• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبر میں سو (100) کوڑے والی روایت کی تحقیق

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
قبر میں سو کوڑے والی روایت کی تحقیق

الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، اما بعد:
محترم قارئین! واٹسیپ وغیرہ پر بعض حضرات درج ذیل روایت نشر کرتے ہیں:
امام ابو جعفر احمد بن محمد المصری ، المعروف بالطحاوی رحمہ اللہ (المتوفی : 321ھ)فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا فَهْدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: أُمِرَ بِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ أَنْ يُضْرَبَ فِي قَبْرِهِ مِائَةَ جَلْدَةٍ، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُ وَيَدْعُو حَتَّى صَارَتْ جَلْدَةً وَاحِدَةً، فَجُلِدَ جَلْدَةً وَاحِدَةً، فَامْتَلَأَ قَبْرُهُ عَلَيْهِ نَارًا، فَلَمَّا ارْتَفَعَ عَنْهُ قَالَ: عَلَامَ جَلَدْتُمُونِي؟، قَالُوا: إِنَّكَ صَلَّيْتَ صَلَاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ ، وَمَرَرْتَ عَلَى مَظْلُومٍ فَلَمْ تَنْصُرْهُ“۔(الصحیحۃ للالبانی :6/640، ح:2774)
اوروہ اس لئے نشر کرتے ہیں کیونکہ یہ روایت الصحیحہ میں ہےلیکن اس روایت کے تعلق سے صحیح بات یہ ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے۔
تفصیل پیش خدمت ہے :
روایت ہذا دو (2) صحابہ کرام سے اور ایک تابعی سے مروی ہے :
(1)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔
(2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
(3)حضرت عمرو بن شرحبیل رحمہ اللہ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت
آپ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت دو طریق سے مروی ہے:
[پہلا طریق] امام ابو الحسین محمد بن احمد ، المعروف بابن سمعون الواعظ البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی : 387ھ)فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَ بِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ يُضْرَبَ فِي قَبْرِهِ مِائَةَ جَلْدَةٍ، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُ وَيَسْأَلُ حَتَّى صَارَتْ جَلْدَةً وَاحِدَةً،(فَجُلِدَ جَلْدَةً وَاحِدَةً) فَامْتَلأَ قَبْرُهُ عَلَيْهِ نَارًا، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ فَأَفَاقَ، قَالَ: لِمَ جَلَدْتُمُونِي؟ قَالَ: إِنَّكَ صَلَّيْتَ صَلاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَمَرَرْتَ بِمَظْلُومٍ فَلَمْ تَنْصُرْهُ“.
[ترجمہ] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے متعلق حکم دیا کہ (اسے) اس کی قبر میں سو (100) کوڑے مارے جائیں ۔ وہ مسلسل التجا و دعائیں کرتا رہا حتی کہ سو کوڑے کی سزا کو ایک (1) کوڑے کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا، پھر اسے ایک کوڑا مارا گیا تو اس کی قبر آگ سے بھر گئی ۔ جب آگ ختم ہوئی اور کچھ افاقہ ہوا تو اس نے(فرشتے سے) پوچھا :تم نے مجھے کس وجہ سے کوڑا مارا ہے؟تو فرشتے نے کہا :تم نے ایک نماز بغیر طہارت کے پڑھی تھی اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے لیکن اس کی مدد نہیں کی“۔
[تخریج] أمالي ابن سمعون بتحقیق الدكتور عامر حسن:1/218، ح:212واللفظ لہ و کتاب الحدائق لابن الجوزی بتحقیق مصطفی السبکی :3/113 و شرح مشكل الآثار بتحقیق الارنووط : 8/212، ح:3185والزیادۃ لہ وفیہ خطا .
