• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرقہ روافض کا پس منظر

شمولیت
اکتوبر 04، 2012
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
78
پوائنٹ
0
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت تک تمام امت متحد و متفق تھی، پھر آہستہ آہستہ انتشار آنا شروع ہوا، اس انتشار پھیلانے والوں سے ایک یہودی عالم عبد اللہ بن سباء بھی تھا، اس نے ابتداء میں یہ کہنا شروع کیا کہ آپﷺ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، مگر حجاز، شام اور عراق والوں نے بالکل اس کی بات کو نہ مانا، اس کے بعد وہ شخص مصر چلا گیا، وہاں اس نے یہ باتیں کہنا شروع کیں اور ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو اور مبالغہ کرنا شروع کردیا اور اس نے یہی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالی کہ آپﷺ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے مستحق تھے، مگر ان کو یہ حق نہیں دیا گیا، پھر حضرت عثمانؓ کے خلاف مختلف شکایات شروع کردیں، یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت ہوگئی اور پھر اسی انتشار میں جنگ جمل اور جنگ صفیں ہوئی اور ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور آخر میں حضرت علیؓ کو بھی شہید کردیا گیا۔
یہودی عبد اللہ بن سبا کی شروع کردہ تحریک میں ایک طرف حضرت علیؓ کی محبت میں مبالغہ اور دوری طرف حضرت امیر معاویہؓ سے بغض اور ساتھ ساتھ یہ نظریہ کہ حضرت علیؓ کے بعد ان کی اولاد خلافت کی مستحق ہے، نیز یہ کہ حضورﷺ کے بعد امامت کا سلسلہ ہے تاکہ امت کی رہنمائی ہوتی رہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ تمام نظریات زور پکڑتے گئے، پھر اسی گروہ نے حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے حضرت زین العابدینؒ کو چوتھا امام تسلیم کرلیا اور حضرت زین العابدینؒ کے انتقال کے بعد محمد باقرؒ کو (پانچواں) امام تسلیم کیا، اس کے بعد ان کے بیٹے حضرت جعفر صادقؒ کو (چھٹواں) امام کہا گیا، اس کے بعد حضرت جعفر صادقؒ کے جانشین میں اختلاف پیدا ہوا، ابتداء میں حضرت جعفر صادقؒ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؒ کو اپنا جانشین بنایا، مگر جب وہ حضرت جعفر صادقؒ کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تو انہوں نے دوسرے بیٹے حضرت موسیٰ کاظمؒ کو اپنا جانشین بنایا۔
ایک گروہ نے کہا کہ اصل جانشین حضرت اسماعیلؒ ہی ہیں، تو یہ امامت کا سلسلہ ان میں ہی چلے گا، تو ان کے بیٹے حضرت محمد اسماعیلؒ کو انہوں امام تسلیم کرلیا، اب یہ حضرت اسماعیلؒ کی نسبت سے اسماعیلی کہلائے اور دوسرے گروہ نے کہا کہ امام حضرت جعفر صادقؒ نے حضرت موسیٰ کاظمؒ کو جانشین بنایا تو وہ اصل جانشین ہوئے، تو اب یہ موسویہ کہلاتے ہیں۔
اور پھر یہ موسیٰ کاظمؒ کی اولاد میں امامت کے قائل ہوئے اور ان کے بعد ان کے بیٹے علی رضاؒ آٹھویں امام اور پھر محمد تقیؒ نویں امام اور حضرت علی نقیؒ دسویں امام ، پھر حضرت حسن عسکریؒ گیارہویں امام بنے، اور بارہویں امام حضرت مہدیؒ یہ غائب ہیں، قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے، ان بارہ اماموں کی وجہ سے ان کو اثناعشریہ کہا جاتا ہے۔

شیعہ فرقہ کے بانی یہودی عبد اللہ بن سباء کے حالات
عبد اللہ بن سبا یہودی یمن کے دار الحکومت صنعاء کا رہنے والا تھا، والدہ کا نام جشن تھا، اس کا باپ سازش، منصوبہ بندی اور پروپیگندہ میں اپنی مثال آپ تھا، یہ ابتداء میں یمن میں تھا، مگر بعد میں مدینہ منورہ آگیا اور پھر اس نے سیاسی اور مذہبی دونوں طرح سے اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
اس سلسلہ میں صاحبِؒ کشف الحقائق فرماتے ہیں:
’’سیاسی محاذ اس طرح قائم کیا کہ مصر کے امیر، امیر حسین حضرت عثمانؓ اور ان کے عاملین کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و عدایت کے جذبات اس طرح مشتعل کئے کہ انہیں معزول کردیا گیا، نظامِ حکومت مملکت کے اس اضمحلال کے بعد اسلامی سلطنت کمزور ہوتی گئی، مسلمانوں میں باہمی انتشار و تفرقہ پیدا ہوگیا، مذہبی محاذ اس طرح قائم کیا کہ سیدھے سیدھے دین فطرت کے صاف اور واضح عقیدوں میں تبدیلی کی جائے، توحید اور رسالت پر حملہ کیا جائے، اسلام کے بنیادی حقائق کو مسخ کرکے عوام کو گمراہ کیا جائے، اس طرح مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ کی جائے اور ان میں اعتقادی تفرقہ ڈال کر فرقہ بندی کا بیج بویا جائے تاکہ یہ علاحدہ علاحدہ فرقوں اور گروہوں میں بٹ جائیں‘‘۔
(کشف الحقائق:۲۷)
اس طرح عبد اللہ بن سباء نےیہ کام بصرہ میں شروع کیا، پھر کوفہ میں اور پھر مصر میں یہ کام شروع کیا۔
(طبری ابن جریر:۳/۳۷۸)
آہستہ آہستہ یہ پھیلتے چلے گئے اور پھر یہ ایک فرقہ بن کر روئے زمین پر ابھرا، اس کی سوچ انقلابی تھی، جس کی وجہ سے اس کوئی بار کوفہ، دمشق میں جلا وطنی کے دن گذارنے پڑے، آخر میں اس نے مصر میں سکونت اختیار کی، وہاں سے اس نے اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ شروع کردی اور اس نے اعلان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی کریم ﷺ بھی واپس آئیں گے اور حضرت علیؓ نبی کریمﷺ کے وصی تھے، جن سے حضرت عثمانؓ نے خلافت چھین لی تھی، اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، نیز ابن سباء نے ہی حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے کے لئے اہل مصر کو آمادہ کیا تھا۔
کتاب الملل و النحل میں امام شہرستانیؒ لکھتے ہیں کہ ابن سباء اور اس کی جماعت نے حضرت علیؓ کو خدا کہنا شروع کیا تو حضرت علیؓ نے اس کو مدائن میں قید کردیا اور اس نے حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد کہنا شروع کیا کہ حضرت علیؓ شہید نہیں ہوئے بلکہ وہ تو نورِ الٰہی کا حصہ تھے، وہ تو بادلوں میں زندگی گذار رہے ہیں۔
بادلوں کی گرج یہ حضرت علیؓ کی امارات ہے اور حضرت علیؓ کی چمک ان کا کوڑا ہے، وہ جب زمین میں دوبارہ آئیں گے تو دنیا کے مظالم کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف کا بول بالا کریں گے۔
(الملل و النحل:۱/۲۰۴)
وفات: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد اس کا انتقال ہوا۔
فرقۂ شیعہ کے نظریات و عقائد
اہل سنت و الجماعت کا فرقہ شیعہ سے اختلاف تو بہت سی چیزوں میں ہے، مگر چند اختلاف بنیادی ہیں:
۱۔ قرآن مجید کو اصل نہ ماننا۔
۲۔ امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے۔
۳۔ نبی کریم ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد چار صحابہؓ کے سواء (معاذ اللہ) سب مرتد ہوگئے تھے۔
۴۔ کلمہ طیبہ میں تبدیلی۔
۵۔ متعہ (زنا) جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
۶۔ عقیدۂ رجعت پر ایمانا لانا بھی واجب ہے۔
نوٹ: اس کے علاوہ اور بھی کئی عقائد اور نظریات میں فرقہ شیعہ کا اہل سنت والجماعت سے اختلاف ہے، مگر بنیادی نظریات و عقائد ہی ہیں جو اوپر گذرے۔
شیعہ( روافض) کے بارے میں اہلِ فتاویٰ کی رائے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:
’’اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے ہیں اور باتیں بنانے والے نکلیں گے، اور ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے‘‘۔
(ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
’’لیغیظ بھم الکفار کے تحت فرماتے ہیں کہ رافضیوں کے کفر کی قرآنی دلیل یہ ہے کہ یہ صحابہؓ کو دیکھ کر جلتے ہیں، اس لئے کافر ہیں‘‘۔
(الاعتصام:۲/۱۲۶۱۔ روح المعانی:پارہ۲۶)
حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
’’کتاب الشفاء میں قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں: جو شخص ایسی بات کرے کہ جس سے امت گمراہ قرار پائے اور صحابہ کرامؓ کی تکفیر ہو، ہم اسے قطعیت کے ساتھ کافر کہتے ہیں، اسی طرح جو قرآن میں تبدیلی یا زیادتی کا اقرار کرے‘‘۔
(کتاب الشفاء:۲/۲۸۶،۸۲۱ وغیرہ)
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
غنیۃ الطالبین میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’شیعوں کے تمام گروہ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے، حضرت علیؓ تمام صحابہؓ سے افضل ہیں، آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ مرتد ہوگئے‘‘۔
(غنیۃ الطالبین:۱۵۶۔۱۶۲)
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: ’’رافضیوں کی طر ف سے قرآن مجید کی تحریف کادعویٰ اسلام کو باطل کردیتا ہے‘‘۔
(تفسیر کبیر:۱۱۸)
علامہ کمال الدین ابن عصام رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
فتح القدیر میں علامہ کمال الدینؒ فرماتے ہیں: ’’اگر رافضی ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر ہے تو وہ کافر ہے‘‘۔
(فتح القدیر، باب الامامت:۸)
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
الصارم المسلول میں فرماتے ہیں کہ: ’’اگر کوئی صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کو جائز سمجھ کر کرے تو وہ کافر ہے، صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہے، جو صدیق اکبرؓ کی شان میں گالی دے تو وہ کافر ہے، رافضی کا ذبیحہ حرام ہے، حالانکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے، روافض کا ذبیحہ کھانا اس لئے جائز نہیں کہ شرعی حکم کے لحاظ سے یہ مرتد ہیں‘‘۔
(الصارم المسلول:۵۷۵)
صاحبِؒ فتاویٰ بزازیہ کا فتویٰ:
’’ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے‘‘۔
حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے‘‘۔
(فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہؓ کا اجماع ہے‘‘۔
(شرح فقہ اکبر:۱۹۸)
حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے‘‘۔

(ردّ روافض:۳۱)


شیعہ فرقہ سے متعلق مزید تحقیق کے لئے درجِ ذیل کتب مفید ہوں گی
فرقۂ شیعہ کے رد پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں چند کے نام یہ ہیں:
شیعہ سنی اختلاف اور صراط مستقیم مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ
تاریخی دستاویز ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقیؒ
الشیعۃ القرآن علامہ احسان الٰہی ظہیر
الشیعۃ التشیع علامہ احسان الٰہی ظہیر
الشیعۃ و اہل السنۃ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ
ارشاد الشیعہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر
حقیقت شیعہ مولانا مہر علی
تاریخ مذہبِ شیعہ مولانا عبد الشکور مرزا پوری
ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت مولانا محمد منطور نعمانی
تحفۂ امامیہ مولانا حافظ مہر محمد میانوالی
عقائد شیعہ مولانا حافظ مہر محمد میانوالی
شیعہ کیوں مسلمان نہیں؟ مولانا قاضی مظہر حسین چکوال
فقہ جعفریہ اور مسلمان مولانا حافظ محمد میانوالی
شیعہ کی اسلام سے بغاوت قاری اظہر ندیم
شیعہ اکابرین امت کی نظر میں نا معلوم مرتب
مذہب شیعہ مولانا اللہ یار خان چکڑیالوی
قاتلانِ حسینؓ کی خانہ تلاشی مولانا عبد الشکور فاروقیؒ لکھنوی
ارتداد شیعہ مولانا عبد الشکور فاروقیؒ لکھنوی
عظیم فتنہ مولانا قاضی مظہر حسین چکوال
 
Top