• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قندیل بلوچ بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
بیٹے نے قندیل کا قتل مفتی عبدالقوی کے اکسانے پر کیا، والدہ کا الزام
ویب ڈیسک، 2 گھنٹے پہلے

ملتان: ماڈل قندیل بلوچ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کا قتل مفتی عبدالقوی کے کہنے پر ہوا کیونکہ انہوں نے وسیم کو قتل پر اکسایا تھا جس پر اس نے یہ قدم اٹھایا۔


ایکسپریس نیوز کے مطابق ماڈل گرل قندیل بلوچ کی والدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ میرے بیٹے وسیم کو قندیل کے خلاف اکسایا گیا اور اس نے مفتی عبدالقوی کے کہنے پر اسے غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ مقتولہ کی والدہ نے قندیل کے سابق شوہرعاشق حسین کو بھی اس کے قتل میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ وسیم قندیل کے سابق شوہر عاشق حسین سے بھی رابطے میں تھا۔

قندیل کی والدہ کا کہنا تھا کہ واقعہ کے بعد پڑوسیوں سے پتا چلا کہ قندیل کے قتل کی رات ایک داڑھی والا شخص اس کے گھر کے باہر بار بار چکر کاٹ رہا تھا اور اچانک وہ گھر میں بھی داخل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ علاقے والے ہمیں قندیل کا ڈراموں میں کام کرنے پر طعنے دیتے تھے جب کہ میری بیٹی اور عبدالقوی فون پر رابطے میں تھے، مفتی نے قندیل کو پروگرام کے لیے بلایا لیکن اس نے نازیبا حرکات کیں۔

دوسری جانب والدہ کے الزام کے بعد مفتی عبدالقوی کو اس کیس میں شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ قتل کیس میں قندیل کے دوسرے بھائی اسلم سے بھی تفتیش کی جائے گئی۔

قندیل بلوچ کے قتل کی ایف آئی آر میں دفعہ 109 بھی شامل کی گئی جس کے مطابق قتل میں معاونت کرنے والوں کو بھی گرفتار یا شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔

ادھر مفتی عبد القوی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قتل کیس میں شامل تفتیش کرنا مضحکہ خیز ہے لیکن پولیس نے مدد مانگی تو تعاون کے لیے تیار ہوں۔

واضح رہے کہ قندیل بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ مفتی عبدالقوی کی ویڈیو اورتصاویر پوسٹ کی تھیں جس کے بعد مفتی عبدالقوی کو نہ صرف رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا بلکہ ان کی علمائے مشائخ کونسل کی بھی رکنیت بھی معطل کر دی گئی تھی جب کہ قندیل بلوچ کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

ح
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بیٹے نے قندیل کا قتل مفتی عبدالقوی کے اکسانے پر کیا، والدہ کا الزام

ویب ڈیسک پير 18 جولائ 2016
قندیل کے قتل میں اس کا سابق شوہر عاشق حسین بھی ملوث ہے، مقتولہ کی والدہ کا الزام، فوٹو؛ اے ایف پی
ملتان: ماڈل قندیل بلوچ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کا قتل مفتی عبدالقوی کے کہنے پر ہوا کیونکہ انہوں نے وسیم کو قتل پر اکسایا تھا جس پر اس نے یہ قدم اٹھایا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ماڈل گرل قندیل بلوچ کی والدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ میرے بیٹے وسیم کو قندیل کے خلاف اکسایا گیا اور اس نے مفتی عبدالقوی کے کہنے پر اسے غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ مقتولہ کی والدہ نے قندیل کے سابق شوہرعاشق حسین کو بھی اس کے قتل میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ وسیم قندیل کے سابق شوہر عاشق حسین سے بھی رابطے میں تھا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قندیل بلوچ قتل کیس میں مفتی عبدالقوی کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ

قندیل کی والدہ کا کہنا تھا کہ واقعہ کے بعد پڑوسیوں سے پتا چلا کہ قندیل کے قتل کی رات ایک داڑھی والا شخص اس کے گھر کے باہر بار بار چکر کاٹ رہا تھا اور اچانک وہ گھر میں بھی داخل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ علاقے والے ہمیں قندیل کا ڈراموں میں کام کرنے پر طعنے دیتے تھے جب کہ میری بیٹی اور عبدالقوی فون پر رابطے میں تھے، مفتی نے قندیل کو پروگرام کے لیے بلایا لیکن اس نے نازیبا حرکات کیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ مفتی عبدالقوی کو قندیل کے ساتھ سیلفی مہنگی پڑ گئی، رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت معطل

