محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
قربانی كے مسائل كا علمی وتحقیقی جائزه
محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ
جو قربانیاں گھروں میں کی جاتی ہیں ان کو أضحية کہتے ہیں اس کی جمع أضاحی ہے۔ جس طرح حج کرنے والے کے لیے قربانی کرناضروری ہے ایسے ہی صاحب استطاعت کے لیے گھر میں قربانی کرنی بھی ضروری ہے۔
قربانی کی فرضیت:
جندب بن سفیان بَجلی فرماتےہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کر لی تھی، جب رسول اللہ ﷺ نے نماز عید ادا فرمانے کے بعد دیکھا تو ارشاد فرمایا:
«مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ»
جس نے نماز سے قبل قربانی کی ہے وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے قربانی نہیں کی نماز پڑھنے تک تو وہ اب اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرے۔
[صحيح البخاري، كتاب الذبائح والصيد، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : ’’فليذبح على اسم الله‘‘ (5500)]
سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:
«مَنْ وَجَدَ سَعَةً وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا»
جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت ہو اور پھر بھی وہ قربانی نہیں کرتا تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب ہی نہ آئے۔
[سنن الدارقطني، كتاب الأشربة وغيرها، باب الصيد والذبائح والأطعمة وغير ذلك، (4743)]
قربانی کے جانور کی عمر:
جابربن عبداللہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ»
تم صرف اور صرف مسنۃ ہی ذبح کرو لیکن اگر تمھیں دشواری پیش آئے تو ضأن (بھیڑ، چھترا، دنبہ) ایک سالہ ذبح کرلو۔
[صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب سن الأضحية، (1963)]
صحیح مسلم کی اس حدیث پر اعتراض:
بعض لوگوں نے اس صحیح حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ ابو زبیر مدلس راوی ہے اور وہ اس حدیث کو «عَنْ» سے روایت کررہا ہے۔ جبکہ لیث بن سعد کے علاوہ جو کوئی بھی ابو زبیر کی معنعن روایت نقل کرے وہ قابل احتجاج نہیں ہوتی۔ لہذا مدلس کا عنعنہ مردود ہونے کی وجہ سے یہ حدیث بھی ساقط الاعتبار ہے۔
یہی بات علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: 1/161، طبع: دار المعارف، الریاض، میں اور إرواء الغلیل 4/358، طبع: المکتب الإسلامي، بیروت، میں کہی ہے۔
جواب:
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے مدلسین کی جو معنعن روایات اپنی صحیح میں نقل کی ہیں وہ سماع پر محمول ہیں اور یہ حدیث جابر بن عبداللہ سے ابو زبیر نے سنی ہے۔
مسنۃ کیا ہے؟
جب جانور کے دودھ کے دانت دوسرے نئے دانت نکلنے کی وجہ سے گر جائیں تو وہ مسنۃ کہلاتا ہے۔
(المصباح المنیر: 1/291، طبع: المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، لسان العرب: 13/222، طبع: دار صادر، بیروت)
عموماً منڈیوں میں دھوکا دینے کے لیے بعض لوگ جانور کے دانت خود توڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دو دانتا ہوگیا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ دو دانتا اس وقت ہوگا جب اس کے ثنایا طلوع ہوں گے، دودھ کے دانتوں کا ٹوٹ جانا ہی کافی نہیں بلکہ نئے دانتوں کا نکلنا بھی مسنۃ ہونے کی شرط ہے۔ نیز مسنۃ کی اس تعریف میں وہ جانور بھی شاملِ مسنۃ ہیں جن کے چار یا چھ دانت نئے نکل آئیں کیونکہ ثنایا کے طلوع ہونے کے بعد جانور کانام مسنۃ ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات نیل الأوطار میں بایں الفاظ تحریر فرمائی ہے:
«قَالَ الْعُلَمَاءُ: الْمُسِنَّةُ هِيَ الثَّنِيَّةُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ فَمَا فَوْقَهَا»
اہل علم کا کہنا ہے کہ مسنۃ دو دانتا یا دو دانتا سے اوپر بولا جاتا ہے ،تمام جانوروں میں خواہ وہ اونٹ ہو گائے ہو یا بکری۔
