sahj
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2011
- پیغامات
- 458
- ری ایکشن اسکور
- 657
- پوائنٹ
- 110
اہل حدیث یا شیعہ؟
مولانا قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی کا تجزیہ
مولانا قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
ہر انسان اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ہم مسلک لوگوں کی حمایت حاصل کرتا ہے، تو میاں نزیر حسین جو شیعوں سے امداد لیکر ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کو مدلل کرتا ہے تو لازماً یہ ان کا ہم مسلک ہے۔ اس کے شیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
قاضی شوکانی زیدی شیعہ تھا اور اس کی پارٹی نیم شیعہ
محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
جماعت غیر مقلدین کا بانی زیدی شیعہ کا شاگرد تھا اور خود بھی شیعہ ہوگیا تھا جس کی تفصیل آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ اور زیدی شیعہ کا کوفر کہنا واجب ہے۔ لہٰزہ جماعت غیر مقلدین کو اہل حق میں سے کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ نہ ہی ان کو اہل سنت سمجھا جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ خود کو اہل سنت کہلوانا پسند نہیں کرتے، ورنہ یہ اپنا نام اہل حدیث نہ رکھتے۔ اسلئے ان کو نرم سے نرم الفاظ میں شیعہ یا چھوٹے رافضی کہہ سکتے ہیں ، ورنہ بقول قاری عبدالرحمٰن محدث ان کا کفر شیعوں سے کہیں بڑھا ھوا ہے۔
قاری عبدالرحمٰن صاحب کے الفاظ یہ ہیں۔
دیکھئے حضرات غیر مقلد جس رفع یدین ،آمین بالجہر، اور فاتحہ خلف الامام پر حنفیوں سے عمل کروانا چاھتے ہیں یہ ہمارے ہاں متعارف اور معمول نہیں اور بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ غیر متعارف احادیث اور غیر معمولی سنتوں کو پیش کرکے ان پر عمل کے طالب ہوں ان کو دجال ، کذاب سمجھو ان سے بچ کر رہو اور ان سے دشمنی اختیار کرو۔
غیر مقلد جدید رافضی ہیں
قاری عبدالرحمٰن صاحب محدث فرماتے ہیں۔
محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں
محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں۔
حنفی بزرگوں کو مولانا شاہ محمد اسحٰق صاحب کے اس فتوے سے سبق حاصل کرتے ہوئے غیر مقلدین کے متعلق اپنی مداہنت اور رواداری پر نظرثانی کرنی چاہئے ، کیونکہ ہم نے ان سے رواداری کرکے بہت نقصان اٹھایا ہے، حنفی بزرگ تو یہ سمجھتے رہے کہ ہمارا غیر مقلدوں سے صرف رفع یدین اور آمین بالجہر کا اختلاف ہے جو چنداں مضر نہیں، اور اس میں حق و باطل والی کوئی بات نہیں، مگر یہ لوگ ہمارے عوام کو اغوا کرتے رہے اور حدیث حدیث کے واسطے دے کر انہیں حنفیت سے برگشتہ کرکے غیر مقلد بناتے رہے، میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ہمارے بزرگ مداہنت سے کام نہ لیتے اور ان لوگوں پر وہی فتوے لگاتے جو علماء دہلی نے لگایا تھا ، انہیں ضال مضل کہتے جیسے شاہ محمد اسحٰق صاحب نے کہا، انہیں برملہ شیعہ کہتے جیسے قاری عبدالرحمان محدث کہہ رہیں ہیں ، تو یہ فتنہ اپنے پنگھوڑے سے باہر قدم نہ رکھتا بلکہ یہ اپنی موت آپ مرجاتا۔
غیرمقلد یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم محدثین کے مزہب پر ہیں، گویا محدث بھی ان کی طرح غیر مقلد تھے، حاشا و کلا ایسا ہرگز نہیں ۔ دیکھئے محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں۔
اجماع امت اور قیاس کی حجیت کے غیر مقلد اور شیعہ دونوں منکر ہیں ۔
قارئین کو معلوم ہونا چائیے کہ اصول شریعت اسلام بالتفاق علماء امت چار ہیں۔
نمبر1
کتاب اللہ
نمبر2
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نمبر3
اجماع امت
نمبر4
قیاس شرعی
انہیں چاروں پر اصول و فروع کا مدار ہے، تمام اہل سنت خواہ وہ حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی، ان چاروں کی حجیت تسلیم کرتے ہیں، اور جو ان چاروں کو حجت نہ مانے اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن غیر مقلد ٹولہ ان میں سے پہلے دو کے ماننے کا دعوٰی کرتا ہے مگر دوسرے دونوں کا انکار کرتا ہے ، یہ اجماع امت اور قیاس شرعی کو نہیں مانتے محض اس وجہ سے ان کا آدھا اسلام تو رخصت ہوا۔ باقی آدھا جس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مدار ہے اس کو اپنی مرضی سے مانتے ہیں۔ یعنی آیت کی تفسیر اور حدیث کی تشریح میں یہ علماء سلف کے پابند نہیں۔ ان کے ہاں اس کے وہ معنی و مفہوم معتبر ہیں جو ان کی اپنی سمجھ میں آجائے۔ خواہ وہ اجماع امت کے خلاف ہو، فقہا و محدثین کے خلاف ہو ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ لہٰزہ کتاب و سنت کو ماننا بھی ان کا برائے نام ہے، یہ بھی کوئی ماننا ہے جو تفسیر بالرائے کے زمرے میں آتا ہو ۔ ساری امت کہتی ہے آیت "واذاقری القرآن فاستمعوا لہ و انصتو لعلکم ترحمون" نماز کے متعلق نازل ہوئی مگر یہ بضد ہیں کہ خطبہ کے متعلق ہے۔
ساری امت متفق ہے کہ اک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور بیوی اس سے مغلظ ہوجاتی ہے، اسکے بعد " فلا تحل لہ من بعدہ حتٰی تنکح زوجا غیرہ" کا حکم اس پر لازم آتا ہے ، مگر یہ کہتے ہیں کہ اک مجلس کی دی ہوئی طلاقیں خواہ سو ہو ، وہ ایک ہی بنتی ہے اس سے بیوی مغلظہ نہیں ہوتی بلکہ خاوند کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے ۔ اور خدا نا ترس لوگ ایسے کیس میں بیوی کو واپس کرادیتے ہیں۔ وہ ساری زندگی زنا کراتی اور ولد الزنا جنم دیتی ہے۔ جسکا وبال اس پر کم اور ان غلط کار مفتریوں پر زیادہ ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے غلیظ فتوے کی آڑ میں اس کو زنا کا موقع فراہم کیا ہے۔ تو یہ قرآن و حدیث کو ماننا نہیں ، اسکو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ہے ۔ جس کو اسلام نہیں کہہ سکتے ، بلکہ یہ تو اسلام کے ساتھ مزاق ہے۔
اب اجماع و قیاس کو نہ ماننے کا شیعہ وغیر مقلد توافق ملاحظہ فرمائیں۔
خلفائے ثلاثہ حضرات
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
عمر فاروق رضی اللہ عنہ
عثمان غنی رضی اللہ عنہ
کی خلافتیں امت کے اجماع سے ثابت ہیں ، مگر شیعہ ان کو نہیں مانتے تو وہ اجماع کے منکر ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیس تراویح رائج کیں، مجلس واحد میں تین طلاقوں کو تین قرار دیا ، نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کیا تو کسی صحابی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ، یہ تینوں مسئلے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اجماع سے ثابت ہوئے، پھر ان مسئلوں کو نہ شیعوں نے مانا اور ناہی غیر مقلدوں نے، تو اسطرح یہ دونوں فریق اجماع امت کے منکر ہوئے ۔ اور اجماع امت تیسرا اصول اسلام ہے تو اس کے انکار کی وجہ سے ہم شیعوں کو تو کافر کہتے ہیں ، مگر ابھی غیر مقلدوں کو نہیں ، کیونکہ ان کا انکار ابھی کھل کر علماء کے سامنے نہیں آیا، اور ناں ہی یہ عوام کے علم میں ہے، اسلئے فی الحال ان کے کفر کا فتوٰی نہ دینا ایک احتیاط ہے۔
لیکن ان کی منہ زوری اور بے لگامی کا یہی حال رہا اور یہ اکابرین اسلاف کرام کی گستاخی بے ادبی تحقیر میں بڑھتے ہی گئے اور اسلام کے مسلمہ اصولوں سے انحراف پر پختہ ہوتے چلے گئے تو پھر وہ وقت بھی آجائے گا کہ یہ اسی مقام پر کھڑے ہوں گے جس مقام پر حضرت مولانا حق نواز شہید رحمہ اللہ کی کوششوں سے آج شیعہ کھڑے ہیں، قدرت ان کے لئے بھی کسی حق نواز کو کھڑا کرے گی۔
