• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن فہمی اور اسلوب ندرت

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اصول غامدی:۔


غامدی صاحب اپنے اصول ومبادی کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
(قرآن )اپنے طالب علموں سے جن باتوں کا تقاضہ کرتا ہے وہ یہ ہیں اوّل یہ کہ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی جائے یعنی وہ پس منظر وہ تقاضے اور وہ صورت حال معین کی جائے جس کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی کوئی صورت نازل ہوئی ہے اس کے لئے قرآن سے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ سب چیزیں خود قرآن ہی کی روشنی میں واضح ہوجاتی ہیں آدمی جب قرآن پر تدبر کرتاہے اس کے لفظ لفظ پر ڈیرا ڈالتا ہے لفظوں کے زیروبم اور جملوں کے دروبست کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے تو پورے سورہ کے مواقع کلام اس خوبی کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں اور اپنے وجود پر اس طرح آپ ہی دلیل بن جاتے ہیں کہ ان کے لئے پھر کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ۔(اصول ومبادی میزان صفحہ ۲۰۔۲۱)


جواب:۔

ان تحریر شدہ عبارتوں کا جواب کئی صورتوں میں دیا جاسکتا ہے سب سے پہلی بات غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن سے باہر کسی چیز کی ضرورت نہیں اس کی کیا دلیل ہے ۔ دوسری بات کہ جب قرآن کے ماحول وپس منظر اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے قرآن کے علاوہ یا قرآن سے باہر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی بات تھی تو غامدی صاحب نے قرآن کی صحیح فہم کے لئے اپنے اکابر احسن اصلاحی کی کتاب ''تدبر قرآن ''اور حمیدالدین فراہی کی کتاب'' اسالیب القرآن ''وغیرہ کی طرف ترغیب کیوں دلائی ؟(اصول میزان صفحہ ۱۹) مزیدغامدی صاحب کو تفسیر البیان لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ جب قرآن پر غور وفکر کرنے والے کے سامنے بات خود ہی واضح ہوجاتی ہے اس بات کا جواب غامدی صاحب سے مطلوب ہے یہاں سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب قرآن فہمی کے لئے قرآن سے باہر کی چیز کا سہارا لیتے ہیں لیکن جس کو وہ قرآن سے باہرکا نام دے کر غیر ضروری کہہ رہے ہیں اس سے ان کی مراد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے افسوس کی بات ہے کہ قرآن سے باہر اپنے اکابر کی آراء و اقوال کو قرآن سمجھنے کے لئے مان رہے ہیں لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی شرح ماننے سے انکار کررہے ہیں آخر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی دشمنی کیوں ؟
غامدی صاحب خود قرآن ہی کی روشنی میں کسی سورت کی صورت حال یا اس کا پس منظر معلوم ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ یہ بھی واضح نہیں ہوتی کہ یہ سورت کس جگہ پر نازل ہوئی مکہ میں یا مدینہ میں۔مثلاًسورۃ الفیل قرآن مجید ایک چھوٹی سی سورت ہے اللہ رب العالمین نے اس سورت میں ایک مخصوص واقعے کا ذکر کیا ہے اور اس واقعہ کے اندر بے پناہ اجمال ہے پورا قرآن مجید پڑھ جائیں کہیں پر بھی اصحاب الفیل کے اس واقعہ کی تفصیل تو در کنار دوسرا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اصحاب الفیل کون تھے انہوں نے کیا مکر کیا اور کس وجہ سے ہلاک ہوئے ؟ہماری اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کی اس عبارت کو بغور پڑہیں (قرآن اپنے طالب علموں سے جن باتوں کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ اوّل یہ کہ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے ماحول کو سمجھنے کی کو شش کی جائے یعنی وہ پس منظر وہ تقاضے اور وہ صورت حال معین کی جائے جس کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی کوئی سورت نازل ہوئی ہو اس کے لئے قرآن کے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی یہ سب چیز یں خود قرآن ہی کی روشنی میں واضح ہو جاتیں ہیں:اصول ومبادی،ص۲۰۔۲۱)
قارئین کرام !قرآن مجید ان سوالات و اشکالات کی وضاحت و تفصیل خود نہیں کرتا بلکہ یہ ذمہ داری اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ ''
ترجمہ: اور ہم نے تمہاری طرف اس ذکر کو نازل کیا تاکہ تم اس کی وضاحت کردو جو ان کی طرف اتارا گیا ہے''(سورۃ النحل،آیت ۴۴)
مثلاً قرآن میں ایک آیت مذکور ہے :
''وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّک''
ترجمہ:'' اور ہم نہیں اترتے مگر تمہارے ربّ کے حکم سے ''(سورۃ مریم ،آیت ۶۴)
