• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن پر عمل-سمیہ رمضان

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن پر عمل


مصنف
سمیہ رمضان

مؤلف
محمد ظہیر الدین بھٹی


سمیہ رمضان کے مضامین کا ایک سلسلہ کویت کے ایک اخبار میں "المجتمع" میں شایع ہوا۔ یہ مجموعہ انھی مضامین پر مشتمل ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332


1 پیش لفظ
2 انقلاب بالقرآن اور اس کے تقاضے
2.1 قرآن ایک عظیم معجزہ
2.2 تبدیلی کی کیفیت
2.3 قرآن کی قوتِ تاثیر
2.4 قرآنی تبدیلی کا نمونہ
2.5 قرآن مجید پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل
2.6 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا قرآن سے تعلق
2.7 قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ
3 قرآن سے استفادے کا درست طریقہ
3.1 1: قرآن مجید سے دلچسپی
3.2 2: مناسب جگہ
3.3 3: موزوں وقت
3.4 4: ٹھہر ٹھہر کا پڑھنا
3.5 5: توجہ سے مطالعہ کرنا
3.6 6: سرِ تسلیم خم
3.7 7: ہدف - معانی
3.8 8: آیات کو بار بار پڑھنا
4 خواتین کے منفرد تجربات
4.1 گھر میں چیخنا چلانا
4.2 نمازِ فجر کے لیے بیدار ہونا
4.3 طلاق کی دھمکی
4.4 لڑنا جھگڑنا اور ناراضی
4.5 نفرت و کدورت
4.6 تسبیح
4.7 ٹی وی اور دیواروں کی تسبیح
4.8 تسبیح کی برکت سے گناہ کبیرہ چھوڑ دیا
4.9 بچوں پر اثرات
4.10 والدین سے حسن سلوک
4.11 عامل کے بجائے اللہ
4.12 والدین میں تبدیلی
4.13 ایک بہن کا عجیب تجربہ
4.14 والدین سے محبت کا اظہار
4.15 ایک بھائی کا والدین سے حسن کلام
4.16 میراث
4.17 زیورات کی تقسیم
4.18 دوسرا تجربہ
4.19 بروقت تقسیم
4.20 نفسیاتی کیفیت کا شکار نوجوان
4.21 مزاروں پر دعائیں
4.22 صدقہ مصیبت کو ٹال دیتا ہے
4.23 حاجات اللہ پوری کرتا ہے
4.24 جن نکالنا
4.25 غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں
4.26 اولاد کے لیے دُعا
5 قرآن کے مطابق زندگی
5.1 قرآن کی پیروی

 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

پیش لفظ


بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور خواتین کا کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ مغرب اور اسلام کی تہذیبی کش مکش میں بھی ان کے مقام و منصب کو طے کرنے کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ ہمارے معاشروں میں انہیں ان کا مقام دلانے کی سرکاری اور غیر سرکاری کوششیں تھی کچھ زیادہ ہی نمایاں ہیں۔ اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ احیائے دین کے لیے جو کوشش ہو رہی ہے اس میں بھی سرگرمی سے تعاون کرنے والوں میں خواتین ہی آگے ہیں۔ نو مسلموں کی داستانیں پڑھیں تو اس میں بھی خواتین ہی زیادہ نظر آتی ہیں۔

قرآن جو دعوت پیش کرتا ہے اس پر عمل میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں اور عالم اسلام کے دوسرے ممالک میں رجوع الی القرآن کی ایک تحریک برپا ہے۔ ادارے قائم ہو رہے ہیں، فہم قرآن کے لیے مختلف طرح کے کورس اور نصابات تجویز کیے جا رہے ہیں۔ درس قرآن کے 10، 10 روز کے سلسلے جاری ہیں۔ جن میں ہزارہا مرد و خواتین شرکت کر رہے ہیں۔ بعض حضرات و خواتین کے نام اس حوالے سے معروف ہو گئے ہیں۔

اسی سلسلے میں کویت کے رسالہ "المجتمع" میں ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا۔ اس میں محترمہ سمیہ رمضان نے اپنے حلقہ درس کا حال لکھا ہے۔ قرآن کی محض تبلیغ پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہر دفعہ ایک آیت کا انتخاب کر کے شرکا نے اس پر عمل بھی کیا اور اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ عربی میں بہت اچھی اور مفید چیزیں نظر پڑتی ہیں لیکن ہمارے کسی ادارے کے پاس ترجمے کا کوئی نظم نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف عربی بلکہ دوسری زبانوں کی مفید چیزوں سلے اردو جاننے والے محروم ہیں۔ حسنِ اتفاق سے ہمارے رفیق محمد ظہیر الدین بھٹی کو یہ سلسلہ پسند آیا اور اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کا ترجمہ کر ڈالا۔

