• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521

السلام علیکم

اجازت ھے یا نہیں کرنے والا جوابدہ ہو گا۔

سکین کاپی میں نکاح متعہ پر تو کچھ نہیں لکھا ہوا پھر بھی اسی پر مفتی اعظم سے جانے جانے والے لیٹ عبرالعزیز بن عبداللہ بن باز کا تفصیلی فتوی بھی ھے اس کا مطالعہ بھی فرمائیں۔

شیخ ابن باز صاحب سے سوال: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن (مغربی) ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے ۔۔۔ ۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟

شیخ ابن باز کا جواب:
جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانبت سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔

اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کے رائے کے مطابق ہر گز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔

عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ مگر اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔

النكاح بنية الطلاق

سمعت لك فتوى على أحد الأشرطة بجواز الزواج في بلاد الغربة ، وهو ينوي تركها بعد فترة معينة ، لحين انتهاء الدورة أو الابتعاث . فما هو الفرق بين هذا الزواج وزواج المتعة ، وماذا لو أنجبت زوجته طفلة ، هل يتركها في بلاد الغربة مع أمها المطلقة أرجو الإيضاح؟

نعم لقد صدر فتوى من اللجنة الدائمة وأنا رئيسها بجواز النكاح بنية الطلاق إذا كان ذلك بين العبد وبين ربه ، إذا تزوج في بلاد غربة ونيته أنه متى انتهى من دراسته أو من كونه موظفا وما أشبه ذلك أن يطلق فلا بأس بهذا عند جمهور العلماء ، وهذه النية تكون بينه وبين الله سبحانه ، وليست شرطا .

والفرق بينه وبين المتعة : أن نكاح المتعة يكون فيه شرط مدة معلومة كشهر أو شهرين أو سنة أو سنتين ونحو ذلك ، فإذا انقضت المدة المذكورة انفسخ النكاح ، هذا هو نكاح المتعة الباطل ، أما كونه تزوجها على سنة الله ورسوله ولكن في قلبه أنه متى انتهى من البلد سوف يطلقها ، فهذا لا يضره وهذه النية قد تتغير وليست معلومة وليست شرطا بل هي بينه وبين الله فلا يضره ذلك ، وهذا من أسباب عفته عن الزنى والفواحش ، وهذا قول جمهور أهل العلم ، حكاه عنهم صاحب المغني موفق الدين ابن قدامة رحمه الله .

