بسنے والے والی آبادی کو استعمال کیا۔ اس وقت بلاد شام میں مسلمانوں کے علاوہ دو گروہ آباد تھے ۔ ایک مارونی عیسائیMaronites اور دوسرے دروزDruze۔ یہ لوگ صدیوں سے وہاں باہم مل کر رہ رہے تھے اور ان کے درمیان کوئی مسئلہ موجود نہ تھا۔ لیکن مشنریوں نے ان لوگوں کو آزادیِ مذہب کے نام پر اکسایا اور مسلمانوں ، عیسائیوں اور دروزوں میں ایسی مذہبی رسوموں کی ترویج کی جو ان کے عقائد سے متعلق تھیں ۔ اس وقت شام پر مصر کے حاکم ابراہیم پاشا کی حکمرانی تھی، اور مصر اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان آویزش کی صورتِ حال تھی۔ 1840ء میں جب ابراہیم پاشا کو خلافتِ عثمانیہ کے مقابلے میں شام سے پسپائی اختیار کرنا پڑی تو شام کے حالات خراب ہو گئے، جس کا فائدہ بیرونی نمائندوں اور خاص طور پر مشنریوں نے جم کر اُٹھایا۔ اورچونکہ ریاستِ عثمانیہ کا اثرورسوخ شام میں کمزور ہوچکا تھا تو اس موقع کو غنیمت جان کر استعماری طاقتوں نے فتنے کی آگ خوب بھڑکائی گئی اور 1841ء کے شروع تک یہ آگ اتنی بھڑکی کہ لبنان کے علاقے میں عیسائیوں اور دروزوں کے درمیان فسادات ہونے لگے۔ دروز زمیندار تھے جبکہ عیسائی ان کی زمینوں پر کاشت کاری کیا کرتے تھے۔ اس تنازعہ میں برطانیہ اور فرانس پیش پیش تھے ۔ برطانیہ اس تنازعہ میں دروزوں کی طرفداری کر رہا تھا جب کہ مارونی عیسائیوں(Maronites)کو فرانس کی حمایت حاصل تھی۔ پس جہاں پر بھی حکومتی عہدیدار اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ،تو یہ ملک وہاں فتنے کی آگ کو ہوا دیتے تاکہ اس پر قابو پانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکے۔ ان دونوں ممالک نے اس فتنے کو زیادہ سے زیادہ ہوا دینے کی کوششیں کی تاکہ اس کی آڑ میں وہ لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکیں۔ چنانچہ انہوں خلافتِ عثمانیہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ لبنان میں ان فرقوں کیلئے علیحدہ علیحدہ نظام اور الگ الگ حاکم مقرر کرے۔ یوں اسلامی ریاست میں غیر مسلموں پر شریعت کی بجائے دیگر نظاموں کے نفاذ کا آغاز ہوا۔ تاہم یہ انتظام کامیاب نہ ہوا کیونکہ یہ نظام فطری نہ تھا۔

چنانچہ1845ء میں دوبارا فسادات کی آگ بھڑکی جس کے نتیجے میں ہولناک تباہیاں ہوئیں، جن میں کلیسائوںاور خانقاہوںکو بھی نہیں بخشا گیا، لوگ قتل ہوئے، املاک تباہ ہوئیں ، مال و اسباب لوٹا گیا۔ عثمانی حکومت کوفتنے پر قابو پانے کیلئے اپنے مخصوص نمائندے کو مطلق اختیارات کے ساتھ بھیجنا پڑا۔ لیکن وہ شدّت میںمعمولی تخفیف سے بڑھ کر کچھ نہ کر سکا۔

ادھر مشنریوں کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی تھیں اور 1857ء میں مارونی عیسائیوں نے مسلح جدوجہداور بغاوت کی آواز لگانا شروع کر دی۔ مارونی فرقے کے پادریوں نے مارونی مزارعوں کو زمینداروں کے خلاف بھڑکایا اور شمالی لبنان میں زمینداروں پر نہایت پر تشدّد حملے ہوئے ،اور وہاں بغاوت کی حالت پیدا وگئی جس نے پھیل کر جنوبی لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا،جہاں عیسائی مزارع دروز زمینداروں کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ یوںفتنے کی آگ پھیلتی گئی یہاں تک کہ پورے کا پورا لبنان اس آگ میں جلنے لگا۔ دروز بلا تفریق عیسائیوں کو قتل کر رہے تھے، خواہ یہ پادری ہوں یا عام عیسائی۔ فسادات اس قدر پُرتشدد تھے کہ اس میں ہزاروں عام عیسائیوں قتل اوربے گھرہو گئے۔ بالآخر ان فسادات نے پورے بلادِشام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان بھی حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ۔ مسلمانوں نے جولائی 1860ء میں عیسائی علاقے پر خوں ریز حملہ کیا اور بڑے پیمانے پر لوگ قتل ہوئے، ساتھ ساتھ تخریب کاری اور لوٹ مار کی وارداتیں بھی رونما ہوئیں، یہاں تک کہ اس خوں ریزی کو روکنے کے لیے ریاست کو فوجی قوت استعمال کرنا پڑی۔

اب مغربی ممالک نے اندازہ لگایا کہ یہی وہ چیز ہے جسے بہانہ بنا کر وہ شام میں داخل ہو سکتے ہیں، چنانچہ اُنہوں نے اپنے جنگی بیڑے شام کے ساحل پر بھیج دئیے۔ 1860 میں فرانس، برطانیہ، روس، آسٹریا اور پروسیا کے سفیر پیرس میں جمع ہوئے آپس میں میں معاہدہ کیا جس میں طے کیا گیا کہ وہ لبنان میں خونریزی کو روکنے کے لیے 12000سپاہی بھیجیں گے جس میں سے آدھے فوجی فرانس مہیا کرےگا۔ چنانچہ معاہدے میں بیان کیا گیا:

Their Majesties the Emperor of Austria, the Emperor of the French, the Queen of the United Kingdom of Great Britain and Ireland, His Royal Highness the Prince Regent of Prussia and His Majesty the Emperor of all the Russias promise maintain sufficient naval forces to contribute to the success of joint efforts to restore peace on the coast of Syria.۔

اوردی ٹائمز نے 9 اگست 1860 کو رائٹرز کے توسعت سے فرانس کے بادشاہ کے یہ الفاظ رپورٹ کیے ، جو اس نے اپنے سپاہیوں کو روانہ کرتے وقت کہے:

Soldiers – you leave for Syria. France hails joy an expedition the sole aim of which is to cause the rights of justice and humanity to triumph. You do not go to make war against any foreign Power, but to assist the Sultan in bringing back the obedience of his subjects, who are blinded by the fanaticism of a former century. In that distant land, rich in great reminiscences, fulfill your duty, - show yourselves the worthy children of those who once gloriously carried into that country the banner of Christ. You do not leave in great numbers, but your courage and your prestige will supply the deficiency, because wherever the French flag is seen to pass, nations know that a great cause precedes it, and great people follows it”

فرانس کے بادشاہ کے ڈیڑھ سو سال قبل کا بیان بھی اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ کس طرح استعماری طاقتیں اپنی اصل نیتوں کو انسانیت اور عدل کے خوبصورت الفاظ میں چھپاتی ہیں ۔ تاہم جس طرح امریکی صدر جارج بش کے منہ سےعراق پر حملے سے قبل صلیبی جنگ کے الفاظ نکل گئے ، اسی طرح فرانس کا بادشاہ بھی اس ماضی کو بھلا نہ سکا شام کی سرزمین وہ سرزمین ہے جہاں صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی جھنڈا لہرایا کرتا تھا۔

اس طرح مغربی ریاستوں نے ریاستِ عثمانیہ میں فتنے کی آگ بھڑکائی تاکہ یہ شام میں داخلے کا ذریعہ بنے۔ پس وہ شام میں داخل ہو ئے اور خلافتِ عثمانیہ کو مجبور کیا کہ وہ شام کیلئے شریعت کے علاوہ کوئی مخصوص نظام وضع کرے، اور شام کو دو مختلف صوبوں میں تقسیم کردے۔ اس طرح لبنان کو خصوصی مراعات دلائی گئیں اور لبنان شام کے دوسرے حصوں سے الگ ایک خود مختار صوبہ بن گیا، اس کا اپنا مقامی حکومتی نظام تھا جس کی سربراہی ایک عیسائی حاکم کے ہاتھ میں تھی۔ اس حاکم کی معاونت کیلئے ایک نفاذی کونسل بنائی گئی - اس وقت سے مغربی ممالک لبنان کے امور کو کنٹرول کر رہے ہیں اوراسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے - یوںمغربی ممالک نے ریاست ِ عثمانیہ اور اسلامی علاقوں کے قلب میں داخل ہونے کے لیے لبنان کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔

کوئی بھی مسلمان جو کہ استعماری طاقتوں کے ہتھکنڈوں ، طریقہ واردات اور ماضی میں ان کی سازشوں سے واقفیت رکھتا ہے، یوحنا آباد میں ہونے والا یہ واقعہ اسے چوکنا کرنے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں موجود انتشار کی یہ صورتِ حال ماضی کے مقابلے میں اور بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ ماضی میں خلافت میں مسلمانوں کے خلفاء اپنی رعایا سے مخلص ہوا کرتے تھے،لیکن آج پاکستان کے حکمران پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار ہی کی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں اورپاکستان میں انتشار اور فساد کی صورتِ حال پیدا کرنے میں امریکہ کو براہِ راست مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کیا مذہب کی بنیاد پر قائم اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو پُر اطمینان زندگی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ تو اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے اسلامی سرزمین پر غیر مسلم صدیوں امن اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ خود برصغیر کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں تھے اور غیر مسلموں کی اکثریت تھی مگر نہ تو برصغیر کی فتح کے بعد غیر مسلموں کا قتلِ عام کیا گیا جیسا کہ صلیبیوں نے بلاد الشام پر قبضے کے بعد کیا، نہ ہی ان غیر مسلموں کی ethnic cleansingکر کے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا، جیسا کہ روس نے وسط ایشیا ء میں کیا اور نہ ہی انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا جیسا کہ عیسائیوں نے 1492سپین پر قبضے کے بعد کیا۔ برصغیر میں اسلامی دورِ حکومت میں حکمرانوں کے خلاف مختلف بغاوتیں تو اٹھیں مگر کسی بغاوت کی بنیاد مذہب نہ تھا کہ غیر مسلم اس وجہ سے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہوں کہ ان کی حکمران ان پر مذہب کے نام پر ظلم کر رہے ہیں۔ صدیوں تک مسلمان اور غیر مسلم اسلامی قوانین کی عمل داری میں مسلم حکمرانی کے تحت اکٹھے زندگی بسر کر تے رہے، یہاں تک کہ برطانوی راج آ گیا۔ یہ برطانیہ ہی تھا کہ جس نے یہاں کے غیر مسلموں کو 'ہندو قومیت' کا تشخص فراہم کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا۔ ورنہ اس سے قبل یہاں کے مشرکین مختلف بتوں کی پرستش کرتے تھے اور اپنے آپ کو ایک قوم تصور نہیں کر تے تھے۔ یہی معاملہ ہمیں ان کے علاقوں میں بھی نظر آتا ہے جو خلافت کی براہِ راست عملداری میں تھے۔ جب عیسائیوں نے سپین پر قبضہ کر کے وہاں سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی علاقہ بدر کیا تو یہ اسلامی خلافت ہی تھی کہ جس کے سائے میں انہیں پناہ ملی۔ خلافت کے زیر سایہ ان یہودیوں پر کاروبار اور صنعت و تجارت کے دروازے کھلے تھے۔ یہودی طبیبوں کو سلطان اور وزراء کے ہں ملازمت حاصل تھی۔ کئی جگہوں پر شیشہ سازی اور دھات سازی کی صنعت ان کے ہاتھ میں تھی اور وہ صنعتی پیدوار میں وینس کے تاجروں کے ہم پلہ تھے۔ ("The House of Nasi: Dona Gracia" by Cecil Roth)۔ کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب : History of Jerusalemمیںلکھتاہے: ‘The Muslims had established a system that enabled Jews, Christians, and Muslims to live in Jerusalem together for the first time.’ [18]"مسلمانوں نے ایک ایسا نظام قائم کیا جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ یروشلم (بیت المقدس)میں یہودی، عیسائی اور مسلمان اکٹھے زندگی بسر کر رہے تھے"۔

غیر مسلموں کے ساتھ سلوک کے لحاظ سے مسلمانوں کا ماضی ماضی اتنا تابناک ہے کہ اس پر انگلی اٹھائی نہیں جا سکتی۔ بلکہ انگلی تو کفار پر اٹھائی جانی چاہئے جو اپنے شہریوں کو امن و تحفظ کی فراہمی میں ناکام نظر آتے ہیں۔ امریکہ جو اپنے آپ کو آزادی اور حقوق کے چیمپئن کے طور پر پیش کرتا ہے ، نے Patriot Actجیسے قوانین کے ذریعے وہاں بسنے والے مسلمانوں پر خوف کی تلوار کو مسلط کر رکھا ہے، کہ جس کے تحت امریکی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ محض'دہشت گردی ' کے شک کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو حراست میں لے سکتی ہے اور اس شخص کو اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ۔ یہ ایکٹ حکومتی اداروں کو اس بات کا بھی اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی جاسوسی کر سکتے ہیں اور کسی بھی وقت کسی بھی گھر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ اس طرح کے قوانین کو نفاذ اسی لیے ممکن ہے جمہوری ممالک میں انسان خود قانون ساز ہے ۔ چنانچہ اکثریتی نمائندے اس جمہوری اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی وقت لوگوں کے حقوق سلب کر سکتے ہیں۔ جبکہ اسلامی ریاست میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ شریعت کے قوانین کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی خلیفہ اور نہ ہی مجلسِ امت اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ حالات کو بہانہ بنا کر ایسے قوانین کو نافذ کر سکیں کہ جس کے نتیجے میں ریاست کے باشندوں پر ظلم کیا جائے ، خواہ یہ باشندے مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ پس صرف اسلامی ریاست میں ہی ایک شخص کو اس بات کا اطمینان ہو سکتا ہے کہ اس کے حقوق کو ڈنڈے کے زور پر سلب نہیں کیا جائے گا۔

دوسری طرف اسلام مسلمانوں کو سختی سے اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کے جان مال اور عزت و آبرو کی حرمت کو پامال نہ کریں۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ((أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا))"اور سنو ! جس نے کسی ایسے معاہد شخص کو قتل کیا جس کو اﷲاور اس کے رسول نے عہد دیا، تو اس نے اﷲ کے عہدکو توڑا ، ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکتا ،حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سا ل کے فاصلے پر بھی سونگھی جا سکتی ہے " ۔(ترمذی) ۔ اوربخاری نے اس کو ان الفاظ سے روایت کیا ہے: ((مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا))"جس نے معا ہد(ذمی یعنی اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری)کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو کو بھی سونگھ نہیں پائے گاجبکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے پر بھی سونگھی جا سکتی ہے"۔ رسول اﷲﷺ غیر مسلموں کے مریضوں کی عیادت بھی کیا کرتے تھے ، بخاری نے انس سے روایت کیا ہے: ((كَانَ غُلاَمٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ، فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ: أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ وَهُوَ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّار))"ایک یہودی لڑکا تھا جو رسول اﷲﷺکی خدمت کیا کرتا تھا ایک دن وہ بیمار ہو گیا اور نبی کریم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور اس کے سراہنے بیٹھ گئے اور فرمایا:اسلام لاؤ ۔ وہ لڑکا اپنے ماں باپ کی طرف دیکھنے لگاتو اس کے باپ نے کہا کہ ابو القاسم کی بات مانو، یہ سُن کر وہ لڑکا مسلمان ہو گیا، رسول ا ﷲﷺ یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گئے کہ اﷲ کا شکر ہے کہ اس کو آگ سے بچایا"۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی عیادت کرنا ان کے ساتھ بیٹھنا اور ان کے دل بہلانا جائز ہے۔ اوربخاری نے عمر وبن میمون سے عمربن الخطابؓ کی یہ وصیت نقل کی ہے جو انہوں نے وفات کے وقت کی تھی: میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ اور اس کے رسول اﷲکے ذمہ(عہد)کی پاسداری کرے اور ان(اہل ذمہ)سے بدعہدی نہ کرے ،ان(اہل ذمہ)کے لیے لڑے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے "

اہلِ ذمہ یعنی اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہوں اور ان کو اپنی مذہبی عبادات کرنے کی اجازت حاصل ہو ۔ ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے اہلِ نجران کے ساتھ صلح کرلی اور اس کی تفصیل ابوداؤدنے سنن میں یوں بیان کی ہے: ((عَلَى أَنْ لاَ تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، وَلاَ يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلاَ يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا)) "اس شرط پر کہ ان کا کوئی عبادت خانہ نہیں گرایا جائے گا،ان کے روحانی پیشواؤں کو نہیں نکالاجائے گا اور اس وقت تک ان کو ان کے دین کے بارے میں آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا جب تک وہ کوئی جرم نہ کریں یا سود نہ کھائیں "۔اور رسول اﷲ ﷺ نے اہل یمن کو خط لکھاکہ" مَنْ كَانَ عَلَى يَهُودِيَّتِهِ أَوْ نَصْرَانِيَّتِهِ فَإِنَّهُ لاَ يُفْتَنُ عَنْهَا، وَعَلَيْهِ الجِزْيَةَ "،"جو شخص اپنی یہودیت یا نصرانیت پر قا ئم رہے اس کو(اس کے دین کے معاملےمیں ) آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا بلکہ وہ صرف جزیہ ادا کرے گا‘‘۔ اس کو ابو عبید نے الاموال میں عروہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

علاوہ ازیں ذمیوں سے بھی کوئی ایسا ’کسٹم ٹیکس‘ نہیں لیا جاتا جو مسلمانوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ ابوعبیدنے الاموال میں عبدالرحمٰن بن معقل سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں : میں نے ذیاد بن حدیر سے پوچھا کہ تم کس سے کسٹم ٹیکس لیتے تھے؟ انہوں نے کہا :ہم کسی مسلمان یا معاہد(ذمی)سے یہ ٹیکس نہیں لیتے تھے ۔تو میں نے پوچھا ،پھر کس سے لیتے تھے؟انہوں نے کہا : ہم دارالحرب کے تاجروں سے ایسا کسٹم ٹیکس لیتے تھے جیسا کہ وہ ہم سے لیتے تھے‘‘۔ یوں ذمی ریاست کے تمام شہریوں کے مساوی شہری ہیں ،ا ن کو تمام شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں، ان کو تحفظ کا حق حاصل ہے، ان کو با عزت زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیا جائے گا اور ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ ہو گا، وہ اسلامی فوج میں بھرتی ہو کر لڑسکتے ہیں لیکن یہ ان پرفر ض نہیں، ان سے جزیہ کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا،اور وہ ٹیکسیز بھی نہیں لگائے جاتے جو مسلمانوں پر فرض ہیں،جیسا کہ جہاد کے وقت ضرورت پڑنے پر ایمرجنسی ٹیکس۔

عدالت میں اور قا ضی کے سامنے یا ان کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہوئے، یا سزاؤں میں ، ان کو اور مسلمانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ حکومت اور فیصلے کے حوالے سے نصوص میں وارد ہونے والے دلائل عام ہیں جیسا کہ ارشاد وباری تعالیٰ ہے:"وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ""اور جب تم لوگو ں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو"(النساء:58)۔یہ حکم سب کے لیے یکساں ہے خواہ وہ مسلم ہوں یاغیر مسلم۔ اسی طرح رسول اﷲﷺنے فرمایا:" البَيِّنَةُ عَلَى الـمُـدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ "،"گواہ دعویٰ کرنے والے پر ہے ،جبکہ قسم انکار کرنے والوں کی ہے "۔ (بیہقی) اور یہ حکم بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عام ہے۔ عبداﷲبن الزبیر سے روایت ہے:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ أَنَّ الْخَصْمَيْنِ يَقْعُدَانِ بَيْنَ يَدَيِ الْحَكَمِ "،"رسول اﷲﷺنے فیصلہ کر دیا ہے کہ دونوں فریق قاضی کے سامنے بیٹھیں گے"۔ اس کو احمد اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور الحاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ یہ حکم بھی عام ہے یعنی خواہ فریق مسلم ہو یا غیر مسلم دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ رسول اﷲﷺ نے فرما یا:" الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ "،" خلیفہ نگہبان اور اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے"۔(متفق علیہ)رعیت کا لفظ عام ہے جس میں مسلم یاغیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ یوں تمام دلائل عام ہیں اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ، عرب اور غیر عرب کے ساتھ، کسی سفید اور کالے کے ساتھ امتیازی سلوک ناجائز ہے، بلکہ وہ تمام لوگ جو اسلامی ریاست کے شہری ہیں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، ریاست کی نظر میں وہ سب برابر ہیں اور ان سب کے حقوق کی ادائیگی ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ریاست پر فرض ہے اور قاضی صرف عدل اور برابری کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ ذمی کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک مسلمان شہری کو حاصل ہیں اور اس کے وہ تمام فرائض ہیں، جوذمہ کے معاہدے کے تحت اور ریاست کی اطاعت میں آتے ہیں۔

ریاستِ خلافت کے غیر مسلم باشندوں کو اپنے عقیدے اور اُن احکامات میں جن کا تعلق ان کے عقیدے کے ساتھ ہے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ان احکامات میں، جن کو وہ اپنا عقیدہ ما نتے ہیں یا پھر وہ احکام جن پر رسول ﷺ نے ان کو برقرار رکھا ، یا وہ احکاما ت جن میں اسلام نے صریح نصوص کے ساتھ انہیں مستثنیٰ کردیا، میں بھی انہیں آزادی حاصل ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:(لاَ اکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ)''دین ( عقیدے ) کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں'' (البقرہ:256)۔رسول ﷺ نے فرمایا :(( اِ نَّهُ مَنْ کَانَ عَلَی یَهُودِیَّتِهِ أَوْ نَصْرَانِیَّتِهِ فَاِنَّهُ لَا یُفْتَنُ عَنْهَا، وَعَلَیْہِ الجِزْیَةُ))''جو اپنی یہودیت یا نصرانیت پر ہو اس کو زبردستی اپنے دین سے نہیں ہٹایا جائے گا بلکہ وہ جزیہ دیتا رہے گا''۔ (ابو عبید کتاب الاموال) ۔ پس جو بھی فعل عقائد کے باب سے ہو اگرچہ ہمارے ہاں وہ عقائد میں سے نہیں بھی اس میں اسلامی ریاست ان کو نہیں چھیڑتی بلکہ ان کو ان کے حال پر چھوڑدیتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ فعل جس پر رسول ﷺ نے اُن کو برقرار رکھا جیسے شراب پینا یا ان کے شادی بیاہ کے معاملات، اس میں ان سے کوئی باز پرس نہیں کی جاتی جب تک کہ وہ عام نظام کی حدود میں رہیں۔

البتہ یہ بات طے ہے کہ اجتماعی سطح پر غیر مسلم بھی اسلام کے قوانین کے اسی طرح پابند ہیں جیسا کہ مسلمان۔ چنانچہ ایک غیر مسلم اپنے گھر میں شراب پی سکتا ہے مگر گھر سے باہر بازار وغیرہ میں ایسا نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ شراب کی خرید و فروخت کر سکتا ہے۔ نہ ہی کوئی غیر مسلم سودی لین دین کر سکتا ہے۔ ایک غیر مسلم عورت کا پبلک ڈریس وہی ہوتا ہے جو کہ ایک مسلم عورت کا ۔ اگر ایک غیر مسلم زنا کے جرم کا مرتکب ہو تو اسے پر بھی حد اسی طرح نافذ کی جائے گی جیسا کہ ایک مسلمان پر ۔ حاکم اس دائرے میں غیر مسلموں پر وہی ریاستی قوانین نافذ کرتا ہے جو کہ مسلم شہریوں پرنافذ کیے جاتے ہیں اور یہ قوانین اسلامی قوانین ہوتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کے بارے میں فرمایا: (فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ) '' اور آپ ﷺ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اﷲ کی اتاری ہوئی کتاب کے ذریعے فیصلہ کیجیے''(المائدہ:48)۔ ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا: (وَأَنْ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ)''اور آپ ﷺان کے معاملات میں اﷲ کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی فیصلہ کیجئے'' (المائدہ:49)۔ اور فرمایا:(اِنَّا أَنزَلْنَا الَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللُّٰه)''اور یقینا ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ آپ لوگوںمیں اس چیز کے مطابق فیصلہ کریں جس سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو شناسا کیا ہے''(النساء:105)۔ یہ حکم عام ہے ،مسلم اور غیر مسلم سب اس میںشامل ہیں۔ کیونکہ (لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاس)میں 'الناس ' یعنی لوگ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جوسب کے لیے عام ہے۔

رسول اﷲ ﷺجس طرح مسلمانوں پر حدود کو قائم کرتے تھے اسی طرح کفار پر بھی حدود کو قا ئم کرتے تھے چنانچہ رسول اﷲ ﷺ نے اُس یہودی کو قصاص کے طور پر قتل کیا جس نے ایک عورت کو قتل کیا تھا جیسا کہ بخاری میں انس بن مالک ؓ کی روایت ہے:" خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ بِالْمَدِينَةِ قَالَ فَرَمَاهَا يَهُودِيٌّ بِحَجَرٍ قَالَ فَجِيءَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ وَبِهَا رَمَقٌ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ فُلاَنٌ قَتَلَكِ فَرَفَعَتْ رَأْسَهَا فَأَعَادَ عَلَيْهَا قَالَ فُلاَنٌ قَتَلَكِ فَرَفَعَتْ رَأْسَهَا فَقَالَ لَهَا فِي الثَّالِثَةِ فُلاَنٌ قَتَلَكِ فَخَفَضَتْ رَأْسَهَا فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ فَقَتَلَهُ بَيْنَ الْحَجَرَيْنِ"،"مدینہ میں ایک باندی جا رہی تھی جس نے زیورپہن رکھا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ ایک یہودی نے اس کو پتھر مارا پھر اسے(باندی)رسول اﷲﷺکے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ وہ بمشکل زندہ تھی۔رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ فلاں نے تمہیں قتل کیا تو اس نے سر اٹھایا، پھر پوچھا کہ فلاں نے تمہیں قتل کیا پھر اس نے سر اٹھایا، پھر تیسری بار پوچھا کہ فلاں نے تمہیں قتل کیاتو اس لڑکی نے(ہاں میں)سر نیچے ہلایا۔ پھر رسول اﷲﷺ نے اس یہودی کو بلا کر دو پتھروں کے درمیان اس کو قتل کیا"۔ اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک عورت لائی گئی جنہوں نے زِنا کیا تھا آپ ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار(رجم)کیا ،بخاری میں ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ(أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِﷺ بِيَهُودِيٍّ وَيَهُودِيَّةٍ قَدْ أَحْدَثَا جَمِيعًا فَقَالَ لَهُمْ مَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ قَالُوا إِنَّ أَحْبَارَنَا أَحْدَثُوا تَحْمِيمَ الْوَجْهِ وَالتَّجْبِيهَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ادْعُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِالتَّوْرَاةِ فَأُتِيَ بِهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ وَجَعَلَ يَقْرَأُ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا فَقَالَ لَهُ ابْنُ سَلاَمٍ ارْفَعْ يَدَكَ فَإِذَا آيَةُ الرَّجْمِ تَحْتَ يَدِهِ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ فَرُجِمَا" ، "رسول اﷲﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت لائے گئے، جنہوں نے زِنا کا ارتکاب کیا تھا رسو ل اﷲﷺ نے ان سے پوچھا تمہاری کتاب میں کیا لکھا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے مشائخ نے کہا ہے کہ چہرے کو داغ دیا جائے ۔ عبداﷲبن سلام نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ ان سے کہو کہ تورات کو لائیں۔ تورات لائی گئی ان دونوں میں سے ایک نے اپنا ہاتھ رجم والی آیت پر رکھ لیا اور اس سے پہلے اور بعد والی آیت پڑھنے لگے،عبداﷲبن سلام نے کہا اپنا ہا تھ اٹھاؤ تو رجم والی آیت اس کے ہاتھ کے نیچے تھی، رسول اﷲﷺ نے حکم دیا کہ ان دونوں کو(رجم)سنگسار کیا جائے پس دونوں کو سنگسار کیا گیا"۔

