• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنہ مفہوم، وسعت اور ہمارا طرزِ عمل

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
آپکا مضمون پڑہا ، مشورے بهی ۔
کیا فتنوں کا خاتمہ کرنا ہمارا کام نہیں ؟ اگر نہیں تو دلائل دیں اور بالفرض ہاں تو کیا دل میں دعاء هی کرتے رہیں؟
قرآن مخلوق هے! اس فتنے کے رد میں کیا عمل کیئے گئے؟ آپ کے مضمون کی روشنی میں ان ردود کو کسطرح سمجہا جائے !
قرآن نے نہی عن المنکر کا واضح حکم دیا هے ! اس بابت آپکے مکمل فقرہ میں آپ نے کہاں سے استدلال لیا هے !
سارے اصلاحی کام روک دیئے جانے چاہئیں اگر ان کا شمار بهی فتنوں میں ہونا شروع ہو جائے ۔ پہر اصلاح کسطرح هوگی؟
عمل سے کوسوں دور محض دعاء کا تصور سمجہا دیں ۔
اللہ تعالی نے ہر چیز کا حل قرآن میں پیش کردیا هے پہر صرف تلاوت کیجائے ، جنگیں لڑنے سے رک جائیں!
موجود اور متوقع فتنوں کے متعلق اجمالاً کچھ عرض ہے ؛


لغت میں فتنہ کی تعریف :

لغت کے مشہور و مسند امام محمد بن أحمد بن الأزهري (المتوفى: 370هـ) لکھتے ہیں :

فتن: جِمَاعُ مَعْنى الفِتْنَةِ فِي كَلَام الْعَرَب الابْتَلاءُ والامْتِحَانُ وَأَصلهَا مأخوذٌ من قَوْلك: فَتَنْتُ الفِضّةَ والذَّهَبَ إِذا أذبتهما بالنَّار ليتميز الرَّدِيء من الجَيِّد، وَمن هَذَا قَول الله جلّ وعزّ: {الدِّينِ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ} (الذاريات: 13) . أَي يُحَرقون بالنَّار، وَمن هَذَا قيل للحجارة السُّودِ الَّتِي كَأَنَّهَا أَحرِقتْ بالنَّار

یعنی : کلام عرب میں فتنہ کے جمیع معنی : ابتلاء ، امتحان ، کے ہیں ، اور لفظ ’’ فتنہ ‘‘ ماخوذ ہے اہل عرب کے اس قول سے
’’ فتنت الفضۃ والذھب ، یعنی میں نے سونے اور چاندی کو آگ میں پگلایا تا کہ ردی اور اچھے کی تمیز ہوسکے ۔

اور اسی سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
{ یومھم علی النار یفتنون } یعنی انہیں آگ میں جلایا جاۓ گا ۔( تھذیب الغۃ 14 / 296 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن اثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

الامتحان والاختبار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقد كثر استعمالها فيما أخرجه الاختبار للمكروه، ثم كثر حتى استعمل بمعنى الإثم، والكفر، والقتال، والإحراق، والإزالة، والصرف عن الشيء.

’’ فتنہ ‘‘ : امتحان اور اختبار ( آزمائش ) کو کہتے ہیں ،
اس کا کثرت سے استعمال ناپسندیدہ آزمائش میں ہوتا ہے ، پھر اس کا استعمال گناہ ، کفر، اور قتال ولڑائ ، جلانے اور زائل اور کسی چيزسے ہٹانے پر بھی ہونے لگا،
( النھایۃ 3 / 410 )
مثلاً اخلاقی گراوٹ اور زوال کا فتنہ
’’ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ؟ " قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ ذَلِكَ (1) ؟ قَالَ (2) : " إِذَا مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ، وَكَانُوا هَكَذَا " وَشَبَّكَ يُونُسُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، يَصِفُ ذَاكَ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَصْنَعُ عِنْدَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " اتَّقِ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَخُذْ مَا تَعْرِفُ، وَدَعْ مَا تُنْكِرُ، وَعَلَيْكَ بِخَاصَّتِكَ، وَإِيَّاكَ وَعَوَامَّهُمْ "
مسند أحمد (6508 )
جناب عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
تیرا کیسا حال ہو گا جب تو بےکار اور کم تر لوگوں میں رہ جائے گا ؟
میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول ﷺ یہ کیسے ہوگا ، ؟
فرمایا : جب وعدوں اور امانتوں میں بگاڑ پیدا ہوگا ،اور لوگ ایسے ہوجائیں گے ،(راوی نے )اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈال کر بتایا کہ ایسے ،
عبد اللہ نے کہا :اس وقت میں کیا کروں ؟
فرمایا :تواللہ کی اطاعت پر قائم رہنا ،نیک کام کرنا ،اور برے کاموں سے بچنا، اور (نکمے ،ناکارہ لوگوں کو چھوڑ کر )اپنے خاص (مخلصین ) کے ساتھ رہنا ،
اللهم احفظنا من الفتن ماظهر منها ومابطن ،،
واحفظ بلادنا وسائر بلاد المسلمين

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوال امت کےفتنہ کے دور کیلئے نبوی تعلیم

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
((ستكون فتن القاعد فيها خير من القائم والقائم فبها خير من الماشي ، والماشي فيها خير من الساعي ،من تشرف لها تستشرفه ،فمن وجد فيها ملجأ أومعاذآ فليعذ به )) رواه البخاري

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فتنوں کا دور جب آئے گا تو اس میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا جو اس میں جھانکے گا فتنہ بھی اسے اچک لے گا اور اس وقت جسے جہاں بھی پناہ مل جائے بس وہیں پناہ پکڑ لے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4/الفرار من الفتن ، فعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ((يوشك أن يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن )) رواه البخاري .

