السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
استفتاء:اجتماعی قربانی کا ایک جانورایک دن قبل مرگیا
بعدازسلام استدعایہ ہے کہ درج ذیل مسئلہ میں شریعت کا فیصلہ کیاہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔
اجتماعی قربانی کاایک جانور۹ذی الحج کی شام سے ہی سُست سُست رہا۔ڈاکٹرکو چیک کرواگیا پَر روبہ صحت نہ ہوا۔
بالآخر رات گئے وہ مرگیا۔
جانوردوسراخریدکرقربانی کرنی ہوگی یا؟؟؟؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر ممکن ہو یعنی قربانی کا دوسرا جانور خریدنے کی استطاعت ہو ، تو نیا جانور لے کر قربانی کریں ، کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ :
عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الاضحى بعد الصلاة فقال: " من صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد اصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له فقال ابو بردة بن نيار خال البراء: يا رسول الله فإني نسكت شاتي قبل الصلاة وعرفت ان اليوم يوم اكل وشرب واحببت ان تكون شاتي اول ما يذبح في بيتي فذبحت شاتي وتغديت قبل ان آتي الصلاة قال: شاتك شاة لحم قال: يا رسول الله فإن عندنا عناقا لنا جذعة هي احب إلي من شاتين افتجزي عني قال: نعم ولن تجزي عن احد بعدك ".
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 955 )
ترجمہ :
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ جناب براء رضی اللہ عنہ کے ماموں ابو بردہ بن نیار یہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔" انتہی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال ابن قدامة رحمه الله في "المغني" (9/353) :
" فَإِنْ تَلِفَتْ الْأُضْحِيَّةُ فِي يَدِهِ بِغَيْرِ تَفْرِيطٍ , أَوْ سُرِقَتْ , أَوْ ضَلَّتْ , فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ ; لِأَنَّهَا أَمَانَةٌ فِي يَدِهِ , فَلَمْ يَضْمَنْهَا إذَا لَمْ يُفَرِّطْ كَالْوَدِيعَةِ " انتهى . وينظر: "الإنصاف" للمرداوي (4/71) .
2- فإن أتلفها هو أو غيره ضمن المتسبب في التلف قيمتها أو بدلها .
قال ابن قدامة رحمه الله في "المغني" (9/352) :
" إذَا أَتْلَفَ الْأُضْحِيَّةَ الْوَاجِبَةَ , فَعَلَيْهِ قِيمَتُهَا ; لِأَنَّهَا مِنْ الْمُتَقَوِّمَاتِ , وَتُعْتَبَرُ الْقِيمَةُ يَوْمَ أَتْلَفَهَا " .
فإذا تبين ذلك : فلا يلزمك شيء ، لأنك لم تتلف الأضحية ، ولم تفرط في حفظها .
وأما ما ذبحته بعد ذلك بنية الأضحية ( الجدي ) فهو أمر طيب ، تؤجر عليه إن شاء الله ، ولم يكن يلزمك أن تذبح بدلها ، لكن ما دمت قد فعلت فهو تطوع , وزيادة خير منك ، إن شاء الله .
وليس في موت أضحيتك ما يدل على أن ذلك نوع من الحرمان ، أو العقاب الإلهي لك ، أو شيء من ذلك ، بل من يدري : لعله ابتلاء تؤجر عليه ، مع ما سبق من سعيك إلى عمل الخير، ثم تقدير الله لك أن تذبح أضحية أخرى بدل التي تلفت ، وهذا كله زيادة خير وبر لك إن شاء الله .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
" والْإِرَادَةُ الْجَازِمَةُ إذَا فَعَلَ مَعَهَا الْإِنْسَانُ مَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ كَانَ فِي الشَّرْعِ بِمَنْزِلَةِ الْفَاعِلِ التَّامِّ : لَهُ ثَوَابُ الْفَاعِلِ التَّامِّ وَعِقَابُ الْفَاعِلِ التَّامِّ الَّذِي فَعَلَ جَمِيعَ الْفِعْلِ الْمُرَادِ حَتَّى يُثَابَ وَيُعَاقَبَ عَلَى مَا هُوَ خَارِجٌ عَنْ مَحَلِّ قُدْرَتِهِ مِثْلَ الْمُشْتَرِكِينَ والمتعاونين عَلَى أَفْعَالِ الْبِرِّ " .
انتهى من "مجموع الفتاوى" (10 /722-723) وينظر أيضا : "مجموع الفتاوى" (23 /236) .
نسأل الله أن يتقبل منك ومن جميع المسلمين .
والله أعلم .
موقع الإسلام سؤال وجواب
_______________________
ترجمة :ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/353) میں کہتے ہیں:
"اگر اس کی قربانی کا جانور کسی سستی یا کوتاہی کے بغیر تلف ہو جاتا ہے، یا چوری ہو جائے یا گم ہو جائے تو اس پر کچھ نہیں؛
کیونکہ قربانی کا جانور اس کے پاس امانت تھا، تو چونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے امانت میں ضامن نہیں ہوتا" انتہی
مزید کیلیے دیکھیں: "الانصاف" از مرداوی (4/71)
دوم:
اگر انسان خود قربانی کا جانور تلف کر دے یا کوئی اور کرے تو وہ تلف ہونے میں سبب بننے والا شخص اس کی قیمت یا متبادل جانور کا ضامن ہو گا۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/352) میں کہتے ہیں:
"اگر واجب قربانی کا جانور تلف کر دیا تو اس پر اس کی قیمت ہو گی؛ کیونکہ جانور کی قیمت لگ سکتی ہے اور قیمت بھی اسی دن کے اعتبار سے لگے گی جس دن جانور کو تلف کیا گیا" انتہی
----------------------------
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی کام کے کرنے کا پختہ ارادہ رکھنے کے ساتھ انسان جب حسب استطاعت کوشش بھی کرے تو شریعت میں اسے مکمل طور پر کام سر انجام دینے والے کا درجہ دیا جاتا ہے، اسے مکمل طور پر کام کرنے والے کا ثواب ملتا ہے، اور [اگر کام عقوبت کے لائق ہو تو]اسے متعلقہ کام کرنے پر پوری سزا بھی ملتی ہے۔ یعنی اسے اس کام کی جزا یا سزا بھی ملتی ہے جو اس کی استطاعت میں نہیں تھا[لیکن اس نے حتی المقدور کرنے کی کوشش کی تھی] جیسے کہ نیکی کے کاموں میں شریک ہونے والوں کو جزا ملتی ہے" انتہی
ماخوذ از: "مجموع الفتاوی" (10 /722-723) اسی طرح یہ بھی دیکھیں: "مجموع الفتاوى" (23 /236)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سمیت تمام مسلمانوں کی قربانی قبول فرمائے۔
واللہ اعلم.
الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/178524