[حکم حدیث] اسنادہ ضعیف جدا وفی متنہ نکارۃ (اس کی سندسخت ضعیف ہے اور اس کے متن میں نکارت ہے) ۔
[سبب] روایت ہذا کی سند میں ”حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَسَدِيُّ الْغَاضِرِيُّ الْكُوفِيُّ، أَبُو عُمَرَ، شَيْخُ الْقُرَّاءِ“ ہیں جو کہ قرات میں امام اور حجت ہیں لیکن رجال حدیث میں سخت ضعیف اور متروک الحدیث ہیں۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی :241ھ):
”متروك الحديث“ ”یہ متروک الحدیث ہیں“۔ (العلل ومعرفة الرجال بتحقیق وصي الله بن محمد عباس :2/380 ،ت:2698)
امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:256ھ):
”تركوه“ ” محدثین نے انہیں ترک کر دیا ہے“۔(التاريخ الكبير بحواشی محمود خلیل:2/363، ت:2767)
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:264ھ):
”وهو ضعيف الحديث“ ”یہ ضعیف الحدیث ہیں“۔(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :3/174، ت :744)
امام ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):
”لا يكتب حديثه،وهو ضعيف الحديث،لا يصدق،متروك الحديث“ ”ان کی حدیث نہیں لکھی جائے گی ، یہ ضعیف الحدیث ہیں ،ان کی تصدیق نہیں کی جائے گی ، متروک الحدیث ہیں“۔ (الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :3/174، ت:744)
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی : 303ھ):
”متروك الحديث“ ”یہ متروک الحدیث ہیں“۔ (الضعفاء والمتروكون بتحقیق محمود إبراهيم زايد ،ص:31، ت:134)
امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ):
”كَانَ يقلب الْأَسَانِيد وَيرْفَع الْمَرَاسِيل وَكَانَ يَأْخُذ كتب النَّاس فينسخها ويرويها من غَيْر سَماع“
”یہ اسانید کو الٹ پلٹ دیتے تھے اور مرسل روایتوں کو مرفوع بنا دیتے تھے ۔ لوگوں کی کتابیں اخذ کر کے ، اس میں خرد برد کر کے اس کو بغیر سماع کے روایت کرتے تھے“۔ (المجروحين بتحقیق محمود إبراهيم:1/255، ت:248)
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”وعامة حديثه عَمَّن روى عنهم غير محفوظة“ ”ان کی اکثر حدیثیں ، جن لوگوں سے بھی انہوں نے روایت کیا ہے غیر محفوظ ہیں“۔(الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد ورفقاءہ :3/276، ت:505)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
(1) ”وَكَانَ حُجَّةً فِي الْقِرَاءَةِ، وَاهِيًا فِي الْحَدِيثِ“
”آپ قرات میں حجت اور حدیث میں سخت ضعیف تھے“۔ (تاريخ الإسلام بتحقیق بشار عواد :4/602، ت:57)
(2) ”إمام في القراءة، ليس بشيء في الحديث“
”آپ قرات میں امام اور حدیث میں کچھ نہیں ہیں“۔ (ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:94، ت:1049)
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
”متروك الحديث مع إمامته في القراءة“ ”قرات میں امام ہونے کے ساتھ ساتھ متروک الحدیث ہیں“۔(تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:172، ت:1405)
مزید اقوال کے لئے دیکھیں : ميزان الاعتدال بتحقیق البجاوی :1/558، ت:2121وغیرہ.
اب چند باتیں بطورتنبیہ پیش خدمت ہیں :
[تنبیہ نمبر:1]
شرح مشکل الآثار کی سند میں ”جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ“ لکھا ہوا ہے جو کہ تحریف ہے ، دلائل پیش خدمت ہیں:
