• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم میں فقہ کی اہمیت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
فرمانِ باری ہے:
﴿ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرً‌ا كَثِيرً‌ا ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة: 269
کہ ’’(اللہ تعالیٰ) جسے چاہتے ہیں کہ حکمت عطا کر دیتے ہیں، اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر عطا کی گئی۔‘‘

اس آیت کریمہ میں حکمت سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک ’قرآن کریم میں سمجھ بوجھ‘ ہے۔
بعض کے نزدیک ’اصابت رائے‘ ہے۔
بعض نے اس سے مراد ’دین کا علم‘ لیا ہے۔
بعض نے اس سے مراد ’فہم‘ لیا ہے۔
بعض نے اس سے ’خشیت‘ مراد لی ہے۔
جبکہ بعض نے اس سے مراد ’نبوت‘ لی ہے۔
امام ابن جریر طبری﷫ تمام اقوال بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ان تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حکمت سے مراد ’اصابت رائے‘ ہے۔ کیونکہ یہ کتاب وسنت میں گہرے فہم سے ہی حاصل ہوتی ہے، اور اس کا حامل شخص عالم، فقیہ اور اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔ اور انبیائے کرام﷩ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم عطا کیا جاتا ہے اور وہ اپنے ہر قول وفعل میں صائب ہوتے ہیں۔
گویا آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں قول وفعل کی اصابت عطا کر دیتے ہیں، اور جسے یہ عطا کر دی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کی گئی۔
 
Top