دوسری جانب مفتی عبدالقوی کو اس کیس میں شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ قتل کیس میں قندیل کے دوسرے بھائی اسلم سے بھی تفتیش کی جائے گئی۔

قندیل بلوچ کے قتل کی ایف آئی آر میں دفعہ 109 بھی شامل کی گئی جس کے مطابق قتل میں معاونت کرنے والوں کو بھی گرفتار یا شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قندیل بلوچ کا جب بھی ذکر آتا ہے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں،مفتی عبدالقوی

ادھر مفتی عبد القوی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قتل کیس میں شامل تفتیش کرنا مضحکہ خیز ہے لیکن پولیس نے مدد مانگی تو تعاون کے لیے تیار ہوں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قندیل بلوچ کی نماز جنازہ ادا، آبائی قبرستان میں سپرد خاک

واضح رہے کہ قندیل بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ مفتی عبدالقوی کی ویڈیو اورتصاویر پوسٹ کی تھیں جس کے بعد مفتی عبدالقوی کو نہ صرف رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا بلکہ ان کی علمائے مشائخ کونسل کی بھی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی جب کہ قندیل بلوچ کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
 
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
73
میرے خیال میں ( اختلاف کی گنجائش موجود ہے ) ہمیں ان بے کار موضوعات پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
موم بتی مافیا نے قندیل بلوچ کوقتل ہونے کے بعد اپنی شہید قرار دیتے ہوئے ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اللہ کی پناہ، مجھے یوں لگاکہ وہ معصوم اور مظلوم تھی جبکہ ہم سب بطور معاشرہ ظالم اورمجرم ، جی جی، آپ نے درست کہا کہ وہ جیسی بھی تھی اس کے قتل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ، میں اس پرآپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں مگر کیا آپ مجھے قائل کرپائیں گے کہ قندیل بلوچ اپنی زندگی میں جو کچھ کرتی رہی، کیا اس کے قتل کے بعد وہ سب کچھ جائز قرار دیا جا سکتا ہے، اسے آئیڈیلائز کر تے ہوئے معاشرے کے کچے ذہنوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے ۔میں اس کے قاتل بھائی کی ہرگزوکالت نہیں کر رہا، اسے یقینی طور پر ایک قتل کے مجرم کی حیثیت سے ہی سزا ملنی چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ میرا موم بتی مافیا قندیل بلوچ کو بہادر، باغی اور جرات مند قرار دیتا ہے لیکن اگر اس کے آس پاس، چاردیواری کے اندر، کوئی لڑکی دوسرے مردوں کے نام اپنے بیڈ روم سے قابل اعتراض حالت میں لیٹ کر ایسی ویڈیوز بنا کے پوسٹ کر رہی ہو جس میں ان کے ساتھ سب کچھ کرنے کی دعوت بھی موجود ہو توو ہ کیا کریں گے جنہیں غیرت کے نام سے گھن آتی ہے، جنہیں اس بے چارے مشرقی معاشرے کی تمام روایات انتہائی بری لگتی ہیں۔
