ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
فکر غامدی سے متاثر ایک بھائی کا کہنا تھا کہ غامدی صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری ماخذ مانتے ہیں اور آپ سلف کو لہذا آپ خود ہی بتائیں بہتر کون غامدی صاحب یا آپ ؟
تو جوابا عرض کیا کہ :
پہلی بات تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین کے آخری اور تنہا ماخذ ہیں، ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا معنی ومفہوم کیا تھا ؟ یہ ہمیں اسلاف امت یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین بتاتے ہیں، اور یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ کسی ماحول معاشرے یا گفتگو کا مطلب وہاں کے رہنے والے ہیں جانتے ہیں دور رہنے والے یا بعد والے نہیں، تو ہم لو گ جو زمانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں ہم ان کی گفتگو کا معنی کیسے متعین کر پائیں گے جب تک صحابہ رضو ان اللہ علیہم اجمعین ہمیں نہ بتائیں۔
اب آتے ہیں غامدی صاحب کی طرف محترم انتہائی معذرت مگر آپ نے غامدی صاحب کا پو را موقف پیش نہیں کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کو آخری ماخذ تو شاید مانتے ہوں لیکن اس ماخذ تک سائی کا کی جو راہ ہے یعنی حدیث اس کو نہیں مانتے ۔۔۔۔ملاحظہ ہو '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریرو تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار احاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ، ان کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔۔۔۔(میزان : 61) اب دیکھ لیجئے حدیث کو وہ حاکم کا درجہ دینے پہ تیار نہیں ہیں، تو وہ کون سی راہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے فیصلوں تک رسائی ہو گی ؟ اور رسائی ہونے کے بعد کیسے معلوم ہوپائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فلاں بات کہی ہے وہ دین میں کوئی نیا حکم ہے یا کسی پرانے حکم کی تشریح ہے ؟ اس پر کوئی قاعدہ، ضابطہ بیان فرما دیں اور راہ بھی بتا دیں جس سے آخری ماخذ تک رسائی ہو سکے ۔۔۔۔۔ممنون ہوں گا والسلام ابوالوفا محمد حماد اثری
تو جوابا عرض کیا کہ :
پہلی بات تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین کے آخری اور تنہا ماخذ ہیں، ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا معنی ومفہوم کیا تھا ؟ یہ ہمیں اسلاف امت یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین بتاتے ہیں، اور یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ کسی ماحول معاشرے یا گفتگو کا مطلب وہاں کے رہنے والے ہیں جانتے ہیں دور رہنے والے یا بعد والے نہیں، تو ہم لو گ جو زمانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں ہم ان کی گفتگو کا معنی کیسے متعین کر پائیں گے جب تک صحابہ رضو ان اللہ علیہم اجمعین ہمیں نہ بتائیں۔
اب آتے ہیں غامدی صاحب کی طرف محترم انتہائی معذرت مگر آپ نے غامدی صاحب کا پو را موقف پیش نہیں کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کو آخری ماخذ تو شاید مانتے ہوں لیکن اس ماخذ تک سائی کا کی جو راہ ہے یعنی حدیث اس کو نہیں مانتے ۔۔۔۔ملاحظہ ہو '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریرو تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار احاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ، ان کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔۔۔۔(میزان : 61) اب دیکھ لیجئے حدیث کو وہ حاکم کا درجہ دینے پہ تیار نہیں ہیں، تو وہ کون سی راہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے فیصلوں تک رسائی ہو گی ؟ اور رسائی ہونے کے بعد کیسے معلوم ہوپائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فلاں بات کہی ہے وہ دین میں کوئی نیا حکم ہے یا کسی پرانے حکم کی تشریح ہے ؟ اس پر کوئی قاعدہ، ضابطہ بیان فرما دیں اور راہ بھی بتا دیں جس سے آخری ماخذ تک رسائی ہو سکے ۔۔۔۔۔ممنون ہوں گا والسلام ابوالوفا محمد حماد اثری