- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
قوالی
جن اُمور سے شیطانی ''احوال'' کو سب سے بڑی تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان میں سے گانا اور آلاتِ موسیقی کا سننا ہے اور یہ مشرکین کا سماع ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَۃً ۰ۭ (الانفال: ۸؍۳۵)
''بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجانے کے سوا اور ان کی نماز ہی کیا ہے۔''
سیدناابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم اور دیگر سلف صالحین کا قول کہ تصدیہ سے مراد ہاتھ سے تالیاں بجانا اور مکائِ صفیر سیٹی کی مانند ہے۔ مشرکین اسے عبادت سمجھتے ہیں اور نبیﷺاور ان کے صحابہ کی عبادت وہ ہے جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ یعنی نماز، قرأت ، ذکر وغیرہ اور شرعی مجالس۔
نبیﷺاور ان کے صحابہ کرام نے گانے کی مجلس میں کبھی شرکت نہیں کی۔ نہ ہاتھوں سے تالیاں بجائیں۔ نہ دف استعمال کیے۔ نہ ان کو وجد آئے اور نہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی چادر گری۔ نبی ﷺ کی حدیث سے آگاہی رکھنے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب جمع ہوتے تھے تو کسی ایک کو قرآن پڑھنے کا کہتے تھے اور باقی سنا کرتے تھے۔
سیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں ہمارا پروردگار یاد دلائو۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ قرآن پڑھتے اور وہ سنتے تھے۔ ایک مرتبہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قرآن پڑھ رہے تھے اور نبی اکرم ﷺ کا ان کے پاس سے گذر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کل رات میں تمہارے پاس سے گذرا اور تم قرآن پڑھ رہے تھے۔ میں تمہاری قرأت کو سنتا رہا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگر مجھے علم ہوتا کہ آپﷺسن رہے ہیں تو میں آپ کو سنانے کے لیے بہت اچھا کر کے پڑھتا۔
(رواہ ابویعلی کما ذکر الحافظ فی الفتح فھو حسن عندہ ۔ (ازہر عفی عنہ))
چنانچہ نبیﷺنے فرمایا ہے:
زَیِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ۔
(ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب کیف یستحب الترتیل فی القراء ۃ رقم: ۱۴۶۸، نسائی کتاب الصلوۃ باب تزیین القرآن بالصوت، رقم: ۱۰۱۶۔۱۰۱۷، مسند احمد، ۴؍۲۸۳)
''اپنی آوازوں سے قرآن کو زینت دو۔''
نبیﷺفرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ اچھی آواز والے مرد کی قراء ت کو اس قدر خوش ہو کر سنتا ہے کہ صاحب کنیزکی اپنی خوش الحان کنیز کے گانے سے اس درجہ مسرت اندوز نہیں ہوتا۔
(ابن ماجہ،کتاب الصلوۃ،باب حسن الصوت بالقرآن، رقم:۱۳۴۰۔ مسنداحمد۶؍۱۹۔ البانی صاحب نے اسے ضعیف کہاہے، ضعیف الجامع،رقم:۴۶۳۳۔)
نبیﷺنے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ
مجھ پر قرآن پڑھو۔ انہوں نے عرض کی کہ آپکو پڑھ کر سنائوں؟۔ حالانکہ آپﷺہی پر قرآن نازل ہوا ہے۔ فرمایا میں دوسروں سے سننا پسند کرتا ہوں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ نساء پڑھ کر سنائی۔ جب اس آیت تک پہنچے:
فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا ۴۱ۭ۬ (النساء: ۴؍۴۱)
''بھلا تو اس دن کیا حال ہونا ہے، جب سب لوگ جمع ہوں اور ہم ہر امت کے گواہ یعنی رسول کو طلب کریں گے جو ان کی نسبت گواہی دے اور اے پیغمبر(ﷺ)! ہم تم کو بھی طلب کریں کہ اپنی امت کے لوگوں کی نسبت گواہی دو۔''
تو آپﷺنے فرمایا
''بس'' ۔ اور اس وقت آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب من احب ان یستمع القرآن من غیرہ مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب فضل استماع القرآن، رقم: ۱۸۶۷۔)
اس طرح کا سماع نبیوں اور ان کے پیروئوں کا سماع ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے:
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّۃِ اٰدَمَ ۰ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۰ۡوَّمِنْ ذُرِّيَّۃِ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۰ۡوَمِمَّنْ ہَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۰ۭ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا ۵۸۞ (مریم: ۱۹؍۵۸)
''یہ وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء میں سے فضل کیا ، اولاد آدم میں سے اور منجملہ ان کے جن کو ہم نے (طوفان کے وقت کشتی میں) نوح علیہ السلام کے ساتھ سوار کر لیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی نسل میں سے اور ان لوگوں میں سے جن کو ہم نے راہ راست دکھائی اور منتخب فرمایا۔ جب رحمن کی آیتیں پڑھ کر ان کو سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گرپڑتے تھے اور روتے جاتے تھے۔''
Last edited: