• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:54)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل(سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد )(حصہ:7، سائل و یتیم اور درّ یتیم صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

سائل و یتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:7، سائل و یتیم اور درّ یتیم صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

♻ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حالت یتیمی میں آنکھ کھولی ۔آپ گے والد کرامی دنیا میں آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے اور وہ پردیس میں ، بعد ازاں آپ کے بچپن میں والدہ ماجدہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ پھر آپ دادا جان کی کفالت میں چلے گئے۔ ان کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابو طالب اور دوسرے چچا زبیر بن عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی۔

♻ جب آپ بڑے ہوئے تو آپ دوسروں کے لیے مسیحا بن گئے۔ آپ کی ساری زندگی معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کی نصرت و تعاون سے تعبیر ہے۔ آپ صلہ رحمی کرتے، اوروں کا بوجھ اُٹھاتے، ناداروں کو کماکر دیتے، مہمان نوازی کرتے اور مصائب وآلام میں مبتلا افراد کی مدد فرماتے تھے۔ آپ کی یہ صفات بیان کرنے والی ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا ہیں۔(صحیح البخاری:٣ و صحیح مسلم:١٦٠)

♻ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عظیم الشان صفات، عادات اور تعلیمات میں سے یتیم اور سائل پر مہربانی کی نادر مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ آپ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں: کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو تو آپ نے ''نہیں''فرمایا ہو۔(صحیح البخاری:٦٠٣٤وصحیح مسلم:٢٣١١)

♻ ایک مرتبہ کسی عورت نے خاص رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے اپنے ہاتھ سے چادر بُنی اور آپ کی خدمت میں پیش کی۔ وہ چادر کسی صحابی نے اپنا کفن بنانے کے ارادے سے طلب کی تو آپ نے انھیں عنایت کر دی، حالانکہ آپ کو اس چادر کی ضرورت بھی تھی۔(صحیح البخاری:١٢٧٧ وسنن ابن ما جہ:٣٥٥٥)

♻ اس طرح کی بیسیوں مثالیں ہم پیچھے پڑھ آئے ہیں،نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یتیموں کے ساتھ محبت کا بھی کچھ ایسا ہی انداز تھا۔ جنگ موتہ میں شہید ہونے والے حضرت جعفر طیار رضی اللّٰہ عنہ کے یتیم بچوں سے آپ بہت محبت اور حسن سلوک کیا کرتے تھے۔

♻ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللّٰہ عنہ بچے تھے۔ ایک روز بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سواری پر وہاں سے گزر ہوا۔ آپ نے انھیں اُٹھا کر سواری پر اپنے آگے بٹھا لیا۔ آپ نے پیار سے ان کے سرپر اپنا دست مبارک پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی:((اَللّٰھُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًافِی وَلَدِہٖ ))(احمد بن حنبل،المسند:١٧٦٠ والحاکم، المستدرک:١٤١٨)''اے اللہ! جعفر کی اولاد میں نیک جانشین پیدا فرما۔''

♻ حضرت جعفر رضی اللّٰہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہ اپنے یتیم بچوں کے بارے میں فکر مند ہوئیں تو آپ نے فرمایا:(( أَنَا وَلِیُّھُمْ فِی الدُّ نْیَا وَالْآخِرَۃِ ))( أحمد بن حنبل ، المسند:١٧٥٠)''میں دنیا میں بھی ان کی دیکھ بھال کروں گا اور آخرت میں بھی۔''

♻ یاد رہے! حضرت جعفر رضی کے بعد سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے ہوا تھا اور ان کے بعد سیدنا علی بن ابی طالب سے۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب:303/1 )

♻ نبوی تعلیمات و اسوہ کے مطابق یتیم و مسکین اور بے سہارا افراد اسلامی ریاست و معاشرے کے باوقار شہری ہوتے ہیں۔ ان کے ناموں پر الگ سے ادارے قائم کرنا، یہ دینی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف ہے۔ یہ اقدار و روایات سے عاری بے دینی پر مبنی مغربی تہذیب و کلچر کی نقالی ہے۔ ایسے اداروں میں تعلیم و تربیت پانے والے افراد پر کئی طرح کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ان میں احساس محرومی و کمتری، کسر نفسی اور احساس شرمندگی جیسے منفی جذبات جنم لیتے ہیں۔اسلام میں معاشرے کے کمزور افراد کی تربیت و کفالت کی ذمہ داری عزیز واقارب اور اسلامی ریاست کی ہے۔

♻ عصر حاضر میں عالمی الحادی استعماری قوتوں نے انسانیت پر بھیانک مظالم ڈھائے ہیں ، خاص طور پر مسلمانوں پر ، نام نہاد دہشت گردی کے نام سے کتنے ہی مسلم ممالک کو تاخت وتاراج کیا گیا ، کتنے ہی بچے یتیم ہوئے اور کتنے ہی گھرانے بے گھر ہوئے ، مختلف ممالک میں مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد لاکھوں سے بھی متجاوز ہے ، ان بے آسرا یتیم بچوں اور محتاج ومساکین افراد کا سوائے رب تعالیٰ کے کوئی سہارا نہیں ہے ، عالمی استعماری طاقتوں نے ، اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ، امن عالم کے نام پر ، ایسے ظالمانہ قوانین بنائے کہ بدحال مسلمانوں کی کوئی کھل کر مالی امداد بھی نہیں کر سکتا ،

یاللعجب ولذھاب الحمیۃ الاسلامیۃ أسف !
 
Top