• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی كے مسائل كا علمی وتحقیقی جائزه

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قربانی كے مسائل كا علمی وتحقیقی جائزه


محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ

جو قربانیاں گھروں میں کی جاتی ہیں ان کو أضحية کہتے ہیں اس کی جمع أضاحی ہے۔ جس طرح حج کرنے والے کے لیے قربانی کرناضروری ہے ایسے ہی صاحب استطاعت کے لیے گھر میں قربانی کرنی بھی ضروری ہے۔

قربانی کی فرضیت:

جندب بن سفیان بَجلی فرماتےہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کر لی تھی، جب رسول اللہ ﷺ نے نماز عید ادا فرمانے کے بعد دیکھا تو ارشاد فرمایا:

«مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ»

جس نے نماز سے قبل قربانی کی ہے وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے قربانی نہیں کی نماز پڑھنے تک تو وہ اب اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرے۔

[صحيح البخاري، كتاب الذبائح والصيد، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : ’’فليذبح على اسم الله‘‘ (5500)]

سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:

«مَنْ وَجَدَ سَعَةً وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا»

جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت ہو اور پھر بھی وہ قربانی نہیں کرتا تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب ہی نہ آئے۔

[سنن الدارقطني، كتاب الأشربة وغيرها، باب الصيد والذبائح والأطعمة وغير ذلك، (4743)]

قربانی کے جانور کی عمر:

جابربن عبداللہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ»

تم صرف اور صرف مسنۃ ہی ذبح کرو لیکن اگر تمھیں دشواری پیش آئے تو ضأن (بھیڑ، چھترا، دنبہ) ایک سالہ ذبح کرلو۔

[صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب سن الأضحية، (1963‏)]

صحیح مسلم کی اس حدیث پر اعتراض:

بعض لوگوں نے اس صحیح حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ ابو زبیر مدلس راوی ہے اور وہ اس حدیث کو «عَنْ» سے روایت کررہا ہے۔ جبکہ لیث بن سعد کے علاوہ جو کوئی بھی ابو زبیر کی معنعن روایت نقل کرے وہ قابل احتجاج نہیں ہوتی۔ لہذا مدلس کا عنعنہ مردود ہونے کی وجہ سے یہ حدیث بھی ساقط الاعتبار ہے۔

یہی بات علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: 1/161، طبع: دار المعارف، الریاض، میں اور إرواء الغلیل 4/358، طبع: المکتب الإسلامي، بیروت، میں کہی ہے۔

جواب:

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے مدلسین کی جو معنعن روایات اپنی صحیح میں نقل کی ہیں وہ سماع پر محمول ہیں اور یہ حدیث جابر بن عبداللہ سے ابو زبیر نے سنی ہے۔

مسنۃ کیا ہے؟

جب جانور کے دودھ کے دانت دوسرے نئے دانت نکلنے کی وجہ سے گر جائیں تو وہ مسنۃ کہلاتا ہے۔

(المصباح المنیر: 1/291، طبع: المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، لسان العرب: 13/222، طبع: دار صادر، بیروت)

عموماً منڈیوں میں دھوکا دینے کے لیے بعض لوگ جانور کے دانت خود توڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دو دانتا ہوگیا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ دو دانتا اس وقت ہوگا جب اس کے ثنایا طلوع ہوں گے، دودھ کے دانتوں کا ٹوٹ جانا ہی کافی نہیں بلکہ نئے دانتوں کا نکلنا بھی مسنۃ ہونے کی شرط ہے۔ نیز مسنۃ کی اس تعریف میں وہ جانور بھی شاملِ مسنۃ ہیں جن کے چار یا چھ دانت نئے نکل آئیں کیونکہ ثنایا کے طلوع ہونے کے بعد جانور کانام مسنۃ ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات نیل الأوطار میں بایں الفاظ تحریر فرمائی ہے:

«قَالَ الْعُلَمَاءُ: الْمُسِنَّةُ هِيَ الثَّنِيَّةُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ فَمَا فَوْقَهَا»

اہل علم کا کہنا ہے کہ مسنۃ دو دانتا یا دو دانتا سے اوپر بولا جاتا ہے ،تمام جانوروں میں خواہ وہ اونٹ ہو گائے ہو یا بکری۔

[نیل الأوطار: 5/134، طبع: دار الحدیث، مصر، وقال النووی قریباً منہ شرح مسلم للنووی: 13/114، طبع: دار إحیاء التراث العربي، بیروت]

جذعہ کی وضاحت:

بھیڑ کی جنس (دنبہ ، بھیڑ، چھترا) صحیح ترین قول کے مطابق جب ایک سال مکمل کر لے تو جذعہ کہلاتی ہے۔

(لسان العرب: 8/44، القاموس المحیط: 1/708، طبع: مکتب تحقیق التراث في مؤسسۃ الرسالۃ)

مندرجہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور دودانتا مسنۃ ہونا ضروری ہے اور اگر مسنۃ کے حصول میں دشواری ہو تو پھر صرف بھیڑ کی جنس سے جذعہ کرنے کی رخصت ہے جو کہ دیگر جنسوں میں نہیں۔

معز (بکری) کا جذعہ :

براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ» فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ، وَقَدْ ذَبَحَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً، فَقَالَ: «اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ» قَالَ مُطَرِّفٌ: عَنْ عَامِرٍ، عَنِ البَرَاءِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ»

ہم اس دن نماز پڑھنے سے ابتداء کرتے ہیں پھر واپس لوٹتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس نے اسی طرح کیا تو اس نے درست کیا اور جس نے نماز سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کر لیا تو وہ قربانی نہیں ہے بلکہ عام گوشت ہے جو کہ اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے۔ تو ابو برده بن نیار î کھڑے ہوئے ،انہوں نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کرلیا تھا ۔ کہنے لگے کہ میرے پاس (بکری کا ) جذعہ ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو ذبح کرلے اور تیرے بعد کسی سے یہ کفایت نہیں کرے گا۔

[صحيح البخاري، كتاب الأضاحي، باب سنة الأضحية، (5545)]

یہ حدیث صحیح بخاری میں مختلف الفاظ کے ساتھ دس جگہوں پر آئی ہے ۔ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بکری کا جذعہ بھی بوقت دشواری کفایت کرجاتا ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حالت عسر میں اس کو قربانی دینے کی اجازت دی۔

لیکن یہ حدیث ان کے لیے دلیل نہیں بنتی کیونکہ خود رسول اکرمﷺ ہی فرمارہے ہیں:

«وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ»

کہ تیرے بعد بکری کا جذعہ کسی کو بھی کفایت نہ کرے گا۔‘‘

حالت عسر و عدم عسر کی کوئی قید نہیں لگائی۔

کچھ دوسرے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ صرف بکری کا جذعہ کفایت نہیں کرتا باقی سب جانوروں کا جذعہ کفایت کرجاتا ہے۔ کیونکہ یہاں تذکرہ بکری کا ہورہاہے اور اس کے جذعہ کی کفایت نہ کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔

مگر ان کی یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب التبکیر إلی العید، (968) میں یہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے

«وَلَنْ تَجْزِيَ جَذْعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ»

تیرے بعد کوئی بھی جذعہ کسی سے بھی کفایت نہ کرے گا۔

یہاں لفظ ’’جذعہ‘‘ نکرہ ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ جب نکرہ نفی کے تحت آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔

کچھ دیگر اشکالات:

۱۔ جذع کی قربانی کے جواز میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

«نِعْمَ أَوْ نِعْمَتِ الْأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ»

’’ بھیڑ کا جذعہ بہترین قربانی ہے۔‘‘

[سنن الکبری للبیھقی، کتاب الضحایا، باب لا یجزي الجذع إلا من الضأن....، (19074)]

لہٰذا ثابت ہوا کہ بھیڑ کا جذعہ کرنا مسنۃ سے بھی افضل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اس کو بہترین قربانی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ اس میں کدام بن عبدالرحمن اور اس کا شیخ ابو کباش دونوں مجہول ہیں۔

۲۔ مجاشع بن مسعود بن ثعلبہ نے ایک سفر میں یہ اعلان کروایا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ

«إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ»

’’جذعہ‘‘ ہر اس جانور کا کفایت کرجاتا ہے جس کا مسنۃکفایت کرتا ہے۔

[سنن أبي داؤد، کتاب الضحایا، باب مایجوز من السن فی الضحایا، (2799)]

اس حدیث سے معلوم ہواکہ دشواری کے وقت بکری، اونٹ، گائے کی جنس سے بھی ’’جذعہ‘‘ کفایت کر جائے گا۔

لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ حدیث

«لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ»

اس کی وضاحت کر رہی ہے کہ صرف بھیڑ کا جذعہ ہی مسنۃ سے کفایت کرسکتا ہےاور وہ بھی بوقت دشواری، کیونکہ اسی روایت میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ یہ فرمان رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر جاری فرمایا تھا، جب صحابہ کرام دو،دو اور تین ، تین ’’جذعہ‘‘ دے کر ایک، ایک مسنۃ خریدنے پر مجبور تھےاور دشواری تھی مسنۃ کو خریدنے میں ۔

[سنن النسائي، کتاب الضحایا، باب المسنۃ والجذعۃ (4383)]

۳۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ خَيْرٌ مِنَ السَّيِّدِ مِنَ الْمَعْزِ»

بھیڑ کا کھیرا بکری کے دو دانتے سے بہتر ہے۔

[المستدرك للحاکم، کتاب الأضاحي، (7544)]

اس کی سند میں ابو ثفا ل ثمامہ بن وائل نامی راوی ہے ۔

امام بخاری فرماتے ہیں:

«في حدیثہ نظر» یعنی یہ راوی ضعیف ہے۔

(تہذیب الکمال في أسماء الرجال للمزي: 4/410، طبع: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

۴۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«أَنَّ الْجَذَعَ مِنَ الضَّأْنِ خَيْرٌ مِنَ الثَّنِيَّةِ مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ , وَلَوْ عَلِمَ اللهُ ذَبْحًا أَفْضَلَ مِنْهُ لَفَدَى بِهِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ»

بھیڑ کا جذعہ دودانتے اونٹ اور گائے سے بہتر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس سےبہتر کسی ذبیحہ کو سمجھتے تو ابراہیم علیہ السلام کو وہی عطافرماتے۔

[سنن الکبری للبيھقي، کتاب الضحایا، باب لا یجزي الجذع إلا من الضأن، (19075)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال للذھبي: 1/179، طبع: دار المعرفۃ، بیروت، المستدرك للحاكم، (7526)]]

اس کی سند میں اسحاق بن ابراہیم الحُنَيْنِي راوی ضعیف ہے۔

۵۔ ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:

«أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَذَعٍ مِنَ الضَّأْنِ مَهْزُولٍ خَسِيسٍ وَجَذَعٍ مِنَ الْمَعْزِ سَمِينٍ يَسِيرٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ خَيْرُهُمَا أَفَأُضَحِّي بِهِ؟ فَقَالَ: «ضَحِّ بِهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى»

ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی پاس بھیڑ کا کمزور وحقیر سا جذعہ اور بکری کاموٹا تازہ جذعہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ (بکری والا جذعہ) ان دونوں میں سے بہتر ہے کیا میں اس کی قربانی کرلوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی قربانی کر لے یقیناً اللہ تعالیٰ بہت غنی ہے۔

[المستدرك للحاکم، کتاب الأضاحي، (7545)]

اس کی سند میں قزعۃ بن سوید ضعیف ہے۔

۶۔ ہلال فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«يَجُوزُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ، أُضْحِيَّةً»

بھیڑ کا جذعہ قربانی کے لیے جائز ہے۔

[سنن ابن ماجہ، كتاب الأضاحي، باب ما تجزئ من الأضاحي، (‏3139‏) مسند أحمد، (27073)]

اس کی سند میں ام محمد بن ابی یحییٰ مجہولہ ہے۔ الغرض اس قسم کی تمام روایات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔

جاری ہے ----
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جن جانوروں کی قربانی جائز نہیں:

سیدنا علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ :

«أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنَ وَالْأُذُنَيْنِ »

ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھیں ۔

[سنن الترمذي، أبواب الأضاحي، باب في الضحية بأعضباء القرن والأذن، (1503)]

یاد رہے کہ تھوڑا کٹا ہوا اور زیادہ کٹا ہوا دونوں برابر ہیں ، کتاب و سنت میں کوئی فرق مذکور نہیں ہے۔ سیدنا براء بن عازب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے فرمایا:

«أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ - فَقَالَ -: الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى»

چار جانور قربانی میں جائز نہیں:

۱۔ کانا ، جس کا کانا پن ظاہر ہو
۲۔ بیمار، جس کی بیماری واضح ہو۔
۳۔ لنگڑا، جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
۴۔ لاغر ، جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو۔


[سنن أبي داود، كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، (2802)، سنن النسائی، کتاب الضحایا، باب العجفاء، (4371)]

سیدنا علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ :

«نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ القَرْنِ وَالأُذُنِ»

رسول اللہ ﷺ نے کان کٹے اور سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔

[سنن الترمذي، أبواب الأضاحي، باب في الضحية بعضباء القرن والأذن، (1504)، یہ حدیث حسن ہے۔]

یہ چند عیوب ہیں جن کی بناء پر جانور قربانی کے لیے ذبح نہیں کیا جاسکتا۔

اور جب یہ عیوب مزید بڑھ جائیں مثلاً جانور مکمل اندھا ہوجائے یا لولا ہو یا چلنے پھرنے سے عاجز ہو تو ان صورتوں میں بطریق اولیٰ قربانی جائز نہیں ہے۔

اور یہ عیوب جانور میں خریدنے سے قبل موجود ہوں یا قربانی والے دن قربانی کرنے سے چند لمحے پہلے پیدا ہوجائیں دونوں صورتوں میں قربانی جائز نہیں۔ مثلاً بے عیب جانور کو ذبح کر نے کےلیے لٹایا تو اس دوران ذبح کرنے سے پہلے چھری اس کی آنکھ میں لگ گئی یا وہ چھوٹا اور دیوار سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کا سینگ ٹوٹ گیا تو وہ بھی قربانی کے قابل نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی جگہ کوئی دوسرا جانور قربان کیا جائے کیونکہ قربانی بے عیب جانور کی ہوتی ہے۔

اعتراض:

سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ:

«اشْتَرَيْتُ أُضْحِيَّةً، فَجَاءَ الذِّئْبُ فَأَكَلَ مِنْ ذَنَبِهَا أَوْ أَكَلَ ذَنَبَهَا، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ضَحِّ بِهَا»

میں نے قربانی جانور خریدا ، بھیڑیا آیا اس نے اس کی دم (چکی) کاٹ دی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی قربانی کرلے۔‘‘

[مسند أحمد، مسند أبي سعید الخدري رضی اللہ عنہ، (11274، 11743)]

اس روایت سے ثابت ہوا کہ اگر عیب جانور کو خریدنے کے بعد پیدا ہوا ہے تو وہ قربانی کے لیے ذبح کیا جاسکتاہے۔

جواب:

اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ بن ثور ، کثیرالخطأ والتدلیس ہے اور روایت معنعن ہے۔ اور اصول ہے کہ مدلس کا عنعنہ قبول نہیں ہوتا اور دوسری سند میں محمد بن قرظۃ بن کعب الأنصاری مجہول ہے اور سند میں انقطاع بھی ہے ، جبکہ دونوں سندوں کا مدار جابر بن یزید بن حارث الجعفی پر ہے جو کہ کذاب ہے ، حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ اور تیسری سند میں حجاج بن ارطاۃ کا شیخ عطیہ بن سعد بن جنادہ العوفی بھی مدلس ہے اوروہ بھی اس کو ’’عن‘‘ کے ساتھ ہی بیان کررہاہے۔ لہٰذا اس قسم کی ضعیف ترین روایت کو بطور دلیل پیش کرنا ضعف ِ علم و عقل کی دلیل ہے۔ ثانیاً : یہ دم کٹا ہونا ان عیوب سے نہیں جو قربانی میں ممنوع ہیں۔

لہٰذا قربانی کےلیے جانور مخصوص کردینے یا خریدنے کے بعد بھی اگر عیب پیدا ہوجائے تو بھی اس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ جانور کا بے عیب ہونا خریدنے یا مختص کرنے کےلیے نہیں بلکہ قربانی کرنے کےلیے شرط ہے۔ اسی طرح جانور کا خصی ہونا ، یہ عیب نہیں ہے بلکہ خصی جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے کیونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا ہے

بلکہ مسند احمد (25843) میں روایت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دو خصی مینڈھے ذبح کیے قربانی کےلیے۔

لیکن جانور کو خصی کرنا درست نہیں ۔

اور حاملہ جانور کی قربانی بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا جنین بھی کھایا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔

[سنن أبي داود، کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، (2827، 2828)]

قربانی کے جانور :

قربانی صرف اور صرف

1 اونٹ
2 بھیڑ ، دنبہ، چھترا
3 بکری اور
4 گائے کی ہی کی جاسکتی ہے۔


کیونکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے :

‹وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۭ›

اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تاکہ جو مویشی جانور اللہ نے ان کو دیئے ہیں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔ [الحج: 34]

اس آیت میں قربانی کے جانور بھیمۃ الأنعام مقرر کیے گئے ہیں۔ اور بھیمۃ الأنعام کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے:

اور ’’انعام‘‘(چوپایوں)میں سے بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے ۔ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں رزق دیا اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو ، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ آٹھ اقسام ، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔۔۔۔۔الخ [الأنعام: 144 – 142]

ان آٹھ جانوروں

(۱،۲بکری نرومادہ، ۳ ،۴بھیڑ نرومادہ، ۵ ،۶اونٹ نرو مادہ، ۷ ،۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہے۔

قربانی کے جانور میں شرکت:

سیدنا جابر بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں :

«نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ»

ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ والے سال اونٹ اور گائے کی سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی دی۔

[صحيح مسلم، كتاب الحج، باب الاشتراك في الهدي وإجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سبعة، (1318‏)]

سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:

«كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي البَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الجَزُورِ عَشَرَةً»

ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحیٰ کا دن آگیا تو ہم سات سات افراد گائے کی قربانی میں اور اونٹ کی قربانی میں دس دس افراد شریک ہوئے۔

[سنن الترمذي، أبواب الحج، باب ما جاء في الاشتراك في البدنة والبقرة، (905)‏]

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ایوب انصاری سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کو دور میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں تو انھوں نے فرمایا:

«كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى»

’’آدمی ایک بکری اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتا وہ خود بھی کھاتے اور (لوگوں کو ) کھلاتے بھی حتی کہ لوگوں نے ایک دوسرتے پر فخر (مقابلہ بازی) شروع کر دیا تو پھر وہ ہوا جو تو دیکھ رہاہے۔‘‘

[جامع الترمذي، أبواب الأضاحي، باب ما جاء أن الشاة الواحدة تجزي عن أهل البيت، (1505)، سنن ابن ماجہ، کتاب الأضاحی، باب من ضحی بشاۃ عن أھلہ، (3147)]

سیدنا حذیفہ بن اسید بیان فرماتے ہیں کہ :

«حَمَلَنِي أَهْلِي عَلَى الْجَفَاءِ بَعْدَ مَا عَلِمْتُ مِنَ السُّنَّةِ، كَانَ أَهْلُ الْبَيْتِ يُضَحُّونَ، بِالشَّاةِ وَالشَّاتَيْنِ، وَالْآنَ يُبَخِّلُنَا جِيرَانُنَا»

مجھے میرے گھر والوں نے غلط روی پر ابھارنے کی کوشش کی جبکہ مجھے سنت کا علم ہوچکا تھا کہ ایک گھرانے والے ایک یا دو بکریاں ذبح کرتے تھے، کہ (اگر اب ہم ایسا ہی کریں گے تو ) ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوسی کا طعنہ دیں گے۔

[سنن ابن ماجه، كتاب الأضاحي، باب من ضحى بشاة عن أھلہ، (3148)‏، سنن الکبری للبیھقي، (19055)]

سیدنا عبداللہ بن ہشام بیان فرماتے ہیں کہ :

«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ»

رسول اللہ ﷺ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔

[المستدرك للحاکم، کتاب الأضاحي، (7555)]

سیدنا عبداللہ بن ہشام خود بھی اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی دیتے تھے۔

[صحیح البخاري، کتاب الأحکام، باب بیعۃ الصغیر، (7210)]

مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہواکہ :

۱۔ گائے اور اونٹ میں سات سات افراد شریک ہوسکتےہیں۔

۲۔ اونٹ میں دس افراد بھی چاہیں تو شرکت کرسکتے ہیں۔

۳۔ ایک یا دو بکریاں تمام گھروالوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میت کی طرف سے قربانی:

میت کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں۔ بالعموم مندرجہ ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں جو کہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔

۱۔ ابو رافع کی روایت کہ:

«ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجِيَّيْنِ خَصِيَّيْنِ، فَقَالَ: " أَحَدُهُمَا عَمَّنْ شَهِدَ بِالتَّوْحِيدِ، وَلَهُ بِالْبَلَاغِ، وَالْآخَرُ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ»

رسول اللہ ﷺ نےدوموٹے تازے خصی مینڈھوں کی قربانی کی ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنھوں نے اللہ توحید اور آپﷺ کے لیے پیغام پہنچانے کی گواہی دی اور دوسرا اپنی اور اپنی آل کی طرف سے۔

[مسند أحمد، مسند أبي رافع، (23860، 27190)، سنن الکبری للبیھقي، (19049) المعجم الکبیر للطبراني، (920، 921)، شعب الإیمان للبیھقي، (6941)، مسند البزار: 9/318 (3867)]

اس روایت کی تمام ترا سانید عبداللہ بن محمد بن عقیل پر جمع ہوجاتی ہیں جو کہ لین الحدیث ہے اس کے علاوہ مسند احمد والی ایک سند میں زہیر بن محمد سوء الحفظ ہے اور ایک سند میں شریک بن عبداللہ بن ابی شریک کثرت خطا اور سوء حفظ کا شکار ہے۔ لہٰذا یہ روایت قابل احتجاج نہیں ہے۔

۲۔ اسی طرح کی ایک اور روایت حذیفہ بن اسید سے مروی ہے جسے حاکم نے مستدرک 686/3 (6521)میں اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد 23/4 میں ذکر کیاہے ۔ اس کی سند میں یحییٰ بن نصر بن حاجب نامی راوی ضعیف ہے۔

۳۔ حضرت علی کے بارہ میں روایت ہے کہ :

«أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: «أَمَرَنِي بِهِ» - يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا»

وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ، ایک نبیﷺ کی طرف سے اوردوسرا اپنی طرف سے ، جب ان سے پوچھا گیا تو کہنے لگےکہ: مجھے اس کا حکم نبیﷺ نے دیا تھا لہٰذا میں یہ کام کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

[سنن الترمذي، أبواب الأضاحي، باب ما جاء في الأضحية عن الميت، (1495)، سنن أبي داود، کتاب الضحایا، باب الأضحیۃ عن المیت، (2790)]

اس کی سند میں شریک بن عبداللہ بن شریک کثیر الخطاء ہونے کی وجہ سے ضعیف اور اس کا شیخ ابوالحسناء حسن کوفی مجہول ہے ۔ لہٰذا یہ روایت بھی قابل احتجاج نہیں ہے۔

قربانی کرنے والوں کے لیے ضروری بات:

ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‏

«إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ»

جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے جوبھی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے حتی کہ قربانی کرلے۔

[صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية، (1977)]

قربانی جس گھر کی طرف سے کی جارہی ہو، اس گھر کے تمام افراد کے لیے یہ پابندی ہے۔

جو قربانی کی استطاعت نہ رکھے:

ایک شخص نےنبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ: میرے پاس قربانی کا کوئی جانور نہیں ہے سوائے ایک لویری (دودھ دینے والا جانور) کے، کیا میں اس کی قربانی دے لوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

«لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»

’’نہیں! لیکن تو (اس دن) بال، ناخن، مونچھیں کٹوالے اور زیر ناف بال مونڈ لے تو اللہ عزوجل کے ہاں یہ تیری پوری قربانی ہے۔‘‘

[سنن أبي داود، كتاب الضحايا، باب ما جاء في إيجاب الأضاحي، (2789)]

یاد رہے کہ جو شخص قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا اور وہ قربانی ثواب لینا چاہتا ہے تو اس کےلیے قربانی کے دن مندرجہ بالا افعال سرانجام دینا لازم ہوں گے مگر ہلال ذی الحجہ کے طلوع ہونے کے بعد اس پر بال وناخن کٹوانے کی پابندی نہیں ہے بلکہ یہ پابندی صرف قربانی کرنےوالوں پر ہے۔

قربانی کا وقت:

قربانی عیدالاضحیٰ کی ادائیگی کے بعد کی جائے ۔ اگر کوئی شخص نماز عید ادا کرنے سے قبل قربانی کرلے تو وہ اس کی قربانی شمار نہ ہوگی بلکہ اس کو دوسری قربانی دینا پڑے گی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔

[صحيح البخاري، كتاب الذبائح والصيد، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : ’’فليذبح على اسم الله‘‘،(5500)]

اور اس وقت کے اختتام کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

«أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ»

تشریق کے تمام دن ذبح کے دن ہیں۔

[سنن الدارقطنی، کتاب الأشربۃ وغیرھا، باب الصید والذبائح والأطعمۃ وغیرھا، (4756)، سنن الکبری للبیھقي، (10226)]

ایام تشریق گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کوکہا جاتا ہے۔

فضیلت والا دن:

یوں تو ان چاروں دنوں میں قربانی کی جاسکتی ہے (ایام تشریق اور یوم نحر میں ) لیکن ان تمام میں سے افضل دن یوم نحر یعنی دس ذوالحجہ کا دن ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ:

«مَا مِنْ أَيَّامٍ العَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ العَشْرِ» ’’

دوسرے دنوں کی نیکی ان دس دنوں کی نیکی سے زیادہ اللہ کو محبوب نہیں۔‘‘

[سنن الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في العمل في أیام العشر، (757)]

تو جب یوم نحر کو قربانی کی جائے گی تو وہ ان دس دنوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اللہ کو زیادہ محبوب ہوگی۔

قربانی کا جانور خود ذبح کرنا:

سیدنا انس بن مالک فرماتےہیں:

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحَرَ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا، وَضَحَّى بِالْمَدِينَةِ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ»

نبی کریم ﷺ نے کھڑے سات اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیے اور مدینہ میں دو عدد سینگوں والے مینڈھے ذبح کیے۔

[سنن أبي داود، كتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، (2793)]

عورت کاذبیحہ:

سیدنا کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ:

«أَنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجَرٍ، «فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَ بِأَكْلِهَا»

ایک عورت نے ایک بکری(تیز دھار) پتھر کے ساتھ ذبح کردی تو اس کے بارہ میں نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺنے اس کے کھانے کا حکم دیا۔

[صحيح البخاري، كتاب الذبائح والصيد، باب ذبيحة المرأة والأمة، (5504)] یعنی

عورت اپنا قربانی کا جانور خود ذبح کرسکتی ہے اگر اس کو ذبح کرنا آتا ہو۔

قصاب سے قربانی کروانا:

سیدنا علی فرماتےہیں کہ مجھے نبی کریمﷺ نے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور ان کا گوشت اور کھالیں سب تقسیم کردوں اور (قصاب کو) اس کی مزدوری اس( گوشت یا کھال) کی صور ت میں نہ دوں۔

[صحیح البخاري، کتاب الحج، باب یتصدق بجلود الھدي، (1717)]

قربانی کے گوشت کا مصرف:

فرمان الہیٰ ہے:

‹وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْر

معلوم دنوں میں جو چوپائے ہم نے دئیے ہیں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں اور خود بھی کھاؤ اور تنگ دست و سوالی کو بھی کھلاؤ۔ [الحج: 28]

مزید فرمایا:

فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ›

خود بھی کھاؤ اور مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کو بھی دو۔ [الحج: 36]

سیدنا سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ» فَلَمَّا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ: «كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا» ’’

جس نے تم میں سے قربانی کی ہے وہ تیسرے دن بعد اس حال میں صبح نہ کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت سے کوئی چیز باقی ہو۔‘‘ آئندہ سال صحابہ نے کہا:’’اے اللہ کے رسولﷺ! جس طرح ہم نے پچھلے سال کیا تھا، کیا اب بھی اسی طرح کریں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ کرو، اس سال لوگوں کو مشقت تھی تو میں نے چاہا کہ تم اس میں ان کی مدد کرو۔‘‘

[صحيح البخاري، كتاب الأضاحي، باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها، (5569)]

مذکورہ بالا ادلہ سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت بندہ خود بھی کھائے ، دوست، احباب کو تحفہ بھی دے اور صدقہ بھی کرے۔ یہ تینوں کام کرے لیکن حصوں کی تحدید و تعین کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئی لہٰذا جو تناسب سمجھتا ہو، رکھے ، اللہ نے آزادی دی ہے۔

قربانی کی کھالوں کا مصرف:

«أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلاَلَهَا، وَلاَ يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا»

’’علی بن ابی طالب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کے قربانی کے اونٹوں پر (بطور نگران) کھڑے ہوں اور ان کو حکم دیا کہ اس کا گوشت اور کھالیں اور جُل مساکین میں صدقہ کردیں اور اس (گوشت، کھالوں اور جُل) میں سے کچھ بھی اس کی اجرت کے طور پر نہ دوں۔‘‘

[صحيح البخاري، كتاب الحج، باب يتصدق بجلود الهدي، (1717)]

اس حدیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کھالیں صدقہ ہیں اور صدقہ کے مصارف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں:

‹اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ

صدقات یقیناً صرف اور صرف فقراء ، مساکین (صدقہ کے) عاملین اور تالیف قلب اور گردنوں کو آزاد کروانے اور غارمین (جن کو چٹی پڑ جائے) اور فی سبیل اللہ (جہاد) اور مسافروں کےلیے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔ [التوبۃ: 60]

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صدقات کے آٹھ مصارف بیان کیے ہیں لہٰذا قربانی کی کھالیں بھی ان آٹھ مصارف پر خرچ کی جائیں۔


هذا ما عندي والله تعالى أعلم ورد العلم إليه أسلم وعلمه أكمل وأتم

مصدر:

http://www.rafeeqtahir.com/ur/play.php?catsmktba=558#.V8pW0f7uceQ.facebook
 
Last edited:
Top