میں نے قندیل بلوچ کی سوشل میڈیا پروفائل دیکھی اور جانا کہ جس طرح ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے اسی طرح کچھ گناہ بھی ’گناہ جاریہ‘ کے زمرے میں آتے ہیں، جو کوئی قندیل بلوچ کے کردار سے متاثر ہو گا اور اس کی راہ پر چلے گا میرے خیال میں اس کے گناہ میں قندیل بلوچ کا حصہ بھی ہو گا، اس نے ایک سیاسی رہنما کو شادی کی پیش کش کرتے اور انڈین ٹی وی چینل کی طرف سے اس کے رئیلٹی شو میں شرکت کی دعوت ملنے پر بار بار لکھا، ’ نو ون کین سٹاپ می‘ ، یعنی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر قندیل بلوچ ’ بگ باس ‘ میں شرکت کر لیتی تو وہ وینا ملک کے ریکارڈ بھی توڑ دیتی اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتی ، وہ یقینی طورپر اس کی ’ بین ویڈیو‘ سے بھی آگے کی چیز ہوتی ،موم بتی مافیا کی شہید اسی تیز رفتاری کی قائل تھی جس کی موٹر وے پر ممانعت کی گئی ہے اور جگہ جگہ لکھا گیا ہے کہ تیز رفتاری سب کو بھاتی ہے مگر جان اسی میں جاتی ہے۔ بہت ساری خواتین قندیل بلوچ کو صرف اس لئے ’ خراج عقیدت ‘ پیش کر رہی ہیں کیونکہ وہ خود کو معاشرے میں مردانہ بالادستی کے خلاف ’ جہاد‘کی مجاہدہ سمجھتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب مردوں کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تو پھر ایک عورت کوانہی افعال کیوں قتل کیا جائے جنہیں مرد اپنی محفلوں میں فخر کے ساتھ چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں مگر اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگرمرد غلط کرتے ہیں تو اسے عورتوں کی غلط کاری کاجواز نہیں بنایا جا سکتا، ہونا تو یہ چاہئے کہ مردوں کی غلط کاریوں کی روک تھام کے لئے تحریک چلائی جائے نہ کہ ان کی بنیاد پر عورتوں کی غلط کاریوں کو بھی جواز دے دیا جائے۔
مجھے انتہائی ادب کے ساتھ عرض کرنے دیجئے کہ قندیل بلوچ کا کردار کسی طور بھی عورتوں اور مردوں میں جاری کشمکش کا شاخسانہ نہیں، یہ ایک عورت کی طرف سے دولت اور شہرت کے حصول کا شارٹ کٹ تھا، ہاں، یہ بات درست ہے کہ مردوں میں قندیل بلوچوں کی کمی نہیں، علمائے کرام میں مفتی عبدالقوی نام کے شخص کو آپ اس کی ایک بہترین یا بدترین مثال قرار دے سکتے ہیں۔ہمارے ایک صحافی اور مصنف دوست نے اپنے قلم کے ذریعے اسی امر کی نشاندہی کی کہ غیرت کے نا م پر مرد کیوں قتل نہیں ہوتے اور پھر اگلے ہی روز قندیل بلوچ کے شہر ڈیرہ غازی خان سے ہی خبر آ گئی کہ اللہ دتہ نام کے ایک شخص کو غیرت کے نام پر پانچ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، ناک کان اور ہونٹ سمیت اس کے مختلف اعضا کاٹ لئے اور اپنے ساتھ لے گئے، اللہ دتہ کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا، بس ایک کمی رہی کہ کچھ لوگوں کے مطابق یہ کام خواتین کا گلابی گینگ کرتا تو انہیں تسلی ہوتی۔ قندیل محض دولت ،شہرت اور کامیابی کی اندھی ہوس میں مبتلا تھی ،وہ معاشرے میں اصلاح کے لئے کوئی جہاد نہیں کر رہی تھی کہ اسے سراہا اور اس پر تنقید کرنے والوں کو گالیوں سے نوازا جائے، جواس کی زندگی میں برا فعل تھا وہ اس کی موت کے بعد بھی قابل مذمت ہی رہے گا۔
بہت ساروں نے کہا، اپنی حرکتوں کی قندیل ذمہ دارنہیں، ذمہ دار تو یہ معاشرہ ہے، کچھ نے منٹو کے کسی افسانے کا یہ زریں قول بھی بیان کیا کہ یہ معاشرہ عورت کو ٹانگاچلانے کی اجازت تو نہیں دیتا مگر کوٹھا چلانے کی اجازت دے دیتا ہے اور مجھے ان سے کہنا ہے کہ اس قتل نے ثابت کر دیا ہے یہ گیا گزرا معاشرہ بھی کسی کو کوٹھا چلانے کی اجازت نہیں دیتا ، ہاں، اگر ٹانگا چلانے سے مراد روزگار کا حصول ہے تو میرے معاشرے کی ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین محنت مزدور ی کر کے اپنے بزرگوں اور بچوں کے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھا رہی ہیں، وہ شہروں میں دفاتر میں کام کرتی ہیں اور دیہات میں کھیتوں میں اپنا پسینہ اپنے مردوں کے ساتھ بہاتی ہیں مگر اپنی عزت کا سودا نہیں کرتیں ، اپنے جسم کی تشہیر نہیں کرتیں اگر آپ ڈیرہ غازی خان کی فوزیہ کو دولت کے حصول کے لئے قندیل بلوچ بننے کو قابل تحسین گردانتے ہیں تومجھے کہنے دیجئے آپ ان تمام محنت کش خواتین کو احمق قرار دیتے ہوئے ان کی توہین کر رہے ہیں جو آپ کی نظر میں ’کامیابی‘ کے لئے فحاشی اور بے حیائی کے اس شارٹ کٹ کو استعمال نہیں کر رہیں، جی ہاں، مجھے آپ کے اس سوال کا بھی اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تو مرنے کے بعد متوفی کی برائیاں نہیں صرف خوبیاں ہی بیان کی جاتی ہیں، اس کے گناہوں کی معافی اور اس کی جہنم کی آگ سے نجات کے لئے دعا کی جاتی ہے اور میں اپنی معاشرتی روایات کے بالکل الٹ اس بی بی کے مرنے کے بعد بھی اس کی برائیاں بیان کر رہا ہوں، جہاں میں قندیل بلوچ کی مغفرت کے لئے دعاگو ہوں وہاں یہ دعا بھی پورے خلوص سے کرتا ہوں کہ مجھے بھی میرا رب معاف فرمائے۔ اے موم بتی مافیا!میرا جواب اس خدشے میں چھپا ہوا ہے کہ تم لوگ قندیل بلوچ کو ہماری خواتین، خاص طور پر وہ جوبہت سارے مردوں کی طرح شارٹ کٹ میں دولت اور شہرت کے حصول کے لئے دیوانی ہو رہی ہوتی ہیں، ان کے سامنے ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کر رہے ہو۔ میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم اس کے قتل کو بنیاد بناتے ہوئے اسے جتنا مرضی مظلوم ، معصوم ، باغی اور انقلابی بنا کے پیش کرتے رہوہمیں اپنے معاشرے میں مزید قندیل بلوچیں کسی طور قابل قبول نہیں ہیں۔ میں تمہارے ساتھ مل کر اس قتل کی مذمت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر اس کے کردار اور افعال کو جائزیت عطا نہیں کر سکتا۔ بہت ساروں نے سوال کیا کہ اس کے بھائی کی غیرت اب کیوں جاگی، اس سے پہلے جاگتی تو وہ قندیل بلوچ ہی نہ بنتی اور میں موم بتی مافیا کی اسی غیرت کو اب جگانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لے۔
قندیل بلوچ جیسی عورتوں کی اخلاق باختہ اوردعوت گناہ دیتی ہوئی ویڈیوز دیکھنے کے بعد انہیں جرات اوربہادری قرار دینا کسی بھی غیرت مند انسان کے لئے ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن چونکہ ہم سب کچھ مختلف کہنا اور اس پر داد لیناچاہتے ہیں لہذا اس کے قتل کی آڑ لیتے ہوئے ہم یہ بھی کر گزرتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کسی قندیل بلوچ کو برداشت نہیں کرسکتا۔ موم بتی مافیا اگر واقعی اس مقتولہ کو معاشرے کی باغی کے طور پر آئیڈیلائز کرنے میں منافقت نہیں کر رہا ، محض مشرقی او ر مذہبی روایات کی مخالفت میں جنونی نہیں ہو رہا ، د ل کی گہرائیوں سے مقتولہ کے کردار کو سراہتا ہے تو میں اسے دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کے نام قندیل بلوچ رکھنے کی تحریک کا اعلان کر دے کہ موم بتی مافیا کو اپنی شہید رہنما کا لہوکم از کم اس طرح رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے اور اسے سپورٹ کرنے والے ہر گھر میں کم از کم قندیل بلوچ تو ضرور ہونی چاہئے تاکہ معاشرہ ان کی نظر میں عزت او ر غیرت کے فرسودہ تصورات سے جلد از جلد باہر نکل سکے بلکہ اپنے طور پر قرار دی گئی اس مقدس جنگ میں وہ خود بھی پوری طرح شامل ہوں، محض لفاظی ہی نہ کرتے رہ جائیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قندیل بلوچ ، ہم سب اور دلیل کی راہ

تحریر :حافظ یوسف سراج
اچھی بات یہ ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں اس پر بات بھی کرنے لگے ہیں لیکن بری بات یہ ہے کہ ہماری انتہا پسندی نے ہماری بات کو پوری قوت سے بے فائدہ، بےاثر اور مخصوص لوگوں کی واہ واہ کمانے کی رائیگاں مشقت کے گنبد میں قید کر رکھا ہے. امید کی جانی چاہیے کہ جلد ہی ہم معروضیت بھی سیکھ کر عصبیت اور دھڑے کی لڑائی کے بجائے انسان کے حقوق کی لڑائی لڑنے کے قابل ہو جائیں گے. یہ وہ وقت ہوگا کہ جب ہم میں سے جو بھی ہارے گا، جیت معاشرے اور انسان کی ہوا کرے گی. قندیل بلوچ کا افسوسناک قتل ایک سوگوار کر دینے والا واقعہ تھا. کسی بھی انسان کاماورائے عدالت قتل کسی بھی صحیح الدماغ انسان یا معاشرے کو کبھی گوارا نہیں ہو سکتا. یہ قتل اس لیے بھی دردناک تھا کہ یہ ایک عورت کا قتل تھا. کسی کمزور کا قتل اور پھر رائیگاں قتل، حساس انسان کے لیے دہری اذیت لے کر طلوع ہوتاہے. عورت مرد کی نسبت کمزور ہے، اس لیے کہ وہ صنف نازک ہے، کسی آبگینے کی طرح نازُک، جاذب اور جمیل
ایسے قتل لیکن ہم ایسوں کے لیے ایک تیسری اذیت کا بھی دروازہ کھول دیتے ہیں. بڑی ہنرکاری کے ساتھ ایسی تمام تر جہالتوں کی کالک اسی دین انسانیت یعنی دین اسلام اور اسی انسان نواز تہذیب کے حسیں چہرے پر مل دی جاتی ہے کہ جس نے سب سے پہلے اور سب سے توانا آواز میں ان انسا ن کش جہنمی فرسودگیوں کی جڑ پر وار کیا تھا. یقین کیجیے کہ اگر ہم معروضیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ انسانی معاشرے کاجائزہ لینے کی گنجائش اپنے اندر پیدا کر سکیں اور اگر ہم کیس ٹو کیس واقعات کا ان کے اصلی تناظر میں جائزہ لینے کی جرات کر گزریں اور اگر کسی انسان کے تن کو جلاتی آگ سے اپنے مفاد کے سگریٹ سلگانے سے خود کو باز رکھ سکیں تو بخدا یہ عین ممکن ہے کہ کسی بھی معاشرتی مرض اور مسئلے کی ہم واقعی تشخیص کر لینے کے بھی اہل ہو سکیں اور تبھی یہ امکان بھی ہوگا کہ ہم آہستہ آہستہ سلگتے انسانوں کا علاج ڈھونڈ لینے کے قابل بھی ہو جائیں. یوں مگر نہیں ہوتا. افسوس یہی نہیں ہوتا. اپنے ہمنواؤں کے ساتھ قوالوں کی دو ٹولیاں اٹھتی ہیں اور اپنے طے شدہ اور پسندیدہ نظریات کے جعلی خون سے لتھڑے پیرہن ِ یوسف پر ویسا ہی واویلا آغاز کر دیتی ہیں، کہ جیسا ہمارے کچھ دوست سال کے کسی خاص مہینے میں سال بھر کی کمائی کے لیے پوری جانفشنانی سے کیا کرتے ہیں. ظاہر ہے اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ اپنے دھڑے کے لیے حالات کی بہتی گنگا میں حسب توفیق ہاتھ دھو لیے جائیں اور موقع سے ناجائز فائدہ کشید کرنے کاحسب استطاعت گھناؤنا دھندہ کر لیا جائے. قندیل بلوچ کے قتل پر ہمارے رویے نے پھر ایک بار ہماری اجتماعی غلطی آشکار کر دی ہے، اگر ہم سمجھنا اور ماننا چاہیں تو.
مجھے نہیں معلوم کہ قندیل بلوچ کن تاریک راہوں میں ماری گئی، یہ مگر میں جانتاہوں کہ وہ غیرت کے قتل کا نشانہ یا شاخسانہ ہرگز نہیں بنی ہے. اگرچہ اس پر میڈیا ہی میں کچھ رپورٹس آئی بھی ہیں اور آئیں گی بھی لیکن میرا استدلال ا س سے بھی سادہ ہے. قندیل بلوچ منظرعام پر تھی. اس سادگی سے منظرعام پر رہ کے کچھ بھی کر گزرنے کو سب سے پہلے خاندان جان لیتا ہے اور پھر باقی دنیا. اس کے باوجود خاندان نے اسے اس کے پیسے سمیت قبول کیا تھا، اس سے رابطہ رکھا تھااور وہ بے خوف گھر آتی جاتی رہی تھی. جس طرح کسی بھی شخص کو پہلے اس کا خاندان جان لیتا ہے بالکل اسی طرح، بعض اور چیزوں کی