• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبیلہ بدلنا

شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم!

سوال پوچھا گیا ہے کہ اللہ نے ذات اور قبیلہ پہچان کے لئیے بنائے ہیں۔ ان میں انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اورانسان کے باپ کے قبیلہ کو انسان کے آباء و اجداد کہا جاتا ہے ۔ اور اسلام میں باپ کا نام بدل لینا ممنوع کیا گیا ہے ۔ تو کیا اس سے مراد صرف ایک شخص یعنی باپ تک ہی محدود رکھا جاۓ گا یا پھر اس سے مراد باپ کا قبیلہ بھی ہو گا ۔ کیوں کہ آج کل اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے ذات اور قبیلہ کو بدل کر خود کو کسی اور قبیلہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس قبیلہ سے ان کا تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اور اعتراض کرنے والے قبیلہ بدلنے والوں کو کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنا باپ بدل لیا۔
اور اگر کوئی اپنا حسب نسب باپ کے بجائے ماں کے قبیلہ کی طرف کرے تو کیا وہ بھی اسی طرح ہو گا؟
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
@یوسف ثانی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم!
اسلام میں باپ کا نام بدل لینا ممنوع کیا گیا ہے ۔ تو کیا اس سے مراد صرف ایک شخص یعنی باپ تک ہی محدود رکھا جاۓ گا یا پھر اس سے مراد باپ کا قبیلہ بھی ہو گا ۔ کیوں کہ آج کل اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے ذات اور قبیلہ کو بدل کر خود کو کسی اور قبیلہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس قبیلہ سے ان کا تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اور اعتراض کرنے والے قبیلہ بدلنے والوں کو کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنا باپ بدل لیا۔
اور اگر کوئی اپنا حسب نسب باپ کے بجائے ماں کے قبیلہ کی طرف کرے تو کیا وہ بھی اسی طرح ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اسلام میں نسب کی اہمیت و ضرورت
نسب كا مفہوم
نسب كا لغوى مطلب 'باپ كى طرف منسوب' كرنا ہے-اصطلاحى تعريف يہ ہے :
القرابة وهي الاتصال بين إنسانين بالاشتراك في ولادة قريبة أو بعيدة "
5. مغني المحتاج: 3/4،نيل المآرب: 2/55،التفريع: 2/338 )
"اس سے مراد قرابت ہے اور قرابت دو انسانوں كے ما بين پيدائشى تعلق كو كہتے ہيں خواہ وہ تعلق قريب كا ہو يا دور كا -"

جواہر الإكليل ميں ہے كہ نسب كا لفظ 'معين والد كى طرف منسوب ' كرنے پر بولا جاتا ہے- (6. ج2/ص100)

نسب صرف 'باپ' كے لئے
قرآنِ كريم ميں اس بارے ميں صريح حكم آيا ہے :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥﴾...سورۃ الاحزاب
"اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بيٹوں كو تمہارے حقيقى بيٹے نہيں بنايا- يہ تمہارے زبانى دعوے ہيں، اللہ ہى حق بات كہتا او رسيدهے راستے كى طرف رہنمائى كرتا ہے- انہيں ان كے حقيقى باپوں سے ہى منسوب كرو، يہى الله كے نزديك زيادہ انصاف والا طريقہ ہے - اگر تمہيں ان كے باپوں كا علم نہ ہو تو پهر يہ تمہارے دينى بهائى يا تمہارے آزاد كردہ غلام ہيں-"

صحيح بخارى ميں ہے كہ يہ آيت حضرت زيد بن حارثہ كے بارے ميں نازل ہوئى كيونكہ اُنہيں اوائل اسلام ميں نبى كريم كا بيٹا كہا جاتا تها- (عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: «أن زيد بن حارثة، مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد حتى نزل القرآن» ، {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله} [الأحزاب: 5]
صحیح بخاریؒ 4782
صحيح بخارى كى ہى ايك او رحديث ميں ہے :
أن أبا حذيفة تبنّٰى سالمًا كما تبنى رسول الله ﷺ زيدًا وكان من تبنى رجلًا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث ميراثه حتى أنزل الله تعالى ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ﴾ صحیح بخاریؒ 4000)
"ابو حذيفہ نے سالم كو اپنا 'لے پالك' بيٹا بنا ركها تهاجيسا كہ نبى كريم ﷺ نے زيد كوبنايا تها- جاہليت كادستوريہ تها كہ جوجس كو اپنا 'لے پالك' بنا ليتا، لوگ اسى كى طرف اسے منسوب كياكرتے، اور اس كو ہى وارث بنايا جاتا حتى كہ اللہ تعالىٰ نے اس آيت كو نازل فرما ديا كہ انہيں ان كے باپوں كے نام سے ہى پكارو-"

