• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قنوت نازلہ میں بلند آواز سے آمین کہنا :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قنوت نازلہ میں بلند آواز سے آمین کہنا :

سوال:

مصیبت اور سنگین سانحہ رونما ہونے پر امام دعائے قنوت کرتا ہے، تو ایسی صورت میں مقتدی حضرات پر بلند آواز سے آمین کہنا ضروری ہے، یا دل میں بھی آمین کہہ سکتے ہیں؟ اور کیا امام نمازیوں کو بلند آواز سے آمین نہ کہنے پر ڈانٹ پلا سکتا ہے؟ آمین بلند آواز سے کہنا اگر واجب ہے تو اسکی مجھے دلیل چاہیے۔

الحمد للہ:

اول:

فقہائے کرام کا قنوت نازلہ کے دوران "آمین" کہنے کے طریقے کے بارے میں اختلاف ہے:

چنانچہ احناف کا موقف ہے کہ قنوتِ نازلہ میں سرے سے آمین نہیں ہے ؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ قنوت سرّی ہوتی ہے، تاہم امام بلند آواز سے قنوت کرے تو آمین کہی جاسکتی ہے۔

جبکہ شافعی اور حنبلی فقہائے کرام قنوتِ نازلہ میں آمین بلند آواز سے کہنے کے قائل ہیں۔

لیکن مالکی فقہاء کے ہاں قنوتِ نازلہ سرے سے جائز ہی نہیں ہے، اور آمین قنوت نازلہ کے تابع ہوتی ہے، چنانچہ ان کے ہاں قنوتِ نازلہ کے نہ ہونے کی وجہ سے آمین کا تصور بھی نہیں ہے۔


مزید کیلئے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (1/116)

"مغنی المحتاج" (1/361) میں ہے کہ:

"فائدہ: پانچ جگہوں پر مقتدی امام کے پیچھے آواز بلند کر سکتا ہے، چار جگہیں "آمین" سے تعلق رکھتی ہیں، یعنی: امام کے ساتھ سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہے، فجر کی نماز میں قنوت کے وقت آمین کہے، نصف رمضان کے بعد قنوت وتر میں آمین کہے، اور پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ کے وقت، اور پانچویں جگہ یہ ہے کہ جب امام تلاوت قرآن میں غلطی کرے تو مقتدی درستگی کیلئے آواز بلند کر سکتا ہے" انتہی

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر ہم پانچ نمازوں میں قنوت کو جائز کریں تو پھر جہری نمازوں میں تو واضح ہے کہ قنوت جہری ہوگی، اور اگر سرّی نمازوں میں قنوت کرنی ہے تو بھی جہری ہی ہوگی، جیسے کہ احادیث میں ثابت ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم قنوت کرتے اور صحابہ کرام آپکے پیچھے آمین کہتے، اور آمین اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب قنوت بھی جہری ہی ہو۔

چنانچہ آمین بلند آواز سے کہنا مسنون ہے، چاہے نماز سرّی ہی کیوں نہ ہو" انتہی

"الشرح الممتع" (4/47)

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام جہری قنوت کرے تو مقتدی کیلئے بھی جہری آمین کہنا شرعی عمل ہے، لیکن آواز بہت زیادہ بلند نہ کرے، کہ لوگوں کے خشوع و خضوع میں خلل پیدا ہو، جیسا کہ کچھ لوگ اتنی آواز بلند کرتے ہیں جس سے ایسے لگتا ہے جیسے کوئی مظاہرہ ہو رہا ہے، نماز نہیں پڑھی جا رہی۔

اور بلند آواز سے آمین کہنا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، بلکہ آمین کہنا بھی واجب نہیں ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/113994

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

===== قنوت نازلہ کا حکم؟=====

سوال:

میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب کو فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کرنے کا کہا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺنے قنوت کی تھی اللہ نے سورة آل عمران آیت نمبر128 میں آپ ﷺکو منع فرما دیا تو آپﷺ نے قنوت چھوڑ دی اب یہ جائز نہیں ہے۔ کیا ہمارے امام صاحب کی یہ بات صحیح ہے؟ دلیل سے واضح کریں۔

جواب:

رسول اللہﷺجب کسی قوم کے لیے دعا کرتے یا کسی پر بددعا کرتے تو فرض نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے قنوت کرتے تھے اور صحابہ کرامؓ آپﷺکی اقتداءمیں آمین کہتے تھے اور رسول اللہﷺ کا یہ عمل آپ کی پوری زندگی رہا ہے۔

دلیل - 1:

سیدنا ابو ہریرہؓنے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم سب سے زیادہ رسول اللہﷺکی نماز کے ساتھ مشابہ ہوں رسول مکرمﷺکی یہی نماز تھی حتیٰ کہ آپﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے پھر رسول اللہﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ رکوع سے سر اٹھا کر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور کچھ لوگوں کے نام لے کر ان کے لیے بددعا کرتے اور فرماتے اے اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ کو پکڑلے اور کمزور مسلمانوں کو نجات عطا فرما ، اے اللہ کفار پر اپنی پکڑ اور عذاب سخت کر دے اور ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی یوسف ؑکے زمانے میں تھی۔

(بخاری، کتاب الاذان، باب یھوی بالتکبیر حین یسجد، حدیث803، 804)

دلیل۲:

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے کہ رسول اللہﷺ مسلسل ایک مہینہ تک ظہر ، عصر، مغرب، عشاءاور صبح کی نماز کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد بنو سلیم کے قبائل رعل ، ذکوان، عصیہ کے لیے بددعا کرتے اور لوگ آپ کے پیچھے آمین کہتے۔

(ابو داﺅد کتاب الصلوٰة، باب قنوت فی الصلوات، حدیث: 1443)

اس کے علاوہ بھی رسول اللہﷺکی بہت سی صحیح احادیث ہیں جن میں مختلف نمازوں میں قنوت کرنا ثابت ہوتا ہے اور اس کے منع ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ جو بات آپ کے امام مسجد صاحب نے پیش کی ہے وہ غزوئہ احد کی بات ہے جب رسول اللہﷺ کا سر زخمی ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کر دیا۔ اس موقع پر آپﷺ نے نماز میں اور نماز کے علاوہ بھی صفوان بن امیہ ، سہیل بن عمرو، حارث بن ہشام اور ابو سفیان کے خلاف بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی 128 آیت نازل فرمائی۔

(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة احد، حدیث: 4069)
غزوئہ بیئرمعونہ کے موقع پر جب 70 صحابہ کرام کو دھوکے سے شہید کر دیا گیا تھا، نبی کریم مسلسل ایک مہینہ تک بددعا کرتے رہے۔ جنگِ احد ۳ ہجری میں ہوئی جبکہ بیئر معونہ کا سانحہ ہجری میں غزوئہ احد کے تین ماہ بعد ہوا ہے۔

(البدایہ و النہایہ، جلد 4، صفحہ72)
احد کے موقع پر اس آیت کے نازل ہونے سے قنوت منع ہو چکی تھی تو پھر تین ماہ بعد رسول مکرمﷺ مسلسل ایک مہینہ تک پانچوں نمازوں میں قنوت کیوں کرتے رہے اور آپﷺ کے بعد صحابہ ؓبھی قنوت کرتے رہے، ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ صبح کی نماز میں قنوت کروایا کرتے تھے۔

(السنن الکبریٰ، جلد۲، صفحہ۲۱۲)

لہٰذا بخاری کی صریح حدیث کے بعد کہ رسول اللہﷺدنیا کے رخصت ہونے تک قنوت کرتے رہے، قنوت منسوخ کیسے ہو گئی؟ آپﷺ کے بعد وحی نہ کسی پر اتری ہے اور نہ اترے گی۔ اس لیے اپنے امام صاحب سے کہیں کہ اپنی بات کی اصلاح فرما لیں۔


لنک
 
Top