طرح، غیرت کے رویوں کو ایک خاتون کی حساسیت کا سکینر بھی کبھی بائی پاس نہیں کر سکتا. تاہم حالات شاہد ہیں کہ قندیل بلوچ کا حساس نسوانی سینسر اور سکینر ایسی کوئی خفیف سی لہر بھی ریکارڈ نہیں کر سکا تھا. پھر پچھلے مجموعی واقعات کا مطالعہ کر لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ غیرت کے قتل میں دھوکا اور چالبازی بروئے کار آتی ہے یا فوری اشتعال، یہاں ہمیں یہ دونوں ہی نظر نہیں آتے. پھر ہم اس کے باپ کا اولیں بیان بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جس میں ان کے بقول یہ قتل پیسے کے لیے کیا گیا ہے. یہ عین ممکن ہے کہ بھائی کو بہن سے ملتے راتب میں اضافہ کرانا مقصود ہو یا اس کی غیرت بہن کو بلیک میل کرکے اضافی قیمت وصول کرنے پر تل گئی ہو. رہا بھائی کا ’غیرت مندانہ‘ بیان تو یہ بیان صاحبِ غیرت کی اس سے بھی کوئی پست اور غیرت کش کردار چھپانے کی ایک کامیاب کوشش بھی ہو سکتی ہے، بالخصوص جب ایسا کہہ دینے سے معاشرے کے بعض بیٹوں کی جہالت اسے جوانمردی کا تمغہ اور شاباشی کا تحفہ دینے کو بھی تیار بیٹھی ہو. ضمنا عرض ہے کہ کسی بھی واردات، سانحے یا حادثے پر کسی بھی عدالتی تفتیش و تحقیق سے قطع نظر، یہ جو فی الفور میڈیا یا پولیس، ‘غیرت کے نام پر قتل’ کا فیصلہ اور اعلان فرما دیتے ہیں تو کیایہ انسان، معاشرے، عدالت اور آئین و قانون کے ساتھ بدترین اور گھناؤنا ترین سلوک نہیں؟ کیا یہ تحقیقات پر پردہ ڈالنے کی کھلی اعانتِ جرم نہیں؟ کیا یہ روش بالآخر معاشرے کا نرخرہ نہیں دبا دے گی؟
دوسری بات، اگر قتل غیرت کا بھی ہو، توکیا ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام کا اس میں کوئی قصور نہیں. غیرت یا بےغیرتی کے نام پر کسی بھی طرح کے انسانی قتل کی اسلام کسی شخص کو قطعاًاجازت نہیں دیتا. اشتعال کے قتل کو اگرچہ عام قانون رعایت دیتاہے مگر اسلام اسے بھی قابلِ سزا قتل ہی گردانتا ہے. انارکی اور ظلم کبھی اسلام کو مقصود نہیں رہے. اسلام شرم وحیا کا رکھوالا دین ہے مگر اس نے شرم و حیا کو کسی انسان کی جان کی قیمت نہیں بننے دیا. لعان کے باب کا مطالعہ اس نادانی کے ازالے کی مفید دوا ہو سکتی ہے. یہ واضح ہے کہ اسلام فرشتوں کا دین نہیں، یہ زمیں زاد انسانوں کا دین ہے، اور انسان اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت اسلام کے ہاں محترم ہے. انسان کو اللہ تعالیٰ نے کامل اور فول پروف نہیں،گناہ اور خطا کرسکنے والا پیدا کیا ہے اور ضابطہ ٔ حیات دیتے وقت اسلام انسان کی سرشت کے اس جینیاتی کوڈ یا جبلت کے اس ڈی این اے کو بھول نہیں گیا. سو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ اسلام ایسے قتل کو قطعا گوارا نہیں کرتا. بلکہ اس باب میں تو ایسی وضاحت و صراحت آئی ہے کہ آپ کے کانوں کی لویں سرخ ہو اٹھیں. یہ کس قدر اہم بات ہے کہ حیا کو دین کی اساس قرار دینے والے اسلام نے انصاف اور انسانی جان کے تحفظ اور تحقیق کی خاطر کیسی کیسی چیزوں کا واشگاف اظہار گوارا فرمایا ہے. یہ ایک مستقل، الگ اور دلچسپ موضوع ہے.
ایک بات لیکن اور بھی ہمارے کرنے بلکہ نہ کرنے کی بھی ہے. ہمیں اس قتل کو عین اسلام ثابت کرنے سے باز رہنے اور اس کو اسلام کے خلاف دیرینہ عداوت کے اظہار کا وسیلہ بنالینے سے اجتناب کرنے کی شدید ضرورت ہے. اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم قندیل بلوچ کے غیر قانونی قتل کی حمایت کی آڑ میں اس قوم کے ضابطوں کا تمسخر اڑانے سے بھی باز ہی رہیں کہ اس سے فساد ہی اگر مطلوب ہے تو خیر ، ورنہ انسانیت کا کوئی فائدہ آپ یقینا نہ کر سکیں گے. بہتر یہی ہے کہ ہم اسلام پر عمل کی کوشش کرنے والوں کو بھی کسی حد تک انسان مان ہی لیں. دوسرے انسانوں کی طرح، ہمیں انھیں بھی یہ حق دے دینا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی اور آزادی سے اپنے قانونی اور اخلاقی ضابطوں میں جینے پر تمسخر کا نشانہ بننے سے بچ سکیں. ہمیں عمومی انسانی رویوں کو بھی مذہب کو دوش دیے بغیر انسانی سطح پر ہی دیکھنے اور قبول کر نے کی عادت بنا لینی چاہیے. ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ انسان فطرتا گنہگار ہونے کے باوجودب ھی اپنی فطرت ہی کی بدولت کھلے عام گناہ کی تحسین نہیں کرتا. ہم پرائیویسی کی بہت بات کرتے ہیں، اسلام بھی اس کا بہت بڑا داعی ہے، اور اسی ضمن میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک پرائیویسی معاشرے کی بھی ہوتی ہے. جس فرد کی پرائیویسی معاشرے کی پرائیویسی سے ٹکرائے گی، اسے پھر اس سائنسی اصول سے بھاگنا نہیں چاہیے کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل بھی ہوتاہے. یہ ایک سائنسی اصول ہے اور مکرر اس میں مذہب کا کوئی قصور نہیں، چنانچہ اگر کچھ لوگوں نے اس قتل پر نامناسب رویے کا اظہار کیا تو یہ عین اسی انسانی فطرت کا عکس ہے. کیا یہ غلط ہے کہ ہمارا دین و مذہب کچھ بھی ہو، ہماری غیرموجودگی میں لوگ وہی کہتے ہیں جیسے کہ ہم ہوں؟ درست ہے کہ لوگوں کوہماری غیبت سے باز رہنا چاہیے مگر ظاہر ہے ہمیں بھی اپنی پرائیویسی کو کچھ احتیاط سکھا ہی دینی چاہیے. ایک بات کا مجھے بڑا یقین ہے کہ اپنی ذت میں کوئی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ اپنی پرائیویسی کی حدود پر نگران رہتا ہے تو آخرت کی خداجانے، دنیا میں وہ انسان کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا.
آئیے ابتدائی بات کو ایک بار مکرر دہر ائیں. ہم چیزوں کو ان کے تناظر میں دیکھنا شروع کرلیں، اس سے معاشرہ مہک اٹھے گا. دیکھیے اگر آپ طنز اور تمسخر میں طاق اور صاحبِ تلوار ہیں تو مقابل کے پاس ممکن ہے یہ ہتھیار اتنا کارگرنہ ہو، لیکن دیکھیے، تنگ آکر وہ کوئی میسر فتویٰ اٹھا لائے گا اور یوں معاشرہ چین سے جی نہ پائے گا. یوں وہ اکیلا نہیں، اس کے فتویٰ لانے میں ہم نے بھی بغیر مفتی ہوتے ہوئے فتویٰ لانے میں اپنا بھرپور اور مرکزی کردار ادا کیا ہوگا، دوش اگرچہ ہم صرف اسے ہی دیتے رہیں. سو آئیے ہتھیار رکھ کے، کسی ایسے مشروب پہ، انسان کی فلاح کے لیے ہم مل بیٹھیں کہ جو ہم میں اور آپ میں برابر محترم ہو. آئیے طعن و تشنیع کے کسی وقفے میں ہم سب دلیل سے اک ایسی بات کہنا شروع کریں جو ہم سب کے فائدے کی ہو. آئیے ہم ایک دوسرے کو یہ سمجھنے دیں کہ ہم دونوں ہی اتنے برے نہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر دلیل ڈاٹ کام سے لی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم یوسف سراج صاحب کی بالا تحریر ، بہت ہی فکر انگیز ہے ، اور موضوع سے متعلق مزید نئے گوشوں کو سامنے لاتی ہے ... لیکن ایک بات نوٹ کی گئی ہے ، کہ کالم نگار صاحب خود اپنی شخصیت کو لپیٹ کر رکھتے ہیں ، اور کسی حتمی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں ، اس لیے ایک عام آدمی درست ، یا غلط کا فیصلہ کرنے میں الجھن کا شکار ہوجاتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
غیرت کے نام پر قتل ، دو باتیں