منشورات اسے شائع کر رہا ہے۔ آپ خود دیکھیں گے کہ اس میں 14 موضوعات کے تحت جو تجربات بیان کیئے گئے ہیں، ان میں قرآن پر عمل کے فوائد و ثمرات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو کر سامنے آتے ہیں، بنیادی عقائد درست ہوتے ہیں، نیز یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں خواتین کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں۔ یقیناً ہماری خواتین اس میں بہت کچھ رہنمائی پائیں گی۔ لیکن اصل فائدے کی بات تو یہ ہو گی کہ وہ حلقہ ہائے درس قرآن قائم کر کے اس انداز کو اختیار کر کے عمل کی کوشش کریں۔

خواتین کے حوالے سے اس کتاب کی اشاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہے۔ مرد عموماً خواتین سے متعلق چیزوں کو زیادہ دلچسپی اور شوق سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمل بالقرآن کی مشق کریں گے۔ درس گاہوں میں مقیم طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ موقع ہے کہ وہ یہ مشق کریں اور اس پیغام کو اپنے گھرانوں اور خاندانوں میں لے جائیں۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

انقلاب بالقرآن اور اس کے تقاضے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
من قرء حرفاً من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر امثالھا، لا اقول الم حرف الم حرف و لکن الف حرف و لام حرف و میم حرف۔
یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ترمذی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے۔

اس حدیث سے یہ غلط مفہوم لیا گیا ہے کہ تلاوت بلا سوچے سمجھے کی جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے تب بھی اجر و ثواب ملتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی توضیح و تشریح کرتی ہیں اسی طرح حدیث کی وضاحت قرآنی آیات اور دیگر احادیث سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے تو تدبر پر زور دیا ہے۔

افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا (محمد 24:47)
کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا (ان کے) دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں.

احادیث میں بھی قرات اور عمل دونوں کو یکجا بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
من قرء القرآن و عمل بما فیہ البس والداہ تاجاء یوم القیامۃ
جس نے قرآن پڑھا اور جو کچھ قرآن میں ہے اس پر عمل کیا اس کے ماں باپ کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا۔ (احمد، ابو داؤد)

اگر قرآن خوانی کا واحد مقصد حصولِ اجر و ثواب ہے تو پھر اور بہت سے ایسے وظائف و کلمات ہیں جنہیں پڑھ کر ہم کہیں زیادہ مقدار میں ثواب کما سکتے ہیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے، "جو بازار میں جائے اور یہ پڑھ لے.
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت و ھو حی لا یموت بیدہ الخیر و ھو علی کل شیء قدیر۔
تو اسے دس لاکھ نیکیاں ملیں گی اور اس کے دس لاکھ گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔(الجامع الصغیر)۔

ان سطور کا مقصد قرآن مجید کی قرات پر ملنے والے اجر و ثواب کی شان کو کم کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ مسلمان قرآن حکیم کے بارے میں اپنا عملی رویہ تبدیل کریں۔ قرآن مجید کی حقیقی قدر و قیمت اور برکت اس کے معانی میں مضمر ہے۔ لفظ تو معنی کے ادراک کا محض ایک ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے "جس نے ایک حرف پڑھا اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔" کا ہدف اجر و ثواب بتا کر امت مسلمہ کو قرآن سے جڑے رہنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مسلمان کسی جگہ بیٹھ کر محض الفاظ پڑھ ڈالے اور مفہوم و مطلب نہ سمجھے۔ اگر کسی طالب علم کا والد اسے یہ کہتا ہے کہ بیٹا پڑھو، تو اس کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ بیٹا محض الفاظ پڑھ لے اور سبق کو نہ سمجھے۔

اگر ہم نزول قرآن کے اعلیٰ مقصد کو سامنے رکھیں اور پھر حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد مبارک کو اس کے ساتھ مربوط کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ثواب بتا کر ترغیب دینے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان قرآن کو ہمیشہ پڑھتے رہیں۔ اس قرآن سے ہدایت پائیں اور اپنے تمام اخلاقی و روحانی امراض سے شفا حاصل کریں۔ قرآنی خطاب کے معنی و مقصود کو سمجھے بغیر اس کا ثواب کی خاطر پڑھ لینا بہت کم پر قناعت کر لینا ہے۔ اصل مقصد تو عمل ہے اور عمل کی نوبت سمجھنے کے بعد آیا کرتی ہے۔

ایک خدا ترس خاتون نے ایک بچی کو اپنے گھر میں رکھا۔ اس بچی کے ماں باپ غریب تھے جو اس کے اخراجات پورا کرنے سے قاصر تھے۔ اس خاتون نے بچی کو اپنے گھر میں ہر طرح سے آرام سے رکھا۔ گھر میں خدمت کے لیے خادمہ پہلے سے موجود تھی۔ بچی کو پوشاک، خوراک اور تعلیم سبھی سہولتیں میسر تھیں، وہ لکھ پڑھ گئی، بڑی ہو گئی تو خاتون نے پہلی خادمہ کو فارغ کر دیا اور صبح سویرے نئی خادمہ کو سب کام ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیئے۔ بچوں کو نہلانا، کپڑے استری کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا وغیرہ۔ امیر عورت یہ کاغذ‌ دے کر مطمئن ہو گئی۔ جب وہ دوپہر کے وقت گھر واپس آئی تو دیکھا کہ نئی نوکرانی نے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ بلا کر پوچھا تو جواب ملا کہ میں نے آپ کی تحریر کو بڑے احترام سے چوما ہے اور اسے بار بار پڑھتی رہی ہوں حتیٰ کہ یہ تحریر مجھے زبانی یاد ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر امیر خاتون کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ اس جواب پر اس نوکرانی کو تنخواہ، پوشاک، خوراک اور رہائیش مہیا کرئے گی یا ناراض ہو کر اسے گھر سے باہر نکال دے گی؟ کیا ہم مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ طرزِ عمل اس نوکرانی جیسا نہیں ہے؟ ہم قرآنی آیات پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ کیا اس صورت میں ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق قرار پا سکتے ہیں؟

قرآن مجید تو آیات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ فرمایا ہے
كِتَابٌ اَنزَلْنَہُ اِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِہِ وَلِيَتَذَكَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ۔(ص 29:38)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص سے فرمایا کہ تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم نہ کرو۔ اپنے اس ارشاد کی علت آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بیان فرمائی
لا یفقھہ من یقرؤہ اقل من ثلاث (الجامع الصغیر)
تین دنوں سے کم میں قرآن شریف پڑھنے والا اسے نہ سمجھ سکے گا۔

ہم میں سے ہر شخص جس کلام کو سنتا یا پڑھتا ہے اسے سمجھنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس قاعدہ کا اطلاق قرآن حکیم پر کیوں نہیں کرتے؟ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ "یہ معلوم ہے کہ ہر کلام کے معنی کو سمجھنا ہی اس کا مقصود ہوا کرتا ہے، محض اس کے الفاظ پڑھنا مطلوب نہیں ہوا کرتا۔ پس قرآن اس بات کا زیادہ حق دار ہے اور اس لائق ہے کہ اسے سمجھا جائے۔" (مقدمہ اصولِ ابن تیمیہ، ص 75)۔ الاستاذ حسن الھضیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ "تلاوت میں انسان کی قرات کی مقدار کا اعتبار نہیں ہے۔ اصل اعتبار تو اس کے سمجھنے کی مقدار کا ہے۔ قرآن مجید، معانی سے مجرد ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر محض بطور برکت نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن کی برکت اس پر عمل کرنے میں اور اسے زندگی کا دستور بنانے میں ہے۔ قرآن چلنے والوں کے لیے راہیں روشن کرتا ہے، لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ جب ہم قرآن مجید پڑھیں تو تلاوت سے ہمارا مقصد ان معانی کو جاننا ہو، جو مراد ہیں۔ اس کے لیے قرآنی آیات میں تدبر کرنا ہو گا، انہیں سمجھنا ہو گا اور ان پر عمل کرنا ہو گا۔" (مقالات الاسلامیین فی رمضان محمد موسیٰ الشریف، ص 426)۔

قرآن کریم کی آیت:
افلا یتدبرون القران، ولو کان من عند غیر اللہ لوجدُوا فیہِ اختلافاً کثیراً (النساء 82:4)۔
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا۔
کی تفسیر میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
"یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے تا کہ قرآن کے معنی معلوم ہو سکیں۔" (الجامع لا حکام القرآن للقرطبی۔ ج5، ص 187)۔
تدبر قرآن اگرچہ پڑھنے اور سننے والے پر واجب ہے مگر یہ بھی خود غایت نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کریم کے عظیم معجزاتی عمل کے لیے ایک ذریعہ ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
قرآن ایک عظیم معجزہ
تمام مسلمان یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے آنے والا ایک عظیم معجزہ ہے۔ مگر یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس معجزے میں وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے یہ تمام سابقہ معجزوں پر سبقت لے گیا ہے؟ بعض اہلِ علم کا خیال ہے کہ قرآن کا اعجاز اس کے اسلوبِ بیان اور بلاغت میں ہے اور قرآن نے اس کا چیلنج بھی دیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیونکہ قرآن ہر زمان و مکان کے لیے موزوں و مناسب ہے، اس لیے معجزہ ہے۔ قرآنِ کریم کے یہ سب وجوہِ اعجاز ہیں مگر قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز اس کی انسانوں کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت ہے۔ ہر انسان کو بدل ڈالنا تا کہ وہ ایک نئی قسم کا انسان بن جائے۔ اللہ کی معرفت رکھنے والا، عبادت گزار، اپنے تمام امور و حالات میں اللہ کی اطاعت کرنے والا۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
تبدیلی کی کیفیت
قرآن جو تبدیلی پیدا کرتا ہے اس کا آغاز دل میں قرآنی نور کے داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ یہ نور دل میں گناہوں، غفلتوں اور خواہش کی پیروی سے جنم لینے والی تاریکی کو دور کرتا ہے۔ دل میں نور دھیرے دھیرے بڑھتا چلا جاتا ہے اور دل کے تمام احساسات میں روشنی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یوں قرآن سمجھنے سے صاحبِ قرآن ایک نئی زندگی سے متعارف ہو جاتا ہے۔
ارشادِ الٰہی ہے
او من کان میتا فاحیینہ و جعلنا لہ نورًا یمشیٰ بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمٰت لیس بخارج منھا (الانعام 122:6)
ترجمہ: کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟
معلوم ہوا کہ قرآن ایک روح ہے جو دل میں جا کر اسے زندہ کر دیتی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے
و کذلک او حینا الیک روحا من امرنا، ما کنت تدری ما الکتٰبُ ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ من نشاہ من عبادنا، (الشوریٰ 52:42)۔
اور اسی طرح اے نبی! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔
جونہی دل میں روح جاگزین ہو جاتی ہے تو دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتا ہے، خواہشات اور حبِ دنیا دل سے نکل جاتی ہے اور اس کا واضح اثر انسان کے طرزِ عمل پر پڑتا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ نے پوچھا تھا کہ
افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ (الزمر 22:39)
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے.
میں شرح صدر سے کیا مراد ہے؟


تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
اذا دخل النور القلب انشرح والفتح، قلنا یا رسول اللہ وما علامۃ ذلک قال الا نابۃ الی دار الخلود، والتجا فی عن دار الغرور، والاستعداد للموت قبل نزول (الحاکم، البیہقی فی الزہد)"
جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو دل کھِل اور کھُل جاتا ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کی کیا علامت ہے؟ فرمایا ہمیشہ کے گھر کی طرف رغبت و رجوع اور دنیا سے بے رخی و بے توجہی اور موت آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری۔

 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

قرآن کی قوتِ تاثیر

ارشادِ الٰہی ہے
ولو ان قُراناً سُیرت بہِ الجبالُ او قطِعت بہِ الارضُ او کُلِم بہِ الموتیٰ، بل للہِ الامرُ جمِیعًا، (الرعد 31:13)
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یقیناً قرآن مجید کی تاثیر ہمارے تخیل سے بھی بہت زیادہ قوی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال یوں فرمائی بیان فرمائی ہے
لو انزلنا ھٰذا القرآن علیٰ جبل لرایتہُ خاشعا مُتصدِعا من خشیۃِ اللہِ، و تِلک الامثال نضربھا للناس لعلھُم یتفکرون(الحشر 31:59)
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالت پر غور کریں۔

علامہ قرطبی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں، "اگر پہاڑوں کو عقل دی جاتی اور پھر اس قرآن کے ذریعے ان سے خطاب کیا جاتا تو پہاڑ قرآنی مواعظ کے سامنے جھک جاتے اور اپنی سختی و مضبوطی کے باوجود انہیں ہم خوفِ خدا سے پھٹا ہوا دیکھتے۔" (الجامع لا حکام القرآن، ج18، ص30)۔

اس مثال سے واضح ہے کہ قرآن مجید اپنی قوتِ تاثیر کی وجہ سے ہر ایک پر حجت ہے، لہٰذا اس شخص کا دعویٰ غلط ہے جو کہتا ہے کہ وہ قرآن سمجھنے کا اہل نہیں۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
قرآنی تبدیلی کا نمونہ
ہر وہ شخص جو قرآن کریم کا کتابِ ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا طرزِ عمل حقیقی ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں قرآن انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ قرآنی تبدیلی کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ ہیں۔ وہ اسلام سے پہلے جاہلیت کی انتہا پر تھے مگر قرآن کی کٹھالی سے نکلے تو ایسے انسان تھے جن پر انسانیت آج تک فخر کرتی ہے۔

اس کتابِ عظیم میں انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کی قوت و تاثیر اور استعداد کس قدر ہے، اس کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے؟ کون یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک قوم جو صحرا میں رہتی ہو، غریب ہو، ننگے پاؤں ہو، لباس کا اہتمام نہ ہو، علم و دانش سے تہی ہو، اپنے زمانے کی سپر پاورز میں اس کا شمار نہ ہو، اس قوم کو بدلنے کے لیے قرآن آتا ہے تا کہ اس کی تشکیل جدید کرئے، اسے زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دے، اس قوم کے دلوں کو اللہ سے جوڑ دے تا کہ اس قوم کی غایت و مقصد صرف اللہ ہی بن جائے۔ قرآن مجید نے یہ تبدیلی چند برسوں میں کر دی اور ثابت کر دیا کہ اس بنیادی تبدیلی کے لیے ایک مختصر عرصہ کافی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوا؟ دراصل قرآن کریم کے ذریعے تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ قوم اس تغیر کے لیے آمادہ ہو۔

ان اللہ لا یُغیر ما بقومِ حتیٰ یُغیِرُو ما بِانفُسہِم (الرعد 11:13)۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
چند ہی سالوں کے بعد اس صحرا کے قلب سے ایک نئی قوت ابھری جس نے روم و فارس کی عظیم و قدیم سلطنتوں کو مٹا کے رکھ دیا اور عزت و ذلت کے پیمانے بدل دیئے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
قرآن مجید پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں قرآن کے ذریعے جو بنیادی تبدیلی آئی اس کا سبب ان کا قرآن سے تعلق تھا۔ وہ قرآن کی قدر و قیمت سے آگاہ تھے اور اس کے مقصدِ نزول کو خوب سمجھے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے لیے نمونہ و اسوہ ان کے استاد و معلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تو زندگی کا محور ہی قرآن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی قرآن کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر سورت کو ترتیل سے پڑھا کرتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم پوری رات اپنی نماز تہجد میں اس ایک آیت کو ہی دہراتے رہے:
اِن تُعذِبھُم فاِنھم عِبادک، واِن تغفرِ لھم فاِنک انت العزیز الحکیم (المائدۃ 118:5)۔
اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کی قوتِ تاثیر سے کس قدر اثر لیتے تھے، اس کا کچھ اندازہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے "مجھے سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا۔" (الجامع الصغیر)۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پر عمل کرنے میں مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پاک کے ترجمان تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بجا فرمایا تھا "کان خلقہ القرآن۔" قرآن آپ کا خلق و کردار تھا۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ کتاب کی شکل میں قرآن پڑھنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا بھی مطالعہ کریں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنِ متحرک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت، افعال و اقوال سب قرآن کی عملی شکل ہیں۔ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اترتا تھا، اس لیے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اس پر عمل کرتے تھے۔ قوانین قرآنی کی پیروی سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ مجبوراً نہیں بلکہ بطیبِ خاطر کرتے تھے۔ قرآن کی محبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلبِ مقدس میں پیوست تھی۔ قرآن کی پیروی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل دھڑکتا تھا۔ اتباع قرآن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی فکر کا مرکز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنی حکم کی تعمیل کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے تزکیہ نفس اور ہمت عالیہ کو خوب کام میں لاتے۔ آئیے یہاں پر ہم چند مثالیں دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس شان کے ساتھ قرآن کے ہر حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں سے الگ تھلگ رہ رہے تھے اور غارِ حرا میں جا کر تخلیہ و تفکر کے دن گزار رہے تھے۔ جب وحی سے سرفراز ہوئے اور قریبی رشتہ داروں اور پھر تمام انسانوں کو ڈرانے اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا حکم ملا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گوشہ نشینی اور عزلت کی زندگی فوراً چھوڑ دی اور اپنے آپ کو دعوت الی اللہ کے لیے وقف کر دیا۔ مکہ کی برتر قوت اور قبائل کی سخت گیری کی قطعاً پروا نہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پوری زندگی کو دعوت کا عملِ مسلسل بنا دیا۔ نہ اکتائے، نہ تھکے اور آخری سانس تک اس میں مصروف رہے۔

قرآن شریف نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر و ثبات کو حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں کافروں کی مخالفتوں، طائف میں جاہلوں کے تشدد اور مدینہ میں یہودیوں اور منافقوں کی سازشوں کے سامنے صبر س ثبات کا ایک پہاڑ معلوم ہوتے تھے۔

مدینہ میں جہاد کا حکم ملا تو مدنی زندگی جہاد میں ڈھل گئی۔ غزوات، سرایا، جنگ و صلح، جنگی مہمیں، لشکر کشی اور فتوحات یہ سب کیا تھا؟ قرآنی حکم کی تعمیل ہی تو تھی۔

قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشان حالوں کی مدد کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرض لے لے کر بھی حاجت مندوں کی مدد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فقر و فاقہ کا اندیشہ نہ کرتے تھے، بند و تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخاوت فرمایا کرتے تھے۔

قرآن حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو عہد کی پابندی کا حکم دیا تو کیفیت یہ تھی دشمن تک بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وعدوں پر یقین کرتے تھے۔

قرآن نے عفو و درگزر کے لیے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سخت ذاتی دشمنوں تک کو معاف کر دیا اور کبھی ذاتی انتقام نہیں لیا۔

قرآن نے رحم کرنے کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم انسانوں پر اتنے مہربان تھے جتنی ایک ماں اپنے چھوٹے بچے پر، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو عدل و انصاف سے کام لینے کے لیے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عدل پر حیرت، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں کو ہوا کرتی تھی۔

قرآن اگر کسی مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعے اور معاملے کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بشارت دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک یہ واقعہ عین الیقین سے زیادہ لائق اعتماد ٹھہرتا۔

قرآن مجید نے انبیائے کرام کے واقعات بیان کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا:
أُولئِکَ الَّذِینَ هَدَی اللّهُ فَبِهُداهُمُ اقْتَدِهْ (الانعام 90:6)
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم، وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستے پر تم چلو۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ حکم ملا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان انبیا کی ان تمام صفات کو اپنا لیا جن کی قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تحسین فرمائی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اپنی دعوت پر استقامت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی محبت اور عزم، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اخلاص اور صلابت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد اور نرم دلی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اپنے رب کے حکم کے سامنے اطاعت و تسلیم، حضرت داؤد علیہ السلام کی اطاعت و حمد الٰہی، حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت و دانائی اور شکر، حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت و احسان اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر۔

سب انبیائے کرام کو توحید پر کاربند رہنے اور عقیدہ توحید کی تبلیغ کا حکم ملا تھا مگر جس شان کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا میں توحید کا ڈنکا بجایا، اپنی امت کو توحید کی اہمیت سے آگاہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شرک کے ظاہری و باطنی پہلو سے اپنی اُمت کو خبردار کیا اور شرک جلی و خفی کا ہر دروازہ بند کر دیا۔

قرآن مجید نے حکم دیا:
بلِ اللہ فاعبدو کن من الشٰکرین (الزمر 66:39)
لہٰذا، اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم عبادت و شکر میں رات دن گزار دیتے۔ رات کو آرام کرنے کے بعد جب بیدار ہوتے تو حمد و شکر کے کلمات زبان سے ادا فرماتے اور پھر پورا دن ہر ہر موقعہ پر حمد و شکر بجا لاتے۔کھانا کھانے کے بعد، دودھ اور پانی پینے کے بعد، لباس پہننے کے بعد، آئینہ دیکھنے کے بعد، پہلی رات کا چاند دیکھنے کے بعد، وضو کرنے کے بعد، وضو کرنے کے دوران، قضائے حاجت کے لیے جانے سے پہلے اور اس کے بعد، کسی کی بیمار پرسی کرتے وقت، نیا پھل کھاتے ہوئے، غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ کو کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم حمد و شکر بجا نہ لاتے۔ رات کو سوتے تو بہت سی دعائیں اور کلمات حمد و شکر ادا کر کے سوتے۔

قرآن مجید نے حکم دیا:
و کلوا واشربو ولا تسرِ فوا (الاعراف 31:7)
اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسراف سے بچنے کی تلقین فرمائی، فرمایا
ہم ایسے لوگ ہیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھاتے نہیں اور ابھی بھوک باقی ہوتی ہے کہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے، "پانی کے استعمال میں بھی حد سے تجاوز ہوتا ہے۔ اس لیے پانی میں بھی اسراف نہ کرو، اگرچہ تم بہتے دریا پر ہی ہو۔"


قرآن ہم کو پانی کی نعمت کے بارے میں کہتا ہے،
لو نشاءُ فعلناہ اُجاجا فلو لا تشکرون (الواقعۃ 70:56)
ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟

آپ صلی اللہ علیہ و سلم پانی پینے کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے
الحمد للہ الذی جعلہ عذبا فراتا برحمتہ ولو یشاء لجعلہ اجاجاً بذنوبنا
اللہ کے لیے حمد و شکر ہے جس نے اپنی رحمت سے پانی کو شیریں اور بہت میٹھا بنا دیا اور اگر وہ چاہتا تو ہمارے (انسانوں کے) گناہوں کی وجہ سے اسے سخت کھاری و تلخ بنا دیتا۔

قرآن کہتا ہے:
فسبح بحمدِ ربک و کُن من السٰجدین (الحجر 98:15)
اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ۔
نیر ایک جگہ فرمایا:
اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور ان کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔
اس قرآنی حکم کی تعمیل میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک ہر وقت ذکرِ الٰہی سے تر رہتی تھی، سورج نکلنے سے پہلے، سورج نکلنے کے بعد، اذان کے ساتھ ساتھ، اذان کے بعد، نماز سے پہلے، نماز میں اور نماز کے بعد، رات اور دن کے ہر مناسب موقعہ پر، گویا کہ پورا دن، رات کا بڑا حصہ تکبیر، تسبیح، تحمید، تہلیل، استغفار اور دعا میں گزرتا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا:
یٰایھا المزمل۔ قُم الیل اِلا قلیلا۔ نصفہ اوِانقص منہ قلیلا۔ او زد علیہ و رتل القرآن ترتیلا۔ (المزمل 1:73-4)
اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم شب زندہ دار رہتے، نماز میں کھڑے ہو کر اپنے پروردگار سے سرگوشی کرتے رہتے، حتیٰ کہ اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدم مبارک سوج جاتے اور آرام کے مشورے پر فرمایا کرتے:
افلا اکون عبدًا شکورا۔
کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

ہم ان چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری زندگی قرآن کی اتباع تھی۔ یہ تھے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ہمارے لیے مثال اور نمونہ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دن عمل، دعوت، جہاد، فیصلے کرنے، بیان، خطاب، ذکر، عبادت اور رہنمائی میں بسر ہوتا۔ رات تہجد، دُعا، مناجات، اپنے خالق و مالک سے سرگوشی میں گزر جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح اپنی پوری زندگی کے ماہ و سال گزار دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طرزِ عمل اور طریق کار میں تبدیلی نہ آئی۔ یہ تھے ہمارے آقا، ہمارے رسول، ہمارے رہنما، ہمارے قائد، جن پر قرآن اترتا تھا۔

سب سے بہتر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن سمجھا۔
سب سے بہتر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی قرآن میں تدبر کیا۔
سب سے بہتر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو واضح کیا۔
سب سے بڑھ کر قرآن کی تعلیم دینے والے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی تھے۔
سب سے بڑھ کر قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی تھے۔