(1) عمرو بن عون الواسطی رحمہ اللہ کے اساتذہ میں اور عاصم بن بهدلة کے شاگردوں میں ”حفص بْن سُلَيْمان القارئ“ کا نام موجود ہے۔ نیز حفص بن سلیمان القاری کے شیوخ میں عاصم بن بهدلة رحمہ اللہ کا اور ان کے شاگردوں میں عمرو بن عون الواسطی کا بھی نام موجود ہے لیکن عمرو بن عون الواسطی رحمہ اللہ کے اساتذہ میں اور عاصم بن بهدلة کے شاگردوں میں ”جعفر بْن سُلَيْمان“ کا نام موجود نہیں ہے اور نہ ہی جعفر بن سلیمان الضبعی کے شیوخ میں عاصم بن بهدلة رحمہ اللہ کا اور ان کے شاگردوں میں عمرو بن عون الواسطی رحمہ اللہ کا نام موجود ہے۔
(2) امالی ابن سمعون(اسنادہ صحیح الی حفص بن سلیمان) اور کتاب الحدائق میں ”حفص بْن سُلَيْمان“ ہے ۔
(3) امام زین الدین عبد الرحمن بن احمد ، المعروف بابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ (المتوفی:795ھ) فرماتے ہیں:
”ورويناه من طريق حفص بن سليمان القارئ وهو ضعيف جدا عن عاصم عن أبی وائل عن ابن مسعود عن النبي ﷺ“
”اور اس حدیث کو ہم نے حفص بن سلیمان القاری جو کہ سخت ضعیف راوی ہے ،عن عاصم، عن ابی وائل ،عن ابن مسعود ، عن النبی ﷺکے طریق سے روایت کیا ہے“۔ (أهوال القبور بتحقیق عاطف صابر شاهين ،ص:51)
(4) شیخ حمدی عبد المجید السلفی حفظہ اللہ ، الاحکام الکبری للاشبیلی کی تحقیق میں اس روایت کی سند میں جعفر کو حفص سے تبدیل کر کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ مشکل الآثار میں تحریف ہو گئی ہے۔ دیکھیں : الاحکام الکبری بتحقیق السلفی: 3/208. یہی بات اور بھی کئی علماء نے کہی ہے۔
[تنبیہ نمبر:2] درج ذیل علماء کرام نے زیر بحث روایت کو جید یا حسن قرار دیا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ : ”وهذا إسنادجيد“ ”یہ جید سند ہے“۔ (الصحیحۃ :6/640، ح:2774)
شیخ شعیب الارنووط رحمہ اللہ :
”اسنادہ حسن۔۔ولم نجد ہذا الحدیث عند غیر المصنف“ ”اس کی سند حسن ہے۔ اور ہم اس حدیث کو مصنف کے علاوہ کہیں نہیں پاتے ہیں“۔(فی تحقیق شرح مشكل الآثار : 8/212، ح:3185)
شیخ ابو الحسین خالد محمود حفظہ اللہ :
”اسنادہ لا بأس به“ ”اس کی سند میں کوئی حرج نہیں ہے“۔(تحفۃ الاخیار بترتیب شرح مشکل الآثار:1/494، ح:485)
راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ مذکورہ تمام حکم صحیح نہیں ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کو سند کی تحریف کا علم نہیں ہو سکا
[دوسرا طریق]امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ عُبَيد اللَّهِ الْخَوَارِزْمِيُّ، حَدَّثني صَالِحُ بن عمران السفري الدعاء، حَدَّثَنا يَحْيى بْنُ هَاشِمٍ، عَنِ الأَعْمَش، عَن أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبد اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وسَلَّم قَال: أُتِىَ رَجُلٌ فِي قَبْرِهِ، فَقِيلَ: إِنَّا جَالِدُوكَ ثَلاثَ جَلْدَاتٍ، قَالَ: وَلِمَ، قَالَ: لأَنَّكَ صَلَّيْتَ الصَّلاةَ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَمَرَرْتَ بِمَظْلُومٍ فَلَمْ تَنْصُرْهُ“.
[ترجمہ] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ایک آدمی کی قبر میں فرشتے آئے اور (اس سے )کہا گیا کہ ہم تجھ کو تین (3) کوڑے ماریں گےتو اس نے کہا: کیوں؟ تو فرشتے نے کہا :اس وجہ سے کہ تم نے ایک نماز بغیر طہارت کے پڑھی تھی اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے لیکن اس کی مدد نہیں کی“۔
[تخریج]الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد ورفقاءہ :9/122، ت:2153.
[حکم حدیث]ہذا حدیث منکر واسنادہ موضوع (یہ حدیث منکر ہے اور اس کی سندموضوع ہے ) ۔
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”حدیث منکر“ ”منکر حدیث ہے“۔
[سبب] روایت ہذا کی سند میں ”يَحْيى بن هاشم السمسار الغساني“ ہے جو کہ کذاب اور وضاع راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):
”كان يكذب و كان لا يصدق، ترك حديثه“ ”یہ جھوٹ بولتا تھا اور اس کی تصدیق نہیں کی جاتی تھی ۔اس کی حدیث ترک کر دی گئی تھی“۔ (الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :9/195، ت:115)
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی : 303ھ):
”متروك الحديث“ ”یہ متروک الحدیث ہے“۔ (الضعفاء والمتروكون بتحقیق محمود إبراهيم زايد،ص:109، ت:6387)
امام ابو جعفر محمد بن عمرو العقیلی رحمہ اللہ (المتوفی : 322ھ):
”كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ عَلَى الثِّقَاتِ“ ”یہ ثقات پر حدیث گھڑتا تھا“۔ (الضعفاء الكبير بتحقیق عبد المعطي:4/432، ت:2063)
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”وَلِيَحْيَى بْنِ هَاشِمٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَالأَعْمَشِ وَالثَّوْرِيِّ، وشُعبة غَيْرُ مَا ذَكَرَ، وَهو يَرْوِي أَيضًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِد وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمْ بِالْمَنَاكِيرِ يَضَعُهَا عَلَيْهِمْ، وَيَسْرِقُ حَدِيثَ الثِّقَاتِ، وَهو مُتَّهَمٌ فِي نَفْسِهِ أَنَّهُ لَمْ يَلْقَ هَؤُلاءِ وَعَامَّةُ حَدِيثِهِ عَنْ هَؤُلاءِ وَغَيْرِهِمْ إِنَّمَا هُوَ مَنَاكِيرُ وَمَوْضُوعَاتٌ وَمَسْرُوقَاتٌ، وَهو فِي عِدَادِ مَنْ يَضَعُ الْحَدِيثَ“
”یحیی بن ہاشم کی میری ذکر کردہ احادیث کے علاوہ اور بھی احادیث ہشام بن عروہ ،اعمش ، ثوری اور شعبہ کے طریق سے ہیں اور اس نے اسماعیل بن ابی خالد ،ابو حنیفہ وغیرہم سے بھی منکر روایتیں بیان کی ہیںجن کو اس نے ان پر گھڑی ہیں ۔ یہ ثقات کی حدیثیں چوری کرتا تھا ، فی نفسہ یہ متہم ہے اور (گزشتہ ذکر کردہ) لوگوں سے اس نے ملاقات نہیں کی ہے اور اس کی عام طور پر ان لوگوں سے اور ان کے علاوہ سے جو احادیث ہیں ،بلا شبہ وہ سب کی سب منکر ،موضوع اور چوری کی ہوئی ہیں اور یہ حدیث گھڑنے والوں میں سے تھا“۔ (الكامل بتحقیق عادل احمد ورفقاءہ :9/124)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
”كذبوه ودجلوه“ ”محدثین نے اسے کذاب اور دجال کہا ہے“۔ (المغني في الضعفاء بتحقیق الدكتور نور الدين:2/745، ت:7016)
مزید اقوال کے لئے دیکھیں : لسان الميزان للحافظ ابن حجر بتحقیق عبد الفتاح: 8/480، ت:8535وغیرہ.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت :
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا أَبُو شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَابْلُتِّيُّ، ثنا أَيُّوبُ بْنُ نَهِيكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَوْمَ أُدْخِلَ رَجُلٌ فِي قَبْرِهِ، فَأَتَاهُ مَلَكَانَ فَقَالَا لَهُ: إِنَّا ضَارِبُوكَ ضَرْبَةً، فَقَالَ لَهُمَا: عَلَامَ تَضْرِبَانِي؟ فَضَرَبَاهُ ضَرْبَةً امْتَلَأَ قَبْرُهُ مِنْهَا نَارًا، فَتَرَكَاهُ حَتَّى أَفَاقَ وَذَهَبَ عَنْهُ الرُّعْبُ، فَقَالَ لَهُمَا عَلَامَ ضَرَبْتُمَانِي؟ فَقَالَا: إِنَّكَ صَلَّيْتَ صَلَاةً، وَأَنْتَ عَلَى غَيْرِ طُهُورٍ، وَمَرَرْتَ بِرَجُلٍ مَظْلُومٍ وَلَمْ تَنْصُرْهُ“.