حوالہ فتٰوی

الزواج بنية الطلاق
محمد سافر إلى الخارج لعدة شهور، وخوفا من الوقوع في الحرام تزوج بامرأة وفي نيته تطليقها إذا أراد العودة إلى بلده، ما هو الحكم في ذلك؟، وما هو الحكم إذا لم تكن لديه نية مسبقة بطلاقها وأنجبت له طفل أو طفلة، ثم طلقها؟
إذا نوى المسافر بزواجه أنه يطلق إذا عزم على الرحيل، هذا فيه اختلاف بين أهل العلم، من أهل العلم من ألحق هذا بالمتعة، من نكاح المتعة، ومنهم من قال: لا يلحق بنكاح المتعة وليس منها في شيء؛ لأنه قد ينوي ولا يعزم، ليس بشرط، بخلاف المتعة، فإنها مشارطة أنه يطلقها بعد شهر، بعد شهرين، يفارقها، أما هذا فليس بينه وبينهم مشارطه إنما في قلبه ونيته، أما إذا أراد الرحيل من مثلاً : من أمريكا، لندن، من كذا من كذا، من المغرب، من الجزائر طلق، وقد يستر هذه النية ويرغب فيها ويرتحل بها، فالأقرب -والله أعلم- أن هذا لا يكون من المتعة، بل يكون جائزاً، ولكن الأولى أن لا ينوي هذه النية، عليه أن يتزوج إن ناسبته ارتحل بها وإلا طلقها، أما ينوي نيةً جازمة أنه يطلقها، فالأولى ترك ذلك خروجاً من خلاف العلماء، هذا هو الأولى، لكن لا يبطل النكاح ولا يكون متعة بهذه النية، هذا هو الصواب، إنما يكون النكاح ناقصاً لأن في هذه النية والذي ينبغي أن يكون لديه رغبة مطلقة، فإذا نوى أنه إذا فارق أراد الرحيل طلق فالصحيح أنه لا يبطل نكاحه، لكنه ترك الذي ينبغي وهو أن يكون أن ينوي نية مطلقة في الرغبة إن ناسبته أبقاها وإلا طلقها، هذا الذي ينبغي للمؤمن، وأما إذا وقع الواقع، ونكح مسلمة أو كتابية يعني محصنة بعيدة عن الفواحش فإن الله إنما أباح لنا نكاح الكتابيات المحصنات، فإذا نكح كتابية محصنة، جاز ذلك، والأولى البعد عن ذلك وترك ذلك؛ لأنها قد تجر عليه بلاءاً، وقد تنجب أولاداً، وتنصِّرَهم، فينبغي له الحذر من ذلك، وألا يتزوج إلا مسلمة، هذا هو الذي ينبغي حرصاً على سلامة دين أولاده، بل على سلامته هو، فقد تجره إلى دينها وتنصره هي، فينبغي له الحذر، وقد يسلم هو لكن لا تسلم ذريته، فينبغي له الحذر، وألا يتزوج إلا مسلمة معروفة بالخير من بيئة صالحة؛ لأن هذا هو الذي يرجى منه الخير، وترجى معه السلامة والإحصان.

حوالہ فتوٰی

والسلام
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

السلام علیکم

اجازت ھے یا نہیں کرنے والا جوابدہ ہو گا۔

سکین کاپی میں نکاح متعہ پر تو کچھ نہیں لکھا ہوا پھر بھی اسی پر مفتی اعظم سے جانے جانے والے لیٹ عبرالعزیز بن عبداللہ بن باز کا تفصیلی فتوی بھی ھے اس کا مطالعہ بھی فرمائیں۔

شیخ ابن باز صاحب سے سوال: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن (مغربی) ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے ۔۔۔ ۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟

شیخ ابن باز کا جواب:
جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانبت سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔

اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کے رائے کے مطابق ہر گز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔

عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ مگر اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔

النكاح بنية الطلاق
سمعت لك فتوى على أحد الأشرطة بجواز الزواج في بلاد الغربة ، وهو ينوي تركها بعد فترة معينة ، لحين انتهاء الدورة أو الابتعاث . فما هو الفرق بين هذا الزواج وزواج المتعة ، وماذا لو أنجبت زوجته طفلة ، هل يتركها في بلاد الغربة مع أمها المطلقة أرجو الإيضاح؟

نعم لقد صدر فتوى من اللجنة الدائمة وأنا رئيسها بجواز النكاح بنية الطلاق إذا كان ذلك بين العبد وبين ربه ، إذا تزوج في بلاد غربة ونيته أنه متى انتهى من دراسته أو من كونه موظفا وما أشبه ذلك أن يطلق فلا بأس بهذا عند جمهور العلماء ، وهذه النية تكون بينه وبين الله سبحانه ، وليست شرطا .

والفرق بينه وبين المتعة : أن نكاح المتعة يكون فيه شرط مدة معلومة كشهر أو شهرين أو سنة أو سنتين ونحو ذلك ، فإذا انقضت المدة المذكورة انفسخ النكاح ، هذا هو نكاح المتعة الباطل ، أما كونه تزوجها على سنة الله ورسوله ولكن في قلبه أنه متى انتهى من البلد سوف يطلقها ، فهذا لا يضره وهذه النية قد تتغير وليست معلومة وليست شرطا بل هي بينه وبين الله فلا يضره ذلك ، وهذا من أسباب عفته عن الزنى والفواحش ، وهذا قول جمهور أهل العلم ، حكاه عنهم صاحب المغني موفق الدين ابن قدامة رحمه الله .