اس لیے قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ ٹھہرایا اور قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کیا خوب فرمایا:
اِن اللہ و ملٰئکتہُ یُصلُون علی النبی، یٰایھُا الذین اٰمنُوا صلُوا علیہِ و سلِمُوا تسلِیما۔(الاحزاب 56:33)
اللہ اور اس کے ملائکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا قرآن سے تعلق

قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو قرآن سے کس قدر شیفتگی تھی اور وہ قرآن سے کس حد تک متاثر تھے، اس کا اندازہ کچھ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ غزوہ ذات الرقاع میں عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دونوں کی باری باری پہرہ دینے کی ڈیوٹی تھی تا کہ رات کے وقت کوئی دشمن مسلمانوں کے لشکر پر حملہ نہ کرئے۔ حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ رات کے پہلے حصے میں سو جائیں، میں پہرہ دوں گا۔ جب حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نے پہرہ دیتے ہوئے دیکھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں تو انہوں نے نماز پڑھنی شروع کر دی، اتنے میں ایک مشرک آیا اور اس نے تیر مارا۔ حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نماز کے دوران ہی تیر کھینچ کر نکال دیا اور نماز میں مصروف رہے، مشرک نے دوسرا تیر مارا، حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے، انہوں نے کھینچ کر تیر نکال دیا، مشرک نے تیسرا تیر مارا تو انہوں نے تیر نکالا اور تلاوت ختم کی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جگایا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ نے مجھے پہلا تیر لگنے پر ہی جگا دیا ہوتا، فرمایا میں نماز میں ایک سورت پڑھ رہا تھا، اس لیے میں نے سورت مکمل کیئے بغیر نماز ختم کرنا مناسب نہ جانا۔ مگر جب دشمن نے بار بار تیر اندازی کی تو میں نے نماز ختم کر کے آپ کو جگا دیا۔ اللہ کی قسم، اگر مجھے اندیشہ نہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے جس جگہ پہرہ دینے کے لیے متعین فرمایا ہے، اسے خطرہ لاحق ہے تو میں سورت پڑھتا ہی رہتا، یا یہ سورت مکمل ہو جاتی یا اسی میں میری جان چلی جاتی۔ (السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام)۔

قرآن کی حقیقی قدر و قیمت اس کے معانی میں پوشیدہ ہے۔ قرآن اپنے پڑھنے والوں میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، ان کی عقل کی تشکیل نو کرتا ہے، انکے قلوب میں نئی روح پھونک دیتا ہے، ان کے نفس کی ایسی تربیت کر دیتا ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے اللہ کی صفات کے عالم، اخلاص و بصیرت سے اس کی عبادت کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کی پابندی کرنے والے ہو جاتے ہیں۔ انسانوں میں قرآن کریم کے ذریعے ہونے والی یہ تبدیلی صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب اس کا تدبر سے مطالعہ کیا جائے اور ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ کو محض زبان سے پڑھ لینے سے نہ تبدیلی آتی ہے نہ یہ فوائد و ثمرات ہوتے ہیں۔ قرآن پڑھنے والے ہزار بار بھی کیوں نہ ختم کر لیں، محض سرسری اور فرفر تیز پڑھنے سے کبھی تبدیلی نہیں آتی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین قرآن شریف کو جلد جلد پڑھ ڈالنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ ان میں سے ایک رات میں دو یا تین بار قرآن پڑھ ڈالتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، ان لوگوں نے پڑھا مگر نہ پڑھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوری رات قیام فرماتے تھے اور اس میں البقرۃ، آل عمران اور النساء سورتیں پڑھتے تھے۔ اگر اس میں خوش خبری ہوتی تو اللہ تعالیٰ سے اسے طلب کرتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسی آیت پڑھتے جس میں ڈرایا گیا ہے تو اللہ سے اس کی پناہ مانگتے۔ (ابن المبارک نے یہ حدیث الزہد میں بیان کی ہے۔ حدیث نمبر 1196، ص 421)۔

حضرت ابو جمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: میں بہت تیز پڑھنے والا ہوں۔ میں تین دن میں قرآن شریف پڑھ لیتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تو ایک رات میں سورۃ البقرہ پڑھنا، اس میں تدبر کرنا اور اسے ترتیل سے پڑھنا زیادہ پسند ہے اس طرح پڑھنے سے جیسے تم بتا رہے ہو۔ (فضائل القرآن لابی عبید ص 157)۔

 
Top