علاوہ ازیں یہ کہ اسلام تمام انسانوں کیلئے آیا ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ ''ہم نے آپ ﷺ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہاں مگر لوگوں کی اکثریت بے علم ہے''(سباء:28)۔ ایک کافر سے جس طر ح اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی عقیدہ کو اختیار کرے اسی طرح اس سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فروع یعنی احکام شرعیہ پر عمل کرے۔ اصول یعنی اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کا مطالبہ تو قرآن کریم کی آیات سے بالکل واضح ہے ،جبکہ بعض فروع (احکام شریعہ )کا مکلف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے انتہائی صراحت کے ساتھ ان کو بعض فروع کا مکلف قراردیا جیسے عبادت کا حکم دینے والی آیات، ارشادباری تعا لیٰ ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)''اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا،یہی تمھارا بچاؤ ہے''(البقرہ:21) ۔ اور فرمایا(وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً)''اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہوںاس گھر کا حج فرض کردیاہے'' (آل عمران:97)۔ اگر کفار احکامِ شریعہ کے مکلف نہ ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان پر کفار کو وعیدیں نہ سناتا جبکہ ان فروع کو ترک کرنے کی وجہ سے ان کو سخت ترین وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ oالَّذِينَ لاَ يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ)''ان مشرکوں کے لئے(بڑی ہی)خرابی ہے جو زکوٰة نہیں دیتے'' (فصلت:7)، اور فرمایا:( مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ oقَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ)''اور تمھیںدوزخ میں کس چیز نے ڈالا وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے '' (المدثر:42-43)۔ یہ معاملہ کہ کافر وں کو چند احکامات کا مکلف بنایا گیا ہے، اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ باقی تمام اوامرو نواہی کے مکلف بھی ہیں۔کیونکہ یہ تمام آیات جو تکلیف کے بارے میں ہیں یہ عام ہیں ان کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں اس لئے یہ مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہیں جو مسلمانوںاور کافروںسب کے لئے ہیں۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشادہے:( وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا) ''اور اﷲ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کر دیا ہے'' (البقرہ:275)۔یا اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ:( فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ)''پھر اگر وہ تمھارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دے دو'' (طلاق:6)۔ رسول اﷲﷺنے فرمایا: «مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ»''جس نے مردہ زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے''۔(احمد،ترمذی)۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کفار احکامِ شریعہ کے بھی مکلف ہیں۔ البتہ بعض احکامِ شریعہ کا ان کے لئے جائز نہ ہونا اس وجہ سے ہے کہ ان کے لئے شرط اسلام ہے اور جب تک شرط نہیں پائی جائے گی یہ فروع جیسے نماز ، روزہ وغیرہ صحیح نہیں ہونگے۔
 
Top