[ترجمہ] حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
”ایک دن ایک آدمی قبر میں داخل کیا گیا ۔پھر دو فرشتے اس کے پاس آئے اور اس سے کہا :بلا شبہ ہم تجھ کو ایک (1) کوڑا ماریں گے تو اس نے ان سے کہا کہ کیوں ماریں گے؟ (فرشتوں نے جواب دئے بغیر ) اس کو ایک کوڑا مارا تو اس کی وجہ سے اس کی قبر آگ سے بھر گئی ۔پھر ان دونوں فرشتوں نے اس کو چھوڑ دیا حتی کہ کچھ افاقہ ہوا اور رعب ختم ہوا تو اس نے ان فرشتوں سے پوچھا کہ مجھے آپ نے کیوں مارا؟تو انہوں نے جواب دیاکہ تم نے ایک نماز بغیر طہارت کے پڑھی تھی اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے لیکن اس کی مدد نہیں کی“۔
[تخریج] المعجم الكبير بتحقیق حمدی السلفی :12/443، ح:13610.
[حکم حدیث] ہذا حدیث منکر واسنادہ ضعیف جدا (یہ حدیث منکر ہے اور اس کی سندسخت ضعیف ہے)
[سبب] روایت ہذا کی سند میں دو علتیں ہیں:
(1) يَحْيَى بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ الضَّحَّاكِ البَابْلُتِّيُّ : یہ ضعیف راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”وليحيى البابلتي عن الأوزاعي أحاديث صالحة وفي تلك الأحاديث أحاديث ينفرد بها عن الأوزاعي ويروى عن غير الأوزاعي من المشهورين والمجهولين والضعف على حديثه بين“
”یحیی البابلتی کی امام اوزاعی رحمہ اللہ سے کئی اچھی احادیث ہیں اور ان احادیث میں سے کئی احادیث کووہ امام اوزاعی رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں منفرد بھی ہے اور یہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کے علاوہ مشہور اور مجہول لوگوں سے بھی روایت کرتا ہےاور اس کی حدیث پر ضعف واضح ہے“۔ (الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد ورفقاءہ :9/120،ت:2151)
امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ (المتوفی : 458ھ):
"ضعيف" ”یہ ضعیف ہے“۔ (السنن الكبرى بتحقیق محمد عبد القادر:4/487،ح:8449)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
(1) "واه" ” یہ سخت ضعیف ہے“۔ (المغني في الضعفاء بتحقیق الدكتور نور الدين:2/739،ت:7002)
(2) "لين" ” یہ کمزور ہے“۔ (الكاشف بتحقیق محمد عوامة وغیرہ:2/369،ت:6197)
امام ابو الحسن علی بن ابو بکر الہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی :807ھ):
"وهو ضعيف" ” یہ ضعیف ہے“۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد بتحقیق حسام الدين القدسي: 2/75،ح:2396و3/44،ح :4242وغیرہ)
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
"ضعيف" ” یہ ضعیف ہے“۔(تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:593،ت:7585)
مزید اقوال کے لئے دیکھیں : تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزی بتحقیق بشار عواد:31/409،ت:6862وغیرہ.
(2) ايوب بن نهيك الحلبي : یہ ضعیف، متروک اور منکر الحدیث راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:264ھ):
”هو منكر الحديث“ ” یہ منکر الحدیث ہے“۔(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :2/259، ت :930)
امام ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):
”هو ضعيف الحديث" ” یہ ضعیف الحدیث ہے“۔(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :2/259،ت:930)
ضامام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
"تركوه" ” محدثین نے اسے ترک کر دیا ہے“۔(ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:43،ت:535)
امام ابو الحسن علی بن ابو بکر الہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی :807ھ):
"وهو متروك" ” یہ متروک ہے“۔(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد بتحقیق حسام الدين القدسي:2/ 184، ح:3120)
نیز دیکھیں : لسان الميزان للحافظ ابن حجر بتحقیق عبد الفتاح: 2/256،ت:1387وغیرہ.
عمرو بن شرحبیل رحمہ اللہ کی روایت :
امام ابو بکر احمد بن مروان الدینوری رحمہ اللہ (المتوفی :333ھ)فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ الْحَرْبِيُّ، نَا يَحْيَى، نَا شُرَيْكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ قَالَ: أُتِىَ رَجُلٌ فِي قَبْرِهِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّا ضَارِبُوكَ مِئَةَ ضَرْبَةٍ فَقَالَ: لَا طَاقَةَ لِي بِمِئَةِ ضَرْبَةٍ مِنْ عَذَابِ اللهِ . فَقِيلَ لَهُ: فَخَمْسِينَ ضَرْبَةً! فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى قَالَ: فَإِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ ضَارِبِيَّ؛ فضربة واحد، فَضُرِبَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً الْتَهَبَ قَبْرُهُ نَارًا، فَلَمَّا احْتَرَقَ قِيلَ لَهُ: تَدْرِي فِيمَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لَا، قِيلَ لَهُ: مَرَرْتَ بِمَظْلُومٍ فِي الدُّنْيَا فَلَمْ تَنْصُرْهُ، وَصَلَّيْتَ صَلَاةً وَأَنْتَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَأَنْتَ تَعْلَمُ“.
