ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
قرآن کی فصاحت و بلاغت (ایک نمونہ)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Saad Raza >>>Freethinkers
قرآن کے ہر ہر حصے میں اتنی بے تُکی باتیں ہیں کہ اسے کوئی مناسب تفہیم کا کلام بھی نہیں کہا جا سکتا چہ جائیکہ بہترین فصیح و بلیغ اور الہامی کلام مانا جائے۔ نمونے کے طور پر قرآن کا ایک مقام ملاحظہ فرمائیں اور صرف اس ایک مقام پر وارد ہونے والے موٹے موٹے اعتراضات دیکھیں کہ جن سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا لکھنے والا شاید ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر یہ کلام کرتا رہا ہے۔ چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی چند آیات (61 - 65) اور ان پر تبصرہ حاضر خدمت ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿٦١﴾
"اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا ا س نے کہا "کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟"
تبصرہ: قرآن میں یہ بات اور بھی کئی جگہ پر بیان ہوئی ہے اور ہر جگہ پر یہی ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور انکار کر کے کافر ہو گیا۔ (البقرۃ:34) اس پر سب سے پہلا اعتراض تو خود اللہ پر ہی آتا ہے کہ جب اس نے سجدے کا حکم ہی ملائکہ یعنی فرشتوں کو دیا تھا تو ابلیس اس حکم میں کیسے شامل ہو گیا؟ کیونکہ خود قرآن کے مطابق ہی ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ (الکہف:50)
اب اس کی جتنی مرضی تاویلات کر لی جائیں یہ تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سیدھا سادا حکم کرنا بھی نہیں آتا اور نہ ہی کلام کا کوئی سلیقہ ہے۔ کیا جو حکم صرف انسانوں کے لئے ہو اس کی نافرمانی پر فرشتوں کو سزا دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جو حکم صرف فرشتوں کو تھا، اس کے تحت ابلیس کو لتاڑنا اور سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٢﴾
"کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اس کی (تمام) اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔"
تبصرہ: اب دیکھئے اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ اپنا سوچا ہوا منصوبہ شیطان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت جبکہ ابھی آدم میں روح ہی پھونکی گئی ہے اور دور دور تک ابھی اس کی بیوی موجود ہے نہ یہ کہ اس سے اس آدم کی اولاد بھی پیدا ہو گی، مگر ابلیس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کرتا رہے گا۔ ہے نا کمال کی بات؟ پھر مزے کی بات یہ کہ وہ اللہ کے اس منصوبے کے عین مطابق یہ بھی پہلے سے مانتا تھا کہ تھوڑے سے لوگ ضرور ایسے ہوں گے جن پر اس کا داؤ نہ چل سکے گا۔ شاباش ہے اللہ میاں! کیا خوب انداز سے اپنا منصوبہ پہلے سے ہی شیطان کو ڈکٹیٹ کروا رکھا ہے۔ کہو سبحان اللہ
قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ﴿٦٣﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾
(اللہ نے) فرمایا (یہاں سے) چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے (اور وہ) پوری سزا (ہے)۔ اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔
تبصرہ: چلو جی ابلیس میاں سو ابلیس میاں، اللہ میاں سبحان اللہ۔ گویا جہاں صرف آدم ہی آدم ہے، وہاں شیطان کے آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کے اعلان پر اللہ میاں نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی اور اسے کھلی عیاشی مارنے کی چھٹی دے دی۔ وہ بھی اس طرح کہ اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ ویسے آج تک آپ میں سے کسی نے شیطان کی آواز سنی ہے؟ نہیں نا تو سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ tongue emoticon
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
"جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار کارساز کافی ہے۔"
تبصرہ: یہاں پر پھر اسی طرح کی ایک بڑی بے تُکی۔ اللہ میاں کو کون سمجھائے کہ جناب کون سے بندے کہ جن پر شیطان کا کچھ زور نہیں؟ جس وقت آپ یہ بات ارشاد فرما رہے ہیں، دور دور تک ایسے بندے موجود نہیں تھے کہ جن کے متعلق شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لے دے کر ایک بیچارہ آدم موجود ہے تو آپ کس خوشی میں یہ جھوٹ ارشاد فرما رہے ہیں کہ "جو میرے بندے ہیں"۔ ہاں اگر تو یہ کہا جاتا کہ جو میرے بندے ہوں گے تو بات سمجھ میں آتی تھی مگر مستقبل میں آنے والوں کو موجود سمجھ کر دعوے کرنا صرف اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بڑا ہی بہترین فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہے۔