(ان شاء اللہ)
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بینظیر کتاب "منہاج السنۃ" میں روافض کا درج ذیل اعتراض نقل کرتے ہیں ، جس کو غیر مقلدین بڑے فخر سے اچھالتے ہیں کہ
شیعہ کے اعتراض کی تفصیل
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ صاحب شیعوں کے اس اعتراض کو نقل کرکے اس کا دندان شکن جواب بھی دیتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی کا جواب
یہی حماقت غیر مقلدین کر رہے ہیں کہ دین اور مزہب کو ایک چیز سمجھ کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں کہ خدا کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب تو ایک تھا ، مگر ان مقلدوں نے چار مزہب بنالئے ہیں، ہم پھر اسکو ایک کرنا چاہتے ہیں۔عوام بے چارے دین اور مزہب کا فرق کیا سمجھیں ، وہ ان کے چکر میں آجاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دین تو سب مقلدین کا اب بھی اک ہے ، لیکن مزہب مختلف ہیں، جیسے چار شخصوں کی منزل تو ایک ہو لیکن وہ چاروں مختلف راستوں سے اس منزل تک پہنچیں ۔ کوئی مشرق سے، کوئی مغرب سے، کوئی شمال سے، کوئی جنوب سے۔ جیسے خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں آنے کے لئے کوئی باب السلام سے آئے یا باب عبدالعزیز سے ، کوئی باب صفا سے آئے یا باب عمرہ سے، وہ بہرحال مسجد حرام میں پہنچ جائے گا۔
مزہب کا معنی راستہ ہے اور راستے کئی ہوسکتے ہیں ، مگر منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ اب دین و شریعت کے معروف راستے یہی چار ہیں۔ حنفی،شافعی، مالکی، اور حنبلی ، ان کو تو موٹر وے کہنا چاھئے۔ ان کے علاوہ جو اور لوگوں نے راستے بنائے ہیں یا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ غیر معروف برانچیں ہیں، انکے زریعے منزل تک پہنچنا یقینی نہیں۔ وہ راہیں خطرناک اور پر صعوبت ہیں اور دانش مندوں نے کہا ہے۔
برو راہ راست گرچہ دور است
اسی لئے سلامتی اور منزل تک یقینی رسائی کا تقاضا یہی ہے کہ انہی معروف شاہراہوں پر چلاجائے جن پر چل کے اکابر ملت منزل پر پہنچے ہیں اور غیر مقلدین کی بنائی ہوئی برانچوں اور پگڈنڈیوں میں اپنی عمر عزیز ضائع نہ کی جائے۔
غیر مقلدین علامات قیامت میں سے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
فقہ حنفی کی مذمت میں غیر مقلدین شیعہ کے خوشہ چیں ہیں۔
ہندستان میں فقہ حنفی کی مزمت میں سب سے پہلی کتاب "استصقاءالافحام" لکھی گئی جو ایک متعصب شیعہ حامد حسین کستوری کی تصنیف ہے، اسکے بعد غیر مقلدین کی طرف سے جتنی کتابیں لکھی گئیں ہیں، وہ سب اسی کتاب کی نقالی اور شیعوں کی قے خوری ہے۔ ہماری اس بات کی تصدیق مشہور غیر مقلد عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
مطلق فقہ سے نفرت و انکار۔
جسطرح شیعہ حضرات مطلق فقہ اہل سنت کے منکر ہیں اسی طرح غیر مقلدین بھی بلا استثنا چاروں مزاہب کی فقہ کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ فقہ کا نام آتے ہیں ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، تنفس تیز ہوجاتا ہے اور منہ سے کف آنے لگتی ہے۔ حالانکہ فقہ کا حکم قرآن پاک نے دیا ہے اور مطلق فقہ کی فضیلت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے ، دیکھئے قرآن پاک کا کہنا ہے ،
فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین
"کہ کیوں نہ نکلی ان کے ہر گروں میں سے اک جماعت جو دین کی فقہ حاصل کرتی؟"
من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین
"یعنی جس شخص کے ساتھ اللہ تبارک و تعالٰی خیر کا ارادہ کرتے ہیں اسے تفقہ فی الدین کی دولت سے نوازتے ہیں"
جس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالٰی "شر" کا ارادہ رکھتے ہیں اسے فقہ کی دولت سے محروم کردیتے ہیں۔ جیسے غیر مقلدین فقہ کی دشمنی اختیار کرکے اس دولت عظمٰی اور نعمت عالیہ سے محروم ہیں اور جو خوش قسمت افراد اس نعمت سے مالا مال ہیں ، جیسے فقہا امت اور مجتہدین ملت یا ان کے خوش نصیب مقلدین یہ لوگ ان کے نام سے جلتے ہیں اور ان کی خداداد شہرت سے انگاروں پر لوٹتے ہیں۔
فقہ و اجتہاد میں ان کی سعی مشکور کو نیست و نابود کرنے کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کا بس چلے تو فقہ کا تمام دفتر غرق مئے ناب کردیں۔ مگر خداوند تعالٰی گنجے کو کبھی ناخن نہیں دے گا۔ مطلق فقہ حنفی کا آفتاب نصف النہار پر سدا چمکتا دمکتا رہے گا۔(ان شاء اللہ) ان چمگادڑوں کی آنکھیں اس کو دیکھ دیکھ کر خیرہ ہوجائیں گی، مگر یہ فقہ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ جیسے دنیا بھر کے کفار قرآن پاک کو مٹادینے پر تلے ہوئے ہیں، مگر قرآن پاک کا اک حرف بھی تبدیل نہیں کرسکیں گے اور ناں ہی قرآن پاک کی کسی زیر زبر کو مٹاسکیں گے۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
واضح ہوکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ نام ہے اہل سنت والجماعت کا ، جو مزاہب اربعہ میں منقسم ہے۔ حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی ان چاروں کو شیعہ بھی کافر کہتے ہیں اور غیر مقلدین بھی مشرک کہتے قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ سارے مشرک ہیں تو مسلمان کیا اس شرمئہ قلیلہ اور گروہ آوارہ کا نام ہے جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں؟؟؟ کیا روز محشر امتیوں کی ایک سو بیس صفحوں میں سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی 80 صفحیں ان غیر مقلدین سے بنے گی جو تعداد میں شیعوں سے بھی کم ہیں؟؟؟ اگر ان کی صف بنائی جائے تو لاہور سے لے کر مریدکے تک ختم ہوجائے گی۔ حق یہ ہے کہ ناجی صرف اہل سنت والجماعت ہیں ، جو دنیا کے آخری کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اور واضح رہے کہ قرون اولٰی کے اہل حدیث خود اہل سنت میں شامل تھے ، موجودہ فرقہ اہل حدیثوں کو ان اہل حدیثوں سے کوئی نسبت نہیں ۔ وہ اک علمی طبقہ تھا جس کا کام الفاظ حدیث کی خدمت کرنا اور سند حدیث کو محفوظ کرنا تھا، ان میں سے کوئی بھی جاہل نہیں ہوتا تھا ، بلکہ وہ کم از کم ایک لاکھ حدیث کے حافظ ہوتے تھے،(موجودہ فرقہ اہل حدیث نامیوں کی طرح موچی ڈرائیور اور دودھ فروش نہیں تھے) اور وہ کسی ایک فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، وہ مالکی بھی تھے اور حنبلی بھی۔ ان مومنین صادقین اہل سنت والجماعت کو جو گمراہ اور مشرک قرار دیتا ہے وہ خود گمراہ اور کافر ہے، جیسا کہ حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی بے مثال تصنیف " الشفاء" میں لکھا ہے کہ آپ فرماتے ہیں،۔
اس عبارت کے پہلے حصے کے مصداق غیر مقلد ہیں اور دوسرے کے شیعہ، کیونکہ شیعہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کو کافر کہتے ہیں اور غیر مقلدین جمیع آئمہ اربعہ کو مشرک بتاتے ہیں۔
تو یہ آئمہ کی توہین کرنا بالخصوص امام الائمہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کو جلی کٹی سنانا اور ان کے مقلد حنفی فقہاء و محدثین پر تعن کرنا اور تمام حنفیوں کو مشرک کہنا یہ آج کل غیر مقلدوں کا دن رات کا وظیفہ ہے، اسلئے بحفوائے فتوائے میاں نذیر حسین یہ لوگ چھوٹے رافضی نہیں تو اور کون ہیں ؟
نام نہاد اہلحدیث یا شیعہ؟
برادران اہل سنت ! غیر مقلدین ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے آپ کو حدیث کا تنہا وارث قرار دیتا ہے اور اپنے بلمقابل تمام مقلد مسلمانوں کو حدیث کا مخالف اور رائے کا پجاری کہتا ہے ۔
سیدھے سادھے حنفی مسلمان ان کے "اہل حدیث" نام سے دھوکہ کھاکر ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اسلئیے ضروری ہے کہ انکی اصلیت کو واشگاف کیا جائے اور ان لوگوں نے اپنے اوپر منافقت کے جو پردے ڈال رکھے ہیں ،چاک کرکے ان کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھایا جائے،کہ جسے لوگ بے خبری کی وجہ سے "اہلحدیث" سمجھتے ہیں وہ حقیقتاً رافضی اور شیعہ کا چہرہ ہے۔
اس مضمون میں انہی نام نہاد اہل حدیثوں کے اکابر کی عبارات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہندستان میں تحریک اہلحدیث درحقیقت رافضیت و تشیع کے سوا کچھ نہیں۔ یہ دور حاضر میں شیعت کی تجدید کا دوسرا نام ہے ۔ نہ ان کو حدیث سے محبت ہے ،نہ یہ اہلحدیث ہیں ۔ ان کا اہل حدیث کہلوانا ایسا ہی ہے جیسے ایک اور فرقے نے اپنا نام "اہل قرآن" رکھ لیا ہے ۔ وہ قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرتے ہیں یہ حدیث کا نام لیکر قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہوجاتے ہیں۔ اسکی مثالیں آپ کو آئیندہ صفحات میں باافراط ملیں گی۔
مولوی عبدالحق بنارسی ہندستان میں تحریک "اہلحدیث" کا بانی مبانی ہے، سب سے پہلے اسکا حدود اربعہ ملاحظہ فرمائیے۔
مولوی عبدالحق بنارسی اور قاضی شوکانی
مقدمہ نگار لکھتا ہے۔یہ بنارس کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے ہندستانی علماء کے علاوہ یمن کے شوکانی زیدی شیعہ سے بھی علم حاصل کیا تھا ۔ شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کا ثبوت "تفسیر فتح القدیر" کے مقدمہ میں موجود ہے۔
"تفقہ علی مزھب الامام زید و برع فیہ و الف وافتٰی
حتٰی صار قدرہ فیہ و طلب الحدیث و فاق فیہ اھل
زمان حتی خلع ربتہ التقلید و تحلی بمنصب الاجتھاد"
(فتح القدیر۔صفحہ5)
یہ تو شوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کی صراحت ہے، مولوی عبدالحق کا اس کے شاگرد ہونے کا مسئلہ وہ وہیں سے حل ہوجاتا ہے ، مقدمہ نگار چند سطر پہلے "بعض تلامیزہ الذین اخذوا عنہ العلم" کے عنوان کے تحت لکھتا ہے،یعنی اس نے مزہب امام زید کے مطابق فقہ حاصل کی، حتٰی کہ اس میں پورا ماہر ہوگیا۔ پھر تالیفات کیں اور فتوے دئیے حتٰی کہ اسمیں ایک نمونہ بن گیا یا مقتدا ہوگیا، اور علم الحدیث کی طلب میں لگا تو اپنے اہل زمان سے فوقیت لے گیا، یہاں تک کہ اسنے اپنے گلے سے تقلید کی رسی کو اتار ڈالا اور منصب اجتہاد کا مدعی ہوگیا۔
"اخذ عنہ العلم ۔۔۔۔۔ الشیخ عبدالحق بن فضل الھندی "
(مقدمہ فتح القدیر مصری،صفحہ 5)
یعنی آپ سے علم حاصل کرنے والوں میں علامہ شیخ عبدالحق بن فضل ہندی بھی ہے یہی عبدالحق بنارسی ہے ۔ عبدالحق کے شیعہ اور غیر مقلد ہونے کے متعلق مولانا عبدالخالق کی تحریر ملاحظہ فرمائیں، جو غیر مقلدوں کے "شیخ الکل میاں"نزیر حسین دہلوی" کے استاد اور خسر ہیں۔ آہ اپنی کتاب "تنبیہ الضالین،صفحہ 3" پر لکھتے ہیں۔
ایسے ہی انہوں نے اک اور مقام پر بھی یہ لکھا ہے کہ "عبدالحق بنارسی جو فرقہ غیر مقلدین کا بانی ہے اپنی عمر کے درمیانی حصہ میں رافضی(شیعہ) ہوگیا تھا۔"سو بانی مبانی اس فرقہ نو احداث کا عبدالحق ہے، جو چند روز سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المومنین (سید احمد شہید رحمۃ اللہ) نے ایسی ہی حرکت ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے ان کو نکال دیا تھا اور علمائے حرمین نے اس کے قتل کا فتوٰی لکھا تھا ، مگر یہ کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا۔"
عبدالحق بنارسی کے شیعہ ہونے کا دوسرا ثبوت
مشہور غیر مقلد مصنف نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں۔
عبدالحق بنارسی کا علی الاعلان شیعہ ہونا"در اوسط عمر بعض درعقائد ایشاں و میل بسوئے
تشیع و جز آں معرفت است۔"
(سلسۃ العسجد)
یعنی کہ عبدالحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصے میں اس کے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف رجحان بڑا مشہور ہے۔
قاری عبدالرحمان صاحب محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
"بعد تھوڑے عرصہ کے مولوی عبدالحق بنارسی صاحب ، مولوی گلشن علی کے پاس گئے، دیوان راجہ بنارس کے شیعہ مزہب تھے اور یہ کہا کہ میں شیعہ ہوں اور اب میں ظاہر شیعہ ہوں ، اور میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں ہزار ہا اہل سنت کو قید مزہب سے نکال دیا ہے اب ان کا شیعہ ہونا بہت آسان ہے ۔ چنانچہ مولوی گلشن علی نے تیس روپے موہوار کی نوکری کروادی۔"
(کشف الحجاب،صفحہ 21)
ناظرین باتمکین کو اب تو غیر مقلدین کے مخفی شیعہ ہونے میں تامل نہیں ہونا چاھئے ، کیونکہ اس جماعت کے بانی "عبدالحق بنارسی" کا علی الاعلان شیعہ ہونا ثابت ہوگیا ہے۔ جس جماعت کا بانی نوکری کے لئے شیعہ ہوگیا ہو وہ جماعت کیسے اہل سنت ہوسکتی ہے ؟ دراصل ان کا اپنے آپ کو اہل حدیث کہنا ازروے تقیہ ہے، جو روافظ کا مشہور عقیدہ ہے۔
بنارس کے ٹھگ
آپ کو معلوم ہے کہ بنارس کے ٹھگ بہت مشہور ہیں ، یہ مولوی عبدالحق بنارسی اور اس کی پارٹی بھی ٹھگوں کا ایک گروہ ہے، جس نے مسلمانان احناف کے جان و مال کو ، انکے دین اور ایمان کو بنام "حدیث" ٹھگ لیا ہے ۔ ٹھگی کرنے کے لئے کوئی خوبصورت اور دلکش سوانگ رچانا پڑتا ہے تاکہ شکار مشتبہ نہ ہو اور آرام سے اس کے جال میں پھنس جائے۔ جیسے مولانا ظفر علی خان رحمہ اللہ نے مرزائیوں کے متعلق کہا تھا،
مسیلمہ کے جانشین گرہ کٹوں سے کم نہیں
جیب کترے لے گئے پیمبری کی آڑ میں
اسی طرح مولوی عبدالحق بنارسی اور اس کے جانشینوں نے حدیث کی آڑ میں بہت سے احناف کی جیب صاف کرلی اور انہیں اسلاف کرام سے ورثہ میں ملے ہوئے خالص اسلام اور ایمان سے محروم کردیا، اور اپنا خودساختہ دین اور مزہب اور اجماع امت کے برخلاف موقف و مسلک کا قائل کرلیا۔ " فوااسفاہ" جو بدنصیب لوگ ان کے حکمے آگئے وہ ہر وقت حدیث حدیث کا لفظ سن کر پختہ ہوجائیں گے ، مگر انہیں علم نہیں ہوگا کہ یہ ہمیں حدیث کی آڑ میں سنت سے دور کر رہے ہیں ، اور اہل حدیث کی رٹ لگا کر یہ ہمیں اہل سنت سے نکال رہے ہیں ۔
حدیث و سنت
حالانکہ حدیث تو ہر طرح کی ہوتی ہے ، موضوع بھی، مرجوح بھی ، منسوخ بھی، معلول بھی ، متروک بھی اور محتمل بھی۔ پتانہیں جس حدیث کی طرف وہ(نام نہاد اہل حدیث فرقہ) بلارہے ہیں وہ کس درجہ اور کس زمرے کی حدیث ہے۔ مگر سنت ان تمام احتمالات سے پاک "صرف سنت" ہوتی ہے، جس میں ایسی کوئی علت نہیں ہوتی اور وہ بہرحال قابل عمل اور معیار حق ہوتی ہے ، کیونکہ آخر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معمول رہی ہوتی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کا عمل بھی اس کے مطابق ہوتا ہے ، اسلئے حدیث کے بلمقابل سنت کا راستہ احوط،محفوظ،اور زیادہ قابل عمل ہے۔
