• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فروعی مسائل : تشدّد اور تساہل کے دو رویّے

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
فروعی مسائل : تشدّد اور تساہل کے دو رویّے
تحریر: سرفرازفیضی
داعی صوبائی جمعیت اہل حدیث ، ممبئی


دین میں سارے امر اور نواہی ایک درجے کے نہیں ۔ طلب کی تاکید اور نہی کی تشدید کے اعتبار سے امور شریعت کے درجات اور مراتب مختلف ہیں ۔ دین میں گمراہی جس طرح شریعت کے اوامر کو نظر انداز کردینے اور نواہی کے ارتکاب سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح دینی بے راہ روی کا ایک سبب شریعت کے امور میں اللہ کی طرف سے طے کیے گئے مراتب کا لحاظ نہ کرنا بھی ہے ۔ بدعت اور اھواء پرستی ایک شکل یہ بھی ہے بندہ دینی امورمیں شریعت کی جانب سے طے کیے گئے مراتب کو پس پشت ڈال دے اور دینی ترجیحات میں بجائے شریعت کے منشاء کے اپنے ذوق اور خیالات کو دلیل بنالے ۔جس طرح ایمان والے بندے کے لیے اللہ رب العزّت کے اوامر کا امتثال اور اس کے نواہی سے اجتناب ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ دینی امور میں اللہ رب العزّت کی جانب سے طے کیے گئے مراتب کا لحاظ کرے ۔ دین کے معاملہ میں مراتب کا لحاظ نہ کرنا ہر زمانہ میں مختلف جماعتوں کی گمراہی کا سبب رہا ہے ۔ اہل بیت سے محبّت بلاشبہ دین میں مطلوب اور محمود شئی ہے ۔ لیکن روافض نے اس مستحسن عمل میں غلو کیا اور اس غلو نے ان کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔ کبائر کا ارتکاب بلا شبہ اللہ کے عذاب کا موجب ہے لیکن خوارج اور معتزلہ نے اس معاملہ میں ایسی شدّت اختیار کی کہ اہل کبائر کو سرے سے ایمان سے ہی خارج قرار دے دیا۔ ائمہ کرام کی عظمت مسلّم ہے لیکن اس عظمت میں غلو بندوں کو تقلید کی گمراہیوں تک لے گیا تو دوسری طرف علماء امّت کی تحقیر اور ائمہ کرام کے مرتبے سے ناواقفیت نے غیر مقلّدیت ، اعتزال جدید اور خارجیت جدیدہ کو جنم دیا۔ قرآن کی عظمت کا انکار کون کرسکتاہے لیکن منکرین حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی تشریعی حیثیت کے انکار کو قرآن کی تعظیم کا تقاضہ سمجھا۔ الغرض گمراہ فرقوں کے منہج میں مراتب کا فرق نہ کرپانا ہمیشہ سے پایا گیا ہے ۔
دینی امور کے مراتب اور درجات کو سمجھنے کے لیے دینی امور کو اصول اور فروع میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ اصول اور فروع کی یہ تقسیم صحابہ کے زمانہ میں نہیں تھی ۔ یہ تفریق سب سے پہلے معتزلہ ور دوسرے کلامی فرقوں نے کی ۔اس لیے علماء کے ایک طبقہ اس تقسیم کو صحیح نہیں مانتا ۔ بلکہ ان کے نزدیک دین کے امور دو اقسام کے ہیں ، خبر اور طلب ۔ جو بھی خبر ہے اس کی تصدیق اور ان پر ایمان ضروری ہے اور جو طلب ہے ان کو پورا کرنا لازم ہے ۔ لیکن علماء نے بالعموم لا مشاحۃ فی الاصطلاح کے مدّ نظر اس تقسیم کو ایک فنّی تعریف کی حیثیت سے اس کو قبول کیا ہے ۔ امام ابن تیمیہ اور ابن القیّم وغیرہ ایک طرف اس تقسیم کے لیے ناپسندیدگی کا اظہارکرتے ہیں تو دوسری طرف ان اصطلاحات کا فن میں ایک معنیٰ متعیّن ہوجانے کی وجہ سے فنّی مجبوری کی وجہ سے اس کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس تقیسم کی بنیاد پر دلائل کے قطعی اور ظنّی ہونے کی بنیاد پر دینی امور میں تفریق کرنے کو اسی طرح تکفیر میں اصول و فروع میں جہل کا عذر دینے کا رد بھی کرتے ہیں ۔
