علی ولی
مبتدی
- شمولیت
- جولائی 26، 2013
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 81
- پوائنٹ
- 21
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد۔۔
قرآن حکیم نے کئی مقامات پر لوگوں کے ناحق بے دردانہ قتل، دہشت گردانہ بمباری، پُراَمن آبادیوں پر خود کش حملوں جیسے انتہائی سفاکانہ اقدامات اور انسانی قتل و غارت گری کی نفی کی ہے۔ دہشت گردی کی یہ ساری بہیمانہ صورتیں شرعی طور پر حرام اور اسلامی تعلیمات سے صریح اِنحراف ہیں اور اَز رُوے قرآن بغاوت و محاربت، فساد فی الارض اور اِجتماعی قتلِ انسانی میں داخل ہیں ۔ قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کئی مقامات پر بالصراحت خوارج کی علامات و بدعات اور ان کی فتنہ پروری و سازشی کارروائیوں اور بغاوت کے بارے میں واضح ارشادات ملتے ہیں۔ سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے ذیل میں چند ارشاداتِ باری تعاليٰ پیش کئے جارہے ہیں ،اس امید کے ساتھ اللہ ان کی مدد سے مسلمانوں میں اس عظیم فتنہ کے خلاف شعور بیدار فرمائے گا اور امت کے فرزندان اس سے اپنے دامن کو بچا لین گے۔:
خوارج اَہلِ زیغ (کج رَو) ہیں: قرآن میں خوارج کی کج فہمی اور فتنہ پروری کا بیان
سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
۔ امام ابنِ ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ آیت مذکورہ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں :هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ط فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِه ج وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهُ اِلاَّ اﷲُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِه کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo آل عمرآن، 3 : 7
''وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیر اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہل دانش کو ہی نصیب ہوتی ہےo''
۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھیعَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم رازی، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594
''حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ ﴿فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِی قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ﴾ (سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے) کی تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ اِن سے مراد خوارج ہیں۔''
۔ مفسر شہیر امام خازن رحمۃ اللہ علیہ نےاس آیت کی تفسیر میں جو حدیث بیان فرمائی ہے، اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اہل زیغ ۔ جو متشابہات کی پیروی کرتے ہیں ۔ سے مراد ''خوارج'' ہیں.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 347
۔ ابو حفص الحنبلی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی جو مفصل روایت بیان فرمائی ہے، وہ بڑی ہی فکر انگیز، حقیقت کشا اور قابلِ غور ہے۔ یہ روایت اہلِ زَیغ کی اصلیت اور ان کے باطنی انجام کو پوری طرح بے نقاب کر دیتی ہے۔اپنی تفسیر لباب التاویل میں اہلِ زَیغ کی تفسیر فرماتے ہوئے جن گمراہ فرقوں کا نام لیا ہے ان میں خوارج کا نام بھی شامل ہے.
خازن، لباب التأويل، 1 : 217
ابو حفص الحنبلی مذکورہ آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں :
۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو امام سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہوقال الحسن : هم الخوارج، وکان قتادة إذا قرأ هذه الآية ﴿فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِی قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ﴾ قال : إن لم يکونوا الحرورية فلا أدري مَنْ هُمْ. . . . وعن أبي غالب قال : کنت أمشی مع أبي أمامة، وهو علی حمار حتی إذا انتهی إلی درج مسجد دمشق، فقال أبو أمامة : کلابُ النار، کلابُ النار، کلابُ النار، أو قتلی تحت ظل السماء، طوبی لمن قَتَلهم وقتلوه . يقولها ثلاثاً. ثم بکی، فقلت : ما يُبْکيک يا أبا أمامة؟ قال : رحمةً لهم، إنهم کانوا من أهل الإسلام (فصاروا کفارًا) فخرجوا منه. فقلت : يا أبا أمامة، هم هؤلاء؟ قال : نعم، قلت : أشیء تقوله برأيک، أم شیء سمعته من رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فقال : إنی إذَنْ لَجرِيء، إنی إذاً لَجَريءٌ، بل سمعته من رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم غيرَ مرةٍ ولا مرّتين، ولا ثلاث، ولا أربع، ولا خمس، ولا ست، ولا سبع، ووضع أصبعيه في أذنيه، قال : وإلّا فَصُمَّتَا . قالها ثلاثاً.
أبو حفص الحنبلی، اللباب في علوم الکتاب، 3 : 437
''حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ (آیت مذکورہ میں اہل زَیغ سے) مراد خوارج ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ جب بھی یہ آیت کریمہ تلاوت کرتے تو فرماتے : میں نہیں سمجھتا کہ اہل زیغ سے خوارج کے علاوہ کوئی اور گروہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ابو غالب روایت کرتے ہیں : میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی جامع مسجد کی طرف چل رہا تھا اور وہ دراز گوش پر سوار تھے۔ جب وہ مسجد کے دروازے کے قریب پہنچے تو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا : خوارج دوزخ کے کتے ہیں۔ انہوں نے یہ تین بار فرمایا۔ پھر انہوں نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھایا اور بتایا : آسمان کے نیچے یہ بدترین لوگ ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے انہیں قتل کیا اور وہ بھی خوش نصیب ہیں جو ان کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ یہ بتا کر ابو امامہ رونے لگ گئے۔ ان کی بد نصیبی پر بہت ہی افسردہ ہوئے اور بتایا : یہ مسلمان تھے لیکن اپنی کرتوتوں سے کافر ہو گئے۔ پھر یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں ''اہل زیغ'' کا ذکر ہے۔ ابو غالب روایت کرتے ہیں : میں نے ابو امامہ سے پوچھا : کیا یہی (خوارج) وہ (اہل زیغ) لوگ ہیں؟ بولے : ہاں! میں نے پوچھا : آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا ان کے بارے میں آپ نے یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا : اگر ایسی بات ہو تب تو میں بڑی جسارت کرنے والا کہلاؤں گا۔ میں نے ایک، دو یا سات بار نہیں بلکہ بارہا یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے، اگر یہ بات سچی نہ ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات تین بار فرمائے۔''
۔ النّحاس رحمہ اللہ نے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی حدیث ذکر کی ہے کہحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل زیغ سے ''خوارج'' مراد لیے ہیں.
سیوطی، الدر المنثور، 2 : 148
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اہل زیغ، خوراج ہی ہیں۔
النحاس، معانی القرآن، 1 : 349
مضمون ابھی جاری ہے