ہم حنفی شافعی مالکی حنبلی سب "اہل سنت " ہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلوا کر خوش ہوتے ہیں ۔ اسلئے مقابلہ حدیث اور اقوال آئمہ کا نہیں ، جسے غیر مقلد مشہور کرتے ہیں، بلکہ مقابلہ حدیث اور سنت کا ہے۔ ان کے پاس برائے نام حدیث ہے اور ہمارے پاس سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
پھر ہر سنت حدیث ہوتی ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں، اسلئے راستہ اہل سنت ہی کا واحد قابل نجات راستہ ہے، اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین عظام رحمہ اللہ ، آئمہ مجتہدین رحمہ اللہ اور فقہاء و محدثین رحمہ اللہ نے ہر دور میں چل کر دکھا یا ہے اور اس پر چلنے والے ان بزرگان امت اور اسلاف کے پیچھے پیچھے منزل مقصود تک پہنچے ہیں اور پہنچ رہے ہیں ۔
سنت کا معنی
سنت کا معنی ہی یہ ہے کہ
اور اب تقابل اور وضاحت کے بعد عیاں ہوجانا چاھئیے کہ سلامتی کی راہ سنت کی راہ ہے، جس کو ساری یا اکثر امت کی حمایت حاصل ہے اور حدیث کی راہ شاذ اور منفرد افراد کی راہ ہے، جس میں سلامتی کی کوئی امید نہیں۔ کسی بھی حدیث کو دیکھ یا سن کر اسکو اپنا معمول نہیں بنالینا چاھئیے جب تک معلوم نہ ہوجائے کہ امت نے اس کو "تلقی بالقبول" بخشی ہے یا نہیں، کیونکہ اگر آئمہ مبتوعین نے اس کو معمول نہیں بنایا تو یقیناً اس میں کوئی مخفی علت ہوگی جس کی وجہ سے عمل نہیں ہے،ورنہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اکابر و اسلاف جو حدیث و سنت کے شیدائی تھے، اس کو بلاوجہ ترک کر دیتے، جیسے مغرب سے پہلے کی دورکعت ، ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمٰعین نے نہیں پڑھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی کو عامل نہیں پایا تو یہ حدیث تو بے شک ہے لیکن قابل عمل سنت نہیں۔"الطریقۃ المسلمو کۃ فی الدین"
یعنی دین میں جس راستے پر امت کی اکثریت چلتی ہو وہ سنت ہے۔
مولوی عبدالحق بنارسی کے متعصب غیر مقلد اور گستاخ ہونے کی دلیل۔
مولانا سید عبدالحئی لکھنوی اپنی مایا ناز تصنیف (الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند،صفحہ104) پر لکھتے ہیں،
مولوی عبدالحق بنارسی کے شیعہ اور تبرائی ہونے کی اک اور دلیل"منھم من سلک مسلک الافراط جدا و بالغ فی
حرمۃ التقلید و جاوز عن الحدود و بدع المقلدین
و ادخلھم فی اھل الاھواء و وقع فی اعراض الائمۃ
لا سیما الامام ابی حنیفۃ رحمہ اللہ و ھذا مسلک
الشیخ عبدالحق بن فضل اللہ بنارسی۔"
(الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند،صفحہ104)
یعنی ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو حد سے بڑھ گئے ہیں اور تقلید کی حرمت میں بے حد مبالغے سے کام لے کر حدود کو پھلانگ گئے، مقلدین کو بدعتی قرار دیا اور ان کو اہل ھواء میں داخل کردیا۔ آئمہ کرام بالخصوص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توہین و تنقیص میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ مسلک ہے عبدالحق بن فضل بنارسی کا۔
مولوی عبدالحق بنارسی کے دوست اور ہم سبق مشہور محدث قاری عبدالرحمٰن صاحب پانی پتی ، اپنی کتاب (کشف الحجاب،صفحہ 21) پر لکھتے ہیں،
"اس نے میرے سامنے یہ بات کہی کہ "عائشہ( رضی اللہ عنہا) علی (رضی اللہ عنہ) سے لڑی، اگر توبہ نہیں کی تو مرتد مری۔"
(نعوذبااللہ من ذالک البکواس)
کہتے ہیں کہ دوسری مجلس میں اس نے یہ بھی کہا کہ صحابہ کرام کا علم ہم سے کم تھا ، انکو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں اور ہمیں ان سب کی حدیثیں یاد ہیں۔
(استغفراللہ العظیم)
کیا کوئی سنی مسلمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین اور اپنی روحانی ماں اور زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گستاخانہ الفاظ استعمال کرسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ یہ تھا کچھ حدود اربعہ اور تعارف مولوی عبدالحق بنارسی بانی جماعت اہل حدیث یعنی غیر مقلدین کا۔
غیر مقلد عالم کی رائے کہ اھل حدیث شیعہ اور روافض کے خلیفہ و وارث ہیں
غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دھلوی کے استاد مولانا عبدالخالق کا تبصرہ"پس اس زمانے کے جھوٹے اہل حدیث، مبتدعین ، مخالفین سلف صالحین جو حقیقت "ماجاء بہ الرسول" سے جاہل ہیں، وہ صفت میں وارث اور خلیفہ ہیں شیعہ اور روافض کے، یعنی جسطرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب اور دہلیز کفر و نفاق تھے اور مدخل ملاحدہ و زنادقہ کا ہے اسلام کی طرف، اسی طرح جاہل بدعتی اہل حدیث اس زمانے میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے، بعینہ مثل اہل الشیعہ کے۔۔۔۔ مقصود یہ ہے کہ رافضیوں میں ملاحدہ تشیع ظاہر کرکے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسنین رضی اللہ عنھما کی غلو سے تعریف کرکے سلف کو ظالم کہہ کے گالی دیں اور پھر جس قدر الحاد و زندقہ پھیلادیں کچھ پروا نہیں۔ اسی طرح ان جاہل کاذب اہل حدیثوں میں ایک "رفع یدین" کرلے اور تقلید کا رد کرے اور سلف کی ہتک کرے، مثل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جن کی امامت فی الفقہ اجماع کے ساتھ ثابت ہے، اور پھر جس قدر کفر بد اعتمادی اور الحاد و زندقہ ان میں پھیلادے بڑی خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور ایک ذرہ چیں بچیں نہیں ہوتے۔ اگرچہ علماء فقہاء اہل سنت ہزار دفعہ ان کو تنبیہ کریں ، ہرگز نہیں سنتے۔"
(از کتاب التوحید و السنۃ فی رد الحاد و البدعہ، صفحہ 262، قاضی عبدالاحد خانپوری)
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان کا تبصرہ"ان غیر مقلدین کا مزہب اکثر باتوں میں روافض کے مزہب سے ملتا جلتا ہے۔ جب روافض پہلے رفع یدین اور آمین بلجہر اور قراءت خلف الامام کے مسئلہ میں شافعی رحمہ اللہ کی دلیلوں سے ثابت اور ترجیع دے کر عوام کو خصوصاً مزہب حنفی والوں کو شبہ میں ڈالتے ہیں ، پھر جب یہ بات خوب اپنے مقلدوں میں ذہن نشین کراچکتے ہیں تب آگے اور مسئلوں میں متشکک اور مردد بناتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔"
(تنبیہ الغافلین،صفحہ 5)
"قصص الاکابر "کا اقتباس کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہیں"تو پھر جو آئمہ علماء آخرت ہیں، جو شخص ان کی غیبت کرتا ہے تو اس کا لعن طعن اسی مغتاب پر عود کرتا ہے یہ مزہب رفض کا شیوہ ہے نہ مزہب اہل سنت و الجماعت کا "۔
(آثار صدیقی،جلد 4،صفحہ 23)
یاد رہے کہ مزکور الصدر مولوی عبدالحق بنارسی بانی جماعت غیر مقلدین نے حضرت امیر شہیدرحمۃ اللہ کے قافلے میں رفع یدین اور آمین بالجہر کرکے فتنہ کھڑا کیا تھا، جس کی وجہ سے حضرت امیر رحمہ اللہ نے اسے جماعت سے خارج کردیا تھا، اور یہ بھی یاد رہے کہ رفع یدین اس زمانے میں ہندستان میں صرف شیعوں کا شعار تھا۔ تو اس کا یہ فعل بھی شیعوں کی موافقت میں تھا۔ باقی رہے شافعی یا حنبلی تو وہ یہاں تھے ہی نہیں اور اب تک نہیں ہیں اور اس وقت تو حرمین شریفین میں بھی حنفیوں کی حکومت تھی۔ حنبلی شافعی اگر کرتے بھی ہوں گے تو ان کا انفرادی فعل ہوگا۔حرم شریف میں یا سعودی عرب میں اس وقت جماعتی طور پر رفع یدین نہیں ہوتا تھا ۔ لہٰزہ عبدالحق بنارسی کا اسے اپنانا یا اسے رواج دینا یہ اپنی شیعت کا اظہار تھا۔ اگرچہ نام حدیث کا لیتا تھا مگر کام رافضیوں کا کرتا تھا۔"سید احمد بریلوی شہید رحمۃ اللہ کے قافلہ میں مشہور تھا کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں۔"
