- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
صوفیاء نے تزکیہ نفس میں فناء اور بقاء کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ متقدمین صوفیاء کا تصور فناء وبقا سادہ تھا۔ فناء سے ان کی مراد رذائل نفس سے اپنی ذات کو پاک کرنا اور بقاء سے مراد اخلاق حمیدۃ سے اپنے نفس کو متصف کرنا تھا۔ فناء کی اصطلاح رذائل کے لیے تھی اور بقاء کی اخلاق عالیہ کے لیے۔
اس کے بعد صوفیاء کی ایک ایسی جماعت آئی جنہوں نے تصوف کا عمل سے زیادہ نظریہ بنا دیا۔ انہوں نے فناء فی اللہ اور بقاء باللہ کو سالک کی منازل قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک فناء فی اللہ عروج ہے اور بقاء باللہ زوال ہے۔ یعنی سالک اپنے تزکیہ نفس میں اپنے قلب وذہن کو غیر سے اس طرح پاک کر لے کہ وہ یعنی غیر اس یعنی سالک کے ہاں درجہ علم میں نہ رہیں۔ سالک کو اپنے خالق کے علاوہ کچھ محسوس نہ ہو۔ ایسا سالک اپنے آپ کو اللہ کی ذات میں فناء کر دیتا ہے بایں معنی کہ اس پر اللہ کے تصور اور محبت کا اس قدر غلبہ ہے کہ غیر کا وجود اس کے دل ودماغ میں باقی نہیں رہا ہے۔ فناء فی اللہ کے بعد بعض سالکین کو بقاء باللہ کا مرتبہ دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس نے اپنے آپ یعنی اپنے دل ودماغ کو اللہ کی ذات میں فناء کر دیا ہے بایں معنی کہ اللہ کے ماسواء کسی کا نہ تو اس کے ذہن میں تصور باقی ہے اور نہ دل میں محبت۔ تو مخلوق اس کے لیے ایک اعتبار معدوم ہو گئی ہے۔ اب اللہ کی طرف سے تبلیغ ودعوت یا کسی دوسری مصلحت کے سبب سے سالک کو دوبارہ مخلوق کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور وہ اللہ کے تصور کے ساتھ غیر کا تصور اپنے ذہن میں اور اللہ کی محبت کے ساتھ مخلوق کی محبت اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اس طرح مخلوق جو کہ فناء فی اللہ میں سالک کے لیے معدوم ہو چکی تھی، اگرچہ حقیقت میں وہ موجود تھی، تو بقاء باللہ وہ مخلوق دوبارہ سالک کے قلب وذہن میں آ موجود ہوتی ہے۔
ہمیں فناء وبقاء کی ان دونوں تعبیرات سے دلچسپی نہیں ہے۔ پہلی تعبیر اگرچہ اپنے مقصود میں تو شرعی ہے یعنی رذائل کا خاتمہ اور اخلاق عالیہ سے متصف ہونا لیکن یہ معنی متبادر الذہن معلوم ہوتا ہے۔ اور فناء وبقاء کی دوسری تعبیر تو شرعی اعتبار سے بھی مطلوب نہیں ہے کیونکہ اس تعبیر کو مان لینے کی صورت میں فناء فی اللہ کا عروج استغراق اور سکر قرار پاتا ہے جو شرعی اعتبار سے مطلوب صفات نہیں ہیں۔ استغراق اگر مطلوب ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کی نماز میں بچے کی رونے کی آواز سن کر نماز مختصر نہ کرتے۔
اگر ہم کتاب وسنت سے فناء وبقاء کا تصور لیں تو وہ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ فناء وبقاء سے مراد اللہ کے قرب کے شوق میں اپنی جان کو قربان کر دینا۔ اللہ کے رستے میں جان دے دینا، جسے ہم شہادت کہتے ہیں، سے بڑھ کر انسان کیا مرتبہ فناء حاصل کرے گا؟ اور اس فناء یا شہادت کے بعد اللہ کے عرش کے نیچے قندیلوں میں رات گزارنے سے بڑھ کر بقاء باللہ کا کیا تصور ہمارے قلب وذہن میں آ سکتا ہے یا کتاب وسنت سے تصدیق حاصل کر سکتا ہے۔ شہید در اصل مقام فناء سے گزر کر بقاء کا ایسا مقام حاصل کر لیتا ہے کہ جس کو پھر زوال نہیں ہے۔ اور یہاں فناء زوال ہے اور بقاء عروج ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
" وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ " [ آل عمران : 169 ]
اور تم ان لوگوں مردہ خیال مت کرو جو اللہ کے رستے میں مارے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دیے جاتے ہیں۔
جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ فِي أَيِّ الْجَنَّةِ شَاءُوا، ثُمَّ تَرْجِعُ إِلَى قَنَادِيلِهَا فَيُشْرِفُ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ فَيَقُولُ: أَلَكُمْ حَاجَةٌ؟ تُرِيدُونَ شَيْئًا؟ فَيَقُولُونَ: لَا، إِلَّا أَنْ نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى "
اس کے بعد صوفیاء کی ایک ایسی جماعت آئی جنہوں نے تصوف کا عمل سے زیادہ نظریہ بنا دیا۔ انہوں نے فناء فی اللہ اور بقاء باللہ کو سالک کی منازل قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک فناء فی اللہ عروج ہے اور بقاء باللہ زوال ہے۔ یعنی سالک اپنے تزکیہ نفس میں اپنے قلب وذہن کو غیر سے اس طرح پاک کر لے کہ وہ یعنی غیر اس یعنی سالک کے ہاں درجہ علم میں نہ رہیں۔ سالک کو اپنے خالق کے علاوہ کچھ محسوس نہ ہو۔ ایسا سالک اپنے آپ کو اللہ کی ذات میں فناء کر دیتا ہے بایں معنی کہ اس پر اللہ کے تصور اور محبت کا اس قدر غلبہ ہے کہ غیر کا وجود اس کے دل ودماغ میں باقی نہیں رہا ہے۔ فناء فی اللہ کے بعد بعض سالکین کو بقاء باللہ کا مرتبہ دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس نے اپنے آپ یعنی اپنے دل ودماغ کو اللہ کی ذات میں فناء کر دیا ہے بایں معنی کہ اللہ کے ماسواء کسی کا نہ تو اس کے ذہن میں تصور باقی ہے اور نہ دل میں محبت۔ تو مخلوق اس کے لیے ایک اعتبار معدوم ہو گئی ہے۔ اب اللہ کی طرف سے تبلیغ ودعوت یا کسی دوسری مصلحت کے سبب سے سالک کو دوبارہ مخلوق کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور وہ اللہ کے تصور کے ساتھ غیر کا تصور اپنے ذہن میں اور اللہ کی محبت کے ساتھ مخلوق کی محبت اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اس طرح مخلوق جو کہ فناء فی اللہ میں سالک کے لیے معدوم ہو چکی تھی، اگرچہ حقیقت میں وہ موجود تھی، تو بقاء باللہ وہ مخلوق دوبارہ سالک کے قلب وذہن میں آ موجود ہوتی ہے۔
ہمیں فناء وبقاء کی ان دونوں تعبیرات سے دلچسپی نہیں ہے۔ پہلی تعبیر اگرچہ اپنے مقصود میں تو شرعی ہے یعنی رذائل کا خاتمہ اور اخلاق عالیہ سے متصف ہونا لیکن یہ معنی متبادر الذہن معلوم ہوتا ہے۔ اور فناء وبقاء کی دوسری تعبیر تو شرعی اعتبار سے بھی مطلوب نہیں ہے کیونکہ اس تعبیر کو مان لینے کی صورت میں فناء فی اللہ کا عروج استغراق اور سکر قرار پاتا ہے جو شرعی اعتبار سے مطلوب صفات نہیں ہیں۔ استغراق اگر مطلوب ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کی نماز میں بچے کی رونے کی آواز سن کر نماز مختصر نہ کرتے۔
اگر ہم کتاب وسنت سے فناء وبقاء کا تصور لیں تو وہ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ فناء وبقاء سے مراد اللہ کے قرب کے شوق میں اپنی جان کو قربان کر دینا۔ اللہ کے رستے میں جان دے دینا، جسے ہم شہادت کہتے ہیں، سے بڑھ کر انسان کیا مرتبہ فناء حاصل کرے گا؟ اور اس فناء یا شہادت کے بعد اللہ کے عرش کے نیچے قندیلوں میں رات گزارنے سے بڑھ کر بقاء باللہ کا کیا تصور ہمارے قلب وذہن میں آ سکتا ہے یا کتاب وسنت سے تصدیق حاصل کر سکتا ہے۔ شہید در اصل مقام فناء سے گزر کر بقاء کا ایسا مقام حاصل کر لیتا ہے کہ جس کو پھر زوال نہیں ہے۔ اور یہاں فناء زوال ہے اور بقاء عروج ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
" وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ " [ آل عمران : 169 ]
اور تم ان لوگوں مردہ خیال مت کرو جو اللہ کے رستے میں مارے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دیے جاتے ہیں۔
جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ فِي أَيِّ الْجَنَّةِ شَاءُوا، ثُمَّ تَرْجِعُ إِلَى قَنَادِيلِهَا فَيُشْرِفُ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ فَيَقُولُ: أَلَكُمْ حَاجَةٌ؟ تُرِيدُونَ شَيْئًا؟ فَيَقُولُونَ: لَا، إِلَّا أَنْ نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى "