فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے اسباب وعوامل
یہ موضوع شروع کرنے سے پہلے کچھ باتیں عرض کرنامناسب ہے؟
تنقید کے دوطریقے ہوتے ہیں تعمیری تنقید اورتخریبی تنقیدجس کو بالفاظ دیگر مثبت تنقید اورمنفی تنقید کہہ سکتے ہیں۔ منفی تنقید سے ہماری مراد غلط تنقید اورتنقیص وتوہین نہیں ہے۔
ایک مصورتصویر بناتاہے۔تصویر اچھی ہے لیکن کچھ خامیاں ہیں۔ ایک شکل تویہ ہے کہ دوسری تصویر بناکر سامنے رکھ دی جائے جوان خامیوں سے مبراہو۔یہ میری نگاہ میں تعمیری تنقید اورمثبت تنقید ہے۔
دوسری شکل یہ ہے کہ تصویر میں جوخامیاں موجود ہین ان کی نشاندہی کردی جائے اوربتایاجائے کہ اس میں فلاں فلاں نقص اورخامی ہے۔اگرچہ تنقیدی دنیا میں ثانی الذکر طریقہ کار زیادہ معروف ہے لیکن ترجیح ہرحال میں اول الذکر طریقہ کارکوہی حاصل ہے۔اس طریقہ تنقید میں خون جگرصرف کرناپڑتاہے۔صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عمل میں لاکر بتاناپڑتاہے ۔
فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کے تعلق سے توبہت پہلے سے آگاہ تھا۔ ابھی حال میں ایک فورم پر اس موضوع پر معلمی کی تصنیف کے کچھ اقتباسات پڑھنے کو ملے جس میں معلمی نے فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے اسباب بیان کئے ہیں۔
پڑھ کرحیرت بھی ہوئی اوراس سے زیادہ افسوس بھی ہواکہ ان کے جیسے اہل علم بھی ضد اورتعصب میں آکر حقائق اورتاریخ کو اس درجہ مسخ کرسکتے ہیں لیکن کیاکیاجائے۔اگران جیسوں سے غلطیاں نہ ہوں توپھرتنقید کی دنیاویران نہیں ہوجائے گی۔ویسے راقم الحروف کے نزدیک اس کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ معلمی جس زمانے میں تانیب الخطیب لکوثری کا رد لکھ رہے تھے توبوجوہ چند اپنے خیالا ت میں متشدد اورفقہ حنفی اورامام ابوحنیفہ کے لئے مخالفانہ جذبات سے متاثر تھے۔لیکن تنکیل کی تصنیف سے فراغت اورردوکد کے ماحول سے نکلنے کے بعد ان کو ان کے اپنے ہی ضمیر نے ملامت کی اوردیگر کتابوں مثلاتاریخ البخاری وغیرہ میں امام ابوحنیفہ کااچھے انداز میں ذکر کیاہے۔جس پر مقبل الوادعی بھی حیرت کااظہار کئے بغیر نہ رہ سکے کہ جومعلمی تانیب الخطیب میں ہمیں نظرآتے ہیں تاریخ البخاری میں اپنی تعلیقات میں ان کا انداز بدلابدلاہواہے۔دیگر کچھ افراد کی شہادت بھی ہے کہ ان کے انتقال سے کچھ پہلے جب ان سے ملاقات ہوئی تووہ تنکیل میں اپنی تحریر اورانداز بیان پر نادم اورشرمندہ تھے۔
میں نے اس مضمون مین جوکہ شاید کچھ طویل ہوگیاہے۔ کوشش کی ہے کہ اس موضوع پر تعمیری اورتخریبی دونوں قسم کی تنقید کروں تاکہ قارئین کے سامنے دونوں پہلوآجائیں۔پہلے تعمیری تنقید کے طورپر فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تاریخی اورحقیقی اسباب بیان کئے گئے ہین اورتخریبی تنقید کے زیرعنوان معلمی کی بیان کردہ وجوہات پر رد کیاگیاہے۔وماتوفیقی الاباللہ
1:امام ابوحنیفہ کااخلاص
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے اندر اپنے کام کے تعلق سے اخلاص ہوتاہے۔خداکی رضامقصود ہوتی ہے خداکے بھی اس کے نام اورکام کو زندہ اورباقی رکھتاہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ امت محمدیہ کثیرالتصانیف امت ہے۔ لیکن اس کے باوجود چند کتابوں کو جوعالمگیرمقبولیت حاصل ہوئی وہ بعدوالوں کوحاصل نہ ہوسکی۔اس کی بڑی وجہ ان کتابوں کے مصنفین کا اخلاص اورنالہ نیم شب ہے۔
عطارہورومی ہورازی ہوغزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتابے آہ سحرگاہی
