• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:53)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل(سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد )(حصہ:6یتیم اور سائل سے حسن سلوک کے فوائد و ثمرات)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:6، یتیم اور سائل سے حسن سلوک کے فوائد و ثمرات)

♻ جو بھی مومن تعلیمات الٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے یتیم اور سائل پر مہربانی اور ان سے حسن سلوک کرتا ہے، وہ یقینا رحمت باری تعالیٰ کا حقدار ہے۔ ایسے مومن سے روز قیامت خود پروردگار عالم اچھا برتاؤ فرمائے گا۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی درمیان والی اور شہادت والی انگلی کو ایک ساتھ ملا کر فرمایا:(( أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیْمِ فِی الْجَنَّۃِ ہٰکَذَا ))(صحیح البخاری:٦٠٠٥ وصحیح مسلم:٢٩٨٣)''میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں اکٹھے ہوں گے۔''

♻ اس حدیث مبارکہ کے ایک طریق میں یہ الفاظ بھی ہیں: ''جب تک وہ اللہ سے ڈرتا رہے۔''(أحمد بن حنبل،المسند:٨٨٨١وا لطبرانی، المعجم الأوسط:١٢١٥)ان الفاظ حدیث میں کفالت کرنے والا اور یتیم دونوں شامل ہوسکتے ہیں۔ یتیم کے کفیل کا ﷲ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفالت کے ساتھ ساتھ اللہ سے ڈرتا ہو اور دیگر فرائض و واجبات کا بھی پابند ہو۔ یتیم کی حق تلفی کے حوالے سے بھی اللہ سے ڈرے، کفالت کے بہانے اس کے مال پر قبضہ کرنا مقصود نہ ہو۔ یتیم کے ڈرنے کا مطلب ہے کہ کفالت کرنے والے نے اس کی نیک تربیت کی ہو، جس سے وہ خیرو بھلائی کا ذریعہ بنے نہ کہ فتنہ وفساد کا سبب۔

♻ یوں کفالت یتیم میں اس کی تعلیم و تربیت بھی شامل ہے۔ اگر کفالت کرنے والے کی غلط تربیت کی وجہ سے وہ کوئی برا کام کرے گا تو ہوسکتا ہے کہ اجر و ثواب کے بجائے یہی بڑا ہوکر اس کے گناہوں میں اضافے کا سبب بن جائے۔ امام زرقانی رقمطراز ہیں کہ یہ فضیلت تب حاصل ہو گی جب کفالت کرنے والا اللہ عزوجل کے احکام کی پاسداری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچ کر حقیقی متقی بندہ ہونے کا ثبوت دے،(الزرقانی، شرح المواہب:533/4)

♻امام قرطبی نے رفاقت نبوی والی حدیث کے متعلق ایک شاندار اور اہم نکتہ بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ ایسے آدمی کو آپ کی رفاقت نصیب ہو گی، یہ نہیں کہ وہ درجات اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بھی آپ کے برابر ہو گا۔ عام آدمی کا درجات میں نبی کریم کے برابر ہونا تو درکنار، وہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام میں سے بھی کسی کے برابر نہیں ہو سکتا،

♻ بلکہ کوئی پیغمبر بھی درجات میں محمد رسولﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اس سے یہی مقصود تھا کہ اسے آپ کی رفاقت اور معیت نصیب ہوگی اگرچہ درجات اور مقام و مرتبہ میں نمایاں تفاوت ہو گا۔(محمد علی البکری، دلیل الفالحین:81/3)

♻ امام ابن بطال لکھتے ہیں: یہ حدیث سننے کے بعد ہر بندہ مومن کو اس پر عمل کی کوشش اور جستجو کرنی چاہیے تاکہ اسے جنت میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء و رسل علیہم السلام کی رفاقت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزِ قیامت انبیائے کرام علیہم السلام کی رفاقت سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں۔(ابن بطال، شرح صحیح البخاری:217/9)

♻ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( السَّاعِی عَلَی الْـأَرْمَلَۃِ المِسْکِینِ کَالْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، أَوْکَالَّذِیْ یَصُوْمُ النَّہَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ ))(صحیح البخاری:٦٠٠٦وصحیح مسلم:٢٩٨٢ )''بیوہ اور مسکین کی کفالت کے لیے جستجو کرنے والا ﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے یا اس آدمی کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھنے والا اور شب بیدار ہو۔''

♻ بیوہ بغیر بچوں کے بھی ہوسکتی ہے اور اس کے زیر کفالت سابقہ شوہر کے یتیم بچے بھی ہو سکتے ہیں، یوں اس حدیث میں کفالت یتیم کا بھی اشارہ ہے۔ اسی طرح مسکین بھی یتیم ہوسکتا ہے۔ غالباً اسی لیے امام ترمذی نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے ، اس میں یتیم کا بھی تذکرہ ہے، باب یوں ہے:'' بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّعْیِ عَلَی الأَرْمَلَۃِ وَالیَتِیمِ ''(سنن الترمذی،قبل الحدیث:١٩٦٩)بیوہ اور یتیم کی کفالت کا بیان۔امام بخاری نے ''الادب المفرد'' میں بھی اس حدیث کو کفالت یتیم کی فضیلت کے تحت ذکر کیا ہے۔(الأدب المفرد:قبل الحدیث:١٣١)

♻ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( مَنْ ضَمَّ یَتِیْمًا لَہ، أَوْلِغَیْرِہٖ حَتّٰی یُغْنِیَہُ اللّٰہُ عَنْہُ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃَ ))(الطبرانی،المعجم الأوسط:٥٣٤٥ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٢٨٨٢)''جو شخص اپنے کسی رشتہ دار یتیم یا اجنبی یتیم کو اس وقت تک اپنی کفالت میں لیے رکھے جب تک ﷲ اس یتیم کی محتاجی ختم نہ کر دے تو ایسے نگران کے لیے جنت واجب ہے۔''

♻ سابقہ احادیث میں یتیم کا تذکرہ آیا ہے ،باقی رہا سائل تو اسے نوازنے سے وہی خیر و برکات حاصل ہوتی ہیں ، جو ضرور ت مند پر خرچ کرنے کے حوالے سے مذکور ہیں۔

♻ اسلامی تعلیمات سراسر خیر و بھلائی کا چشمہ ہیں ، شرعی ہدایات کی پاسداری کے انفرادی ، اجتماعی اور ریاستی سطح پر مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، معاشرے کے کمزور اور نادار افراد سے حسن سلوک اور ہمدردی و خیرخواہی کے بھی شاندار نتائج برآمد ہوتے ہیں ، مسلمانوں میں باہمی اخوت و محبت اور احترام و بھائی چارگی پیدا ہوتی ہے ، معاشرے میں امن و امان اور سکون وراحت کی فضا قائم ہوتی ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ بندہ مومن رب تعالیٰ کی رضا مندی اور اجر عظیم کا حقدار قرار پاتا ہے ، جو حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے ،


♻ اسلامی تعلیمات سراسر خیر و بھلائی کا چشمہ ہیں ، شرعی ہدایات کی پاسداری کے انفرادی ، اجتماعی اور ریاستی سطح پر مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، معاشرے کے کمزور اور نادار افراد سے حسن سلوک اور ہمدردی و خیرخواہی کے بھی شاندار نتائج برآمد ہوتے ہیں ، مسلمانوں میں باہمی اخوت و محبت اور احترام و بھائی چارگی پیدا ہوتی ہے ، معاشرے میں امن و امان اور سکون وراحت کی فضا قائم ہوتی ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ بندہ مومن رب تعالیٰ کی رضا مندی اور اجر عظیم کا حقدار قرار پاتا ہے ، جو حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے ،
 
Top