[ترجمہ] حضرت ابو میسرہ عمرو بن شرحبیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ایک آدمی کے قبر میں فرشتے آئے اور اس سے کہا گیا :ہم تجھ کو سو (100) کوڑے ماریں گےتو اس نے کہا : سو کوڑے ، جو کہ اللہ کا عذاب ہے اس کی میں طاقت نہیں رکھتا ہوں ۔ اس سے کہا گیا: پچاس (50) کوڑے کی طاقت رکھتے ہو؟ اسی طرح گفتگو ہوتی رہی حتی کہ اس آدمی نے کہا کہ اگر تم مجھے مارنا ہی چاہتے ہو تو ایک کوڑا مارو تو اسے ایک کوڑا مارا گیا ، جس سے اس کی قبر آگ سے بھر گئی ۔ جب وہ جل گیا تو اس سے کہا گیا : اس کی وجہ تم جانتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں ۔تو اس سے کہا گیا: تو دنیا میں ایک مظلوم کے پاس سے گذرا اور اس کی مدد نہیں کی اور جان بوجھ کرکے تو نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی“۔
[تخریج] المجالسة وجواهر العلم بتحقیق أبو عبيدة مشهور :3/295، ح:934 واللفظ لہ و 6/254، ح:2618و مصنف عبد الرزاق بتحقیق حبيب الرحمن الأعظمي :3/588، ح:6752 ومصنف ابن ابی شیبۃ بتحقیق كمال يوسف الحوت :7/152، ح:34903 و حلية الأولياء وطبقات الأصفياء : 4/144 وترتيب الأمالي الخميسية للشجري بتحقیق محمد حسن :2/243، ح:2290.
[حکم حدیث] ہذا حدیث مرسل واسنادہ ضعیف (یہ مرسل حدیث ہے اور اس کی سند ضعیف ہے ) ۔
[سبب] روایت ہذا کی سند میں دو علتیں ہیں:
(1) أَبو مَيْسَرَةَ عُمَرُ بنُ شَرَحْبِيْلَ الهَمْدَانِيُّ :
یہ کبار تابعین میں سے ہیں ، ثقة راوی ہیں ۔اور بلا واسطہ برزخ کی بات بیان کر رہے ہیں جبکہ تابعی برزخ کی بات نہیں بیان کر سکتا ہے کیونکہ برزخ یہ غیبی امور میں سے ہے جس میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہے لہذا یہ روایت مرسل ہے۔
(2) عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي : آپ ثقہ تو ہیں لیکن تیسرے طبقے کے مشہور مدلس بھی ہیں۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو سعید صلاح الدین خلیل بن کیکلدی العلائی رحمہ اللہ (المتوفی:761ھ):
”تابعي مشهور بالتدلیس“ ”تابعی ہیں ،تدلیس میں مشہور ہیں“۔ (جامع التحصيل في أحكام المراسيل بتحقیق حمدی السلفی:108، ت:39)
امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
”مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة" ”تدلیس میں مشہور ہیں اور ثقہ تابعی ہیں“۔
(تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس بتحقیق عاصم بن عبدالله القريوتي ،ص:42، ت:91وقد ذکرہ المؤلف فی المرتبۃ الثالثۃ)
اور روایت ہذا میں انہوں نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔واللہ اعلم .
[خلاصۃ التحقیق] قبر میں سو (100) کوڑے والی روایت ثابت نہیں ہے ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم .
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفی اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر
03-ذو الحجہ-1438ھ
26-AGU-2017

PDF کے لئے کلک کریں
https://drive.google.com/file/d/1954ie6CQCS5Q-CVRA7BW4J6sJ21LFWma/view?usp=drivesdk
 
Top