فروعی میں اختلاف ہمارے یہاں اکثر بحث کا موضو ع ہوتا ہے۔ فروعی مسائل میں پایا جانا والا رویہ بالعموم دو طرح کی انتہاؤوں کا شکار ہے ۔ ایک انتہاء افراط کی ہے اور دوسری تفریط کی۔ اعتدال کا موقف ان دونوں کے بیچ کا ہے ۔ فروعی مسائل کے حوالہ سے ایک انتہاء تو شدت پسندی کی ہے ۔ شدت پسندی یہ ہے کہ ان فروعی مسائل کو شریعت میں ان کے مقام سے آگے بڑھا کر انہیں محبت و نفرت اور ولاء و براء کا معیار بنا لیا جاتا ہے ۔ ان کی بنیاد پر تکفیر اور تبدیع کے فتوے لگائے جاتے ہیں ۔ گروہ بندیاں اور تفرّق ہوتا ہے ۔ جب ان مسائل میں اختلاف کو ڈسکس کرنے کا لہجہ علمی نہ رہ کر مناظراتی بن جاتا ہے ۔ اس قسم کے مسائل میں جب لہجہ علمی اور تحقیقی ہونے کے بجائے مناظراتی رخ اختیار کرتا ہے تو اخلاق و آداب اور عدل و انصاف کے سارے اصول بھلا دیے جاتے ہیں ۔ پھر بات کفر و بدعت کے الزامات تک پہنچ جاتی ہے ۔ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ہی نہیں علماء کہلانے والا ایک اچھا خاصہ طبقہ بھی اس شدّت پسندی کا شکار ہے ۔ مقلّدین کے ایک طبقہ میں جہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ انہیں چند مسائل کی بنیاد پر جماعت اہل حدیث اور علماء اہل حدیث پر غیر مقلدیت ، شیعیت حتیٰ کہ قادیانیت تک کے الزام لگائے جاتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھا کربات یہودیوں کے ایجنٹ اور وکٹوریہ کی اولاد جیسے بے ہودہ طعنوں تک پہنچائی جاتی ہے وہیں علماء سلف کے توسّع سے ناواقف اہل حدیث عوام اور جاہل خطباء کا بھی ایک منحرف طبقہ ان مسائل کی بنیاد پر عدل کی حدود کو پھلانگ جاتا ہے ۔ احناف کے پیچھے نماز کے عدم جوازیا ان کی تکفیروغیرہ کے فتوے اسی شدت پسندانہ ذہنیت کا مظہر ہیں ۔ دونوں مسالک کے علماء اثبات اس رویہ کی مذمت کرتے ہیں ۔
فروعی مسائل میں دوسرا منحرف رویہ تفریط کا ہے ۔ یہ رویہ پہلے رویّہ سے زیادہ خطرناک ہے ۔ سیکولرازم کے پھیلاؤ نے ہمارے یہاں دین پسند طبقہ میں ایک سوچ کو بہت شدت کے ساتھ بڑھاوا دیا ہے ۔ عبادت کو معاملات سے کمتر جاننے کی سوچ ۔ اس سوچ سے متاثر ایک بڑا طبقہ دین میں سیاسی ، سماجی ، معاشی معاملات کے مقابلہ میں نماز ، روزہ ، حج جیسی عظیم عبادات کو کمتر اور حقیر سمجھتا ہے ۔ بلکہ ان عبادات کے متعلق مختلف مسالک میں پائے جانے والے اختلافات پر بحث و مباحثہ اور تحقیق کو امت کے اتحاد کے لیے نقصان دہ تصور کرتا ہے ۔ ان عظیم سنّتوں کو فروعی مسئلہ بول کر ان کی اہمیت کو کم جتانے کی کوشش کرتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ فروع کے لفظ میں ایک طرح کا ہلکا پن پایا جاتا ہے۔ حالانکہ اصطلاح میں اس کا استعمال دین کے نہایت اہم امور پر ہوتا ہے۔اس لفظ کے استعمال کی وجہ سے ان امور کے غیر اہم یا کم اہم ہونے کی ذہنیت کو بڑھاوا ملتا ہے ۔