نسب ونسل كى اہميت كے پيش نظر قرآنِ كريم ميں اس كے متعلق بعض آيات بهى نازل كى گئى تهيں، بعد ميں آيت ِرجم كى طرح ان كى تلاوت كرنا منسوخ قرار دے ديا گيا-حضرت عبد اللہ بن عباس ايك لمبى حديث ذكر كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله (أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم
صحیح بخاریؒ 6830)
" قرآن كريم ميں ہم يہ آيت بهى پڑها كرتے تهے : تم اپنے باپوں سے اپنى نسبت كو ہٹاؤ مت ، جو كوئى اپنے باپ كے علاوہ اپنى نسبت كرے گويا يہ تمہارے كفر كے مترادف ہے-"

درست نسب كى اسلام ميں اہميت اس قدر زيادہ ہے كہ نبى كريم كا فرمان ہے:
(عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام»)
"سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص علم ركهنے كے باوجود اپنے آپ كو باپ كے علاوہ دوسرے كى طرف منسوب كرے تو ايسے شخص پر جنت حرام ہے-" (صحیح بخاری 6766 )

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم نے ايك فرمان ميں نسب ميں طعنہ زنى كرنے كو جاہلیت اور دوسرے فرمان ميں كفر كے مترادف قرار ديا ہے :
عن عبيد الله، سمع ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «خلال من خلال الجاهلية الطعن في الأنساب والنياحة»– (صحیح بخاری 3850 )

سیدنا انس بن مالك سے مروى ہے :
(عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ الْمُتَتَابِعَةُ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» (سنن ابی داود 5115) "جو شخص باپ كے سوا يا كوئى غلام اپنے آقا كے سوا دوسرے كى طرف اپنے آپ كو منسوب كرے تو اس پر قيامت قائم ہونے تك متواتراللہ كى لعنت برستى رہتى ہے-"

حضرت ابو ہريرہ سے مروى ہے كہ جب لعان كى آيات نازل ہوئيں تو نبى ﷺ نے فرمايا:
(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ، وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ، وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ، وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ» سنن ابی داود 2263 )

"جو عورت اپنے خاندان ميں ايسے بچے كو داخل كرے جو ان كا نہيں تو اللہ كے ہاں اس كا كوئى حصہ نہيں اور اللہ اس كو اپنى جنت ميں بهى داخل نہ كرے گا- ايسے ہى جو شخص اپنے بيٹے سے انكار كردے حالانكہ اسے معلوم ہے كہ وہ اس كا بيٹا ہے تو اللہ تعالىٰ روزِ قيامت اس سے پردہ فرمائے گا، اور اگلوں پچھلوں ميں اس كو رسوا كرے گا-"

مندرجہ بالا قرآنى آيات اور احاديث ِنبويہ سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ميں نسب كو بہت زيادہ اہميت دى گئى ہے اور نسب كو غلط يا خلط ملط كرنے كى شديد مذمت پائى جاتى ہے- ان سے يہ بهى پتہ چلتاہے كہ اسلام كى رو سے نسب اور نسل صر ف باپ (i)كے لئے مخصوص ہے اور يہ نسب ماں كى طرف سے نہيں چلتا۔
٭٭٭٭

________________
حكم تغيير القبيلة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فقد ثبت نهي الشارع عن ادعاء الإنسان نسباً غير نسبه الأصلي، روى البخاري ومسلم عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ادعى إلى غير أبيه -وهو يعلم أنه غير أبيه- فالجنة عليه حرام. وروى البخاري ومسلم أيضاً من حديث أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ترغبوا عن آبائكم فمن رغب عن أبيه فهو كفر.

وروى البخاري ومسلم أيضاً من حديث أبي ذر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر، ومن ادعى قوما ليس له فيهم نسب فليتبوأ مقعده من النار. وقد ورد في بعض روايات الحديث: من ادعى إلى غير أبيه أو تولى غير مواليه رغبة عنهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين.... أي بزيادة عبارة: رغبة عنهم. أخرجه الإمام أحمد والترمذي والدارمي وابن حبان وغيرهم، وصححه الشيخ الألباني.

وهذه الزيادة لم نجد أحداً من أهل العلم تحدث عن مفهومها، مما يدل على أن التعبير بها كان على سبيل الجري على الغالب، أي أن الانتماء إلى غير الأب عادة لا يكون إلا رغبة عن نسب الأب، وقد علمت مما ذكر تحريم هذا الأمر في الشرع، وإذا تقرر ذلك فإن الحرام لا يجوز ارتكابه إلا لضرورة.

وعليه فمن اضطر إلى ما ذكرته من تغيير اسم قبيلته فلا حرج عليه فيه، لأن الضرورات تباح لها المحظورات، ومن لم يضطر فإن ذلك لا يباح له، وإذا فعل أحد في أوراقه مثل هذا التغيير، أو وجده في أوراق آبائه فإنه متى أمكنه إصلاح الخطأ فيه وجب عليه ذلك، ومن ذلك تفهم أن من أمكنه إصلاح مثل هذا الخطأ فإنه إذا لم يفعله يكون داخلاً في الوعيد.

والله أعلم.

المفتـــي: مركز الفتوى

____________________
نسب الولد إلى أمه
السؤال الثاني من الفتوى رقم ( 17904 )
سوال: في قريتنا ينسب بعض كبار السن الابن إلى أمه دون أبيه، فما الحكم؟
جواب : الواجب أن ينسب المولود إلى أبيه، ولا تجوز نسبته إلى أمه، لقوله تعالى: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فإن لم يعلم أبوه نسب إلى اسم مناسب، كعبد الله أو عبد الرحمن أو ما أشبه ذلك. وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
اولاد کو ماں کی طرف منسوب کرنا
سوال نمبر: 2 - فتوی نمبر:17904
س 2: ہمارے گاؤں میں کچھـ بوڑھے لوگ بیٹے کو باپ کی طرف منسوب کرنے کے بجائے ماں کی طرف منسوب کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
ج 2: بچے کو باپ کی طرف منسوب کرنا واجب ہے، ماں کی طرف منسوب کرنا جا‏ئز نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ((لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ ۔( سورة الأحزاب الآية 5 )
اگر اس کے باپ کے بارے میں معلوم نہ ہو تو کسی مناسب نام مثلا عبد اللہ یا عبد الرحمن یا اس جیسے نام کی طرف منسوب کیا جائے۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ جلد 20 ص367 )
ممبر ممبر ممبر ممبر صدر
بکر ابو زید عبد العزیزآل شيخ صالح فوزان عبد اللہ بن غدیان عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
٭٭٭٭٭
غیرباپ کو باپ اور غیر ماں کو ماں کہنے والے
ــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غیرباپ کو باپ اور غیر ماں کو ماں کہنے والے پر اللہ کی لعنت اور جنت حرام ہے تو پھر سسر کو باپ اور ساس کو ماں کہہ کر کیوں پکارا جاتا ہے؟ کیا یہ غلط ہے ، واضح کریں؟ (عبدالرؤف ، گجرات)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث: ((مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ وفِیْ رِوَایَۃٍ اِلاَّ کَفَرَ بِاللّٰہِ)) [’’جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کر لے اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور ایک روایت میں ہے اس نے کفر کیا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جنت اس پر حرام ہے۔‘‘]2 میں نسب کی تبدیلی مراد ہے زبانی کلامی ادب و احترام کی بنیاد پر خالی لفظ بولنا مراد نہیں۔

[’’ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کر دیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے فرمایا : میرے بیٹو1 سورج نکلنے سے پہلے جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا۔‘‘3

انس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا۔4ان دلائل سے ثابت ہوا کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا یا ادب و احترام سے باپ کہنا ممنوع نہیں ہے۔]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

2 بخاری،کتاب المغازی،باب عزوۃ الطائف فی شوال سنۃ ثمان۔ مسلم،کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعاء النبی صلی الله علیہ وسلم فیھا بالبرکۃ ۔ترمذی،ابواب الولاء والھبۃ۔ مشکوٰۃ،کتاب النکاح،باب اللعان۰ الفصل الاوّل۔

3 ابو داؤد،کتاب المناسک،باب التعجیل من جمع ۔ نسائی،کتاب مناسک الحج،باب النھی عن رمی جمرۃ العقبۃ قبل طلوع الشمس۔ ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب من تقدم من جمع الی منی لرمی الجمار۔

4 مسلم،کتاب الآداب،باب جواز قولہ لغیر ابنہ یا بنی۔

۱۳،۱،۱۴۲۴ھ



قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 789
محدث فتویٰ
_________________
 
Top