• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتوویٰ :سجدوں کی رفع الیدین کرو اور سو شہیدوں کا ثواب کماؤ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
فرقہ جماعت اہل حدیث کے کارکنوں سے درخواست ہے کہ وہ فتاویٰ علمائے حدیث میں موجود اس فتوے پر عمل کیوں نہیں کرتے بھئی شروع کرو اعلان کرو تشہیر کرو تاکہ معلوم تو ہو سکے کہ آپ لوگ مردہ سنتوں کو زندہ کرنے کے بارہ میں کیسی ہمت و محبت رکھتے ہو۔
کتاب :فتاویٰ علمائے حدیث
صفحہ 306

جواب سوال نمبر10-11 بلاشبہ اس کا عامل محی السنۃ المیتتہ ہے اور مستحق اجر سو شہید کا ہے ۔ کماورد فی الحدیث

اور اگر یہ کہو کہ قرآن اور حدیث کے مقابلہ میں کی گئی بات کو رد کرتے ہو تو پھر موصوف فتویٰ دینے والے علامہ و ہمنواؤں کا اسٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کردینا کہ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول کر کیا بنے ؟ اگر موصوف علمائے کرام درست فرماتے ہیں تو آپ حدیث پر عامل ہونے کے دعوے میں کب سچے بنو گے ؟
شکریہ
پیارے سارا وقت
مسٹر محمد ارسلان
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سہج صاحب! عقل کا استعمال کر لیا کریں، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جواب کے آخر میں دیکھیں اہلحدیث عالم نے کیا لکھا ہے۔
کما ورد فی الحدیث
اس کا ترجمہ آتا ہے، یا میں کر دوں؟ انہوں نے جو جواب دیا ہے اس میں واضح ہے کہ انہوں نے کسی حدیث سے استدلال کیا ہے، اگرچہ یہاں انہوں نے حوالہ نہیں دیا ، نہ ہی حدیث کا عربی متن۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کسی ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہو، بہرحال یہ تو اجتہادی مسئلہ ہے، اور اجتہاد غلط ہو یا صحیح، کم یا زیادہ کی صورت میں ثواب بہرحال ملتا ہے۔

اگر اہلحدیث عالم صرف اپنی رائے بیان کرتے اور وہ رائے قرآن و حدیث کے واضح نصوص سے ٹکراتی اور تب کوئی اہلحدیث ان کی بات کو مانتا تو یہ تقلید ہوتی جو کہ حرام ہے۔ ہم ایسا مزاج نہیں رکھتے کیونکہ ہمارے پیش نظر اللہ کا یہ فرمان ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾۔۔۔سورة النساء
ترجمه: جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے


اور ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو اپنے اعمال کی بربادی سمجھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّـهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓا۟ أَعْمَـٰلَكُمْ ﴿٣٣﴾۔۔۔سورۃ محمد
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو


جبکہ آپ کے ہاں ایسا نہیں ہوتا، آپ کے امام ابوحنیفہ کا کوئی قول قرآن و سنت کے خلاف آ بھی جائے تو آپ اپنے امام کی بات مانتے ہیں۔ زیادہ نہیں یہاں صرف آپ کی فقہ کی ایک کتاب "ھدایہ" کے پانچ مسئلے بیان کر رہا ہوں۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
1: (عن ابي قلابة عن انس من السنة اذا تزوج الرجل البكر علي الثيب اقام عندها سبعا وقسم واذا تزوج الثيب اقام عندها ثلاثا ثم قسم قال ابوقلابة ولو شئت لقلت ان انسا رفعه الي النبي صلي الله عليه وسلم)
"حضرت ابوقلابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ دوسری شادی کرنے والا دلہن کے پاس اگر وہ کنواری ہو تو سات دن قیام کرے گا اور اگر وہ بیوہ ہے تو تین دن، پھر دونوں کے لیے باری مقرر کرے گا۔"
تخريج: صحيح البخاري' كتاب النكاح' باب اذا تزوج الثيب علي البكر رقم الحديث : 5214' صحيح مسلم' كتاب الرضاع' باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من اقامة الزوج عقب الزفاف ' رقم الحديث: 1461
فقہ حنفی
والقديمة والجديدة سواء. "یعنی اس بارے میں پہلی اور دوسری بیوی تقسیم کے اعتبار سے برابر ہیں۔" (هدايه اولين ج1' كتاب النكاح' باب القسم ص: 349)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
2: (عن جابر ان النبي صلي الله عليه وسلم قال زكوٰة الجنين زكوٰة امة.)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مادہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔"(تخريج: ابوداود' كتاب الضهايا' باب ما جاء في زكوٰة الجنين' رقم الحديث: 2868' ترمذي ' ابواب الصيد' باب زكوٰة الجنين عن ابي سعيد' رقم الحديث: 1476)
فقہ حنفی:
ومن نحر ناقة او ذبح بقرة فوجد في بطنها جنينا ميتا لم يوكل اشعر او لم يشعر.
"یعنی جس نے اونٹنی نحر کی یا گائےذبح کی اور اس کے پیٹ میں مرا ہوا بچہ پایا تو وہ بچہ کھانے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔" (هداية اخرين كتاب الذبائح' ص: 440 ج4)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
3: (عن جابر ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي يوم خيبر عن لحوم الحمر الاهلية واذن في لحول الخيل)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روک دیا اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب المغازي' باب غزوة خيبر' كتاب الذبائح' والصيد' باب لحوم الخيل' رقم الحديث: 4219'552'5524.صحيح المسلم' كتاب الصيد والذبائح وما يوكل من الحيوان' باب اباحة اكل لحم الخيل' رقم الحديث: 1941 واللفظ لمسلم.
فقہ حنفی:
ويكره لحم الفرس عند ابي حنيفة
"یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت مکروہ ہے۔" (هداية آخرين ج4 الذبائح ص441)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
4: (عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من مات وعليه صيام صان عنه وليه)
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والے پر اگر روزوں کی قضا ہو تو وہ قضا اس کے وارث اس کی طرف سے پوری کریں گے۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب الصوم' باب من مار وعليه صوم' رقم الحديث: 1147. صحيح مسلم' كتاب الصيام' باب فضاء الصوم عن البيت. رقم الحديث: 1952)
فقہ حنفی:
من مات وعليه قضائ رمضان فاوصي به اطعم عنه وليه لكل يوم نصف صاع من برا ومن تمر او شعير ولا يصوم عنه الولي.
"یعنی مرنے والے پر اگر رمضان کے روزوں کی قضا ہو اور وہ ان کے بارے میں وصیت کت جائے تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے تو نہیں رکھ سکتے البتہ ہر دن گندم یا کھجور یا جو کا آدھا صاع میت کی طرف سے (مسکینوں کو) کھلا سکتے ہیں۔"(هدايه اولين ج1 كتاب الصوم باب ما يوجب القضاء والكفارة صفحه: 23-222)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
5: (عن ام الفضل قالت ان النبي صلي الله عليه وسلم وقال لا تحرم الرضعة او الرضعتان)
"سیدہ اُم فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ کی ایک چسکی یا دو چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔"
تخريج: مسلم' كتاب الرضاع' باب المصة والمصتان' رقم الحديث: 3593
فقہ حنفی:
قليل الرضاع وكثيره سواء اذا حصل في مدة الرضاع يتعلق به التحريم.
"دودھ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ، جب رضاعت کی مدت ہو تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔"
هدايه اولين ج٢' كتاب الرضاع صفحه: 350
مزید یہاں دیکھیں۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
سہج صاحب! عقل کا استعمال کر لیا کریں، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جواب کے آخر میں دیکھیں اہلحدیث عالم نے کیا لکھا ہے۔
کما ورد فی الحدیث
اس کا ترجمہ آتا ہے، یا میں کر دوں؟ انہوں نے جو جواب دیا ہے اس میں واضح ہے کہ انہوں نے کسی حدیث سے استدلال کیا ہے، اگرچہ یہاں انہوں نے حوالہ نہیں دیا ، نہ ہی حدیث کا عربی متن۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کسی ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہو، بہرحال یہ تو اجتہادی مسئلہ ہے، اور اجتہاد غلط ہو یا صحیح، کم یا زیادہ کی صورت میں ثواب بہرحال ملتا ہے۔

اگر اہلحدیث عالم صرف اپنی رائے بیان کرتے اور وہ رائے قرآن و حدیث کے واضح نصوص سے ٹکراتی اور تب کوئی اہلحدیث ان کی بات کو مانتا تو یہ تقلید ہوتی جو کہ حرام ہے۔ ہم ایسا مزاج نہیں رکھتے کیونکہ ہمارے پیش نظر اللہ کا یہ فرمان ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾۔۔۔سورة النساء
ترجمه: جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے


اور ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو اپنے اعمال کی بربادی سمجھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّـهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓا۟ أَعْمَـٰلَكُمْ ﴿٣٣﴾۔۔۔سورۃ محمد
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو


جبکہ آپ کے ہاں ایسا نہیں ہوتا، آپ کے امام ابوحنیفہ کا کوئی قول قرآن و سنت کے خلاف آ بھی جائے تو آپ اپنے امام کی بات مانتے ہیں۔ زیادہ نہیں یہاں صرف آپ کی فقہ کی ایک کتاب "ھدایہ" کے پانچ مسئلے بیان کر رہا ہوں۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
1: (عن ابي قلابة عن انس من السنة اذا تزوج الرجل البكر علي الثيب اقام عندها سبعا وقسم واذا تزوج الثيب اقام عندها ثلاثا ثم قسم قال ابوقلابة ولو شئت لقلت ان انسا رفعه الي النبي صلي الله عليه وسلم)
"حضرت ابوقلابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ دوسری شادی کرنے والا دلہن کے پاس اگر وہ کنواری ہو تو سات دن قیام کرے گا اور اگر وہ بیوہ ہے تو تین دن، پھر دونوں کے لیے باری مقرر کرے گا۔"
تخريج: صحيح البخاري' كتاب النكاح' باب اذا تزوج الثيب علي البكر رقم الحديث : 5214' صحيح مسلم' كتاب الرضاع' باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من اقامة الزوج عقب الزفاف ' رقم الحديث: 1461
فقہ حنفی
والقديمة والجديدة سواء. "یعنی اس بارے میں پہلی اور دوسری بیوی تقسیم کے اعتبار سے برابر ہیں۔" (هدايه اولين ج1' كتاب النكاح' باب القسم ص: 349)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
2: (عن جابر ان النبي صلي الله عليه وسلم قال زكوٰة الجنين زكوٰة امة.)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مادہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔"(تخريج: ابوداود' كتاب الضهايا' باب ما جاء في زكوٰة الجنين' رقم الحديث: 2868' ترمذي ' ابواب الصيد' باب زكوٰة الجنين عن ابي سعيد' رقم الحديث: 1476)
فقہ حنفی:
ومن نحر ناقة او ذبح بقرة فوجد في بطنها جنينا ميتا لم يوكل اشعر او لم يشعر.
"یعنی جس نے اونٹنی نحر کی یا گائےذبح کی اور اس کے پیٹ میں مرا ہوا بچہ پایا تو وہ بچہ کھانے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔" (هداية اخرين كتاب الذبائح' ص: 440 ج4)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
3: (عن جابر ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي يوم خيبر عن لحوم الحمر الاهلية واذن في لحول الخيل)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روک دیا اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب المغازي' باب غزوة خيبر' كتاب الذبائح' والصيد' باب لحوم الخيل' رقم الحديث: 4219'552'5524.صحيح المسلم' كتاب الصيد والذبائح وما يوكل من الحيوان' باب اباحة اكل لحم الخيل' رقم الحديث: 1941 واللفظ لمسلم.
فقہ حنفی:
ويكره لحم الفرس عند ابي حنيفة
"یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت مکروہ ہے۔" (هداية آخرين ج4 الذبائح ص441)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
4: (عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من مات وعليه صيام صان عنه وليه)
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والے پر اگر روزوں کی قضا ہو تو وہ قضا اس کے وارث اس کی طرف سے پوری کریں گے۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب الصوم' باب من مار وعليه صوم' رقم الحديث: 1147. صحيح مسلم' كتاب الصيام' باب فضاء الصوم عن البيت. رقم الحديث: 1952)
فقہ حنفی:
من مات وعليه قضائ رمضان فاوصي به اطعم عنه وليه لكل يوم نصف صاع من برا ومن تمر او شعير ولا يصوم عنه الولي.
"یعنی مرنے والے پر اگر رمضان کے روزوں کی قضا ہو اور وہ ان کے بارے میں وصیت کت جائے تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے تو نہیں رکھ سکتے البتہ ہر دن گندم یا کھجور یا جو کا آدھا صاع میت کی طرف سے (مسکینوں کو) کھلا سکتے ہیں۔"(هدايه اولين ج1 كتاب الصوم باب ما يوجب القضاء والكفارة صفحه: 23-222)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
5: (عن ام الفضل قالت ان النبي صلي الله عليه وسلم وقال لا تحرم الرضعة او الرضعتان)
"سیدہ اُم فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ کی ایک چسکی یا دو چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔"
تخريج: مسلم' كتاب الرضاع' باب المصة والمصتان' رقم الحديث: 3593
فقہ حنفی:
قليل الرضاع وكثيره سواء اذا حصل في مدة الرضاع يتعلق به التحريم.
"دودھ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ، جب رضاعت کی مدت ہو تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔"
هدايه اولين ج٢' كتاب الرضاع صفحه: 350
مزید یہاں دیکھیں۔
کوشش آپ نے اچھی کی ہے موضوع کو در بدر کرنے کی لیکن آپ کا واسطہ ایک عدد جاہل سے پڑا ہے مسٹر ارسلان ، جو کسی غیر مقلد کے ڈھکوسلہ میں نہیں آیا کرتا ۔اسلئے خاطر جمع رکھئے آپ کی صرف اس بات کا جواب دیاجائے گا جو موضوع سے مطابقت رکھتی ہے باقی جتنا مرضی کاپی پیسٹ اور لنکس لگاتے رہو ان کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ مکمل جواب کے لئے کچھ انتظار فرمائیے ۔
اور بہتر ہوگا کہ تب تک آپ پوسٹ نمبر ایک میں موجود اٹھائے گئے سوالوں کے جواب لکھ دو تاکہ انہیں بھی میں اپنے مراسلہ میں شامل کرلوں۔
شکریہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کوشش آپ نے اچھی کی ہے موضوع کو در بدر کرنے کی لیکن آپ کا واسطہ ایک عدد جاہل سے پڑا ہے مسٹر ارسلان ، جو کسی غیر مقلد کے ڈھکوسلہ میں نہیں آیا کرتا ۔اسلئے خاطر جمع رکھئے آپ کی صرف اس بات کا جواب دیاجائے گا جو موضوع سے مطابقت رکھتی ہے باقی جتنا مرضی کاپی پیسٹ اور لنکس لگاتے رہو ان کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ مکمل جواب کے لئے کچھ انتظار فرمائیے ۔

شکریہ
اپنی حقیقت تسلیم کرنے کا بہت بہت شکریہ سر
اب واقعی بات نہیں ہو سکتی، کیونکہ ہمیں قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جاہل سے نہیں الجھنا چاہئے اور سلام کر دینا چاہئے لہذا
السلام علیکم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے والئ حدیث کی صحت

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الأُولَى. (مصنف ابن ابی شیبۃ

امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے کہا:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْأُولَى»[مصنف ابن أبي شيبة (1/ 243)]