(قصص الاکابر،صفحہ26)
میاں نزیر حسین کا فتوٰی کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہیں
(تاریخ اہل حدیث ،از مولانا ابراھیم سیالکوٹی، صفحہ 73)"جو آئمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے وہ چھوٹا رافضی ہے یعنی شیعہ ہے۔"
مولانا قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی کا تجزیہ
"چنانچہ روافض کی ساری علامتیں اس فرقہ میں موجود ہیں جیسے۔
1
تراویح کا انکار کرنا اور انہیں بدعت بتانا۔
2
جب ان کا مزہب پوچھئے تو محمدی بتلائیں گے یہی قول روافض کا ہے کہ مزہب اور دین کو ایک جانتے ہیں۔
3
اہل سنت کو حنفی،شافعی ہونے کی وجہ سے مشرک کافر جاننا،یہ عین قول روافض کا ہے۔
4
سنن ماثورہ کو چھوڑ دینا یہ عین عمل شیعہ کا ہے۔
5
مخالف اہل سنت کو مزاہب اربعہ سے دلیل درحقیقت جاننا عین عقیدہ شیعہ کا ہے۔
6
جمع بین الصلوٰتین عین مزہب روافض کا ہے۔
7
ایک حدیث جہر آمین کی لے کر قرآن کو رد کرنا یہ عین قول شیعہ کا ہے۔
8
بموجب قول الحرج مدنوع عورت غیبت شوہر میں جب دیر ہوجائے جب چاہے نکاح کرلے، یہ بدلہ متعہ کا ان لوگوں نے قرار دیا ہے۔ اور مولوی عبدالحق بنارسی کا فتوٰی جوز متعہ کا میرے پاس موجود ہے۔"
(کشف الحجاب،صفحہ 21،22)
میاں نزیر حسین کا امام ابوحنیفہ کو بدنام کرنے کے لئے شیعوں سے مدد لینا
مولانا قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
"نزیر حسین صاحب نے سید محمد مجتہد شیعہ سے مطاعن ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طلب کئے اور ہمت آپ کی بلکل طرف مطاعن آئمہ فقہاء اور تجہیلات صحابہ کے مصرف ہے۔"
(حاشیہ ، کشف الحجاب ، صفحہ 9)
ہر انسان اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ہم مسلک لوگوں کی حمایت حاصل کرتا ہے، تو میاں نزیر حسین جو شیعوں سے امداد لیکر ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کو مدلل کرتا ہے تو لازماً یہ ان کا ہم مسلک ہے۔ اس کے شیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
قاضی شوکانی زیدی شیعہ تھا اور اس کی پارٹی نیم شیعہ
محدث پانی پتی لکھتے ہیں،
اور زیدی شیعوں کو عالمگیری میں کافر لکھا ہے، دیکھئے۔"اور اقوال شوکانی قاضی زید کے نقل کرتے ہیں۔"
(کشف الحجاب ، صفحہ 11)
"و یجب اکفار الزیدیۃ کلھم فی قولھم بانتظار نبی من العجم ینسخ دین نبینا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔"
(فتاوٰی عالمگیری۔صفحہ283،جلد2)
یعنی تمام زیدی شیعوں کو کافر قرار دینا واجب ہے ان کے اس قول کی وجہ سے کہ عجم میں سے اک نبی اٹھے گا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو منسوخ کردے گا۔(معاذ اللہ)
جماعت غیر مقلدین کا بانی زیدی شیعہ کا شاگرد تھا اور خود بھی شیعہ ہوگیا تھا جس کی تفصیل آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ اور زیدی شیعہ کا کوفر کہنا واجب ہے۔ لہٰزہ جماعت غیر مقلدین کو اہل حق میں سے کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ نہ ہی ان کو اہل سنت سمجھا جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ خود کو اہل سنت کہلوانا پسند نہیں کرتے، ورنہ یہ اپنا نام اہل حدیث نہ رکھتے۔ اسلئے ان کو نرم سے نرم الفاظ میں شیعہ یا چھوٹے رافضی کہہ سکتے ہیں ، ورنہ بقول قاری عبدالرحمٰن محدث ان کا کفر شیعوں سے کہیں بڑھا ھوا ہے۔
قاری عبدالرحمٰن صاحب کے الفاظ یہ ہیں۔
غیر مقلدین باالاتفاق علماء دہلی اہل سنت سے خارج اور اہل بدعت میں داخل ہیں۔"ان موحدوں کے اسلام میں کلام ہے، بظور تنزل کے ان کو شیعہ کہنا چاھئے کہ جمیع کیود شیعوں کے یہ استعمال کرتے ہیں، واللہ شیعہ ان سے ہزار درجہ بہتر ہیں وہ پابند ایک طریقہ کے ہیں اور یہ لوگ تابع اپنے نفس کے ہیں۔"
(کشف الحجاب،صفحہ25)
"تیرھویں رمضان 1298ھ اجماع و اتفاق علماء دہلی کا بعد تفتیش عقائد اس فرقہ لامزہب کے اس بات پر ہوا کہ یہ فرقہ مانند اور اہل اہوا کے خارج مزہب اہل سنت سے ہے اور مانند اور اہل اہوا کے ان سے معاملہ رکھنا چاہیئے۔"
(کشف الحجاب،صفحہ26)
منکر حقانیت مزاہب اربعہ جہنمی ہے، اس کی کوئی عبادت قبول نہیں
"کسی کہ مزاہب اربعہ را مرجوح داندو بزعم خود حدیثے راصحیح دانستہ برخلاف مزاہب
اربعہ درعمل آرد او مبتدع است و فی النار و از اہل حدیث ھم نیست و صوفیان باصفا نیز ازاں
گمراہ بیزار اندو کسیکہ حقیقت مزاہب اربہ را انکار کند و خلاف محمدیت پنداشتہ حنفی یا شافعی
یا حنبلی یا مالکی شدن بدعت سئیہ داندواز گفتن آں نفرت نمایداوراز اہل آں بدعت است کہ نماز و روزہ
و جہاد و غزوہ و حج صاحب آں مقبول نمی شود و بدین عقیدت اوراز اہل اسلام خارج مے کند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واز چنیں کس محبت کردن واز بدعت گزشتن خرام شدید است۔"
(تنبیہ الضالین،صفحہ70، مولانا عبدالخالق صاحب)
یعنی جو شخص مزاہب اربعہ کو مرجوح جانے اور مزاہب اربعہ کے برخلاف کسی حدیث کو بزعم خود صحیح سمجھتے ہوئے اس پر عمل لرے وہ بدعتی اور جہنمی ہے وہ اہل حدیث میں سے بھی نہیں ہے اور صوفیان باصفا بھی گمراہ سے بیزار ہیں۔ اور جوشخص مزاہب اربعہ کی حقانیت کا انکار کرے اور اسے خلاف محمدیت سمجھتے ہوئے حنفی،شافعی،مالکی یا حنبلی ہونے کو بدعت سئیہ گردانے اور اس نسبت سے نفرت کرے وہ اہل بدعت میں سے ہے جن کی نماز ، روزہ ، جہاد و غزوہ اور حج وغیرہ ، کوئی عبادت قبول نہیں۔ اور اس عقیدے کی وجہ سے اسے اہل اسلام سے خارج سمجھنا چاھئیے۔ اس سے کچھ آگے یہ عبارت بھی ہے کہ ایسے شخص سے محبت کرنا اور اس کی بدعت کو نظر انداز کرنا سخت حرام ہے۔
دجال و کذاب غیر مقلدوں سے بچ کر رہنے اور ان کے ساتھ دشمنی رکھنے کے متعلق فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
"عن ابن عمر قال واللہ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول
لیکونن بین یدی الساعۃ الدجال و بین یدی الدجال کذابون ثلثون
او اکثر قلنا ما آیاتھم قال ان یاتوا کم بستۃ لم تکونوا علیھا لغیروا
بھا ملتکم و دینکم فاذا رایتمواھم فاجتنبو اھم و عادو ھم۔"
(رواہ الطبرانی۔ نظام اسلام ،صفحہ 128)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ضرور بضرور قیامت سے پہلے دجال آئے گا ، اور دجال سے پہلے تیس یا اس سے زائد کذاب آئیں گے ، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نشانی کیا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تمہارے پاس ایسا طریقہ لے کر آئیں گے جو تمہارے ہاں معمول بہ نہیں ہوگا، تاکہ اس کے ذریعے تمہاری ملت اور تمہارے دین کو بدل دیں۔ پس تم ان سے بچ کر رہو اور ان سے پوری دشمنی کرو۔"
دیکھئے حضرات غیر مقلد جس رفع یدین ،آمین بالجہر، اور فاتحہ خلف الامام پر حنفیوں سے عمل کروانا چاھتے ہیں یہ ہمارے ہاں متعارف اور معمول نہیں اور بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ غیر متعارف احادیث اور غیر معمولی سنتوں کو پیش کرکے ان پر عمل کے طالب ہوں ان کو دجال ، کذاب سمجھو ان سے بچ کر رہو اور ان سے دشمنی اختیار کرو۔
غیر مقلد جدید رافضی ہیں
قاری عبدالرحمٰن صاحب محدث فرماتے ہیں۔
"یہی تقریر ان روافض جدید کی ہے اس قدر فرق ہے قدیم،اہل بیت کے پردے میں اہل سنت کو بہکاتے ہیں، اور یہ عمل بالحدیث کے پردے میں اہل سنت کو گمراہ کرتے ہیں۔ حاصل دونوں کا "کلمۃ حق قصد بھا الباطل" ہے، جیسے عمل بالقرآن کو بیچ میں لاکر حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کو دھوکہ دیا کرتے تھے۔"
(کشف الحجاب،صفحہ 12)
غیر مقلد اصولی طور پر اہل سنت سے خارج اور شیعہ ہیں
غیر مقلد اپنے آپ کو اھل سنت تقیہ سے کہتے ہیںحقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ اہل سنت کو چاہئے کہ ان غیر مقلدوں سے ایسا معاملہ رکھیں جیسا شیعوں سے، دینیات میں ان سے بلکل شرکت و گفتگو قطع کردیں جیسا بطور رد و قدح ضرورت کے وقت شیعوں کو جواب دیتے ہیں ایسا ہی ان کو بھی جواب دیں، واللہ کچھ غرض نہ رکھیں۔ہمارا ان کا اصول بھی جدا ہے۔
(کشف الحجاب،صفحہ13)
محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں
دعوٰی اھل حدیث کا مطلب برھمی دین محمدی ہے"دیکھو یہ سب باتیں اس کید کی سید نزیر حسین او حفیظ اللہ خان و مولوی عبدالحق بنارسی پر برابر صادق ہیں، پہلے خدمت مولانا شاہ اسحاق کی میں معتقدانہ حاضر ہوتے تھے اور اپنے تئیں پکا اہل سنت ظاہر کرتے تھے اور جب کوئی ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر تعن کرتا ، قرآن و حدیث سے جواب دینے کا دعوٰی کرتے اور غصے کے مارے منہ میں کف آجاتا تھا تاکہ آدمی ہم کو اہل سنت حنفی مزہب متقی شاگرد میاں صاحب کا خیال کریں اور معتقد ہوجاویں۔ جب یہ اعتقاد آدمیوں کے ذہن میں جمادیا ، بعد حجرت جناب مغفور کے اور اہل دہلی کے خالی ہونے کے علم سے بتدریج اپنا مزہب رواج دینا شروع کیا، پر تقیہ نہ چھوڑا اور آہستہ آہستہ عوام کو رفض کی سڑک پر ڈال دیا اور قرآن و حدیث سے عوام کا دل پھیر دیا عمل بالحدیث کے پردے میں صدہا آیات و احادیث کو رد کردیا۔ نعوذباللہ من ھٰذا۔"
(کشف الحجاب،صفحہ11)
مولانا شاہ اسحٰق صاحب کا فتوٰی"ایسا ہی لوگ عمل بالحدیث کا دعوٰی کرتے ہیں اور مقصود ان کا برہمی دین محمدی ہے اور ترویج مزہب باطل شیعہ ، جبریہ ، قدریہ وغیرہ کی ہے۔ ناحق علماء اہل سنت کا نام لے کر خلق کو بہکاتے ہیں۔"
(کشف الحجاب،صفحہ33)
محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں۔
"جناب مولانا اسحٰق صاحب وعظ میں لامزہبوں (غیر مقلدوں) کو ضال و مضل فرماتے تھے۔ یعنی خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے۔"
(حاشیہ کشف الحجاب،صفحہ 10)
علماء احناف کی خدمت میں۔
حنفی بزرگوں کو مولانا شاہ محمد اسحٰق صاحب کے اس فتوے سے سبق حاصل کرتے ہوئے غیر مقلدین کے متعلق اپنی مداہنت اور رواداری پر نظرثانی کرنی چاہئے ، کیونکہ ہم نے ان سے رواداری کرکے بہت نقصان اٹھایا ہے، حنفی بزرگ تو یہ سمجھتے رہے کہ ہمارا غیر مقلدوں سے صرف رفع یدین اور آمین بالجہر کا اختلاف ہے جو چنداں مضر نہیں، اور اس میں حق و باطل والی کوئی بات نہیں، مگر یہ لوگ ہمارے عوام کو اغوا کرتے رہے اور حدیث حدیث کے واسطے دے کر انہیں حنفیت سے برگشتہ کرکے غیر مقلد بناتے رہے، میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ہمارے بزرگ مداہنت سے کام نہ لیتے اور ان لوگوں پر وہی فتوے لگاتے جو علماء دہلی نے لگایا تھا ، انہیں ضال مضل کہتے جیسے شاہ محمد اسحٰق صاحب نے کہا، انہیں برملہ شیعہ کہتے جیسے قاری عبدالرحمان محدث کہہ رہیں ہیں ، تو یہ فتنہ اپنے پنگھوڑے سے باہر قدم نہ رکھتا بلکہ یہ اپنی موت آپ مرجاتا۔
اصحاب صحاح اور دیگر محدثین سب مقلد تھے۔
غیرمقلد یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم محدثین کے مزہب پر ہیں، گویا محدث بھی ان کی طرح غیر مقلد تھے، حاشا و کلا ایسا ہرگز نہیں ۔ دیکھئے محدث پانی پتی صاحب لکھتے ہیں۔
نواب صدیق حسن خان غیر مقلد نے بھی اپنی تصنیف " الحطہ فی ذکر صحاح ستہ " میں تمام اصحاب صحاح کو مقلد مانا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ صاحب نے بھی " الانصاف " میں ایسے ہی لکھا ہے، اور خود طبقات شافعیہ میں انہیں شافعی قرار دیا گیا ہے۔ لہزہ غیر مقلدین کا کہنا کہ ہم محدثین کے مزہب پر ہیں محض دھوکہ اور فراڈ ہے۔"بخاری رحمہ اللہ مجتہد صاحب مزہب تھے، باقی مسلم رحمہ اللہ، ترمزی رحمہ اللہ ، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اور ابوداؤد رحمہ اللہ وغیرہ مزہب شافعی یا حنفی رکھتے تھے ، ان کو مزہب اختیار کرنے سے عیب نہ لگے تم کو عیب لگ جائے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین علوی و عثمانی موافق تصریح بخاری کے رکھیں، ان کو مزہب سے عیب نہ لگے تم کو عیب لگے، غیض تم محدثین کے اور فقہا اور صحابہ کے سب کے مخالف ہو اور نام عمل بالحدیث کا لیتے ہو۔"
(کشف الحجاب،صفحہ33)
اجماع امت اور قیاس کی حجیت کے غیر مقلد اور شیعہ دونوں منکر ہیں ۔
قارئین کو معلوم ہونا چائیے کہ اصول شریعت اسلام بالتفاق علماء امت چار ہیں۔
نمبر1
کتاب اللہ
نمبر2
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نمبر3
اجماع امت
نمبر4
قیاس شرعی
انہیں چاروں پر اصول و فروع کا مدار ہے، تمام اہل سنت خواہ وہ حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی، ان چاروں کی حجیت تسلیم کرتے ہیں، اور جو ان چاروں کو حجت نہ مانے اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن غیر مقلد ٹولہ ان میں سے پہلے دو کے ماننے کا دعوٰی کرتا ہے مگر دوسرے دونوں کا انکار کرتا ہے ، یہ اجماع امت اور قیاس شرعی کو نہیں مانتے محض اس وجہ سے ان کا آدھا اسلام تو رخصت ہوا۔ باقی آدھا جس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مدار ہے اس کو اپنی مرضی سے مانتے ہیں۔ یعنی آیت کی تفسیر اور حدیث کی تشریح میں یہ علماء سلف کے پابند نہیں۔ ان کے ہاں اس کے وہ معنی و مفہوم معتبر ہیں جو ان کی اپنی سمجھ میں آجائے۔ خواہ وہ اجماع امت کے خلاف ہو، فقہا و محدثین کے خلاف ہو ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ لہٰزہ کتاب و سنت کو ماننا بھی ان کا برائے نام ہے، یہ بھی کوئی ماننا ہے جو تفسیر بالرائے کے زمرے میں آتا ہو ۔ ساری امت کہتی ہے آیت "واذاقری القرآن فاستمعوا لہ و انصتو لعلکم ترحمون" نماز کے متعلق نازل ہوئی مگر یہ بضد ہیں کہ خطبہ کے متعلق ہے۔
ساری امت متفق ہے کہ اک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور بیوی اس سے مغلظ ہوجاتی ہے، اسکے بعد " فلا تحل لہ من بعدہ حتٰی تنکح زوجا غیرہ" کا حکم اس پر لازم آتا ہے ، مگر یہ کہتے ہیں کہ اک مجلس کی دی ہوئی طلاقیں خواہ سو ہو ، وہ ایک ہی بنتی ہے اس سے بیوی مغلظہ نہیں ہوتی بلکہ خاوند کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے ۔ اور خدا نا ترس لوگ ایسے کیس میں بیوی کو واپس کرادیتے ہیں۔ وہ ساری زندگی زنا کراتی اور ولد الزنا جنم دیتی ہے۔ جسکا وبال اس پر کم اور ان غلط کار مفتریوں پر زیادہ ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے غلیظ فتوے کی آڑ میں اس کو زنا کا موقع فراہم کیا ہے۔ تو یہ قرآن و حدیث کو ماننا نہیں ، اسکو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ہے ۔ جس کو اسلام نہیں کہہ سکتے ، بلکہ یہ تو اسلام کے ساتھ مزاق ہے۔