حوالہ فتٰوی

الزواج بنية الطلاق
محمد سافر إلى الخارج لعدة شهور، وخوفا من الوقوع في الحرام تزوج بامرأة وفي نيته تطليقها إذا أراد العودة إلى بلده، ما هو الحكم في ذلك؟، وما هو الحكم إذا لم تكن لديه نية مسبقة بطلاقها وأنجبت له طفل أو طفلة، ثم طلقها؟
إذا نوى المسافر بزواجه أنه يطلق إذا عزم على الرحيل، هذا فيه اختلاف بين أهل العلم، من أهل العلم من ألحق هذا بالمتعة، من نكاح المتعة، ومنهم من قال: لا يلحق بنكاح المتعة وليس منها في شيء؛ لأنه قد ينوي ولا يعزم، ليس بشرط، بخلاف المتعة، فإنها مشارطة أنه يطلقها بعد شهر، بعد شهرين، يفارقها، أما هذا فليس بينه وبينهم مشارطه إنما في قلبه ونيته، أما إذا أراد الرحيل من مثلاً : من أمريكا، لندن، من كذا من كذا، من المغرب، من الجزائر طلق، وقد يستر هذه النية ويرغب فيها ويرتحل بها، فالأقرب -والله أعلم- أن هذا لا يكون من المتعة، بل يكون جائزاً، ولكن الأولى أن لا ينوي هذه النية، عليه أن يتزوج إن ناسبته ارتحل بها وإلا طلقها، أما ينوي نيةً جازمة أنه يطلقها، فالأولى ترك ذلك خروجاً من خلاف العلماء، هذا هو الأولى، لكن لا يبطل النكاح ولا يكون متعة بهذه النية، هذا هو الصواب، إنما يكون النكاح ناقصاً لأن في هذه النية والذي ينبغي أن يكون لديه رغبة مطلقة، فإذا نوى أنه إذا فارق أراد الرحيل طلق فالصحيح أنه لا يبطل نكاحه، لكنه ترك الذي ينبغي وهو أن يكون أن ينوي نية مطلقة في الرغبة إن ناسبته أبقاها وإلا طلقها، هذا الذي ينبغي للمؤمن، وأما إذا وقع الواقع، ونكح مسلمة أو كتابية يعني محصنة بعيدة عن الفواحش فإن الله إنما أباح لنا نكاح الكتابيات المحصنات، فإذا نكح كتابية محصنة، جاز ذلك، والأولى البعد عن ذلك وترك ذلك؛ لأنها قد تجر عليه بلاءاً، وقد تنجب أولاداً، وتنصِّرَهم، فينبغي له الحذر من ذلك، وألا يتزوج إلا مسلمة، هذا هو الذي ينبغي حرصاً على سلامة دين أولاده، بل على سلامته هو، فقد تجره إلى دينها وتنصره هي، فينبغي له الحذر، وقد يسلم هو لكن لا تسلم ذريته، فينبغي له الحذر، وألا يتزوج إلا مسلمة معروفة بالخير من بيئة صالحة؛ لأن هذا هو الذي يرجى منه الخير، وترجى معه السلامة والإحصان.

حوالہ فتوٰی

والسلام


کیا فقہ حنفی کی دلیل عبرالعزیز بن عبداللہ بن باز کا فتویٰ ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا فقہ حنفی کی دلیل عبرالعزیز بن عبداللہ بن باز کا فتویٰ ہے
اس پر کوئی علمی اعتراض ہے تو پیش کریں۔
جہاں علماء ایک چیز پر متفق ہوں وہاں ہمیشہ ایک دوسرے کے حوالے دیے جاتے ہیں۔ آپ کا نیا اعتراض سننے میں آیا ہے۔
 
Top