[نیل الأوطار: 5/134، طبع: دار الحدیث، مصر، وقال النووی قریباً منہ شرح مسلم للنووی: 13/114، طبع: دار إحیاء التراث العربي، بیروت]
جذعہ کی وضاحت:
بھیڑ کی جنس (دنبہ ، بھیڑ، چھترا) صحیح ترین قول کے مطابق جب ایک سال مکمل کر لے تو جذعہ کہلاتی ہے۔
(لسان العرب: 8/44، القاموس المحیط: 1/708، طبع: مکتب تحقیق التراث في مؤسسۃ الرسالۃ)
مندرجہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور دودانتا مسنۃ ہونا ضروری ہے اور اگر مسنۃ کے حصول میں دشواری ہو تو پھر صرف بھیڑ کی جنس سے جذعہ کرنے کی رخصت ہے جو کہ دیگر جنسوں میں نہیں۔
معز (بکری) کا جذعہ :
براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ» فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ، وَقَدْ ذَبَحَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً، فَقَالَ: «اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ» قَالَ مُطَرِّفٌ: عَنْ عَامِرٍ، عَنِ البَرَاءِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ»
ہم اس دن نماز پڑھنے سے ابتداء کرتے ہیں پھر واپس لوٹتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس نے اسی طرح کیا تو اس نے درست کیا اور جس نے نماز سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کر لیا تو وہ قربانی نہیں ہے بلکہ عام گوشت ہے جو کہ اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے۔ تو ابو برده بن نیار î کھڑے ہوئے ،انہوں نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کرلیا تھا ۔ کہنے لگے کہ میرے پاس (بکری کا ) جذعہ ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو ذبح کرلے اور تیرے بعد کسی سے یہ کفایت نہیں کرے گا۔
[صحيح البخاري، كتاب الأضاحي، باب سنة الأضحية، (5545)]
یہ حدیث صحیح بخاری میں مختلف الفاظ کے ساتھ دس جگہوں پر آئی ہے ۔ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بکری کا جذعہ بھی بوقت دشواری کفایت کرجاتا ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حالت عسر میں اس کو قربانی دینے کی اجازت دی۔
لیکن یہ حدیث ان کے لیے دلیل نہیں بنتی کیونکہ خود رسول اکرمﷺ ہی فرمارہے ہیں:
«وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ»
کہ تیرے بعد بکری کا جذعہ کسی کو بھی کفایت نہ کرے گا۔‘‘
حالت عسر و عدم عسر کی کوئی قید نہیں لگائی۔
کچھ دوسرے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ صرف بکری کا جذعہ کفایت نہیں کرتا باقی سب جانوروں کا جذعہ کفایت کرجاتا ہے۔ کیونکہ یہاں تذکرہ بکری کا ہورہاہے اور اس کے جذعہ کی کفایت نہ کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔
مگر ان کی یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب التبکیر إلی العید، (968) میں یہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے
«وَلَنْ تَجْزِيَ جَذْعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ»
تیرے بعد کوئی بھی جذعہ کسی سے بھی کفایت نہ کرے گا۔
یہاں لفظ ’’جذعہ‘‘ نکرہ ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ جب نکرہ نفی کے تحت آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔
کچھ دیگر اشکالات:
۱۔ جذع کی قربانی کے جواز میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
«نِعْمَ أَوْ نِعْمَتِ الْأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ»
’’ بھیڑ کا جذعہ بہترین قربانی ہے۔‘‘
[سنن الکبری للبیھقی، کتاب الضحایا، باب لا یجزي الجذع إلا من الضأن....، (19074)]
لہٰذا ثابت ہوا کہ بھیڑ کا جذعہ کرنا مسنۃ سے بھی افضل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اس کو بہترین قربانی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ اس میں کدام بن عبدالرحمن اور اس کا شیخ ابو کباش دونوں مجہول ہیں۔
۲۔ مجاشع بن مسعود بن ثعلبہ نے ایک سفر میں یہ اعلان کروایا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ
«إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ»
’’جذعہ‘‘ ہر اس جانور کا کفایت کرجاتا ہے جس کا مسنۃکفایت کرتا ہے۔
[سنن أبي داؤد، کتاب الضحایا، باب مایجوز من السن فی الضحایا، (2799)]
اس حدیث سے معلوم ہواکہ دشواری کے وقت بکری، اونٹ، گائے کی جنس سے بھی ’’جذعہ‘‘ کفایت کر جائے گا۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ حدیث
«لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ»
اس کی وضاحت کر رہی ہے کہ صرف بھیڑ کا جذعہ ہی مسنۃ سے کفایت کرسکتا ہےاور وہ بھی بوقت دشواری، کیونکہ اسی روایت میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ یہ فرمان رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر جاری فرمایا تھا، جب صحابہ کرام دو،دو اور تین ، تین ’’جذعہ‘‘ دے کر ایک، ایک مسنۃ خریدنے پر مجبور تھےاور دشواری تھی مسنۃ کو خریدنے میں ۔
[سنن النسائي، کتاب الضحایا، باب المسنۃ والجذعۃ (4383)]
۳۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ خَيْرٌ مِنَ السَّيِّدِ مِنَ الْمَعْزِ»
بھیڑ کا کھیرا بکری کے دو دانتے سے بہتر ہے۔
[المستدرك للحاکم، کتاب الأضاحي، (7544)]
اس کی سند میں ابو ثفا ل ثمامہ بن وائل نامی راوی ہے ۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
«في حدیثہ نظر» یعنی یہ راوی ضعیف ہے۔
(تہذیب الکمال في أسماء الرجال للمزي: 4/410، طبع: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
۴۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أَنَّ الْجَذَعَ مِنَ الضَّأْنِ خَيْرٌ مِنَ الثَّنِيَّةِ مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ , وَلَوْ عَلِمَ اللهُ ذَبْحًا أَفْضَلَ مِنْهُ لَفَدَى بِهِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
بھیڑ کا جذعہ دودانتے اونٹ اور گائے سے بہتر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس سےبہتر کسی ذبیحہ کو سمجھتے تو ابراہیم علیہ السلام کو وہی عطافرماتے۔
[سنن الکبری للبيھقي، کتاب الضحایا، باب لا یجزي الجذع إلا من الضأن، (19075)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال للذھبي: 1/179، طبع: دار المعرفۃ، بیروت، المستدرك للحاكم، (7526)]]
اس کی سند میں اسحاق بن ابراہیم الحُنَيْنِي راوی ضعیف ہے۔
۵۔ ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:
«أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَذَعٍ مِنَ الضَّأْنِ مَهْزُولٍ خَسِيسٍ وَجَذَعٍ مِنَ الْمَعْزِ سَمِينٍ يَسِيرٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ خَيْرُهُمَا أَفَأُضَحِّي بِهِ؟ فَقَالَ: «ضَحِّ بِهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى»
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی پاس بھیڑ کا کمزور وحقیر سا جذعہ اور بکری کاموٹا تازہ جذعہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ (بکری والا جذعہ) ان دونوں میں سے بہتر ہے کیا میں اس کی قربانی کرلوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی قربانی کر لے یقیناً اللہ تعالیٰ بہت غنی ہے۔
[المستدرك للحاکم، کتاب الأضاحي، (7545)]
اس کی سند میں قزعۃ بن سوید ضعیف ہے۔
۶۔ ہلال فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«يَجُوزُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ، أُضْحِيَّةً»
بھیڑ کا جذعہ قربانی کے لیے جائز ہے۔
[سنن ابن ماجہ، كتاب الأضاحي، باب ما تجزئ من الأضاحي، (3139) مسند أحمد، (27073)]
اس کی سند میں ام محمد بن ابی یحییٰ مجہولہ ہے۔ الغرض اس قسم کی تمام روایات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔
جاری ہے ----
Last edited: