• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض کا جواب درکار ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
قرآن کی فصاحت و بلاغت (ایک نمونہ)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Saad Raza >>>Freethinkers
قرآن کے ہر ہر حصے میں اتنی بے تُکی باتیں ہیں کہ اسے کوئی مناسب تفہیم کا کلام بھی نہیں کہا جا سکتا چہ جائیکہ بہترین فصیح و بلیغ اور الہامی کلام مانا جائے۔ نمونے کے طور پر قرآن کا ایک مقام ملاحظہ فرمائیں اور صرف اس ایک مقام پر وارد ہونے والے موٹے موٹے اعتراضات دیکھیں کہ جن سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا لکھنے والا شاید ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر یہ کلام کرتا رہا ہے۔ چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی چند آیات (61 - 65) اور ان پر تبصرہ حاضر خدمت ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿٦١﴾
"اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا ا س نے کہا "کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟"
تبصرہ: قرآن میں یہ بات اور بھی کئی جگہ پر بیان ہوئی ہے اور ہر جگہ پر یہی ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور انکار کر کے کافر ہو گیا۔ (البقرۃ:34) اس پر سب سے پہلا اعتراض تو خود اللہ پر ہی آتا ہے کہ جب اس نے سجدے کا حکم ہی ملائکہ یعنی فرشتوں کو دیا تھا تو ابلیس اس حکم میں کیسے شامل ہو گیا؟ کیونکہ خود قرآن کے مطابق ہی ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ (الکہف:50)
اب اس کی جتنی مرضی تاویلات کر لی جائیں یہ تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سیدھا سادا حکم کرنا بھی نہیں آتا اور نہ ہی کلام کا کوئی سلیقہ ہے۔ کیا جو حکم صرف انسانوں کے لئے ہو اس کی نافرمانی پر فرشتوں کو سزا دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جو حکم صرف فرشتوں کو تھا، اس کے تحت ابلیس کو لتاڑنا اور سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٢﴾
"کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اس کی (تمام) اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔"
تبصرہ: اب دیکھئے اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ اپنا سوچا ہوا منصوبہ شیطان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت جبکہ ابھی آدم میں روح ہی پھونکی گئی ہے اور دور دور تک ابھی اس کی بیوی موجود ہے نہ یہ کہ اس سے اس آدم کی اولاد بھی پیدا ہو گی، مگر ابلیس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کرتا رہے گا۔ ہے نا کمال کی بات؟ پھر مزے کی بات یہ کہ وہ اللہ کے اس منصوبے کے عین مطابق یہ بھی پہلے سے مانتا تھا کہ تھوڑے سے لوگ ضرور ایسے ہوں گے جن پر اس کا داؤ نہ چل سکے گا۔ شاباش ہے اللہ میاں! کیا خوب انداز سے اپنا منصوبہ پہلے سے ہی شیطان کو ڈکٹیٹ کروا رکھا ہے۔ کہو سبحان اللہ
قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ﴿٦٣﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾
(اللہ نے) فرمایا (یہاں سے) چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے (اور وہ) پوری سزا (ہے)۔ اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔
تبصرہ: چلو جی ابلیس میاں سو ابلیس میاں، اللہ میاں سبحان اللہ۔ گویا جہاں صرف آدم ہی آدم ہے، وہاں شیطان کے آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کے اعلان پر اللہ میاں نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی اور اسے کھلی عیاشی مارنے کی چھٹی دے دی۔ وہ بھی اس طرح کہ اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ ویسے آج تک آپ میں سے کسی نے شیطان کی آواز سنی ہے؟ نہیں نا تو سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ tongue emoticon
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
"جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار کارساز کافی ہے۔"
تبصرہ: یہاں پر پھر اسی طرح کی ایک بڑی بے تُکی۔ اللہ میاں کو کون سمجھائے کہ جناب کون سے بندے کہ جن پر شیطان کا کچھ زور نہیں؟ جس وقت آپ یہ بات ارشاد فرما رہے ہیں، دور دور تک ایسے بندے موجود نہیں تھے کہ جن کے متعلق شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لے دے کر ایک بیچارہ آدم موجود ہے تو آپ کس خوشی میں یہ جھوٹ ارشاد فرما رہے ہیں کہ "جو میرے بندے ہیں"۔ ہاں اگر تو یہ کہا جاتا کہ جو میرے بندے ہوں گے تو بات سمجھ میں آتی تھی مگر مستقبل میں آنے والوں کو موجود سمجھ کر دعوے کرنا صرف اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بڑا ہی بہترین فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہے۔
ہونہہ یہ منہ اور مسور کی دال
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
قرآن کی فصاحت و بلاغت (ایک نمونہ)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Saad Raza >>>Freethinkers
قرآن کے ہر ہر حصے میں اتنی بے تُکی باتیں ہیں کہ اسے کوئی مناسب تفہیم کا کلام بھی نہیں کہا جا سکتا چہ جائیکہ بہترین فصیح و بلیغ اور الہامی کلام مانا جائے۔ نمونے کے طور پر قرآن کا ایک مقام ملاحظہ فرمائیں اور صرف اس ایک مقام پر وارد ہونے والے موٹے موٹے اعتراضات دیکھیں کہ جن سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا لکھنے والا شاید ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر یہ کلام کرتا رہا ہے۔ چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی چند آیات (61 - 65) اور ان پر تبصرہ حاضر خدمت ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿٦١﴾
"اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا ا س نے کہا "کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟"
تبصرہ: قرآن میں یہ بات اور بھی کئی جگہ پر بیان ہوئی ہے اور ہر جگہ پر یہی ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور انکار کر کے کافر ہو گیا۔ (البقرۃ:34) اس پر سب سے پہلا اعتراض تو خود اللہ پر ہی آتا ہے کہ جب اس نے سجدے کا حکم ہی ملائکہ یعنی فرشتوں کو دیا تھا تو ابلیس اس حکم میں کیسے شامل ہو گیا؟ کیونکہ خود قرآن کے مطابق ہی ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ (الکہف:50)
اب اس کی جتنی مرضی تاویلات کر لی جائیں یہ تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سیدھا سادا حکم کرنا بھی نہیں آتا اور نہ ہی کلام کا کوئی سلیقہ ہے۔ کیا جو حکم صرف انسانوں کے لئے ہو اس کی نافرمانی پر فرشتوں کو سزا دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جو حکم صرف فرشتوں کو تھا، اس کے تحت ابلیس کو لتاڑنا اور سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٢﴾
"کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اس کی (تمام) اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔"
تبصرہ: اب دیکھئے اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ اپنا سوچا ہوا منصوبہ شیطان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت جبکہ ابھی آدم میں روح ہی پھونکی گئی ہے اور دور دور تک ابھی اس کی بیوی موجود ہے نہ یہ کہ اس سے اس آدم کی اولاد بھی پیدا ہو گی، مگر ابلیس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کرتا رہے گا۔ ہے نا کمال کی بات؟ پھر مزے کی بات یہ کہ وہ اللہ کے اس منصوبے کے عین مطابق یہ بھی پہلے سے مانتا تھا کہ تھوڑے سے لوگ ضرور ایسے ہوں گے جن پر اس کا داؤ نہ چل سکے گا۔ شاباش ہے اللہ میاں! کیا خوب انداز سے اپنا منصوبہ پہلے سے ہی شیطان کو ڈکٹیٹ کروا رکھا ہے۔ کہو سبحان اللہ
قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ﴿٦٣﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾
(اللہ نے) فرمایا (یہاں سے) چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے (اور وہ) پوری سزا (ہے)۔ اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔
تبصرہ: چلو جی ابلیس میاں سو ابلیس میاں، اللہ میاں سبحان اللہ۔ گویا جہاں صرف آدم ہی آدم ہے، وہاں شیطان کے آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کے اعلان پر اللہ میاں نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی اور اسے کھلی عیاشی مارنے کی چھٹی دے دی۔ وہ بھی اس طرح کہ اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ ویسے آج تک آپ میں سے کسی نے شیطان کی آواز سنی ہے؟ نہیں نا تو سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ tongue emoticon
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
"جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار کارساز کافی ہے۔"
تبصرہ: یہاں پر پھر اسی طرح کی ایک بڑی بے تُکی۔ اللہ میاں کو کون سمجھائے کہ جناب کون سے بندے کہ جن پر شیطان کا کچھ زور نہیں؟ جس وقت آپ یہ بات ارشاد فرما رہے ہیں، دور دور تک ایسے بندے موجود نہیں تھے کہ جن کے متعلق شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لے دے کر ایک بیچارہ آدم موجود ہے تو آپ کس خوشی میں یہ جھوٹ ارشاد فرما رہے ہیں کہ "جو میرے بندے ہیں"۔ ہاں اگر تو یہ کہا جاتا کہ جو میرے بندے ہوں گے تو بات سمجھ میں آتی تھی مگر مستقبل میں آنے والوں کو موجود سمجھ کر دعوے کرنا صرف اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بڑا ہی بہترین فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہے۔
ہونہہ یہ منہ اور مسور کی دال
@اسحاق سلفی
@عبدہ
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
ابن قدامہ صاحب : کسی کی کفریہ عبارت نقل کرنے سے پہلے یہ جملے
(نقل کفر کفر نہ باشد)
آپ کو لکھنے چائیں تھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قرآن کے ہر ہر حصے میں اتنی بے تُکی باتیں ہیں کہ اسے کوئی مناسب تفہیم کا کلام بھی نہیں کہا جا سکتا چہ جائیکہ بہترین فصیح و بلیغ اور الہامی کلام مانا جائے۔ نمونے کے طور پر قرآن کا ایک مقام ملاحظہ فرمائیں اور صرف اس ایک مقام پر وارد ہونے والے موٹے موٹے اعتراضات دیکھیں کہ جن سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا لکھنے والا شاید ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر یہ کلام کرتا رہا ہے۔
قرآن کریم واقعی فصیح و بلیغ ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ معترضین یہ چاہتے ہیں عربی جانے بغیر قرآن ان کی سمجھ میں آجائے اور اگر ترجمہ کرنا پڑے تو وہ بھی مرضی کا ہو. یقین مانیئے قصور قرآن کریم کی فصیح و بلیغ زبان و بیان میں نہیں بلکہ معترضین کی کم فہمی اور ناقص علم کا ہے. یہ ایسے ہی ہے کہ چٹا ان پڑه شخص کہے کہ اسے چونکہ ایٹم کی ساخت سمجھ نہیں آتی اس لیے یہ ساخت ہوتی ہی نہیں.
بعد میں کیے گئے اعتراضات میں یہ بات مزید نکھر کا سامنے آگئی ہے ۔
چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی چند آیات (61 - 65) اور ان پر تبصرہ حاضر خدمت ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿٦١﴾
"اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا ا س نے کہا "کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟"
تبصرہ: قرآن میں یہ بات اور بھی کئی جگہ پر بیان ہوئی ہے اور ہر جگہ پر یہی ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور انکار کر کے کافر ہو گیا۔ (البقرۃ:34) اس پر سب سے پہلا اعتراض تو خود اللہ پر ہی آتا ہے کہ جب اس نے سجدے کا حکم ہی ملائکہ یعنی فرشتوں کو دیا تھا تو ابلیس اس حکم میں کیسے شامل ہو گیا؟ کیونکہ خود قرآن کے مطابق ہی ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ (الکہف:50)
اب اس کی جتنی مرضی تاویلات کر لی جائیں یہ تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سیدھا سادا حکم کرنا بھی نہیں آتا اور نہ ہی کلام کا کوئی سلیقہ ہے۔ کیا جو حکم صرف انسانوں کے لئے ہو اس کی نافرمانی پر فرشتوں کو سزا دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جو حکم صرف فرشتوں کو تھا، اس کے تحت ابلیس کو لتاڑنا اور سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟
ملحدین تو شیطان کے بھی باپ ثابت ہوئے ہیں ، حالانکہ ابلیس چاہتا تو یہی اعتراض کر سکتا تھا کہ اللہ تعالی حکم تو آپ نے فرشتوں کودیا ہے ، اس لیے مجھ سے اس کا تعلق ہی کوئی نہیں ، پھر میں سجدہ نہ کروں تو اس میں نافرمانی کیا ہوئی ؟
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا یہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ابلیس بھی ان میں شامل تھا ، جنہیں سجدے کا حکم دیا گیا تھا ۔ سب نے بجاآوری کی ، لیکن ابلیس انکار کرے مردود ٹھہرا ، اور ملحدین ابلیس سے بھی دو ہاتھ آگے ہوئے اور شیطان کو مشورہ دینے لگ گئے کہ یہ حکم تو آپ کے لیے تھا ہی نہیں ، یہ تو فرشتوں کے ساتھ خاص تھا ۔
ملحدین نے صرف چند آیات کو لے کر اعتراض سیدھا کر لیا ، حالانکہ قرآن مجید میں اور آیات سے صراحتا پتہ چلتا ہے کہ ابلیس کو بھی سجدہ کا حکم تھا ، فرمان باری تعالی ہے :
مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ
جب میں نے تمہیں حکم دیا تو سجدے سے کس چیز نے تمہیں روکے رکھا ؟
اسی طرح ایک اور جگہ فسجدوا إلا إبلیس کے ساتھ یہ اضافہ ہے :
كان من الجن ففسق عن أمر ربه
ابلیس جنوں میں سے تھا ، اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی
ان دونوں آیات سے صراحت کے ساتھ پتہ چلتا ہے کہ سجدے کا حکم ابلیس کو بھی شامل تھا ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اسالیب فصاحت و بلاغت کے اعلی معیار کے مطابق ہیں ، عربی زبان و ادب میں باقاعدہ اس کی مثالیں ملتی ہیں ، لیکن جو قرآن مجید پر زبان دراز کرلیتے ہیں ، ان کے سامنے کسی اور کی بات پیش کرنا ، اور اصول و قواعد سمجھانے پر مغز ماری کرنا ’’ بھینس کے آگے بین بجانے ‘‘ والی بات ہے ۔
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٢﴾
"کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اس کی (تمام) اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔"