کچھ ہاتھ نہیں آتابے آہ سحرگاہی
ہم یہ نہیں کہتے کہ جن کے مذاہب مٹ گئے یاپھرزیادہ مقبول نہ ہوئے ان کے موسسین کے اندراخلاص نہ تھاایسی بات سے خداکی پناہ۔ہوسکتاہے اس کی کچھ دوسری وجوہات ہوں گی۔ اللہ پاک نے دنیاکو اسباب وعلل کاکارخانہ بنایاہے۔ان کے مذہب کے مقبول نہ ہونے یامٹنے کی دوسری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان کے موسسین کے اخلاص میں شبہ نہیں کیاجاسکتا۔
ہماراکہنایہ ہے کہ جولوگ فقہ حنفی ککی توسیع اورنشرواشاعت اوراکثر بلادوامصار میں قبولیت عامہ کو صرف سلطنتوں کی پشت پناہی کا ثمرہ سمجھتے ہیں وہ لوگ یقیناغلطی پر اورفاش غلطی پرہیں۔ اس قبولیت عامہ کا مرجع اورمنبع امام ابوحنیفہ کااخلاص اورخداکی رضاجوئی ہے۔
عن وکیع بن الجراح "کان واللہ ابوحنیفۃ عظیم الامانۃ ،وکان اللہ فی قبلہ،جلیلاعظیمایوثررضاہ علی کل شی ولواخذتہ السیوف فی اللہ تعالیٰ لاحتمل،فرضی اللہ عنہ رضاالابرار،فلقد کان واللہ منھم(مناقب الائمۃ الاربعۃ 60)
حدیث مین آتاہے کہ بندہ اعمال کرتارہتاہے یہاں تک اللہ کی نگاہوں میں محبوب ہوجاتاہے پھراللہ فرشتوں سے کہتے ہیں کہ میں اس بندے سے محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کرو اورپھراس بندے کی محبت سے زمین والوں کے دلوں کومعمور کردیاجاتاہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ
یہ امام ابوحنیفہ کااخلاص ہی تھاکہ انہوں نے زندگی بھراپنے مخالفین سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔اگرکسی نے کچھ غلط سلط کہابھی تواس کو سناان سناکردیایااس کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی۔اورمعاملہ خداکے سپرد کردیا۔اللہ کو اپنے بندے کی اداپسند آئی کہ اس کی خاموشی کابدلہ پورے عالم میں شہرت سے دیا۔ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نےفرمایا "اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور (ساتھ ہی) آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ آسمان والے (سب کے سب) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔(صحیح مسلم)
جعفر بن حسن کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیافرمایا۔میری مغفرت فرمادیا۔انہوں نے پوچھاعلم کی وجہ سے۔ توفرمایاکہ فتوی تومفتی کے اوپر بہت ہی سخت معاملہ ہے۔پھرانہوں نے پوچھاکہ کس وجہ سے مغفرت ہوئی توفرمایاکہ لوگوں کے میرے بارے میں ایساکہنے کی وجہ سے جومجھ میں نہیں تھی(یعنی ایسی برائیاں میری جانب منسوب کرنے کی وجہ سے جس سے میں بری تھا)(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص52)
عباد تمارکہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب مین دیکھاتوپوچھاکہ کیامعاملہ پیش آیا۔انہوں نے کہاکہ اپنے رب کی وسیع رحمت کا معاملہ ہوا۔میں نے پوچھاکہ علم کی وجہ سے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ہائے افسوس علم کیلئے توسخت شرائط ہیں اوراس کی اپنی آفتیں ہیں بہت کم لوگ اس سے بچ سکتے ہیں۔پھرمیں نے پوچھاکہ توپھرکس وجہ سے رحمت کا معاملہ ہوا۔فرمایاکہ میرے بارے میں لوگوں کی ایسی ایسی باتوں کے کہنے کی وجہ سے جس سے میں بری تھا۔(المصدرالسابق)
أَخْبَرَنِي إبراهيم بن مخلد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو بكر أَحْمَد بن كامل، إملاء، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن الزبير الحميدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة، وقد بلغا الآفاق: قراءة حمزة، ورأي أَبِي حنيفة.