یہ روایت شاذ ہے کیونکہ ان الفاظ‌ میں اس کی روایت میں‌ ابواسامہ منفرد ہیں‌ ، دیگر رواۃ نے اسی طریق سے اسی روایت کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے ، ملاحظہ ہو:

عبدَ الوهاب الثقفي کی روایت :

امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ , وَإِذَا رَكَعَ , وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ يَرْفَعُهُمَا [رفع اليدين في الصلاة ص: 66]

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا:

حدثنا يونس بن عبد الله ثنا أحمد بن عبد الله بن عبد الرحيم ثنا أحمد بن خالد ثنا محمد بن عبد السلام الخشني ثنا محمد بن بشار ثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي عن عبيدالله ابن عمر عن نافع عن ابن عمر: أنه كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة، وإذا ركع، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، وإذا سجد، وبين الركعتين، يرفعهما إلى ثدييه [المحلى 4/ 93]۔

تنبیہ اول:

ابن حزم کی روایت میں ’’ وإذا قال: سمع الله لمن حمده، وإذا سجد‘‘ سے مراد رکوع اورسجدہ کے بیچ والی حالت ہے۔

یاد رہے کہ رکوع کے بعد والے رفع الیدین کا بیان کبھی رکوع کے لفظ کو ذکر کرکے کیا جاتا ہے اورکبھی کبھی رکوع کے بعد والے سجدہ کا ذکر کرکے کیا جاتا ہے ۔

مثلا:

امام ابوداؤد نے کہا:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ لِلسُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ»[سنن أبي داود (1/ 197) یہ حدیث صحیح ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کا اسے ضعیف قراردینا درست نہیں، حافظ زبیرعلی زئی نے بھی اسے صحیح کہا ہے]۔

اس حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کو ’’وَإِذَا رَفَعَ لِلسُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ‘‘ کہہ کر بیان کیا گیاہے۔

معلوم ہوا کہ ابن حزم کی راویت میں ’’وإذا سجد‘‘ کے ذریعہ رکوع والے رفع الیدین ہی کو بیان کیا گیا

اب رہی یہ بات کہ پھر اس سے پہلے ’’وإذا قال: سمع الله لمن حمده،‘‘ ہے ۔

تو عرض ہے کہ اس پوری عبارت ’’’وإذا قال: سمع الله لمن حمده، وإذا سجد‘‘ سے مراد رکوع کے بعد اورسجدہ سے قبل کا وقت مراد ہے جیساکہ اوپر بخاری کی روایت میں ہے ۔

اس طرح کی مثالیں دیگر مقامات پربھی ملتی ہیں‌ ۔

مثلا:

امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:

أَخْبَرَنَا مَحْمُودٌ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكَبِّرُ بِيَدَيْهِ حِينَ يَسْتَفْتِحُ وَحِينَ يَرْكَعُ , وَحِينَ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , وَحِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ , وَحِينَ يَسْتَوِي قَائِمًا قُلْتُ لِنَافِعٍ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَجْعَلُ الْأَوْلَى أَرْفَعَهُنَّ قَالَ: لَا .[رفع اليدين في الصلاة ص: 40]

اس حدیث میں ’’ وَحِينَ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , وَحِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ‘‘ سے مراد اس دونوں کے بیچ کا وقت ہے ، یہی معاملہ اوپر کی حدیث میں بھی ہے۔

تنبیہ ثانی :

ابن حزم کی روایت میں ’’ وبين الركعتين ‘‘ سے مراد دوسری اورتیسری رکعت کے بیچ کی حالت مراد ہے یعنی پہلے تشھد سے اٹھنے کا وقت ہے ۔

یاد رہے کہ پہلے تشھد کے بعد والی حالت کوبھی ان الفاظ میں بیان کیا جاتاہے ۔

مثلا:

بیھقی کی ایک روایت میں ہے :