اب اجماع و قیاس کو نہ ماننے کا شیعہ وغیر مقلد توافق ملاحظہ فرمائیں۔
خلفائے ثلاثہ حضرات
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
عمر فاروق رضی اللہ عنہ
عثمان غنی رضی اللہ عنہ
کی خلافتیں امت کے اجماع سے ثابت ہیں ، مگر شیعہ ان کو نہیں مانتے تو وہ اجماع کے منکر ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیس تراویح رائج کیں، مجلس واحد میں تین طلاقوں کو تین قرار دیا ، نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کیا تو کسی صحابی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ، یہ تینوں مسئلے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اجماع سے ثابت ہوئے، پھر ان مسئلوں کو نہ شیعوں نے مانا اور ناہی غیر مقلدوں نے، تو اسطرح یہ دونوں فریق اجماع امت کے منکر ہوئے ۔ اور اجماع امت تیسرا اصول اسلام ہے تو اس کے انکار کی وجہ سے ہم شیعوں کو تو کافر کہتے ہیں ، مگر ابھی غیر مقلدوں کو نہیں ، کیونکہ ان کا انکار ابھی کھل کر علماء کے سامنے نہیں آیا، اور ناں ہی یہ عوام کے علم میں ہے، اسلئے فی الحال ان کے کفر کا فتوٰی نہ دینا ایک احتیاط ہے۔
لیکن ان کی منہ زوری اور بے لگامی کا یہی حال رہا اور یہ اکابرین اسلاف کرام کی گستاخی بے ادبی تحقیر میں بڑھتے ہی گئے اور اسلام کے مسلمہ اصولوں سے انحراف پر پختہ ہوتے چلے گئے تو پھر وہ وقت بھی آجائے گا کہ یہ اسی مقام پر کھڑے ہوں گے جس مقام پر حضرت مولانا حق نواز شہید رحمہ اللہ کی کوششوں سے آج شیعہ کھڑے ہیں، قدرت ان کے لئے بھی کسی حق نواز کو کھڑا کرے گی۔
(ان شاء اللہ)
قیاس شرعی کے انکار میں غیر مقلد اور شیعہ دونوں متفق ہیں
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بینظیر کتاب "منہاج السنۃ" میں روافض کا درج ذیل اعتراض نقل کرتے ہیں ، جس کو غیر مقلدین بڑے فخر سے اچھالتے ہیں کہ
بعینہ یہی اعتراض غیر مقلد احناف پر کرتے ہیں ، حتٰی کہ اگر "قالو" کا فاعل الروافض کی بجائے غیر مقلدین کو فرض کرلیا جائے تو ہوبہو درست ہے۔ غیر مقلدوں کو قیاس کی حجت سے بھی انکار ہے۔ جو اصول اسلام میں سے اور چار مزاہب پر بھی اعتراض ہے کہ یہ مزاہب بدعت ہیں، غیر مقلدوں کو تقلید ائمہ پر بھی اعتراض ہے کہ یہ شرک و کفر ہے۔ دیکھئے بڑے چھوٹے بھائی آپس میں کتنے مشابہہ ہیں۔"قال الرافضی و ذھب الجمیع منھم الی القول
بالقیاس و الا خلد بالرای فادخلو فی دین اللہ
ما لیس منہ و حرفو ا احکام الشریعۃ و اتخزوا
مذھب اربعۃ لم تکم فی ذمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔قالوا ان اول من قاس ابلیس۔"
(منھاج السنۃ،صفحہ89،جلد1)
یعنی رافضی کہتا ہے کہ سارے اہل سنت والجماعت قیاس اور عمل بالرائے کے قائل ہیں اور اس کے عامل ہیں، انہوں نے خدا تعالٰی کے دین میں ایسی چیز داخل کردی ہے جو اس میں سے نہیں ہے۔ اور انہوں نے احکام شریعت کو بدل دیا ہے اور چار مزھب بنارکھے ہیں، جو نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور ناں ہی صحابہ کرام کے دور میں۔ حالانکہ صحابہ کرام نے ترک قیاس کی تاکید کی ہے اور یہ کہا ہے کہ جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس ہے۔
شیعہ کے اعتراض کی تفصیل
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ صاحب شیعوں کے اس اعتراض کو نقل کرکے اس کا دندان شکن جواب بھی دیتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
یہی اعتراض بعینہ غیر مقلدوں کا ہے۔ انکا اک شعر ہے ۔"شیعوں کا پچاسواں مکر و فریب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مزاہب پر کیوں عمل کرتے ہیں؟"(تحفہ اثناعشریہ،صفحہ 109)
اس سے قارئین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ غیر مقلدوں نے یہ اعتراض شیعوں سے لئے ہیں جو اپنی طرف سے پیش کرکے بڑے تیس مارخان بنتے ہیں، لیکن یہ جرائت نہیں کہ اپنے بڑوں کا نام لیتے جن سے یہ اعتراض لے کر اہل سنت والجماعت بالخصوص احناف کو کافر و مشرک بناتے ہیں۔دین حق را چار مزہب ساختند
رخنہ در دین نبی اند اختند
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی کا جواب
"یعنی اس مکر کا جواب یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے نہ کہ صاحب مزہب کیونکہ مزہب تو راہ کا نام ہے جو فہم شریعت کے سلسلے میں بعض امتیوں پر کھولی جاتی ہے۔ اور پھر وہ اپنی عقل و خرد سے چند قواعد مقرر کرتے ہیں ان قواعد کے مطابق شرعی مسائل انکے ماخز (کتاب و سنت و اجماع و قیاس) سے نکالے جاتے ہیں۔ اسی لئے مسائل نکالنے میں خطا و ثواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا تعالٰی ، جبرائیل و ملائکہ ، و انبیاء علیھم السلام کی طرف مزہب کی نسبت کرنا بے وقوفی ہے (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کہا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب نہیں کہا کرتے، یوں کہنا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب یہ ہے ، صریح حماقت اور سخت جہالت ہے)"(مزہب اور شریعت کی تمیز)
جواب ایں کیدایں کہ نبی صاحب شریعت است نہ صاحب مزہب زیرا کہ مزہب نام راہے است
کہ بعض امتیاں رادرفہم شریعت کشادہ شود و بعض خود چند قواعد مقرر کنند کہ موافق آں قواعد
استنباط مسائل شریعیہ از ماخزآں نمایند ولھزا محتمل صواب و خطا مے باشد و لھزا مزہب را بسوئے
خدا و جبرائیل و دیگر ملائکہ نسبت کردن کمال بے خروے است۔"
(تحفہ اثناعشریہ،صفحہ109)
یہی حماقت غیر مقلدین کر رہے ہیں کہ دین اور مزہب کو ایک چیز سمجھ کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں کہ خدا کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب تو ایک تھا ، مگر ان مقلدوں نے چار مزہب بنالئے ہیں، ہم پھر اسکو ایک کرنا چاہتے ہیں۔عوام بے چارے دین اور مزہب کا فرق کیا سمجھیں ، وہ ان کے چکر میں آجاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دین تو سب مقلدین کا اب بھی اک ہے ، لیکن مزہب مختلف ہیں، جیسے چار شخصوں کی منزل تو ایک ہو لیکن وہ چاروں مختلف راستوں سے اس منزل تک پہنچیں ۔ کوئی مشرق سے، کوئی مغرب سے، کوئی شمال سے، کوئی جنوب سے۔ جیسے خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں آنے کے لئے کوئی باب السلام سے آئے یا باب عبدالعزیز سے ، کوئی باب صفا سے آئے یا باب عمرہ سے، وہ بہرحال مسجد حرام میں پہنچ جائے گا۔
مزہب کا معنی راستہ ہے اور راستے کئی ہوسکتے ہیں ، مگر منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ اب دین و شریعت کے معروف راستے یہی چار ہیں۔ حنفی،شافعی، مالکی، اور حنبلی ، ان کو تو موٹر وے کہنا چاھئے۔ ان کے علاوہ جو اور لوگوں نے راستے بنائے ہیں یا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ غیر معروف برانچیں ہیں، انکے زریعے منزل تک پہنچنا یقینی نہیں۔ وہ راہیں خطرناک اور پر صعوبت ہیں اور دانش مندوں نے کہا ہے۔
برو راہ راست گرچہ دور است
اسی لئے سلامتی اور منزل تک یقینی رسائی کا تقاضا یہی ہے کہ انہی معروف شاہراہوں پر چلاجائے جن پر چل کے اکابر ملت منزل پر پہنچے ہیں اور غیر مقلدین کی بنائی ہوئی برانچوں اور پگڈنڈیوں میں اپنی عمر عزیز ضائع نہ کی جائے۔
