• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم فتح مکہ کے بعد کے سَرایَا اور عُمّال کی روانگی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فتح مکہ کے بعد کے سَرایَا اور عُمّال کی روانگی

اس طویل اور کامیاب سفر سے واپسی کے بعد رسول اللہﷺ نے مدینہ میں قدرے طویل قیام فرمایا۔ اس دوران آپ وفود کا استقبال فرماتے رہے۔ حکومت کے عُمّال بھیجتے رہے۔ داعیان ِ دین کو روانہ فرماتے رہے اور جنہیں اللہ کے دین میں داخلے اور عرب کے اندر برپا امر واقعہ کے سامنے سپر اندازی سے انکا ر واستکبار تھا ، انہیں سرنگوں فرماتے رہے۔ ان امور کا مختصر ساخاکہ پیش خدمت ہے۔
تحصیلدارانِ زکوٰۃ :
گزشتہ مباحث سے معلوم ہوچکا ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ ۸ ھ کے اواخر میں تشریف لائے تھے۔ ۹ھ کا ہلالِ محرم طلوع ہوتے ہی آپ نے قبائل کے پاس صدقات کی وصولی کے لیے عمال روانہ فرمائے۔ جن کی فہرست یہ ہے :
عُمّال کے نام وہ قبیلہ جس سے زکوٰۃ وصول کرنی تھی
عُیینہ بن حصن بنو تمیم
یزید بن الحصین اسلم اور غفار
عباد بن بشیر اشہلی سلیم اور مُزینہ
رافع بن مکیث جُہَینہ
عُمرو بن العاص بنو فزارہ
ضحاک بن سفیان بنو کلاب
بشیر بن سفیان بنو کعب
ابن اللُتبِیَّہ ازدی بنو ذبیان
( مہاجر بن ابی امیہ شہر صنعاء (ان کی موجودگی میں ان کے خلاف اسود عنسی نے
صنعاء میں خروج کیا تھا)
زیاد بن لبید علاقہ حضرموت
عدی بن حاتم طی ٔ اور بنو اسد
مالک بن نُوَیرہ بنو حنظلہ
زبر قان بن بدر بنو سعد (کی ایک شاخ)
قیس بن عاصم بنو سعد (کی دوسری شاخ)
علاء بن الحضرمی علاقہ بحرین
علی بن ابی طالب علاقہ نجران (زکوٰۃ اور جزیہ دونوں وصول کرنے کے لیے )
واضح رہے کہ یہ سارے عمال محرم ۹ھ ہی میں روانہ نہیں کردیے گئے تھے۔ بلکہ بعض بعض کی روانگی خاصی تاخیر سے اس وقت عمل میں آئی تھی جب متعلقہ قبیلہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ البتہ اس اہتمام کے ساتھ ا ن عمال کی روانگی کی ابتدا محرم ۹ھ میں ہوئی تھی۔ اور اسی سے صلح حدیبیہ کے بعد اسلامی دعوت کی کامیابی کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ باقی رہا فتح مکہ کے بعد کا دور تو اس میں تو لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سرایا

جس طرح قبائل کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عمال بھیجے گئے اسی طرح جزیرۃ العرب کے عام علاقوں میں امن وامان کے دور دورے کے باوجود مختلف مقامات پر متعدد فوجی مہمات بھی بھیجنی پڑیں۔ فہرست یہ ہے :
۱۔ سریہ عُیینہ بن حصن فزاری: ( محرم ۹ ھ)
عیینہ کو پچاس سواروں کی کمان دے کر بنوتمیم کے پاس بھیجا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بنو تمیم نے قبائل کو بھڑکا کر جزیہ کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ اس مہم میں کوئی مہاجر یا انصاری نہ تھا۔
عیینہ بن حصن رات کو چلتے اور دن کو چھپتے ہوئے آگے بڑھے۔ یہاں تک کہ صحرا میں بنوتمیم پر ہلہ بول دیا۔ وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان کے گیارہ آدمی ، اکیس عورتیں اور تیس بچے گرفتار ہوئے جنہیں مدینہ لاکر رملہ بنت حارث کے مکان میں ٹھہرایا گیا۔
پھر ان کے سلسلے میں بنوتمیم کے دس سردار آئے۔ اور نبیﷺ کے دروازے پر جاکر یوں آواز لگائی : اے محمد ! ہمارے پاس آؤ۔ آپﷺ باہر تشریف لائے تو یہ لوگ آپﷺ سے چمٹ کرباتیں کرنے لگے۔ پھر آپﷺ ان کے ساتھ ٹھہرے رہے۔ یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے فخر ومباہات میں مقابلہ کی خواہش ظاہر کی اور اپنے خطیب عطارد بن حاجب کو پیش کیا۔ اس نے تقریر کی۔ رسول اللہﷺ نے خطیب ِ اسلام حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو حکم دیا ، اور انہوں نے جوابی تقریر کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے شاعر زبرقان بن بدر کو آگے بڑھایا اور اس نے کچھ فخریہ اشعار کہے۔ اس کا جواب شاعرِ اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ نے دیا۔ ٔ
جب دونوں خطیب اور دونوں شاعر فارغ ہوچکے تو اقرع بن حابس نے کہا : ان کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ پُر زور اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے زیادہ پُر گو ہے۔ ان کی آوازیں ہماری آوازوں سے زیادہ اونچی ہیں اور ان کی باتیں ہماری باتوں سے زیادہ بلند پایہ ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں بہترین تحائف سے نوازا اور ان کی عورتیں اور بچے انہیں واپس کردیئے۔1
۲۔ سریہ قطبہ بن عامر: (صفر ۹ ھ )
یہ سریہ تربہ کے قریب تبالہ کے علاقے میں قبیلہ خثعم کی ایک شاخ کی جانب روانہ کیا گیا۔ قطبہ بیس آدمیوں کے درمیان روانہ ہوئے۔ دس اونٹ تھے جن پر یہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ مسلمانوں نے شبخون مارا۔ جس پر سخت لڑائی بھڑک اٹھی۔ اور فریقین کے خاصے افراد زخمی ہوئے۔ اور قطبہ کچھ دوسرے افراد سمیت مارے گئے۔ تاہم مسلمان بھیڑ بکریوں اور بال بچوں کو مدینہ ہانک لائے۔
۳۔ سریہ ضحاک بن سفیان کلابی: (ربیع الاول ۹ ھ )
یہ سریہ بنو کلاب کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے روانہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے جنگ چھیڑ دی مسلمانوں نے انہیں شکست دی اور ان کا ایک آدمی تہ تیغ کیا۔
۴۔ سریہ علقمہ بن مجرز مدلجی: (ربیع الآخر ۹ ھ )
انہیں تین سو آدمیوں کی کمان دے کر ساحل جدہ کی جانب روانہ کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ کچھ حبشی ساحل جدہ کے قریب جمع ہوگئے تھے۔ اور اہل مکہ کے خلاف ڈاکہ زنی کرنا چاہتے تھے۔ علقمہ نے سمندر میں اتر کر ایک جزیرہ تک پیش قدمی کی۔ حبشیوں کو مسلمانوں کی آمد کا علم ہوا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔2
۵۔ سریہ علیؓ بن ابی طالب: (ربیع الاول ۹ ھ )
انہیں قبیلہ طی کے ایک بُت کو ... جس کا نام قلس(کلیسا) تھا ... ڈھانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ آپ کی سرکردگی میں ایک سواونٹ اور پچاس گھوڑوں سمیت ڈیڑھ سو آدمی تھے۔ جھنڈیاں کالی اور پھریرا سفید تھا۔ مسلمانوں نے فجر کے وقت حاتم طائی کے محلہ پر چھاپہ مارکر قلس کو ڈھا دیا۔ اور قیدیوں ، چوپایوں اور بھیڑ بکریوں سے ہاتھ پُر کرلیے۔ انہیں قیدیو ں میں حاتم طائی کی صاحبزادی بھی تھیں۔ البتہ حاتم کے صاحبزادے عدی ملک شام بھاگ گئے تھے۔ مسلمانوں نے قلس کے خزانے میں تین تلواریں اور تین زرہیں پائیں۔ اور راستے میں مال غنیمت تقسیم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اہل مغازی کا بیان یہی ہے کہ یہ واقعہ محرم ۹ ھ میں پیش آیا، لیکن یہ بات کھلے طور پر محل نظر ہے۔ کیونکہ واقعہ کے سیاق سے معلوم ہوتاہے کہ اقرع بن حابس اس سے پہلے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ حالانکہ خود اہلِ سیر ہی کا بیان ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے بنوہوازن کے قیدیوں کو واپس کرنے کے لیے کہا تو اسی اقرع بن حابس نے کہا کہ میں اور بنوتمیم واپس نہ کرینگے۔ اس کا تقاضایہ ہے کہ اقرع بن حابس اس محرم ۹ ھ والے واقعہ سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔
! فتح الباری ۸/۵۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کرلیا۔ البتہ منتخب مال رسول اللہﷺ کے لیے علیحدہ کردیا اور آل ِ حاتم کو تقسیم نہیں کیا۔
مدینہ پہنچے تو حاتم کی صاحبزادی نے رسول اللہﷺ سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ ! یہاں جو آسکتا تھا لاپتہ ہے۔ والد گذرچکے ہیں اور میں بڑھیاہوں۔ خدمت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ مجھ پر احسان کیجیے ، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا : تمہارے لیے کون آسکتا تھا۔ بولیں : عدی بن حاتم۔ فرمایا : وہی جو اللہ اور رسول سے بھاگا ہے۔ پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ دوسرے دن اس نے پھر یہی بات دہرائی۔ اور آپﷺ نے پھر وہی فرمایا جو کل فرمایا تھا۔ تیسرے دن پھر اس نے وہی بات کہی تو آپ نے احسان فرماتے ہوئے اسے آزاد کردیا۔ اس وقت آپ کے بازو میں ایک صحابی تھے غالباً حضرت علیؓ ، انہوں نے کہا : آپﷺ سے سواری کا بھی سوال کرو۔ اس نے سواری کا سوال کیا۔ آپ نے سواری فراہم کرنے کا بھی حکم صادر فرمایا۔
حاتم کی صاحبزادی لوٹ کر اپنے بھائی عدی کے پاس ملک شام گئیں۔ جب ان سے ملاقات ہوئی توا نہیں رسول اللہﷺ کے بارے میں بتلایا کہ آپﷺ نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ تمہارے باپ بھی ویسا نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے پاس رغبت یا خوف کے ساتھ جاؤ۔ چنانچہ عدی کسی امان یا تحریر کے بغیر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپﷺ انہیں اپنے گھر لے گئے اور جب وہ سامنے بیٹھے تو آپﷺ نے اللہ کی حمد وثنا کی پھر فرمایا : تم کس چیز سے بھاگ رہے ہو ؟ کیا لاالہ الا اللّٰہ کہنے سے بھاگ رہے ہو؟اگر ایسا ہے تو بتاؤ کیا تمہیں اللہ کے سوا کسی اور معبود کا علم ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ پھر آپﷺ نے کچھ دیر گفتگو کی اس کے بعد فرمایا : اچھا اس سے بھاگتے ہو کہ اللّٰہ اکبرکہا جائے تو کیا تم اللہ سے بڑی کوئی چیز جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : سنو ! یہود پر اللہ کے غضب کی مار ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔ انہوں نے کہا: تو میں یک رُخا مسلمان ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ کا چہرہ فرطِ مسرت سے دمک اٹھا۔ اور اس کے بعد آپﷺ کے حکم سے انہیں ایک انصاری کے ہاں ٹھہرادیا گیا اور وہ صبح وشام آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔1
ابن اسحاق نے حضرت عدی سے یہ بھی روایت کی ہے کہ جب نبیﷺ نے انہیں اپنے سامنے اپنے گھر میں بٹھایا تو فرمایا: او ... عدی بن حاتم ! کیا تم رکوسی نہ تھے ؟ عدی کہتے ہیں کہ میںنے کہا : کیوں نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : کیا تم اپنی قوم میں مال غنیمت کا چوتھائی لینے پر عمل پیرا نہیں تھے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : تو یہ تمہارے دین میں حلال نہیں۔ میں نے کہا: ہاں قسم اللہ کی، اور اسی سے میں نے جان لیا کہ واقعی آپﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ کیونکہ آپﷺ وہ بات جانتے ہیں جو جانی نہیں جاتی۔2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۲۰۵
2 ابن ہشام ۲/۵۸۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسند احمد کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : اے عدی ! اسلام لاؤ سالم رہوگے۔ میں نے کہا : میں تو خود ایک دین کا ماننے والا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا : میں تمہارا دین تم سے بہتر طور سے جانتا ہوں۔ میں نے کہا : آپ میرا دین مجھ سے بہتر طور پر جانتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ! کیا ایسا نہیں کہ تم رکوسی ہو ، اور پھر بھی اپنی قوم کے مال غنیمت کا چوتھائی کھاتے ہو ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے دین کی رو سے حلال نہیں۔ آپﷺ کی اس بات پر مجھے سرنگوں ہوجانا پڑا۔1
صحیح بخاری میں حضرت عدی سے مروی ہے کہ میں خدمت ِ نبوی میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے آکر فاقہ کی شکایت کی۔ پھر دوسرے آدمی نے آکر رہزنی کی شکایت کی۔ آپﷺ نے فرمایا : عدی ! تم نے حِیْرَہ دیکھا ہے ؟ اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھ لو گے کہ ہودج نشین عورت حیرہ سے چل کر آئے گی ، خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھو گے کہ آدمی چلو بھر کر سونا یا چاندی نکالے گا اورایسے آدمی کو تلاش کر ے گا جو اسے قبول کرلے تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا - اسی روایت کے اخیر میں حضرت عدی کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہودج نشین عورت حِیْرَہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کرتی ہے اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں۔ اور میں خود ا ن لوگوں میں تھا جنہوں نے کِسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور اگر تم لوگوں کی زندگی دراز ہوئی تو تم لوگ وہ چیز بھی دیکھ لوگے جو نبی ابو القاسمﷺ نے فرمائی تھی کہ آدمی چلو بھر سونا یا چاندی نکالے گا۔ الخ2
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسنداحمد ۴/۲۰۷،۳۷۸
2 صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۴۱۳، ۱۴۱۷، ۳۵۹۵، ۶۰۳۳ ، ۶۵۳۹، ۶۵۴۰، ۶۵۶۳، ۷۴۴۳،۷۵۱۲
 
Top