• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فوت شدگان کا وسیلہ پکڑنا

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

فتاویٰ و مسائل --- محمد بن عبد الوہاب --- فوت شدگان کا وسیلہ پکڑنا جائز / احمد بن حنبل وسیلہ کے قائل


1.jpg

ترجمہ : دسواں مسئلہ - علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے -

(مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد ٤ ، صفحہ ٦٨)

وسیلہ کے بدترین شرک کو فقہی و اجتہادی مسئلہ بنا دیا - وسیلہ کے شرک میں گزری ہوئی قومیں بری طرح مبتلا تھیں مالک فرماتا ہے کہ:

وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ


اور کہتے ہیں کہ یہ الله کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں - کہہ دو کہ کیا تم الله کو ایسی چیز بتاتے ہو جس کا وجود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین میں - وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شرک کرنے سے بہت بلند ہے -


(سورة يونس:١٨)

اسی طرح ابن الجوزی لکھتے ہیں کہ:

ترجمہ : ابو بکر بن صدقہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ احمد بن حنبل کے سامنے صفوان بن سلیم کا ان کے قلیل الروایت ہونے کا اور ان کی بعض مخالف جمہور باتوں کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صفوان ایسے شخص ہیں کہ ان کی حدیثوں کے ذریعہ شفا طلب کی جاتی ہے اور ان کے ذکر سے بارش مانگی جاتی ہے -

(صفتہ الصفوة ، جلد ٢ ، صفحہ ١٥٦)


2.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

3.jpg


ہمارا مذہب امام احمد بن حنبل کا مسلک ہے ، جو اہلسنت کے امام ہیں ، ہم چاروں مذاہب کے مقلدین پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ، جبکہ وہ کتاب و سنت اجماع اور جمہور کے قول کے مخالف نہ ہو -


(مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / رسائل الشخصیہ ، جلد ٧ ، صفحہ ١٠٧)

مزید لکھتے ہیں کہ:

ترجمہ : الله کا شکر ہے کہ ہم متبع سنت ہیں ، موجدِ بدعت نہیں ، امام احمد بن حنبل کے مسلک پر کاربند ہیں - (ایضاً ، صفحہ ٤٠)

4.jpg

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
اولیاء سے توسل كرنا

سوال نمبر2: فتوی نمبر:(1328):


کیا کسی مسلمان کے لئے بارگاہِ الہی میں انبیاء وصالحین کو توسل كرنا جائز ہے، كيونکہ مجھے بعض علماء کا قول پتا چلا ہے: کہ اولیاء کو وسیلہ بنانے میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ اس میں دعاء اللہ سے ہے اور بعض کو میں نے بالکل اس کے برعکس کہتے سنايا، اس مسئلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

ج 2: ولی: ہر شخص جو اللہ پر ایمان لائے اور اس سے ڈرے اور ہر اس چیز کو بجا لائے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے اور ہر اس چیز سے باز رہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے، اور ان سب کے سردار اللہ کے رسول اور انبیاء عليهم الصلاة والسلام ہیں، الله تعالى نے فرمايا:
ﯾﺎﺩﺭﻛﮭﻮ الله کے ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﮧﻛﻮﺋﯽﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻭﮦ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

(62)

ﯾﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ( ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ) ﭘﺮﮨﯿﺰ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔​

( جلد کا نمبر 1; صفحہ 499)
بارگاہِ الہی میں اولیاء کو توسل كرنے کی کئی قسمیں ہیں:پہلی قسم: یہ ہے کہ کوئی شخص کسی زندہ ولی سے دعا کی درخواست کرے کہ وہ اس کے لئے وسعتِ رزق شفائے امراض ہدایت یا اس جیسی دعا کرے تو ایسا کرنا جائز ہے، اور بارش کی تاخیر کے وقت بعض صحابہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے لئے دعا کروانا بھی اسی قسم میں داخل ہے، پس آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے رب سے بارش کے لئے دعا کی، اللہ نے آپ کی دعا قبو ل کی اور ان پر بارش برسائی، اور اسی طرح صحابہ کا حضرت عباس سے خلافتِ عمر میں نزولِ بارش کے لئے دعا کا طلب کرنا کہ وہ نزولِ بارش کے لئے دعا کریں تو حضرت عباس نے اپنے رب سے دعا کی اور تمام صحابہ نے آپکی دعا پر آمین کہا ... اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس کے بعد کسی مسلمان کا کسی مسلمان بھائی سے دعا کی گزارش کرنا کہ وہ اس کے لئے کسی منفعت یا مصیبت کو دور کرنے کے لئے اللہ سے دعا کرے۔دوسری قسم: یہ ہے کہ کوئی بارگاہِ الہی میں اپنے نبی اور اس کی تابعداری کرنے والوں کی محبت اور اولیاء اللہ کی محبت کو توسل كر تے ہيں اور يہ کہتے کہ: اے اللہ میں تجھـ سے تیرے نبی اور اس کے فرمان بردار لوگوں سے اپنی محبت اور تیرے اولیاء سے اپنی محبت کے صدقے یہ مانگتا ہوں تو ایسا کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بندے کا اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنانا ہے، اور تین غار والوں کا اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا ثابت ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہے
۔تيسری قسم: یہ ہے کہ کوئی اللہ سے اس کے انبیاء اور اس کے اولیاء کا واسطہ دیتے ہوئے یوں کہے کہ: ( اے اللہ میں تجھـ سے تیرے نبی یا فلان ولى کے جاه سے توسل کرتا ہوں)
( جلد کا نمبر 1; صفحہ 500)
تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اولیاء اللہ کا وسیلہ اگرچہ اللہ کے ہاں عظیم ہے اور خاص طور پر ہمارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیکن یہ کوئی دعا کی قبولیت کا شرعی یا عادی سبب نہیں ہے، اور اسی لئے صحابہ جب قحط میں مبتلا ہوئے تو برسات کے لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کو چھوڑ کر آپ کے چچاعباس کے وسیلے کو اپنایا باوجود اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہر وسیلے سے اعلی ہے، اور صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو وسیلہ بناتے ہوئے نہیں دیکھا گیا جب کہ وہ بہترین زمانے والے تھے اور لوگوں سے زیادہ آپ کا حق جانتے تھے اور لوگوں سے زیادہ آپ سے محبت کرتے تھے۔چوتهی قسم: یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رب سے اپنی حاجت طلب کرتے ہوئے اس کے ولی یا نبی یا کسی نبی یا ولی کے حق کو توسل كرتے اور یوں کہتے کہ: ( اے اللہ میں تجھ سے تیرے فلاں ولی یا تیرے فلاں نبی کے حق کووسیلہ بناتے ہوئے سوال کرتا ہوں )، تو ایسا کرنا ناجائز ہے، کیونکہ مخلوق کی مخلوق پر قسم کھانا ممنوع ہے، اور اللہ پر ایسی قسم کھانا جو کہ خالق پر شدید منع ہے، پھر مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں فقط اس کی اطاعت بجالانا ہے یہاں تک کہ اللہ پر کسی کی قسم کھائے یا کسی کو توسل كرتے، یہ وہ حکم ہے جس پر دلائل گواہ ہیں، اور اسی کے سبب اسلامی عقائد محفوظ ہیں اور اسی کے ساتھـ شرک کے تمام راستوں کو بند کیا گیا ہے۔

وبالله التوفيق . وصلى الله على نبينا محمد ، وآله وصحبه وسلَّم .


علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

ممبرممبرنائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن منیع عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


 
Last edited:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”وسیلہ کے قائل“یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم ”صالحین“ کا وسیلہ اس لیے دیدتے ہیں کہ اس سے ”دعا“قبول ہونےکی زیادہ”امید“ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں ”ڈھکے چھپے“وہ یہ باور کرواتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ان”صالحین“کی ”محبت“سے مجبور ہے لہذا اب تو ”دعا“قبول ہونے میں کوئی ”امر“مانع نہیں۔ مگر ان ”قائلینِ وسیلہ“کو یہ کون سمجھائے کہ اللہ تعالٰی ”امید“ کو یقین “ میں بدلنے ہی کےلیے تو ہم سے فرماتا ہے کہ:-
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ
تمہارا رب کہتا ہے ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔
قرآن ، سورت غافر، آیت نمبر 60
لہذا ہمیں ”صالحین“کا وسیلہ دینے کی نہیں بلکہ اپنی”امید“ کو ”یقین“میں بدلنے کی ضرورت ہے مزید یہ کہ اللہ تعالٰی ہمیں ”صالحین“ کی ”صف“ میں شامل ہونے کا ”حکم“دیتا ہے نہ کہ ”صالحین“کا ”وسیلہ “ دینے والوں کے ”جتھے“میں،”صالحین“کا ”وسیلہ“دینے والوں کا ”ایمان“ کمزور ہوتا ہےکیونکہ انہیں یہ ”یقین“ ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالٰی ہمیں ”بغیر“ وسیلے کے ”عطاء“ کر سکتا ہے۔
جب قانون یہ ہےکہ:-

مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾
اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں وہ زبردست اور حکیم ہے۔
قرآن، سورت فاطر، آیت نمبر 02
اگر ہم ”حرام خوریوں“کو ”جاری وساری“رکھیں تو پھر کون سے”صالحین“کا ”وسیلہ“ ہمیں ”قہرِ الہٰی“سے بچا سکتا ہے ؟ اور اگر ہمارا اللہ تعالٰی پر ”یقین“ ہو تو کون سے”طاقتیں“ ہمیں ” رحمت ِ الہٰی “کا مستحق بننے سے ”روک “ سکتی ہیں؟
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٦٠﴾
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
قرآن، سورت آلِ عمران، آیت نمبر 160
لہذا بنیادی ”نظریہ“ صالحین کا ”وسیلہ“ دینا نہیں بلکہ ”ضعفِ ایمان“کا ہے۔
سب سے اچھی
”مثال“قومِ یونسؑ کی ہے جب حضرت یونسؑ اپنی قوم کی ”ضلالتوں“سے ناراض ہو کر ”بستی“چھوڑکرچلے گئے تھے پھرجب قوم نے ”قہرِ الہٰی “کے آثاردیکھے تو اپنی ”غلطیوں“سے تائب ہوئے اور اپنی زندگی کو بدلنے کا ”عہد“ کر لیا تو اللہ تعالٰی نے بھی ان پر ”رحم“کیا اور ”عذاب“ کو ان سے ”ٹال“دیا اور حضرت یونسؑ کو اذنِ الہٰی کے ”بغیر“بستی چھوڑنے پراللہ تعالٰی نےبطورِ تنبیہ”مچھلی کے پیٹ“میں ڈال دیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے ”صالحین“کا ”وسیلہ“تھا جن کی بدولت ”قومِ یونسؑ“ سے عذاب ہٹا دیا گیا ؟
یہی وجہ ہے جو اللہ تعالٰی نے صاف اعلان کر دیا ہے کہ :-
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿١٨٦﴾
اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم اُنہیں سنا دو، شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔
قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 186
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
فتاویٰ و مسائل محمد بن عبد الوہاب کے حوالے امام احمدؒ کے نام پر جو "وسیلہ " کی بات لکھی گئی ہے ،وہ سرا سر غلط اور بے بنیاد ہے ۔

عقائد اسلامیہ میں امام احمدرحمہ اللہ کے اقوال و آراء پہلے دن سے معروف و مشہور اور مدون ومرتب ہیں ۔
ان کے اقوال کوئی غیر معروف اور عجائب وغرائب قسم کا کلام تو ہےنہیں جسے پندرھویں صدی کا کوئی غیر معروف آدمی سامنے لائے ۔
ان کی اپنی اور ان کے تلامذہ کی کئی کتب اس موضوع پر صدیوں سے علماء کے ہاتھوں اور زبانوں پر ہیں ۔


امام احمد ؒ کا قول شیخ محمد بن عبدالوہاب سے منسوب ان کے رسائل و فتاوی کے کسی مجموعہ سے نقل کیا گیا ہے ۔حالانکہ امام احمد
کا قول تو متقدمین کی کسی معروف ومستند کتاب میں موجود ہونا چاہیئے۔اور حوالہ بھی اسی کا مقبول ہوگا ۔

اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کا حوالہ اس لئے غلط ہے ،کہ ان کے اور انکے ابناء و احفاد کے کلام و فتاوی کا مشہور و مستند مجموعہ
الدرر السنیۃ "بڑے عرصہ سے اہل علم کے ہاتھوں میں ہے۔ اس میں اس توسل کے خلاف موجود ہے ۔
ذیل میں ہم شیخ محمد بن عبدالوہاب کے بیٹے عبداللہ اور پوتے سلیمان کا فتوی پیش کر رہے ہیں ،جو اس بات کا ثبوت ہے
کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے نام بدعی وسیلہ کے جواز کی نسبت قطعاً غلط ہے ؛


التوسل 2.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
اور "صفوۃ الصفوۃ " کے حوالے سے امام احمد کا جو قول نقل کیا ہے ،وہ بھی بالکل بے بنیاد ہے ؛
کتاب کے مصنف ابن جوزی ؒ 510 ھ میں پیدا ہوئے ۔جبکہ ابو بکر بن صدقہ ؒ 293 ھ میں فوت ہوچکے تھے
اس طرح 250 سال کا فاصلہ بنتا ہے ۔جس کی سند موجود نہیں ۔
پہلے اس کی سند پیش کی جائے پھر اس پر بات ہوسکتی ہے ۔
 
Top