ان میں سے کچھ علامات ۔فتنوں ۔کی شکل میں ہیں ،اور ہونگی
ان میں سے جن کا تعلق انسانی عمل ،اختیار سے ہے ۔
ان کی موجودگی میں ہماری ذمہ داریاں حسب حال ہونی ضروری ہیں
یعنی جیسا فتنہ ،اس سے بچنے کے مطلوب شرعی ،فطری تقاضوں کی ادائیگی ۔
کسی فتنہ کا علاج علم ،کسی کا عبادات ،،کسی کا علاج جہاد ۔کسی کا اخلاق حسنہ ۔۔کسی کا دعوت و تبلیغ ۔۔وغیرہ وغیرہ
اور یہ بہت وسیع موضوع ہے ،جس پر کتابیں موجود ہیں ۔

اگر جامع اور مختصر بات کی جائے تو فتنوں کے سبب ایمان و تقوی ہاتھ سے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ،لہذا:
اپنے ایمان کی حفاظت کی جائے،تقوی سے!
اور اپنے ماحول کو ایمانی بنانے کیلئے علم وحکمت سے دعوت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کام لینا چاہیئے

(۱) اپنے ایمان کی حفاظت ،
(۲)ماحول میں اصلاح کیلئے کوشش ۔(اپنی صلاحیت اور دائرہ اختیارکے مطابق )
اور اپنی صلاحیت اور دائرہ اختیار کے لحاظ سے ذمہ داری اور عمل کی شکل مختلف ہوگی ،گو سب ایک ہی کام کر رہے ہونگے
مثلاً ۔شرک کا فتنہ اس وقت ۔ہمارے اردگرد پھیلا ہوا ہے ۔اس کے سدباب کیلئے جو بھی شرعی جدو جہد اس وقت کا تقاضا ہے
اس کی ادائیگی کی صورتیں مختلف ہیں ۔۔بحیثیت عالم، بحیثیت متعلم ،بحیثیت والدین ،بحیثیت مالداران پر خرچ کرنے والا ۔
بحیثیت ناشر کتاب شایع کرنے والا۔۔
بحیثیت خاندان کا بڑا ، اور گھر کا سربراہ ہونے کے اپنے گھر والوں کی اصلاح کا کردار نبھانے والا ،
اسی طرح دیگر اختیار اور حیثیتوں کے دائرے ۔
لہذا پہلے اپنی حیثیت کا تعین و پہچان کر لی جائے ،کہ میں کیا کر سکتا ہوں ،تو
ذمہ داری متعین بھی ہوجائے گی ،اور ادا بھی ہو سکے گی ؛
یاد رہے ہم نے ۔فتنوں میں مومن کی ذمہ داری ۔۔کا ایک بنیادی نکتہ بیان کیا ہے ۔اس کا ۔۔۔کْل ۔۔بیان نہیں کیا

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ، يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ فَاخْتَلَفُوا، وَكَانُوا هَكَذَا! " (وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ) قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ، وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ، وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۸۸ (۴۸۰) (صحیح)
۳۹۵۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہا را اس زما نہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لو گ چھانے جا ئیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لو گ با قی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہدوپیمان ا وراما نتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کرکے اس طرح ہو جائیں گے'' پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھا ئیں،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات ومسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو توامر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اوربری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت ،ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ۔

(۱) اس حدیث میں پہلی خبر یہ ہے کہ ۔۔(اچھے لوگ سب مرجائیں گے)
اور الحمد للہ ابھی اچھے لوگ ختم نہیں ہوئے ،البتہ کم ضرور ہوئے ہیں ۔( اسلئیے فی الحال ترک معاشرہ اور ترک معاملات کی ضرورت نہیں ،
بلکہ اصلاح کی ضرورت ،اور باقیماندہ اچھے لوگوں سے موالات اور رابطہ کی ضرورت ہے )

(۲) دوسری بات جو اس حدیث میں بتائی گئی ہے۔
''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا،
اس میں جملہ (جو تمہیں اچھی لگے ) سے مراد ایک تو یہ ہوسکتی ہے ۔کہ جو تمہیں ’’ شرعی دلائل ‘‘ کے لحاظ سے اچھی ۔یا۔ بری لگے ۔
جبکہ دوسرا معنی یہ ہے ،کہ ایک وقت آنے والا ہے جب شرعی علم اٹھ جائے گا ،کسی کو شریعت کے احکام کا علم نہیں ہوگا،اس
وقت جو چیز تمھیں فطری طور پر اچھی لگے وہ اپنالینا ۔
اور تیسرا معنی یہ کہ ’‘ جو چیز ’‘ سے مراد ۔۔عقائد و عبادات نہیں بلکہ ۔وقت کے معروضی حالات ہیں۔
بہرحال ابھی اس حدیث میں بیان کردہ حالات نہیں آئے ۔
تاہم ان حالات سے بچاو کے اسباب میں ۔قرآن و سنت کا علم حاصل کرنا ،اور اپنی اور دوسروں کی
حتی الامکان اصلاح کی کو شش کرنا ضروری ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top