اگر ہم اس سے قبل آیت کا مطالعہ کریں اور پھر اس آیت پر غور کریں تو یہ آیت بغیر حدیث کے سمجھنا نا ممکن ہے اس لئے کہ اس آیت میں اور اس سے قبل آیت میں جمع متکلّم کے صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔مثلاًاس آیت سے قبل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
''تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن کَانَ تَقِیّاً''
ترجمہ: یہ وہ جنّت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے ان کو بناتے ہیں جو متقین ہیں''(سورۃ مریم،آیت ۶۳)
اور اس کے فوراً بعد یہ آیت بھی موجود ہے:
''وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّک''
ترجمہ:'' اور ہم نہیں اترتے مگر تمہارے ربّ کے حکم سے ''(سورۃ مریم ،آیت ۶۴)
اب اگر بغیر حدیث کے قرآن مجید کی روشنی میں اس کو حل کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ''نعوذباللہ''اللہ کا بھی کوئی ربّ ہے اور وہ اس کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتا ۔جبکہ صرف حدیث ہی اس اشکال کو واضح کر تی ہے ،جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
''عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لجبریل مایمنعک ان تزورنااکثر مما تزورنافنزلت:''وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّک''(صحیح بخاری،کتاب التفسیر،تفسیر سورۃ مریم،حدیث ۴۷۳۱)
''ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے فرمایا کہ ہماری کثرت زیارت سے تمہیں کس چیز نے روکا ہے؟تب یہ آیت نازل ہو ئی کہ ہم نہیں اتر تے مگر تمہارے ربّ کے حکم سے ۔''
لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ قرآن میں موجود اجمال و اشکالات کی وضاحت کے لئے ہمیں قرآن سے باہر یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لازماًرجوع کرنا پڑے گا۔
اصول غامدی:۔
آگے غامدی صاحب عام و خاص کا ذکر کرتے ہوئے اپنا نظریہ کچھ اس طرح بیان کر رہے ہیں :
سوم یہ کہ اس کے عام وخاص میں امتیاز کیا جائے ۔قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے کہ بظاہرعام ہیں لیکن سیاق و سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اس سے مرادعا م نہیں ہے۔ قرآن (الناس)کہتا ہے۔لیکن ساری دنیا کا ذکر کا تو بارہا اس سے عر ب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ (علی الدین کلہ)کی تعبیر اختیار کرتا ہے لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔وہ (المشرکون ) کے الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن انہیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ (وان من اہل الکتاب) کے الفاظ لاتا ہے لیکن اس سے مراد پورے عالم کے اہل کتاب نہیں ہوتے۔وہ (الانسان) کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔
یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کا منشاء بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور کہیں سے کہیں بات پہنچ جاتی ہے۔لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق وسباق کی حکومت اس کے الفاظ ہر حال میں قائم رکھی جائے ۔(اصو ل ومبادی میزان ،ص،۲۳)
جواب:۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن میں کوئی عام لفظ مذکور ہوتا ہے لیکن اس سے مراد کوئی خاص گروہ یا چندافراد ہوتے ہیں جیسا کہ علامہ جلاالدین سیوطی ؒ نے (الاتقان فی علوم القرآن ،ج،۲ ،ص،۳۱ ،۳۲)میں ذکر کیا ہے اور مثال کے طور پر اس آیت کو پیش کیا ہے (الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا۔۔۔۔لکم)ّ(سورۃ آل عمران،آیت ۱۷۳)
یہ مئومنوں کو لوگوں نے کہا کہ بلاشبہ:لوگوں نے تمھارے مقابلہ کے لئے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے ۔
اس آیت مبارکہ میں (الناس) عام لفظ استعمال ہوا ہے لیکن اس سے مراد بعض افراد ہیں کہنے والے بھی اور جمع ہونے والے بھی لیکن اس بات کی معرفت کے لئے ہمیں قرآن کے باہر کی چیز کا سہارا لینا پڑے گا بلکہ ہر شخص کو جو اس کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے قرآن کے علاوہ اس سے باہر کسی اور چیز کا سہارا لینا پڑیگا۔کیونکہ قرآن مجید خود اس بات کی وضاحت نہیں کرتا :جس شخص کورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو گی وہ آپ کی حدیث سے اس معرفت کو حاصل کرے گا۔اور اس کی شرح کو مانے گا جس کو اللہ نے شارح بناکر بھیجا اور اس شرح کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔اور اس کے برعکس جس کو اپنے اکابر و اساتذہ سے محبت ہوگی وہ ان کے اقوال و آراء کی طرف رجوع کرے گا۔جن کی بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ بات صحیح ہے یا غلط ہے؟
قارئین کرام آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان دونوں میں سے بہتر کون ہے؟کیا وہ بہتر ہے جن کو اپنے اکابر اور ان کے کلام سے محبت ہے؟ یا وہ جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور ان کے کلام سے محبت کرتا ہے؟
غامدی صاحب نے اس اصول کو بیان کر تے ہویئے ان آیتوں کو ذکر کیا ہے جو ان کے نظریے کے خلاف ہیں ۔
جیسا کہ یہ آیت (علی الدین کلہ) غامدی صاحب کا نظریہ ہے اس آیت میں تمام ادیان مراد نہیں ہیں ۔یعنی کہ اسلام تمام ادیان پر غالب ہونے کے لئے نہیں آیا ۔جو کہ سراسرباطل نظریہ ہے۔کیونکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔اس بات کی مزید وضاحت اس آیت مبارکہ سے ہو جاتی ہے''ان الدین عنداللہ الاسلام''(آل عمران،آیت ۱۹)
ترجمہ:یقینا اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔
لہٰذا جب دین اسلام ہی صرف اللہ کے نزدیک دین حق ہے اور اس کے علاوہ کوئی دین حق نہیں تواس کے علاوہ تمام ادیان باطل ہیں اور مغلوب ہیںاور اسلام ان سب پر غالب ہے۔یہی تفسیر مفسیرین نے اس آیت میںبیان کی ہے۔ دیکھئے (الکشاف،ج،۲ ۔زمحشری،ج،۲، ص،۲۵۳ ۔ اور تفسیرا لطبری ،ج،۶،ص،۱۳۵۶۔اور تفسیرالقرطبی،ج،۴،ص،۴۵اور تفسیر ابن کثیر،ج ،۳،ص،۲۰)اور امام ابن کثیر نے اس بات کی تائید کئی احادیـث سے کی ہے جن میں ایک یہ ہے :
''عن تمیم الداری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لیبلغن ھزا الامرمابلغ اللیل و النھار ولا یترک اللہ بیت مدرولا وبر۔۔۔۔الخ''(مسند احمد ،ج،۱۳،ص،۲۱۱۔حدیث۔۶۸۹۴ٍ۱)
''تمیم داری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچتے ہیں کوئی پکہ یا کچا گھر ایسا نہیں رہے گا جہا ں اللہ تعالیٰ دین اسلام کو نہ پہنچائیں ۔۔۔الخ۔''
لہٰذا اگر قرآن میں کوئی عام لفظ وارد ہوتا ہے لیکن اس سے مراد کوئی خاص چیز ہوتی ہے تو اس کی معرفت کسی دوسرے قرائن اور دلائل سے ہوتی ہے۔اور اس آیت ''علی الدین کلہ'' میں عام لفـظ ذکر ہوا ہے اور اس کی خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ۔بلکہ اس کے عام ہونے پر کافی دلائل موجود ہیں۔
اور اسی طرح غامدی صاحب کہتے ہیں کہ ''وان من اہل الکتاب'' (النسائ،آیت،۱۵۹۴) میں پورے عالم کے اہل کتاب مرادنہیں ہے۔
غامدی صاحب کا یہ اصول کہ عام لفظ خصوصیت پر بھی دلالت کرتا ہے کسی حد تک صحیح ہے جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے مگر جو انہوں نے مثال پیش کی ہے کہ :
''وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ''
اس میں پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہیں یہ مثال سراسر اس اصول کے خلاف ہے کیونکہ کسی بھی عام لفظ کو خاص کرنے کے لئے قرائن و شواہد اور دلائل کو دیکھا جا تا ہے مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہے :
''أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ''
ترجمہ: کیا یہ (یہود)لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس چیز پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کی ہے۔''(سورۃ النسائ،آیت۵۴)
اب لفظ ''الناس ''عام ہے لیکن اس سے مراد خاص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ امام ابن جریر اطبری ؒ ابن عباس ؓ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں :
''عن ابن عباس ؓ :''أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ''یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم''(التفسری الطبری،ج۴،ص۱۴۱)
جب کہ غامدی صاحب کی پیش کردہ آیت :''وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ''میں اہل کتاب سے مراد تمام عالم کے اہل کتاب ہی ہیں۔جیسا کہ امام ابن جریر الطبری ؒ نے ابن عباس ؓ، مجاہد ؒ ،حسن بصری اور عکرمہ وغیرہم کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ ہر اہل کتاب عیسی ؑ پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائے گا۔(تفسیر الطبری ،ج۴ ،ص۳۵۸،۳۵۹)
تو اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہاں اہل کتاب سے مراد جمیع اہل کتاب ہیں نہ کہ بعض اہل کتاب ہیں ۔
قارئیں کرام!دراصل یہ آیت قیامت سے پہلے نزول عیسٰی پر واضح دلیل ہے چونکہ غامدی صاحب نزول عیسٰی کا انکار کرتے ہیں اسی وجہ سے انہوں نے اس آیت کے عام حکم کوختم کر کے خاص میں شامل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔
 
Top