إذا جلستم بين الركعتين فقولوا التحيات لله والصلوات والطيبات السلام [السنن الكبرى ت :محمد عبد القادر عطا 2/ 148]

یہاں ’’ بين الركعتين ‘‘ سے مراد تشہد کے بعد کا وقت مراد ہے ۔

یہی مفہوم ابن حزم کی روایت میں‌ بھی ہے ، امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اي بعد القيام من التشهد [ الديباج :2/ 243 ]۔

عَبْدُ الْأَعْلَى کی روایت :
اما م بخاری رحمہ اللہ نے کہا:

حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا قَامَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا [صحيح البخاري 2/ 150]۔

ان دو رواۃ ’’عبدَ الوهاب الثقفي ‘‘ اور ’’عَبْدُ الْأَعْلَى‘‘ نے جو روایت کیا ہے وہی راجح ہے کیونکہ طریق ایک ہی ہے ۔

اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بخاری کی روایت میں‌ انہیں ابن عمررضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے، ظاہر ہے ابن عمررضی اللہ عنہ جیسے صحابی جو چن چن کر سنتوں پرعمل کرنے میں معروف ہیں ۔

یہاں تک بعض احناف نے اپنی اصطلاح کے مطابق انہیں ’’ فنا فی الاتباع ‘‘ کا لقب دیا ہے۔

ایسے صحابی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیسے عمل کرسکتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ابواسامہ کی روایت دو ثقہ رواۃ کی مخالفت کی وجہ سے شاذ ہے اورشاذ روایت مردود ہوتی ہے۔
ان سب کے ساتھ یہ مت بھولیں کہ یہ روایت موقوف ہے اورصحیح اورصریح حدیث‌ رسول کے خلاف ہے لہٰذا اگر اس کی صحت ثابت بھی ہوجائے تب بھی حدیث رسول کے مقابلہ میں اس پرعمل نہیں کیا جاسکتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اور اگر یہ کہو کہ قرآن اور حدیث کے مقابلہ میں کی گئی بات کو رد کرتے ہو تو پھر موصوف فتویٰ دینے والے علامہ و ہمنواؤں کا اسٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کردینا کہ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول کر کیا بنے ؟ اگر موصوف علمائے کرام درست فرماتے ہیں تو آپ حدیث پر عامل ہونے کے دعوے میں کب سچے بنو گے ؟
شکریہ
سہج صاحب! عقل کا استعمال کر لیا کریں، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
کوشش آپ نے اچھی کی ہے موضوع کو در بدر کرنے کی لیکن آپ کا واسطہ ایک عدد جاہل سے پڑا ہے مسٹر ارسلان ، جو کسی غیر مقلد کے ڈھکوسلہ میں نہیں آیا کرتا ۔
اپنی حقیقت تسلیم کرنے کا بہت بہت شکریہ سر
اب واقعی بات نہیں ہو سکتی، کیونکہ ہمیں قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جاہل سے نہیں الجھنا چاہئے اور سلام کر دینا چاہئے لہذا
السلام علیکم
محترم بھائیو اس طرح کی باتوں سے پرہیزکریں ۔ اور علمی انداز سے بحث پر توجہ دیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محترم بھائیو اس طرح کی باتوں سے پرہیزکریں ۔ اور علمی انداز سے بحث پر توجہ دیں ۔
خضر بھائی! دیکھا جائے تو میری باتوں میں کوئی غلط انداز نہیں ہے، بلکہ درست ہے
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
اور جہاں تک بات ہے جاہل کہنے کی تو یہ میں نے نہیں بلکہ خود سہج صاحب نے اس کا اقرار کیا ہے ۔

(تدوین از انتظامیہ )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بھائی آپ کی بہت مہربانی اگر آپ ایسی باتیں نہ کریں جن سے ماحول خراب ہونے کا خدشہ ہو ۔
ہر وہ بات جسے ہم درست سمجھتے ہیں ہر جگہ کرنا ضروری نہیں ۔ امید ہے آپ تعاون فرمائیں گے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top