• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات متواترہ اورادارہ طلوع اسلام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات متواترہ اورادارہ طلوع اسلام

قاری محمد صفدر​
ہمارے معاشرے میں عموماً کسی بھی موضوع پر تنقید کرنے والے حضرات دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو سطحی سا مطالعہ اور سنی سنائی باتوں کے بل بوتے پر کسی بھی موضوع پر اپنے قلم اور زبان کو جنبش دینے کے قائل ہیں اور دوسرے وہ جو تحقیق کرنے سے قبل ایک خاص نظریہ اور خاص مؤقف اپناتے ہیں اور پھر اس کی تائید میں جیسے کیسے بھی دلائل میسر ہوں انہیں پیش کرکے اپنے مؤقف کو بیان کرتے ہیں۔ زیربحث مضمون میں جناب جمیل احمد عدیل نے ایک انتہائی اہم موضوع پر قلم اٹھایاہے، لیکن افسوس کہ جب محترم موصوف نے اپنے خیالات کو بذریعہ قلم زبان سے نوازا تو معلوم ہوا کہ اس موضوع پر ان کامطالعہ کس قدرسطحی اورمتعصبانہ تھا۔ اس مضمون کو اگر ہم غور سے پڑھیں تو ہمارے سامنے چند نکات آتے ہیں جن کو محترم جمیل احمد عدیل صاحب نے واضح کرنے کی سعی ناکافی کی ہے۔
(١)مسئلہ نسخ اور اس ضمن میں مسئلہ رجم (٢) مسئلہ اختلاف قراء ت
پھر قراء ت کے اختلاف کے ضمن میں موصوف نے مندرجہ ذیل باتوں کو واضح کرنے کی کوشش کی:
(١) قراء ات ماسوائے ایک کے تمام کی تمام وضع کردہ ہیں
(٢) حدیث سبعہ بھی جعل سازی کے سوا کچھ نہیں
(٣) حدیث سبعہ کی درایت (٤) اختلاف قراء ت نزولی یا اختیاری
(٥) عرضہ اخیرہ اور مسئلہ قراء ات (٦) اَحرف سبعہ کے معنی کی تعیین میں تعارض
(٧) قبول حدیث کا ’معیاری‘ اصول
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذیل میں ہم مذکورہ بالا اَبحاث کا جائزہ لیں گے۔
(١) مسئلہ نسخ فی القرآن

مضمون نگار اپنے مضمون کے پہلے حصے میں نسخ قرآن کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اس وحی کی ایک قسم وہ بھی ہے جوآپ پر اترنے کے بعد نہ صرف اذہان سے محو کردی گئی بلکہ جن کاغذوں پر انہیں لکھا گیا تھا وہاں سے بھی اسے غائبی طریقے سے deleteکر دیا گیا…اسی طرح وحی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آج بھی قرآن مجید کے صفحات میں موجود ہے، لیکن ان پر عمل نہیں کیا جائے گا۔‘‘
گویافاضل مضمون نگار نے نسخ کی تین اقسام کی طرف اشارہ کیا۔
(١)آیت اور حکم دونوں منسوخ (٢)آیت موجود حکم منسوخ
(٣)حکم موجود آیت منسوخ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نسخ کا لغوی معنی :
(١) نقل اور کاپی ۔(نسخ الکتاب )اسی سے ماخوذہے۔
(٢) رفع واِزالہ۔چنانچہ کہا جاتا ہے: نسخت الشمس الظل (سورج نے سایہ ختم کردیا)اور اسی سے اللہ کا فرمان: ’’مَا نَنْسَخ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا… الایۃ‘‘ (قاموس الوحید، ص۱۶۴۰)
٭ اصطلاحی تعریف: کسی دلیل شرعی کے ساتھ کسی حکم شرعی کو ختم کرنا نسخ کہلاتا ہے۔ (جامع الأصول لابن الأثیر،ص۸۰)
٭ ناسخ کون ہے؟: ناسخ خود اللہ تعالیٰ ہے بعض اَوقات مجازاً آیت یا حکم پر بھی بولا جاتاہے۔ (جامع الأصول لابن الأثیر،ص۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نسخ کی حکمت
سید قطب شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اَحکام میں جزئی تبدیلیاں انسانی معاشرے کے لئے مفید و ناگزیر ہواکرتی ہیں اور ان تبدیلیوں کے طفیل انسانی معاشرہ اپنے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قانون کے مقتضاء کو بحسن و خوبی پورا کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا … اسکو یہ بھی حق ہے کہ اپنے حکم کو منسوخ کردے ،کیونکہ وہ اسکے بدلے میں اس سے بہتر حکم بھیج دیتا ہے جس میں انسانیت کی بھلائی ہے۔‘‘ (ظلا ل القرآن:۱؍۱۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منسوخ آیات کی اَقسام
منسوخ آیات کی دو اَقسام ہیں:
(١) منسوخ کی جگہ قائم مقام حکم ہو مثلاً آیت وصیت کی جگہ آیت میراث
(٢) منسوخ کی جگہ قائم مقام حکم نہ ہومثلاً عورتوں کا امتحان لینا
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا نسخ اللہ کے نقض علم پر دلالت کرتاہے؟
نسخ اللہ کے علم میں نقض یا نقص نہیں جیسا کہ معتزلہ یہود اور دورِ حاضر کے معتزلین (پرویزیوں) کا عقیدہ ہے بلکہ نسخ تو انسان کی ذہنی استعداد یا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان کی بہتری کے لیے اللہ اپنے سابقہ حکم کو منسوخ کرکے انسانوں کو ایک ایسا حکم دیتے ہیں جس میں ان کی سہولت عمل یانفع ثواب ہو۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس طرح ڈاکٹر مریض کے اَحوال کو دیکھتے ہوئے اس کے لئے نسخہ میں تبدیلی کرتا ہے اس طرح اللہ اپنی مخلوق کی رعایت کرتے ہوئے اپنی مشیت اور ارادے کے ساتھ اپنے حکم میں تبدیلی فرماتے ہیں اورایسا کرنے سے اس کے علم وارادہ اورقدرت کاملہ میں تبدیلی نہیں ہوتی،کیونکہ اس طرح کی نسبت اللہ کے لئے ناممکن ہے۔‘‘(جامع الأحکام :۲؍۱۵۷بحوالہ التبیان، ص۹۱)
اس بات کو صاحب تفسیر مظہری آیت نأت بخیر منہاکی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں تو نفع یا سہولت عمل یا کثرت ثواب میں اس سے بہتر آیت نازل فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی آیت دوسری آیت سے بہتر ہے۔‘‘ (تفسیر مظہري :۱؍۱۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نسخ کب تک ممکن تھا؟
نسخ اس وقت تک ممکن تھا جب تک وحی نازل ہوتی تھی اب چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے،لہٰذا اب نسخ ممکن نہیں۔(جامع الأصول لابن الأثیر،ص۸۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نسخ کے متعلق مختلف آراء اور نظریات
نسخ کے متعلق لوگوں کے نظریات و عقائد کو دیکھا جائے تو ہمارے سامنے چار گروہ آتے ہیں۔
(١) منکرین نسخ ؛یہود:نسخ کے کلی طور پر منکرصرف یہود ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت ’’مَانَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ‘‘ انہی کے رد میں نازل ہوئی۔
(٢) متوسعین:اس معاملہ میں أہل التشیع یعنی روافض نے توسع اختیار کیا ہے۔
(٣) مذبذبین: ابو مسلم اصفہانی وغیرہ کا مسلک:ان کا نظریہ یہ ہے کہ نسخ اگرچہ عقلاً ٹھیک ہے لیکن شرعاً اس کا وقوع ناممکن ہے۔
(٤) قائلین (جمہور):چوتھا نظریہ نسخ کے متعلق جمہور کاہے ان کا موقف ہے کہ نسخ عقلاً و شرعاً جائز و ممکن الوقوع ہے۔ اور یہی راجح موقف ہے۔ (مباحث في علوم القرآن از مناع القطان، ص۳۵،۳۶،۲۳۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا قرآن، قرآن کو یا سنت کو یا سنت قرآن کو منسوخ کرسکتی ہے؟
نسخ قرآن کس سے ہوگا؟
قرآن کا نسخ یا توقرآن سے ہوگا یاسنت سے مثلاً قرآن میں پہلے ایک حکم تھا، لیکن قرآن ہی کی دوسری آیت اس کو منسوخ کردے،مثلاً شراب کے متعلق قرآن میں موجود احکام ۔
(١) بڑا گناہ ہے۔ (٢) اوقات نماز میں نہ پی جائے۔ (٣) شراب پیناحرام ہے۔
اور بسا اَوقات سنت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کردیتی ہے، مثلاً وصیت کاحکم قرآن میں ہے،لیکن وارث کے لیے وصیت سنت نے منسوخ کر دی فرمایا:
(لَاوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)’’وارث کے لیے وصیت نہیں‘‘(ابوداود: ۲۸۷۰ بحوالہ جماع العلم ص۲۵)
امام شافعیؒ کا بھی یہی موقف ہے کہ سنت ناسخ قرآن ہوسکتی ہے ۔ (جماع العلم،ص۲۵)
اور اس طرح قاتل کو وصیت سے محروم کرنا، فرمایا:
(لَا شَیْئَ مِنَ الْمِیْرَاثِ لِقَاتِلٍ) (بخاری)
یاتیسری شکل یہ ہے کہ قرآن سنت کے کسی حکم کو منسوخ کردے مثلاً عاشوراء کے روزہ کی فرضیت رمضان کے روزوں سے ساقط ہوئی یاقبلہ اوّل قرآن کے حکم ’’فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ سے منسوخ ہوا۔اُمت اِسلامیہ کاقرآن مجید میں نسخ پر اتفاق ہے ماسوائے معتزلہ اورعصر حاضر کے متجددین ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین نسخ کے دلائل
(١) ’’مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَأتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا۔۔۔ ‘‘(البقرۃ:۱۰۶)
’’جو آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو ہم اس کی جگہ اس کی مثل یااس سے بہتر (آیت یا حکم) لے آتے ہیں۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب رقم طراز ہیں:
’’ نسخ تین قسم کا ہوتا ہے ایک تو مطلق نسخ یعنی ایک حکم بدل کر اس کی جگہ دوسرا حکم نازل کردیا گیا۔ دوسرا ہے نسخ مع التلاوۃ… یعنی ناسخ و منسوخ دونوں آیات موجود ہیں۔ نسخ کی ایک تیسری قسم یہ ہے کہ تلاوت منسوخ کردی گئی ہو، لیکن حکم باقی رکھاگیا ہو جیسے اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا…(موطا امام مالک:۱۵۰۱) اس آیت میں نسخ کی پہلی دو قسموں کا بیان ہے ، ماننسخ من آیۃ میں دوسری قسم اور أو ننسھا میں پہلی قسم ۔‘‘ (أحسن البیان، ص۲۱ حاشیہ ۶)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرماکر ملعون گروہ یہود کا ردّ فرمایا۔‘‘[ابن کثیر:۱؍۱۸۰،اردو)
اور امام موصوف رحمہ اللہ نسخ قرآن پر اُمت کا اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تمام مسلمان متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع ہوا ہے۔‘‘(حوالہ سابقہ)
امام صاحب کی اس وضاحت کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ نسخ پراُمت اسلامیہ کااجماع ڈاکٹر محمد علی الصابونی نے بھی’ تفسیر آیات الاحکام‘ میں نقل کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ھکذا یظہر دلیل الجمہور واضحا ساطعا کالشمس فی أربعۃ النھار لحصول النفع فی شریعہ الإسلامیۃ الغراء ولا عبرۃ بقول من أنکر النسخ بمعارضہ لنصوص الصحیحۃ الصریحۃ‘‘ (التبیان ص۹۰)
’’یعنی نسخ کے متعلق جمہور کے دلائل چودہویں رات کے چاند کی طرح واضح ہیں اورعدم نسخ پر مانعین کے دلائل نصوص صریحہ کے مقابلہ میں معتبر نہیں۔‘‘
(٢) ’’وَإِذَا بَدَّلْنَااٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَاﷲُ أَعْلَمُ بِمَا ینزل ‘‘ (النحل :۱۰۱)
اس آیت کو دلائل جمہور میں نقل کرنے کے بعد محمد علی الصابونی لکھتے ہیں:
’’قالوا إن ہذہ الأیۃ واضحۃ کل الوضوح فی تبدیل الایات والاحکام والتبدیل یشتمل علی رفع واثبات۔۔۔‘‘ (تفسیر آیات الأحکام ، ص۱۰۲)
’’جمہور کاکہنا ہے کہ یہ آیت احکام و آیات کی تبدیلی میں سب سے زیادہ واضح دلیل ہے اور تبدیلی کسی (حکم) کے اٹھا لئے جانے اور اس کو ثابت رکھنے پر مشتمل ہے (اور جس حکم کو ختم کیا جاتا ہے وہ یا تلاوۃً ہوتا ہے یا حکماً ہوتا ہے۔)‘‘
(٣) ’’یَمْحُوْااﷲ ُمَایَشَآئُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ اُمُّ الْکِتَابِ ‘‘ (الرعد:۳۹)
 
Top