• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانونِ توہین رسالت ؐاور عاصمہ جہانگیر کا کردار

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قانونِ توہین رسالت ؐاور عاصمہ جہانگیر کا کردار

محمد عطاء اللہ صدیقی​
ملک میں اِن دنون قانون توہین رسالت کا چرچا ہے، 31دسمبر کو ملک بھر کے کاروباری مراکز میں اسی سلسلے میں ہڑتال بھی کی گئی ہے۔ اس قانون کا پس منظر کیا ہے اور کون لوگ اس قانون کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اس موضوع پر آج سے چند برس قبل لکھا جانے والا ایک ایمان افروز اور دینی غیرت وحمیت سے بھرپور غیر مطبوعہ مضمون ادارہ محدث کے ریکارڈ میں سامنے آیا۔ فاضل مضمون نگار نے تازہ حالات میں اس موضوع پر کئی مضامین لکھنا شروع کئے لیکن خرابی صحت کی بنا پر کسی ایک کو بھی مکمل نہ کرسکے۔ زیر نظر مضمون سپریم کورٹ بار کی موجودہ صدر عاصمہ جہانگیر کے مذموم کردار کے حوالے سے ہے۔ نا معلوم اس اہم منصب پر فائز ہونےکے بعد ان مہینوں میں توہین رسالت کے قانون کے خلاف منصوبہ بندی میں کن کن مزید کرداروں کا بھی ہاتھ شامل ہوچکا ہو؟ بہرحال یہ مضمون اپنے موضوع پر نادر معلومات اور ایمان پرور جذبات کا بے مثال اظہار ہے۔ ح م
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعزیراتِ ہند میں’۲۹۵؍ الف‘ کا اضافہ اگر راج پال کی گستاخانہ حرکت کا نتیجہ تھا، تو تعزیراتِ پاکستان میں ’۲۹۵؍سی‘ کا ظہور راج پال کی فکری اولاد عاصمہ جہانگیر کی رسالت مآبﷺکی شان میں دریدہ د ہنی کی وجہ سے ہوا۔ ان دونوں دفعات کے قانون کا حصہ بننے کے عمل میں ۵۹ برس حائل ہیں، لیکن ان کے پس منظر میں حیران کن حد تک مماثلت ہے۔ تفصیل اس اجمال کی حسب ِذیل ہے …
تعزیراتِ ہند ۱۸۶۰ء کی ’دفعہ ۲۹۵‘ کی رو سے کسی بھی جماعت کی عبادت گاہ کی تذلیل کے مرتکب افراد کو دو سال تک قید کی سزا دی جاسکتی تھی۔ اس دفعہ میں کسی جماعت کے مذہبی جذبات واعتقادات اور بانیانِ مذہب کی توہین کے متعلق وضاحت کے ساتھ ذکر موجود نہیں تھا۔ اس اِبہام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے اور بانیانِ مذاہب کی توہین کے مرتکب افراد قانونی موشگافیوں کی بنا پر عدالتوں سے بری ہوجاتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں بد بخت ہندو ناشر راج پال کی طرف سے ’رنگیلا رسول‘ کے عنوان سے نہایت گھٹیا، توہین آمیز اور بے حد دل آزار کتاب کی اشاعت پر بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تو ملعون راج پال کی اس گستاخانہ جسارت کے خلاف ردّ عمل کے نتیجے میں حکومت ہند نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۲۹۵ میں ’۲۹۵؍الف‘ کا اضافہ کیا ،جس کی رو سے کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی جذبات کی بے حرمتی (تحریری یا زبانی( کے مرتکب مجرموں کے لئے دوسال تک کی سزا مقرر کی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس ترمیم یا اضافی دفعہ میں بھی پیغمبر اسلامﷺکی توہین کے مرتکب افراد کے لئے سزائے موت کو قانون کا حصہ بنانے کے دیرینہ مطالبے کو منظور نہ کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہی قانون بر قرار رہا ۔
بالآخر ۱۷؍مئی ۱۹۸۶ء کو خواتین محاذِ عمل کے سیمینار منعقدہ اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی طرف سے حضور اکرمﷺ کی شانِ مبارکہ میں نازیبا الفاظ کے استعمال نے مسلمانوں کے بر انگیختہ جذبات کو شعلہ جوالہ کا روپ عطا کردیا۔ تحفظ ِناموسِ رسالتؐ کی تحریک نے ایک دفعہ پھر زور پکڑا۔ بالآخر ۱۹۸۶ء میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔ سی کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت حضرت محمدﷺکے نامِ اقدس کی توہین کے مرتکب مجرموں کے لئے سزائے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راج پال سے عاصمہ جہانگیر تک
۱۹۲۷ء کی بات ہے، دریدہ دہن، بدبخت متعصب ہندو راج پال جس نے حضور اکرمﷺ کے متعلق مذکورہ بالا بے حد اہانت آمیز کتاب شائع کی تھی، اسے لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا دی۔ اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے راج پال ملزم کو بری کرتے ہوئے تحریر کیا کہ
’’کتاب کی عبارت کتنی ہی نا خوشگوار کیوں نہ ہو، اس سے بہرحال کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔‘‘
اس فیصلہ نے مسلمانوں کی آتش ِغضب کو اور بھڑکادیا۔ مسلمانوں کے احتجاج نے تحریک کی صورت اختیار کرلی۔ ’مسلم کرانیکل‘نے اس فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا :
’’جج کنور دلیپ سنگھ نے قانون کی غلط تشریح کی ہے، ورنہ قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ وہ راج پال جیسے دریدہ دہن، بے غیرت، گستاخ کا منہ بند کرے ،کیونکہ اس سے بڑھ کر مذہبی دل آزاری کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس سے دنیا کا اور بالخصوص برصغیر کا ہر مسلمان دل گرفتہ اور اپنے رسولﷺ کے ناموس پر کٹ مرنے کے لئے بے چین ہے۔ اگر عدالت نے اس فیصلہ پر نظر ثانی نہ کی تو کوئی مجاہد اُٹھ کھڑا ہوگا جو اس گستاخ کا سرقلم کر دے گا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بالآخر یہ سعادت غازی علم الدین شہید کے حصے میں آئی…!
مسلمانانِ بر صغیر پاک وہند دشمنانِ اسلام کی گستاخانہ جسارتوں اور توہین رسالتؐ کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج اور دل گرفتہ تھے۔ ان کی طرف سے پر زور مطالبہ کیا جارہا تھا کہ تعزیراتِ ہند میں ’توہین ِرسالت‘ کی سزا کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔ انہی دنوں لاہور کی شاہی مسجد میں ایک عظیم اجتماع ہوا، جس میں ایک محب ِرسولؐ مسلمان راہنما نے خطاب کرتے ہوئے کہا :
’’عزیزو! میں کوئی وکیل یا قانون دان نہیں۔ قانون کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے، وہ عدالت کے کٹہرے میں ملزم کی حیثیت سے کھڑے ہوکر سیکھا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آئندہ ایسے فتنوں کے سد ِباب کے لئے اس قانون ہی کو بدلوا دیں اور تعزیراتِ ہند میں ایک مستقل دفعہ کا اضافہ کر کے توہین بانیانِ مذہب کو جرم قرار دیا جائے۔ اب تک کوئی ایسی مستقل سزا آپ کے ملک کے قانون میں موجود نہیں جو اس ملک کے باشندوں کے فرقوں کی دل آزاری پر دی جا سکے۔ اس قانون کا مسودہ میں تیار کیے دیتا ہوں۔ اسمبلی کے ممبر اس میں مناسب ترمیم کرکے ایوان میں پیش کریں اور منظور کرائیں۔ اس طرح آقااور ہادیﷺ اور ان کے ساتھ دوسرے مذاہب کے محترم پیشوائوں کی شخصیتیں بھی بد زبانی اور بے لگام لکھنے والوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائیں گی۔ علمی رنگ میں کسی مذہب یا تاریخی حیثیت سے کسی بانی ِ مذہب پر تنقید کرنا ایک الگ بات ہے، اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہئے۔ لیکن کھلی توہین جو کسی مذہب کے بارے میں ہو، اسے آج ہندوستان کے قانون میں قطعی جرم قرار دے کر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہوگا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ محب ِرسولﷺمسلمانوں کا وہ عظیم قائد تھا جسے دنیا محمد علی جوہرؒ کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر برطانوی حکومت نے قانون سازی پر آمادگی ظاہر کی۔ ۱۹۲۷ء میں مولانا محمد علی جوہر کی تحریک پر مسلمان اراکین مرکزی قانون ساز اسمبلی کی تائید سے تعزیراتِ ہند میں دفعہ ۲۹۵۔ الف کا اضافہ کیا گیا، جس کی رو سے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کی سزا دو سال مقرر کی گئی۔ (ناموسِ رسول: صفحہ ۴۱۳)
اس دفعہ میں بھی واضح طور پر بانیانِ مذہب کی توہین کی بات شامل نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پرعدمِ اطمینان کا اظہار کیا، کیونکہ ان کے نزدیک توہین ِرسالت ناقابل معافی جرم ہے، جس کی سزا صرف موت ہے !!
۱۹۴۷ء میں اسلام کے نام پر پاکستان قائم ہوا۔ لیکن کتاب وسنت کی روشنی میں توہین رسالتؐ کے متعلق کسی قسم کی قانون سازی نہ کی گئی۔ بے حد تعجب کی بات ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں بھی اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔ سیکولر اور مذہب بیزار حکمرانوں نے ’رواداری اور وسعتِ ظرفی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پیغمبراسلامﷺ کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر مجرمانہ چشم پوشی کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی سرگرمیوں کا ارتکاب زیادہ تر قادیانی فرقے کی طرف سے کیا گیا۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ قادیانیت کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے جرم میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا عبد الستار نیازی کو وقت کے حکمرانوں نے سزائے موت دینے کا اعلان کیا۔ یہ بے حد ستم ظریفی ہے کہ ایک اقلیتی فرقے کے خلاف ’منافرت‘ پھیلانے کے جرم میں مسلمانوں کے عظیم راہنمائوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ لیکن ’محسن انسانیتﷺ‘ کی توہین اور اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری کے مرتکب افراد کو قرارِ واقعی سزا دینے کے لئے فرنگی سامراج کے قانون کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔
تحفظِ ناموسِ رسالت کے متعلق شرعی سزا کے عدم نفاذ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاتمانِ رسولؐ نے اپنی گستاخیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور شمع رسالتؐ کے پروانوں نے بھی ان کی ناپاک زبانوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کی روایات کو زندہ رکھا۔ ۱۹۶۱ء میں ایک عیسائی مبلغ پادری سموئیل نے مغل پورہ ورکشاپ میں دورانِ تبلیغ آنحضورﷺ کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پر مشتعل ہوکر زاہد حسین نامی نوجوان نے اس گستاخ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۹۶۴ء میں عیسائی مشنری کی مشہور دکان ’پاکستان بائبل سوسائٹی‘ انار کلی نے ’اثمارِ شیریں‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی، جس میں رسولِ کریم ﷺکے بارے میں توہین آمیز مواد موجود تھا۔ مسلمان نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس دکان کو آگ لگادی اور اس کے منیجر ہیکٹر گوہر مسیح پر قاتلانہ حملہ کیا، لیکن وہ بال بال بچ گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
۱۹۸۳ء میں مشتاق راج نامی ایڈووکیٹ، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ قادیانی ہے، نے ’آفاقی اشتمالیت‘ کے نام سے کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں انبیاے کرام علیہم السلام کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور انتہا یہ کہ حضور رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں بھی گستاخانہ جسارت کی گئی تھی۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے نتیجے میں حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے۔ مشتاق راج کے خلاف توہین مذہب کے جرم میں زیر دفعہ ۲۹۵۔ الف تعزیراتِ پاکستان مقدمہ درج کر لیا گیا، کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں ’توہین ِرسالت‘ جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ اسی لئے مشتاق راج کی گرفتاری عمل میں نہ آئی جس سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے علما اور ممتاز قانون دانوں نے کانفرنس منعقد کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلام میں توہین رسالت کی سز ا ، سزائے موت مقرر کی جائے!
مشتاق راج کی گستاخانہ جسارت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابھی گرم ہی تھے کہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے ۱۷؍مئی کو پیغمبر اسلام کی شان میں سخت بے ادبی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔اس حیا باختہ عورت نے معلم انسانیتﷺکو (اس کی منہ میں خاک)’اَن پڑھ‘ کہہ دیا۔ یہ ہفواتی بکواس عاصمہ نے افرنگ زدہ،آوارگی ٔ نسواں کی علمبردار عورتوں کے اسلام آباد میں منعقد کردہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ روزنامہ جسارت کی رپورٹ کے مطابق :
’خواتین محاذِ عمل اسلا م آباد کے ایک جلسے میں صورتِ حال اس وقت سنگین ہو گئی، جب ایک خاتون مقرر عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کیخلاف تقریر کرتے ہوئے سرورِ کائناتﷺکے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔
اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اورکہا کہ رسولِؐ خداکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہو گئی اور جلسے کی فضا کشیدہ ہو گئی۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی تقریر میں ’تعلیم سے نابلد‘ اور ’ان پڑھ‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔‘‘ (جسارت ،کراچی ۱۸؍مئی ۱۹۸۴ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عاصمہ جہانگیر ا س وقت عاصمہ جیلانی کہلاتی تھی۔اس سیاہ بخت نے محسن انسانیتﷺکے لیے جان بوجھ کر وہی لفظ استعمال کیا جو یورپی مستشرقین اسلام او ر پیغمبر اسلامﷺکی تحقیر اور اہانت کی غرض سے کرتے ہیں۔جس سیمینار میں عاصمہ نے یہ الفاظ ادا کیے، وہ شریعت بل کی مخالفت میں ہو رہا تھاا ور ظاہر ہے ایسی مخالفانہ فضا میں ان الفاظ کی کوئی دوسری تاویل یا تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی سیمینار کے حاضرین کے مطابق عاصمہ کی تقریر کاسیاق وسباق ایسا تھا جس میں اس کا کوئی اور مفہوم لیا جاسکتا ہو۔ اس سیمینار میں سب ’پڑھے لکھے‘ لوگ تھے افسوس کوئی ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین شہید نہ تھا جو اس گستاخِ رسول زبان کو بند کرانے کے لیے عملی اقدام کر گزرتا۔
بہر حال عاصمہ کے الفاظ مسلمانوں کی سخت دل آزاری کا باعث بنے، جس پر سیمینار میں شدید ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جس طرح ۱۹۲۷ء میں راج پال کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا لاوا بھڑک اُٹھا تھا ،بالکل اسی طرح اس بدبخت عورت کی دریدہ دہنی سے پاکستان کے مسلمانوں میں اضطراب اور غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ راج پال تو ایک متعصّب ہندو تھا ،لیکن اب کی بار گستاخانہ جسارت کا ارتکاب ایک ایسی عورت کی طرف سے کیا گیا، تھا جو ایک قادیانی ہونے کے باوجود اپنے ’مسلمان‘کہلوانے پر مصر ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے خلاف احتجاج بالآخر تعزیراتِ پاکستان میں ۲۹۵۔ سی کے اضافے پر منتج ہوا۔ جناب محمد اسمٰعیل قریشی نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالت‘ میں اس واقعے کا پس منظراس طرح بیان کیا ہے:
’اس کے بعد ماہ مئی۱۹۸۶ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جیلانی نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبتﷺ کے بارے میں ’ناخواندہ‘(Illiterate)اور ’تعلیم سے نابلد‘ جیسے نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے، جو سامعین اور تمام اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے۔ جس پر راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے معزز اراکین میں عبد الرحمن لودھی اور ظہیر احمد قادری ایڈووکیٹ نے سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ ان توہین آمیز الفاظ کو واپس لے کر اس گستاخی پر معافی مانگے، لیکن اس کے انکار پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو راقم الحروف کی تجویز پر ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کا ایک غیر معمولی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، جس میں عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر پر انتہائی غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر توہین رسالت کی سزائے حد کو پاکستان میں نافذ کرے اور اس جرم کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دے، ورنہ اس کے سنگین نتائج کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
راقم الحروف کی درخواست پر لاہور میں وکلا اور علما کا ایک مشترکہ اجلاس ماہ جون ۱۹۸۶ء میں منعقد ہوا، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سر بر آور دہ علما اور ممتاز قانون دان حضرات نے شرکت کی اور متفقہ طور پر حسب ِذیل قرارداد منظور کی گئی:
’’ہم دین اور قانون سے وابستہ لوگ برملا اس کا اعلان کرتے ہیں کہ سرزمین پاکستان کا کوئی مسلمان اس ملک میں اسلام اور پیغمبر ؐاسلام کے بارے میں کسی قسم کی اہانت آمیز بات کو کسی نوع برداشت نہیں کر سکتا اور نہ ہی سیکولر ذہن رکھنے والے عناصر کو یہ اجازت دینے کے لئے تیار ہے کہ وہ یہاں اپنی مذموم اور شرانگیز سرگرمیوں کو جاری رکھے اور فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش کرے۔ ہم واشگاف الفاظ میں ان عناصر کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے سے باز آجائیں ورنہ اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
 
Top