ہونہہ یہ منہ اور مسور کی دال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Saad Raza >>>Freethinkers
قرآن کے ہر ہر حصے میں اتنی بے تُکی باتیں ہیں کہ اسے کوئی مناسب تفہیم کا کلام بھی نہیں کہا جا سکتا چہ جائیکہ بہترین فصیح و بلیغ اور الہامی کلام مانا جائے۔ نمونے کے طور پر قرآن کا ایک مقام ملاحظہ فرمائیں اور صرف اس ایک مقام پر وارد ہونے والے موٹے موٹے اعتراضات دیکھیں کہ جن سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا لکھنے والا شاید ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر یہ کلام کرتا رہا ہے۔ چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی چند آیات (61 - 65) اور ان پر تبصرہ حاضر خدمت ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿٦١﴾
"اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا ا س نے کہا "کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟"
تبصرہ: قرآن میں یہ بات اور بھی کئی جگہ پر بیان ہوئی ہے اور ہر جگہ پر یہی ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور انکار کر کے کافر ہو گیا۔ (البقرۃ:34) اس پر سب سے پہلا اعتراض تو خود اللہ پر ہی آتا ہے کہ جب اس نے سجدے کا حکم ہی ملائکہ یعنی فرشتوں کو دیا تھا تو ابلیس اس حکم میں کیسے شامل ہو گیا؟ کیونکہ خود قرآن کے مطابق ہی ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ (الکہف:50)
اب اس کی جتنی مرضی تاویلات کر لی جائیں یہ تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سیدھا سادا حکم کرنا بھی نہیں آتا اور نہ ہی کلام کا کوئی سلیقہ ہے۔ کیا جو حکم صرف انسانوں کے لئے ہو اس کی نافرمانی پر فرشتوں کو سزا دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جو حکم صرف فرشتوں کو تھا، اس کے تحت ابلیس کو لتاڑنا اور سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٢﴾
"کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اس کی (تمام) اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔"
تبصرہ: اب دیکھئے اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ اپنا سوچا ہوا منصوبہ شیطان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت جبکہ ابھی آدم میں روح ہی پھونکی گئی ہے اور دور دور تک ابھی اس کی بیوی موجود ہے نہ یہ کہ اس سے اس آدم کی اولاد بھی پیدا ہو گی، مگر ابلیس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کرتا رہے گا۔ ہے نا کمال کی بات؟ پھر مزے کی بات یہ کہ وہ اللہ کے اس منصوبے کے عین مطابق یہ بھی پہلے سے مانتا تھا کہ تھوڑے سے لوگ ضرور ایسے ہوں گے جن پر اس کا داؤ نہ چل سکے گا۔ شاباش ہے اللہ میاں! کیا خوب انداز سے اپنا منصوبہ پہلے سے ہی شیطان کو ڈکٹیٹ کروا رکھا ہے۔ کہو سبحان اللہ
قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ﴿٦٣﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾
(اللہ نے) فرمایا (یہاں سے) چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے (اور وہ) پوری سزا (ہے)۔ اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔
تبصرہ: چلو جی ابلیس میاں سو ابلیس میاں، اللہ میاں سبحان اللہ۔ گویا جہاں صرف آدم ہی آدم ہے، وہاں شیطان کے آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کے اعلان پر اللہ میاں نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی اور اسے کھلی عیاشی مارنے کی چھٹی دے دی۔ وہ بھی اس طرح کہ اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ ویسے آج تک آپ میں سے کسی نے شیطان کی آواز سنی ہے؟ نہیں نا تو سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ tongue emoticon
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
"جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار کارساز کافی ہے۔"
تبصرہ: یہاں پر پھر اسی طرح کی ایک بڑی بے تُکی۔ اللہ میاں کو کون سمجھائے کہ جناب کون سے بندے کہ جن پر شیطان کا کچھ زور نہیں؟ جس وقت آپ یہ بات ارشاد فرما رہے ہیں، دور دور تک ایسے بندے موجود نہیں تھے کہ جن کے متعلق شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لے دے کر ایک بیچارہ آدم موجود ہے تو آپ کس خوشی میں یہ جھوٹ ارشاد فرما رہے ہیں کہ "جو میرے بندے ہیں"۔ ہاں اگر تو یہ کہا جاتا کہ جو میرے بندے ہوں گے تو بات سمجھ میں آتی تھی مگر مستقبل میں آنے والوں کو موجود سمجھ کر دعوے کرنا صرف اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بڑا ہی بہترین فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہے۔
ہونہہ یہ منہ اور مسور کی دال