زاہد صدیق مغل
- بے نظیر کے قتل پر بے نظیر سے محبت کرنے والوں نے ملک میں کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچادیا اور سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا
- سیاسی ریلیوں، دھرنوں و احتجاجوں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا روز مرہ کا معاملہ ہے
- محلے میں کوئی ڈاکو ھاتھ چڑھ جائے تو لوگ مار مار کر اس کا حشر کردیتے ہیں
- ہر معاملے کے احتجاج میں لوگ سڑکیں بند کرکے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردیتے ہیں
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔بتائیے کیا یہ سب کام کسی مذھبی دلیل کی بنا پرکئے جاتے ہیں؟ کیا مولویوں نے لوگوں کو کہا ہے کہ تم احتجاج کرتے وقت توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھراؤ شروع کردیا کرو؟ یہ سب معاشرتی رویے لوگوں کے جذباتی ھیجان و عدم توازن (imbalance) کی علامت ہیں، انکی کوئی مذھبی توجیہہ نہیں۔ بعینہہ اگر کچھ لوگ غیرت کے نام پر کسی کا ناحق قتل کرگزرتے ہیں تو اس کا نہ تو کوئی مذھبی جواز ہے اور نہ ہی کوئی مذھبی توجیہہ، یہ صرف اور صرف ایک شخص کا جذباتی عدم توازن ہے، قریب قریب اسی طرح جیسے کچھ لوگ غصے میں معمولی بات پر گالم گلوچ کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کا جذباتی عدم توازن ہمارے یہاں کیا صرف غیرت کے جذبے کے ساتھ ہی منسلک ہے؟
اس ضمن میں دوسری اھم بات یہ کہ اگر کسی جائز جذبے یا کیفیت سے مغلوب ہوکر کوئی شخص حد اعتدال کو پار کرکے غلط کام کا ارتکاب کرگزرے تو صرف اسی حد تک اسکی مخالفت کی جاتی ہے کہ جس حد تک اس کا ناجائز اظہار کیا گیا، نہ یہ کہ اس جذبے یا کیفیت ہی کو آڑے ھاتھوں لینا شروع کرکے اس کی بیخ کنی شروع کردی جائے۔ اگر ایسا کرنا درست ہے تو ھمیں لوگوں کے احتجاج کرنے کے حق کو بھی ناجائز کہنا چاھئے کہ اسکی آڑ میں نجانے اب تک کتنے اربوں روپے کی قومی دولت کو نقصان پہنچایا جاچکا ہے نیز ھزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے رکنے کی کوئی امید نہیں، مگر اس سب کے باوجود ھم اس جمہوری حق کے بقا کے لئے جنگ کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ فی نفسہ اس تصور کو ھم جائز سمجھتے ہیں۔ غیرت کے لئے بھی یہی اصول یاد رکھنا چاھیے کہ یہ ہمارے خاندانی نظام کی بقا و استحکام کے لئے ایک کلیدی قدر ہے۔
 
Top