غیر مقلدین علامات قیامت میں سے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اب پندرھویں صدی کے غیر مقلد کس طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین پر زبان دراز کرتے ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کو (معاذاللہ) بدعتی کہتے ہیں۔ جیسے بیس تراویح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو، اور آذان اول کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو، کبھی فقہ و اجتہاد کی وجہ سے آئمہ مجتہدین کو کہتے ہیں کہ انہوں نے دین محمدی کے بلمقابل اک اور ہی دین بنالیا ہے، اور کبھی تقلید و اتباع کی وجہ سے تمام مقلدین مزاہب اربعہ کو مشرک گردانتے ہیں، جیسا کہ حنفیوں ،شافعیوں،مالکیوں، حنبلیوں کو یہ لوگ گمراہ ، مشرک اور تارک سنت کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس حدیث کا صحیح مصداق غیر مقلدوں کے سوا دوسرا کوئی نہیں۔ لہزا ہم مقلدین پر بھی لازم ہے کہ ان(فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث )کو گمراہ سمجھتے ہوئے ان سے بچ کر رہیں، ان سے قطع تعلق کریں اور ان کو اپنی مساجد سے دور رکھیں، کیونکہ یہی لوگ وہ فتنہ ہیں جو قیامت کا پیش رو اور اس کا نشان ہیں۔"جب میری امت میں چودہ خصلتیں پیدہ ہوجائیں گی تو اس پر مصیبتیں نازل ہونا شروع ہوجائیں گی،۔۔۔ان میں سے چودھویں خصلت یہ ہے کہ اس امت کے پچھلے لوگ پہلوں پر لعن طعن کریں گے۔"
(ترمذی۔جلد2،صفحہ44)
فقہ حنفی کی مذمت میں غیر مقلدین شیعہ کے خوشہ چیں ہیں۔
ہندستان میں فقہ حنفی کی مزمت میں سب سے پہلی کتاب "استصقاءالافحام" لکھی گئی جو ایک متعصب شیعہ حامد حسین کستوری کی تصنیف ہے، اسکے بعد غیر مقلدین کی طرف سے جتنی کتابیں لکھی گئیں ہیں، وہ سب اسی کتاب کی نقالی اور شیعوں کی قے خوری ہے۔ ہماری اس بات کی تصدیق مشہور غیر مقلد عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
اس کے بعد فقہ حنفی کی مزمت میں دوسری کتاب "الظفرالمبین" ہے، جو ایک برائے نام مسلم "ہری چند کھتری" کی لکھی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ نامشکورہ کی تیسری کتاب جس میں فقہ کی حقیقت کم اور امام الآئمہ ، فقیہ الامت، حجرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توہین و تزلیل زیادہ ہے۔ یہ کتاب دجل و تلبیس اور کزب و افتراء کا شاہکار ہے، اس میں عبارتوں کی قطع و برید ہے، حوالوں کی جعل سازی ہے اور فقہ پر اعتراضات ہیں۔ یہ سب بہت برا توشہ آخرت ہے، جو اس کے بد نصیب مصنف کے لئے تیار کیا ہے۔"امام الآئمہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جو اعتراضات و مطاعن اخبار اہل الزکر میں مشتہر کئے گئے ہیں یہ سب کے سب ہزیانات بلا استثناء اکاذیب و بہتانات ہیں، جن کا ماخز زمانہ حال معترضین کے لئے حامد حسین شیعی لکھنوی کی کتاب "استصقاءالافحام" ہے"۔
(بحوالہ السیف الصارم لمنکر شان الامام الاعظم رحمہ اللہ)
مطلق فقہ سے نفرت و انکار۔
جسطرح شیعہ حضرات مطلق فقہ اہل سنت کے منکر ہیں اسی طرح غیر مقلدین بھی بلا استثنا چاروں مزاہب کی فقہ کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ فقہ کا نام آتے ہیں ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، تنفس تیز ہوجاتا ہے اور منہ سے کف آنے لگتی ہے۔ حالانکہ فقہ کا حکم قرآن پاک نے دیا ہے اور مطلق فقہ کی فضیلت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے ، دیکھئے قرآن پاک کا کہنا ہے ،
فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین
"کہ کیوں نہ نکلی ان کے ہر گروں میں سے اک جماعت جو دین کی فقہ حاصل کرتی؟"
من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین
"یعنی جس شخص کے ساتھ اللہ تبارک و تعالٰی خیر کا ارادہ کرتے ہیں اسے تفقہ فی الدین کی دولت سے نوازتے ہیں"
جس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالٰی "شر" کا ارادہ رکھتے ہیں اسے فقہ کی دولت سے محروم کردیتے ہیں۔ جیسے غیر مقلدین فقہ کی دشمنی اختیار کرکے اس دولت عظمٰی اور نعمت عالیہ سے محروم ہیں اور جو خوش قسمت افراد اس نعمت سے مالا مال ہیں ، جیسے فقہا امت اور مجتہدین ملت یا ان کے خوش نصیب مقلدین یہ لوگ ان کے نام سے جلتے ہیں اور ان کی خداداد شہرت سے انگاروں پر لوٹتے ہیں۔
فقہ و اجتہاد میں ان کی سعی مشکور کو نیست و نابود کرنے کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کا بس چلے تو فقہ کا تمام دفتر غرق مئے ناب کردیں۔ مگر خداوند تعالٰی گنجے کو کبھی ناخن نہیں دے گا۔ مطلق فقہ حنفی کا آفتاب نصف النہار پر سدا چمکتا دمکتا رہے گا۔(ان شاء اللہ) ان چمگادڑوں کی آنکھیں اس کو دیکھ دیکھ کر خیرہ ہوجائیں گی، مگر یہ فقہ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ جیسے دنیا بھر کے کفار قرآن پاک کو مٹادینے پر تلے ہوئے ہیں، مگر قرآن پاک کا اک حرف بھی تبدیل نہیں کرسکیں گے اور ناں ہی قرآن پاک کی کسی زیر زبر کو مٹاسکیں گے۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ساری امت کو گمراہ کہنے والا خود کافر ہے
واضح ہوکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ نام ہے اہل سنت والجماعت کا ، جو مزاہب اربعہ میں منقسم ہے۔ حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی ان چاروں کو شیعہ بھی کافر کہتے ہیں اور غیر مقلدین بھی مشرک کہتے قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ سارے مشرک ہیں تو مسلمان کیا اس شرمئہ قلیلہ اور گروہ آوارہ کا نام ہے جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں؟؟؟ کیا روز محشر امتیوں کی ایک سو بیس صفحوں میں سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی 80 صفحیں ان غیر مقلدین سے بنے گی جو تعداد میں شیعوں سے بھی کم ہیں؟؟؟ اگر ان کی صف بنائی جائے تو لاہور سے لے کر مریدکے تک ختم ہوجائے گی۔ حق یہ ہے کہ ناجی صرف اہل سنت والجماعت ہیں ، جو دنیا کے آخری کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اور واضح رہے کہ قرون اولٰی کے اہل حدیث خود اہل سنت میں شامل تھے ، موجودہ فرقہ اہل حدیثوں کو ان اہل حدیثوں سے کوئی نسبت نہیں ۔ وہ اک علمی طبقہ تھا جس کا کام الفاظ حدیث کی خدمت کرنا اور سند حدیث کو محفوظ کرنا تھا، ان میں سے کوئی بھی جاہل نہیں ہوتا تھا ، بلکہ وہ کم از کم ایک لاکھ حدیث کے حافظ ہوتے تھے،(موجودہ فرقہ اہل حدیث نامیوں کی طرح موچی ڈرائیور اور دودھ فروش نہیں تھے) اور وہ کسی ایک فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، وہ مالکی بھی تھے اور حنبلی بھی۔ ان مومنین صادقین اہل سنت والجماعت کو جو گمراہ اور مشرک قرار دیتا ہے وہ خود گمراہ اور کافر ہے، جیسا کہ حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی بے مثال تصنیف " الشفاء" میں لکھا ہے کہ آپ فرماتے ہیں،۔
"ونقطع بتکفیر کل قائل قال قولاً یتوصل بہ الٰی تضلیل الامۃ و تکفیر جمیع الصحابۃ۔"
(کتاب الشفاء،جلد2،صفحہ286)
" یعنی ہم اس شخص کے کفر کے بالیقین قائل ہیں جو ایسا قول کہتا ہے جس سے امت کی تضلیل اور جمیع صحابہ کی تکفیر لازم آتی ہو۔"
اس عبارت کے پہلے حصے کے مصداق غیر مقلد ہیں اور دوسرے کے شیعہ، کیونکہ شیعہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمٰعین کو کافر کہتے ہیں اور غیر مقلدین جمیع آئمہ اربعہ کو مشرک بتاتے ہیں۔
جاری ہے