تبصرہ: اب دیکھئے اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ اپنا سوچا ہوا منصوبہ شیطان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت جبکہ ابھی آدم میں روح ہی پھونکی گئی ہے اور دور دور تک ابھی اس کی بیوی موجود ہے نہ یہ کہ اس سے اس آدم کی اولاد بھی پیدا ہو گی، مگر ابلیس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کرتا رہے گا۔ ہے نا کمال کی بات؟ پھر مزے کی بات یہ کہ وہ اللہ کے اس منصوبے کے عین مطابق یہ بھی پہلے سے مانتا تھا کہ تھوڑے سے لوگ ضرور ایسے ہوں گے جن پر اس کا داؤ نہ چل سکے گا۔ شاباش ہے اللہ میاں! کیا خوب انداز سے اپنا منصوبہ پہلے سے ہی شیطان کو ڈکٹیٹ کروا رکھا ہے۔ کہو سبحان اللہ
قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ﴿٦٣﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾
(اللہ نے) فرمایا (یہاں سے) چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے (اور وہ) پوری سزا (ہے)۔ اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔
تبصرہ: چلو جی ابلیس میاں سو ابلیس میاں، اللہ میاں سبحان اللہ۔ گویا جہاں صرف آدم ہی آدم ہے، وہاں شیطان کے آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کے اعلان پر اللہ میاں نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی اور اسے کھلی عیاشی مارنے کی چھٹی دے دی۔ وہ بھی اس طرح کہ اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ ویسے آج تک آپ میں سے کسی نے شیطان کی آواز سنی ہے؟ نہیں نا تو سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ tongue emoticon
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
"جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار کارساز کافی ہے۔"
تبصرہ: یہاں پر پھر اسی طرح کی ایک بڑی بے تُکی۔ اللہ میاں کو کون سمجھائے کہ جناب کون سے بندے کہ جن پر شیطان کا کچھ زور نہیں؟ جس وقت آپ یہ بات ارشاد فرما رہے ہیں، دور دور تک ایسے بندے موجود نہیں تھے کہ جن کے متعلق شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لے دے کر ایک بیچارہ آدم موجود ہے تو آپ کس خوشی میں یہ جھوٹ ارشاد فرما رہے ہیں کہ "جو میرے بندے ہیں"۔ ہاں اگر تو یہ کہا جاتا کہ جو میرے بندے ہوں گے تو بات سمجھ میں آتی تھی مگر مستقبل میں آنے والوں کو موجود سمجھ کر دعوے کرنا صرف اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بڑا ہی بہترین فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہے۔
ہونہہ یہ منہ اور مسور کی دال
یہاں بیان کیے گئے دونوں تینوں اعتراضات تقدیر ، اور اللہ تعالی کے ارادہ کونیہ و شرعیہ میں فرق نہ سمجھنے کے باعث ہیں ، اللہ تعالی نے خود شیطان کو پیدا کیا ہے ، لیکن ارادہ کونیہ کے تحت ، جبکہ اللہ تعالی کا ارادہ شرعیہ یہ ہے کہ کوئی اس کی پیروی نہ کرے ، لیکن ارادہ کونیہ کے تحت اس کو اتنا اختیار دے رکھا ہے تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کرسکے ، اور بندوں کی ابتلاء و آزمائش متحقق ہو ، اور لوگوں کو نیکی پر مجبور محض بنانے کی بجائے بدی کا بھی اختیار ہو ، اور وہ بذات خود اپنے اختیار سے اس سے بچیں ، تاکہ نیک اور بد میں فرق کیا جائے ۔ و اللہ اعلم ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
قرآن کریم واقعی فصیح و بلیغ ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ معترضین یہ چاہتے ہیں عربی جانے بغیر قرآن ان کی سمجھ میں آجائے اور اگر ترجمہ کرنا پڑے تو وہ بھی مرضی کا ہو. یقین مانیئے قصور قرآن کریم کی فصیح و بلیغ زبان و بیان میں نہیں بلکہ معترضین کی کم فہمی اور ناقص علم کا ہے. یہ ایسے ہی ہے کہ چٹا ان پڑه شخص کہے کہ اسے چونکہ ایٹم کی ساخت سمجھ نہیں آتی اس لیے یہ ساخت ہوتی ہی نہیں.
بعد میں کیے گئے اعتراضات میں یہ بات مزید نکھر کا سامنے آگئی ہے ۔

ملحدین تو شیطان کے بھی باپ ثابت ہوئے ہیں ، حالانکہ ابلیس چاہتا تو یہی اعتراض کر سکتا تھا کہ اللہ تعالی حکم تو آپ نے فرشتوں کودیا ہے ، اس لیے مجھ سے اس کا تعلق ہی کوئی نہیں ، پھر میں سجدہ نہ کروں تو اس میں نافرمانی کیا ہوئی ؟
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا یہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ابلیس بھی ان میں شامل تھا ، جنہیں سجدے کا حکم دیا گیا تھا ۔ سب نے بجاآوری کی ، لیکن ابلیس انکار کرے مردود ٹھہرا ، اور ملحدین ابلیس سے بھی دو ہاتھ آگے ہوئے اور شیطان کو مشورہ دینے لگ گئے کہ یہ حکم تو آپ کے لیے تھا ہی نہیں ، یہ تو فرشتوں کے ساتھ خاص تھا ۔
ملحدین نے صرف چند آیات کو لے کر اعتراض سیدھا کر لیا ، حالانکہ قرآن مجید میں اور آیات سے صراحتا پتہ چلتا ہے کہ ابلیس کو بھی سجدہ کا حکم تھا ، فرمان باری تعالی ہے :
مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ
جب میں نے تمہیں حکم دیا تو سجدے سے کس چیز نے تمہیں روکے رکھا ؟
اسی طرح ایک اور جگہ فسجدوا إلا إبلیس کے ساتھ یہ اضافہ ہے :
كان من الجن ففسق عن أمر ربه
ابلیس جنوں میں سے تھا ، اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی
ان دونوں آیات سے صراحت کے ساتھ پتہ چلتا ہے کہ سجدے کا حکم ابلیس کو بھی شامل تھا ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اسالیب فصاحت و بلاغت کے اعلی معیار کے مطابق ہیں ، عربی زبان و ادب میں باقاعدہ اس کی مثالیں ملتی ہیں ، لیکن جو قرآن مجید پر زبان دراز کرلیتے ہیں ، ان کے سامنے کسی اور کی بات پیش کرنا ، اور اصول و قواعد سمجھانے پر مغز ماری کرنا ’’ بھینس کے آگے بین بجانے ‘‘ والی بات ہے ۔

یہاں بیان کیے گئے دونوں تینوں اعتراضات تقدیر ، اور اللہ تعالی کے ارادہ کونیہ و شرعیہ میں فرق نہ سمجھنے کے باعث ہیں ، اللہ تعالی نے خود شیطان کو پیدا کیا ہے ، لیکن ارادہ کونیہ کے تحت ، جبکہ اللہ تعالی کا ارادہ شرعیہ یہ ہے کہ کوئی اس کی پیروی نہ کرے ، لیکن ارادہ کونیہ کے تحت اس کو اتنا اختیار دے رکھا ہے تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کرسکے ، اور بندوں کی ابتلاء و آزمائش متحقق ہو ، اور لوگوں کو نیکی پر مجبور محض بنانے کی بجائے بدی کا بھی اختیار ہو ، اور وہ بذات خود اپنے اختیار سے اس سے بچیں ، تاکہ نیک اور بد میں فرق کیا جائے ۔ و اللہ اعلم ۔
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
میرے بھائی ۔ سیاق و سباق میں ظاہر کر دیا کریں ۔ کہ کفریہ عبارت اب شروع ہوتی ہے ۔ فلاں آدمی ہے ۔ کس قابل ہے ۔ اس کا کتنا اثر ہو چکا ہے ۔ اور ساری عبارت نقل کرنا ضروری نہیں ۔ ہر آدمی کی ہر بات قابل التفات نہیں ہوتی ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میرے بھائی ۔ سیاق و سباق میں ظاہر کر دیا کریں ۔ کہ کفریہ عبارت اب شروع ہوتی ہے ۔ فلاں آدمی ہے ۔ کس قابل ہے ۔ اس کا کتنا اثر ہو چکا ہے ۔ اور ساری عبارت نقل کرنا ضروری نہیں ۔ ہر آدمی کی ہر بات قابل التفات نہیں ہوتی ۔
فورم پر ملحدوں کے لنک دینا منع ہیں
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اہل علم سے رائے مانگی گئی ۔ مسئلہ آج اہم نہیں تو کل اہمیت اختیار کر سکتا هے ۔ اصل بات فصاحت و بلاغت پر نہیں ہے ، وہ تو ایکطرح کا طنز ہوا اس ملعون عبارت کا ، اعتراض اللہ اور اللہ کی کتاب القرآن پر ہے ۔ جبکہ آدم کی تخلیق اور ابلیس و ملائکہ کے اقوال و اعمال کیا ہم سے پہلے گذری امتوں کے علم میں نہیں تہے ۔
فتنے اسی طرح اٹہا کرتے ہیں ۔
اللہ سے شیطانوں اور انسانوں کے وسواس سے پناہ چاہتے ہیں ، اللہ ہم کو اپنے حفظ و امان میں رکہے ، آمین
 
Top