• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم قرآن (ترجمہ و تفسیر)

شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿٥٤
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
٥٤۔١ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا (فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ) 2۔ البقرۃ:54) (اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کر دیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کر دیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر)
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴿٥٥
اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔
٥٥۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالٰی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالٰی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔

ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴿٥٦

لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖكُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَ۔ٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
﴿٥٧
اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلوا اتارا (١) (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ ' اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
٥٧
۔
١
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کر دیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔
٥٨
۔
١
بعض کے نزدیک اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلادقت پہنچ جاتا تھا اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بوئے کے پیدا ہو جاتی ہے۔ سلوا بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ (فتح القدیر)
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَـٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚوَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ﴿٥٨
اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں (١) جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو (٢) اور زبان سے کہو (٣) ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔
ف۱ اس بستی سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔
ف۲ سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدہ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز اور انکسار کا اظہار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔
ف۳حِطَّةٌ اس کے معنی ہیں ہمارے گناہ معاف فرما دے۔

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴿٥٩

پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی (١) بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب (٢) نازل کیا۔
٥٩۔١ اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو حکم دیا گیا کہ سجدہ کئے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سروں کو زمین میں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حکم بجا لانے کی بجائے ان سے ان کی سرتابی و سرکشی کا جو ان کے اندر پیدا ہو گئی تھی اور احکام الہی سے تمسخر اور مذاق جس کا ارتکاب انہوں نے کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ واقع یہ ہے جب کوئی قوم کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہو جائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہی کے ساتھ اسے طرح کا ہو جاتا ہے
٥٩۔٢ یہ آسمانی عذاب کیا تھا؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس کی آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖفَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّـهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٦٠
جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور (١) ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا، (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالٰی کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
(۱) یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ظاہر فرمایا۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖقَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٦١
اور جب تم نے کہا اے موسٰی! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی (١)۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے (٢) یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے (٣) تھے، ان کی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے (٤
٦١۔١ یہ قصہ اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں مصر نہیں بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ انکا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت تھا۔ ان سے کہا گیا تمہارے لئے وہاں پر مطلوبہ چیزیں ہیں۔
٦١۔٢ کہاں وہ انعامات و احسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت و مسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کر دی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے جس کی تاویل ارادہ عقوبیت یا نفسِ عقوبیت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالٰی ان پر غضب ناک ہوا۔
٦١۔٣یہ ذلت اور غضب الٰہی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے۔ گویا اللہ تعالٰی کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیاء علیہ السلام اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہودی اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل و رسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں؟
٦١۔٤ یہ ذلت و مسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْ (نافرمانی کی) کا مطلب جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا ان کا ارتکاب کیا۔ اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہے جسطرح حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعتداء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢
ہم مسلمان ہوں، یہودی ہوں (١) نصاری (٢) ہوں یا صابی (٣) ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ (٤)
٦٢۔١ یھود ھوادۃ (بمعنی محبت ) سے یا تھود (بمعنی توبہ ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہود کہاجاتا ہے
٦٢۔٢ نصاری ۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کامادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا ، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیساکہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا تھا آیت ( نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ)61۔ الصف:14) حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔
٦٢۔٣ صابئین ۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے ۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہاجانے لگا۔
٦٢۔٤ بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہو جائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالٰی نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالٰی نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالٰی نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٦٣
جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا (١) (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔
٦٣۔١جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے ازراہ شرارت کہا ہم سے تو احکام پر عمل نہیں ہو سکے گا تو اللہ تعالٰی نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کر دیا جس سے ڈر کر انہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔

ثُمَّ تَوَلَّيْتُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٤

لیکن تم اس کے بعد بھی پھر گئے، پھر اگر اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہو جاتے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ﴿٦٥
اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم (١) میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔
٦٥۔١سبت (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے۔

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ﴿٦٦

اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ و نصیحت کا۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖقَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّـهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴿٦٧
اور (حضرت) موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالٰی تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے (١) تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالٰی کی پناہ پکڑتا ہوں۔
٦٧۔١ بنی اسرائیل میں ایک لا ولد مالدار آدمی تھا جسکا وارث صرف ایک بھتیجا تھا ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کر کے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو قاتل ٹھہرانے لگے بالآخر بات موسیٰ علیہ تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہو گیا اور قاتل کی نشان دہی کر کے مر گیا (فتح القدیر)
 
Top