(تاریخ بغداد15/475اسنادہ صحیح)
سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔
فقہ حنفی کی قبولیت عامہ کی انشاء اللہ یہی بنیادی اوراولین وجہ ہے۔
2:رضائے الہی
2:رضائے الہی
حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی سے جس طرح اسلامی ممالک اوربلادوامصار معمور رہے وہ صرف اللہ کی مرضی اورمنشاء سے ہی تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ورنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ کسی کے اجتہاد کو اتناقبولیت عام بخش دے۔
ہم دنیا میں ایسے کتنے ہی واقعات سے واقف ہیں کہ بہت سارے اشخاص جونہ صرف نہایت قابل اورعالم وفاضل تھے لیکن دنیاان کے فیض سے محروم رہی اوربہت سارے افراد بھلے ہی علمی اعتبار سے کم درجہ کے ہوں لیکن ان سے زیادہ فیض پہنچا۔اوراس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی کوئی ادااللہ کوپسند آجاتی ہے اوراللہ اس کے فیض کو عام کردیتے ہیں اوراس کیلئے صدقہ جاریہ بنادیتے ہیں۔
خدانخواستہ ہماراکہنایہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علم یاعمل کے اعتبار سے کسی سے کمترتھے بلکہ وہ علم وعمل کی جس بلندی پر تھے وہ تاریخ اورکتب سوانح میں مذکور ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورلوگوں کے قبول عام کو صرف رضائے الہی کا ثمرہ سمجھناچاہئے ۔اس کی جانب بعض علمائے نے رضائے الہی اوربعض نے سرالہی سے تعبیر کرکے اشارہ کیاہے۔چنانچہ امام ابن الاثیر لکھتے ہیں۔
ويدل على صحة نزاهته عنها، ما نشر الله تعالى له من الذِّكْر المنتشر في الآفاق، والعلم الذي طبق الأرض، والأَخْذ بمذهبه وفقهه والرجوع إلى قوله وفعله، وإن ذلك لو لم يكن لله فيه سرّ خفي، ورضى إِلهيّ، وفقه الله له لما اجتمع شطرُ الإسلامِ أو ما يقاربهُ على تقليده، والعمل برأيه ومذهبه حتى قد عُبِدَ اللهُ ودِيْنَ بفقهه، وعُمل برأيه، ومذهبه، وأُخذَ بقوله إلى يومنا هذا ما يقارب أربعمائة وخمسين سنة (جامع الاصول12/952)
ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ فقہ حنفی بواسطہ امام حماد،ابراہیمی نخعی، علمقہ واسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پرمنتہی ہوتی ہے ۔اورصرف فقہ حنفی ہی کیوں کہئے۔ بلکہ تمام فقہاء کوفہ کافقہ وفتاویٰ میں اصل مرجع حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہی اوروہی دراصل فقہ کوفی کے بانی مبانی ہیں۔اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ ابن ام عبد جوتمہارے لئے پسند کریں میں بھی اس کوتمہارے لئے پسند کرتاہوں۔اورجوابن ام عبد ناپسندکریں میں بھی اس کوتمہارے لئے ناپسند کرتاہوں۔
رَضِيْتُ لأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم3/317)
ایک دوسری روایت میں یہ لفظ بھی آیاہے۔
قَدْ رَضِيْتُ لَكُم مَا رَضِيَ لَكُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم 3/319)
رَضِيتُ لأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ ، وَكَرِهْتُ لأُمَّتِي مَا كَرِهَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ "
(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل)
اوریہ سمجھنامشکل نہیں کہ جواللہ کے رسول کی پسند ہوگی وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بھی پسندیدہ ہوگی ۔
فقہ حنفی مراد حق ہے اوراس کی قبولیت میں رضائے الہی کو دخل ہے اس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بعض رسالوں میں اشارہ کیاہے۔ وہ اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک دوسرے مقام پر اپنے مکاشفات ذکر کرتے ہوئے لکھاہے۔ایک روز اس حدیث پر ہم نے گفتگو کی کہ ایمان اگرثریاکے پاس بھی ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ یاان میں کاایک شخص اس کوضرورحاصل کرلیتا۔فقیر (شاہ صاحب)نے کہاکہ امام ابوحنیفہ اس حکم میں داخل ہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے علم فقہ کی اشاعت آپ ہی کے ذریعہ کرائی اوراہل اسلام کی ایک جماعت کو اس فقہ کے ذریعہ مہذب کیا۔ خصوصا اس اخیر دور میں کہ دولت دین کا سرمایہ یہی مذہب ہے۔سارے ملکوں اورشہروں میں بادشاہ حنفی ہیں۔قاضی حنفی ہیں ۔اکثر درس علوم دینے والے علماء اوراکثرعوام بھی حنفی ہیں۔ (کلمات طیبات مطبع مجتبائی ص168)
آگے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ"مذہب کا معاملہ بھی ایساہی ہوتاہے کہ کبھی ایک ملت کی حفاظت کی طرح حق تعالیٰ کی عنایت خودکسی مذہب کی حفاظت کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے۔ اس معنی کرکہ اس مذہب کے نگہبان وپیرو ہی اس وقت ملت کی جانب سے مدافعت کرنے والے ہوتے ہیں۔یایہ کسی علاقے میں انہی کا شعارحق وباطل کے درمیان وجہ فرق ہوتاہے۔اس صورت حال کے پیش نظرملاء اعلی یاملاء اسفل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ملت دراصل یہی مذہب ہے"۔
(فیوض الحرمین105،بحوالہ فقہ ولی اللہی150)جب یہ تمہید ذہن نشیں ہوگئی توآگے کہتاہوں۔مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اوراہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کیلئے غوروفکر کرتارہاحتی کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولیٰ کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے"۔
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے بیشترادوار میں اسلامی مملکتوں کے سربراہ حنفی رہے ہیں اورسرحدوں کی حفاظت،دشمنان دین اسلام سے مقاتلہ،دارالاسلام کی توسیع اوراحکام شرعیہ کانفاذ انہی کے ہاتھوں میں رہالہذا حنفی مذہب کی بقاء اورحفاظت خود مرضی الہی رہی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت شاہ صاحب نے فروعات فقہیہ میں اپنی قوم کی مخالفت کومراد حق کی مخالفت قرارددیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں
ان مراد الحق فیک ان یجمع شملامن شمل الامۃ المرحومہ بک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقضۃ لمراد الحق(فیوض الحرمین ص62)
حق تعالیٰ کی مراد تم سے یہ ہے کہ امت مرحومہ کی شیرازی بندی کی جائے اورخبردار اپنی قوم کی فروعات میں مخالفت سے بچتے رہناکیونکہ وہ حق تعالیٰ کی مراد کے خلاف ہیں۔
یہ تھوڑے سے نصوص یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ رضائے الہی کےعنوان سے میں نے جوفقہ حنفی کی نشرواشاعت کا سبب بیان کیاہے ۔وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اوریہ راقم الحروف کی اختراع نہیں بلکہ دیگر سابق علماء کی تحقیق سے استمداد واستفادہ ہے۔