ان امتیازی مسائل کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ صرف کچھ مسائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ان کی حیثیت دین کے دو الگ الگ مناہج کے نمائندہ کی ہے ۔ ایک منہج تحقیق و اتباع کا ہے اور دوسرا منہج تقلید و جمود کا ۔ ان مسائل سے یہ طے ہوتا ہے کہ بندہ اپنی پوری زندگی میں علم و تحقیق کا راستہ اپناناچاہتا ہے یا جموداور تقلید کا ۔ لہذا ان مسائل میں بحث و تحقیق کی اہمیت دیگر مسائل سے زیادہ ہے ۔ جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفضیل کا مسئلہ اپنے آپ میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں ۔ لیکن اس کی اہمیت کا اصل پہلو یہ ہے کہ اس مسئلہ کے پیچھے فکر و عقیدہ اور اصول ومنہج کے دو الگ الگ نظام موجود ہیں جن کی نمائندگی یہ مسئلہ کرتا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنّت کی عقیدہ کی کئی کتابوں میں مسح علی الخفین(موزوں پر مسح ) کا ذکر اہل سنّت کے امتیازی مسائل میں کیا گیا ہے ۔ مثلااصول السنّہ للالکائی، عقیدہ طحاویہ ، شرح السنّہ للبربھاری، نونیۃ القحطانی وغیرہ۔کیوں؟ کیونکہ یہ فقہی مسئلہ اہل سنّت اور روافض کے رمیان کا ایک امتیازی مسئلہ ہے ۔ اس لیے اس کی اہمیّت محض ایک فقہی مسئلہ کی نہیں رہی ۔ بلکہ اہل سنّت کا امتیاز اور خصوصیت کی بن گئی۔ حتّی کہ سفیان ثوری فرماتے ہیں : من لم یمسح علی الخفین فاتہموہ علی دینکم۔ جو موزوں پر مسح نہ کرے اس کودین میں متہم قرار دو۔( حلیۃ الأولیاء لأبو نعیم الأصبہانی 3/161) علامہ بدرالدین عینی بخاری کی شرح کرتے ہوئے مسح علی الخفین کے باب میں لکھتے ہیں ۔بیان استنباط الأحکام الأول فیہ جواز المسح علی الخفین ولا ینکرہ إلا المبتدع الضال۔ مسح علی الخفین کا انکار نہیں کرتا سوائے بدعتی اور گمراہ شخص۔ ( عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (5/ 305)
ان مسائل کو جماعت اہل حدیث اس لیے بحث و تمحیص کا موضوع بناتی ہے کیونکہ ان کے ذریعہ یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ بندے اپنے منہج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی محبت کے تقاضوں کا کتنا خیال رکھتا ہے ۔ اس کے لیے نبی صلی علیہ وسلّم کی سنّت زیادہ اہم ہے یا اپنے امام کا مسلک۔ تقلیدی منہج کے بالمقابل اہل حدیث منہج کی یہ خصوصیت یہ ہے کہ اہل حدیث کے پاس نبی کے علاوہ کوئی امام ایسا نہیں جس کے لیے انہیں تعصب برتنے کی ضرورت ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ان کی محبت اور لگاؤ ہر طرح کے لاگ لپیٹ اور تعصب سے پاک ، سچی اور خالص ہے ۔ اور یہ ان پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔ اس قسم کے مسائل میں بحث و تحقیق سے دونوں طرف کے مسالک کی ذہنیت ، سنت سے ان کے تعلق اور لگاؤ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت اور وابستگی واضح ہوتی ہے ۔
 
Top