• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لاہور میں عیسائی قرآن پڑھوانے لگے ؟؟؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
گزرنا سن دو ہزار بارہ کا | اردو محفل فورم
مندرجہ بالا لنک میں عبدالرزاق قادری لکھتے ہیں کہ:
اکیس دسمبر 2011کو مجھے میرے دوست سید حسنین شاہ، محمود صاحب کے دفتر لے کر گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کہ ٹیلی-سیلز کی کمپنی ہے اور اب دوسرے ممالک میں قرآن مجید پڑھانے کے ادارے کا سوچ رہے ہیں۔میں نے چائے کے دوران اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔(میرا جی چاہ رہا تھا کہ مجھے چائے ملے) انہوں نے میرے خیالات سے ہم آہنگی ظاہر کی۔ مجھ سے میری تعلیم وغیرہ کا پوچھا۔ اور مطلوبہ تنخواہ کا بھی دریافت کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے شراکت دار کیریل قیسیڈی جارج سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں حیران ہوا کہ عیسائی پارٹنر کے ساتھ مل کر قرآن پاک کی تعلیمات عام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دو تین روز کے بعد دوبارہ شاہ صاحب کے ساتھ وہاں گیا تو مجھے مجوزہ ویب سائٹ، میرے کام کا دورانیہ اور تنخواہ وغیرہ کے بارے بتا دیا گیا اور میں نے اس تنخواہ پر حامی بھر لی۔ اب مجھے جنوری 2012 کے آغاز تک کا انتظار کرنے کو کہا گیا۔ جنوری کی پہلی تاریخوں میں سے میں نے فون پر ایک کال کی تو محمود علی ملک صاحب نے مجھے ایک ہفتہ مزید انتظار کا کہا کہ ویب سائٹ تیار ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں بے روزگار تھا۔ ایک بے چین سی کیفیت تھی بہر حال انتظار کیا اور 9 جنوری کو پہلی حاضری ہوئی۔ لیکن ابھی طالب علم ایک بھی نہ تھا۔ دفتر میں شام 6سے 9 بجے تک ایک ٹیم آتی تھی جو امریکہ میں سیلز کا کام کرتی تھی اور دوسری ٹیم 9 سے صبح 6 بجے تھی میں بھی آخرالذکر کے اوقات میں آتا رہا۔ تمام سیلز-ایجنٹ عیسائی تھے۔ (ان میں سے بیشتر ابھی تک کام کررہے ہیں)رات کو میرے ساتھ داؤد اور ایلن ہوتے تھے۔ محمود صاحب رات ایک بجے کے بعد گھر چلے جاتے اور کیریل صاحب ہمارے ساتھ رہتے۔یہ دفتر فیصل ٹاؤن کے سی بلاک میں تھا۔ داؤد اور ایلن تین بجے رات کے بعد قرآن ٹیچنگز کے لیے امریکہ اور کینیڈا میں کالز کرتے جبکہ اس سے پہلے وہ آئی ٹی ٹریننگ کی ایک امریکن کمپنی کے لیےکالز کرتے۔ ایلن اور داؤد انتہائی تجربہ کار ایجنٹ تھے۔ شام کی ٹیم بھی تجربہ کار اور ماہر تھی۔ محمود صاحب آن لائن قرآن کے لیے کالرز کو بھرتی کرنے کے لیے اشتہارات دینے لگے۔ کچھ نوجوان آئے بھی لیکن ایک رات کام کرنے کے بعد دوبارہ نہ آتے۔ فروری کے آخر میں محمود صاحب کی بھانجی کو امریکہ میں پڑھانے سےآغاز ہوا۔ انہی دنوں مجھے انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کرتے ہوئے اردو محفل فورم مل گیا۔وہاں بھی متعارف ہوا۔ پھر کینیڈا سے ایک کنبے کے تین بچے(عبداللہ 19 سال ، ارسلان 17 سال اور حمزہ 14 سال) پڑھانے سے پہلی سیل ہوئی جو داؤد کی تھی(یاد رہے داؤد بھی عیسائی تھا پھر اپریل میں یا بعد میں یہاں سے چھوڑ گیا تھا) بعد ازاں آسٹریلیا میں قسمت آزمائی کی سوجھی تو میرے اوقات کار صبح چار بجے سے دن کے ایک بجے تک ہو گئے۔ داؤد اور ایلن صبح کے چھے بجے آنے لگے۔یہ مارچ کا مہینہ تھا انہی دنوں میرا ایک دوست عبدالغفار وکی بھی سیلز ٹیم کا حصہ بنا لیکن چند دن کے بعد جاری نہ رکھ سکا۔ دفتر میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے والا ولایت علی تھا جو ننکانہ کے علاقے سے تھا۔ جنوری سے میں گھر میں چند ایک لوگوں کو سکول کی ٹیوشن بھی دیتا تھا وہ بھی مارچ کے اختتام تک جاری رہیں تعلیمی دورانیے کےاختتام کے بعد میں نے ان سے معذرت کر لی۔ 31 مارچ بروز ہفتہ کو دفتر وہاں سے برکت مارکیٹ میں شفٹ ہو گیا۔ 2 اپریل سے میں مسلسل تمام کاروباری دنوں میں یہاں آ رہا ہوں۔ ماسوائے عید الفطر کی تین، عید الاضحیٰ کی تین اور دو وہ چھٹیاں جن دنوں مَیں دو بار شدید بیمار ہوا۔ یہاں آتے ہی مزید لوگ سیلز ٹیم میں بھرتی کے لیے آئے۔ کچھ چلے بھی گئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر سعدیہ یعقوب ہیں جو تا حال اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مذہب ان کا بھی عیسائیت ہے۔ اس دوران بہت سے واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے۔ ستمبر میں ایک اور قرآن ٹیچر محمد زید مصطفیٰ اور اکتوبر میں قاری محمد زبیر صاحب بھی میری ٹیم کا حصہ بن گئے۔ اب ایک قاریہ کو بھی بھرتی کیا جا چکا ہے۔

میں نے کئی بار Caral Cassidy George سے گھنٹوں گفتگو کی ہے۔ ایک نفیس انسان ہیں جو خال خال ہوتے ہیں۔
محمود علی ملک بتاتے ہیں
ان سے میں نے ایک بار سوال کیا تھا کہ آپ نے یہ خدمت، عبادت یا تجارت کیا سمجھ کر قرآن کی تعلیمات کا آغاز کیا۔ تو مندرجہ ذیل جواب ملا تھا۔
کہ اس سے پہلے کیرل صاحب مسجد سے بچوں کو دفتر لا کر قرآن خوانی کراتے تھے۔
اور تقریبا تینوں چیزیں ذہن میں رکھ کر۔ بلکہ دوسرے اداروں کی سیلز کے ساتھ اپنا ادارہ بھی قائم ہوا وغیرہ وغیرہ E-Learning Holy Quran
گلوبل بی پی سولوشن کا ایک پروجیکٹ ہے، جس کا لنک یہ ہے۔
:: Global BPO Solutions ::

اہل علم حضرات اور مؤثر دینی اداروں کا فرض ہے کہ ان کی چھان بین کرکے عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
19
ابھی ابھی میری یہ تحریر یہاں بغیر اجازت کے لکھی ہوئی ملی۔ رجسٹر ہوا۔ اور آگیا ہوں۔ شکر ہے کہ تحریر پر ابھی تک نام میرا ہی ہے۔
عنوان " لاہور میں عیسائی قرآن پڑھانے لگے ؟؟؟" کی بجائے تھوڑا سا بدل دیا جائے تو بہتر رہے گا۔ کیونکہ پڑھاتے تو ہم(عبدالرزاق قادری ، زید مصطفیٰ(اہل سُنت وجماعت) اور قاری زبیر صاحب اور ایک قاریہ(دیوبندی)) سب مسلمان ہی ہیں۔ ادارے میں کیرل صاحب کی شراکت ہے۔ جو کہ ابتداء میں صرف کال سنٹر تھا۔ دوسرے شعبہ جات کی کی کمپینز ہنوز جاری ہیں۔ E Learning Holy Quran صرف ایک شعبہ ہے۔ جہاں تک تعلق "اہل علم حضرات اور مؤثر دینی اداروں کا فرض ہے کہ ان کی چھان بین کرکے عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں" کا ہے تو یوسف صاحب(مراسلہ پیسٹ کرنے والے) کے پاس میرا فون نمبر بھی ہے۔ تشریف لے آئیں۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
19
ادارے میں اپریل سے لے کر درجنوں لوگ کال سنٹر کے لیے آئے اور گئے(ان میں سوائے ایک دو کے سب مسلمان تھے) لیکن سعدیہ یعقوب چونکہ ابھی تک یہیں کام کر رہی ہے۔ اُس کو قابل ذکر اس لیے کہا کہ ہمارے ہوں سیلز کا کام ہے۔ جو کوئی سیل نہ کر پائے پھر وہ کمیشن کما بھی نہیں پاتا اور چھوڑ جاتا ہے۔ اس لیے ایک لمبے عرصے تک دن کی شفٹ میں سعدیہ نے کام کیا۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ میں کسی عدالت میں اپنی صفائی پیش کر رہا ہوں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ابھی ابھی میری یہ تحریر یہاں بغیر اجازت کے لکھی ہوئی ملی۔ رجسٹر ہوا۔ اور آگیا ہوں۔ شکر ہے کہ تحریر پر ابھی تک نام میرا ہی ہے۔
عبد الرزاق بھائی، سب سے پہلےاس فورم پر خوش آمدید۔ آپ کی یہ تحریر میں نے جہاں سے ”لفٹ“ کی ہے، اس کا پورا حوالہ دیا ہے۔ اور تحریر میں اپنی طرف سے کوئی رد و بدل نہیں کیا ہے۔ جہان تک ”اجازت“ کی بات ہے تو کسی بھی اوپن فورم کی کوئی بھی تحریر ”کاپی رائیٹ“ کے تحت محفوظ تصور نہیں کی جاتی، الا یہ کہ ایسا صاف صاف لکھ دیا جائے۔ آپ نے اُس فورم میں اپنی کسی تحریر کے ساتھ ایسا کچھ نہیں لکھا کہ: میری اس تحریر کے جملہ حقوق میرے نام محفوظ ہیں، اسے بلا اجازت کہیں اور نقل نہیں کیا جاسکتا“ آپ فوراً سے پیشتر نیٹ پر موجود اپنے تمام مضامین کے سامنے یہ جملہ لکھ دیں، ورنہ کوئی اور بھی آپ کی تحریر ”چُرا‘ سکتا ہے :)
عنوان " لاہور میں عیسائی قرآن پڑھانے لگے ؟؟؟" کی بجائے تھوڑا سا بدل دیا جائے تو بہتر رہے گا۔ کیونکہ پڑھاتے تو ہم(عبدالرزاق قادری ، زید مصطفیٰ(اہل سُنت وجماعت) اور قاری زبیر صاحب اور ایک قاریہ(دیوبندی)) سب مسلمان ہی ہیں۔
جزوی متفق ہوں۔ ایڈمن سے گذارش ہے کہ اسے یوں کر دیں۔ ”لاہور میں عیسائی قرآن پڑھوانے لگے“ اب تو صحیح ہوگا نا کہ آپ مسلمان لوگ عیسائی اسپانسرز سے تنخواہیں لے کر قرآن پڑھا رہے ہیں۔ گویا عیسائی قرآن پڑھوا رہے ہیں۔ ویسے چونکہ ادارے کے مالکان اور اسپانسرز عیسائی ہیں، لہٰذا موجودہ عنوان بھی تیکنیکی طور پر درست ہے کہ: لاہور میں عیسائی (ادارہ) قرآن پڑھانے لگا۔

ادارے میں کیرل صاحب کی شراکت ہے۔ جو کہ ابتداء میں صرف کال سنٹر تھا۔ دوسرے شعبہ جات کی کی کمپینز ہنوز جاری ہیں۔ E Learning Holy Quran صرف ایک شعبہ ہے۔
بالکل درست ایک عیسائی کمپنی مالکان کے ادارے کا ایک ذیلی شعبہ قرآن کی تعلیم دے رہا ہے۔ اسی پر تو مجھے حیرت ہے
جہاں تک تعلق "اہل علم حضرات اور مؤثر دینی اداروں کا فرض ہے کہ ان کی چھان بین کرکے عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں" کا ہے تو یوسف صاحب(مراسلہ پیسٹ کرنے والے) کے پاس میرا فون نمبر بھی ہے۔ تشریف لے آئیں۔
اول تو مین لاہور میں نہیں ہوں کہ خود اس ادارے کو چیک کرسکوں۔ تاہم میں نے ”مقتدر حلقوں“ تک یہ بات پہنچا دی ہے۔ آپ سے کچھ پوچھنا ”فضول“ تھا کہ اسی فورم میں میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور آپ کا جواب تسلی بخش نہ تھا بلکہ آپ تو ہنوز مطمئن ہیں، ایک عیسائی ادارے کے پے رول پر قرآن پڑھاتے ہوئے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جاوید چوہدری کا ٢٠٠٧ مین لکھا گیا ایک کالم:

اِسلام کو قابلِ نفرت بنانے کی عالمگیر مہم ۔ ۔ ۔ این کاؤنٹرٹو

"این کاؤنٹر" ( اسے پیرس ریویو بھی کہتے تھے) دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد دنیا میں کمیونزم کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلو ع ہوا۔ آفسٹ پیپر پر جدید ترین پرنٹنگ سسٹم کے تحت شائع ہونے والا یہ رسالہ پیرس کی بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ریلوے اسٹیشنوں سے نکلتا اور پھر چند ہی روز میں دنیا بھر کے ٹی ہاؤسز، کافی شاپس اور شراب خانوں میں پہنج جاتا، جہاں نہ صرف اس کی ایک ایک سطر کو الہام سمجھ کر پڑھا جاتا بلکہ ایمان کا درجہ دے کر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ اگر ہم مار کسی نظریات، مارکسزم کے پیروکاروں کے حلیوں اور ان کے متشدد نظریات کے تاریخ کھود کر نکالیں تو ہمیں "این کاؤنٹر" ہی ملے گا، جس نے پوری دنیا میں بھوک کو مضبوط ترین فلسفہ بنا دیا۔ یہ این کاؤنٹر ہی تھا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے بال بڑھا لئے، غسل کرنے کے عادت ترک کر دی، مارکسی لٹریچر کو مقدس سمجھ کر ایک ایک لفظ رٹ لیا، بیویوں کو طلاقیں دے دیں اور بچوں کو "ان امیروں کو لوٹ لو" کا درس دینا شروع کر دیا۔

رسالے کے پیچھے کروڑوں روبل تھے، دنیا کے ذہین ترین مار کسی دماغ تھے، ماہر صحافی تھے، انتہائے زیرک نقاد اور دانشور تھے، لہذا اس دور میں اس سے بڑھ کر معیاری، جامع اور پراثر جریدہ دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سپیڈر، آڈن اور مارلو جیسے دانشور اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک بین الاقوامی مجلس ادارت تھی، جو دنیا بھر سے موصول ہونے والے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا کڑی نظر سے جائزہ لیتی، انہیں مار کسے کسوٹی پر پرکھتی، زبان و بیان کے غلطیوں کی نشاندہی کرتی، اعداد و شمار اور حقائق کی صحت کا اندازہ لگاتی۔ تسلی کے بعد یہ مضامین سیلف ڈیسکوں پر چلے جاتے، جہاں اپنے وقت کے ماہرین ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے، ان کی نوک پلک سنوارتے۔ اس کے بعد ایک اور شعبہ اس ترجمے کا جائزہ لیتا، اس میں پائی جانے والی جھول، سقم اور لفظی کوتاہیاں درست کرتا۔ آخر میں جب اشاعت کا مرحلہ آتا تو انتظامیہ انگریزی ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اصل متن ( جو مختلف زبانوں میں ہوتا) بھی چھاپ دیتی، تاکہ اگر ترجمے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو قارئین اصل مضمون دیکھ کراسے درست کر لیں۔ اس کڑے معیار، انتخاب اور عرق ریزی کے باعث ناقدین "این کاؤنٹر" کو کمیونزم کی ترویج میں وہ مقام دیتے تھے جو شاید کارل مارکس اور لینن کو بھی نصیب نہیں تھا۔

لیکن قارئین کرام! المیہ دیکھئے "این کاؤنٹر" کی اشاعت کے دس پندرہ برس بعد انکشاف ہوا کہ جسے دنیا کمیونزم کی بائبل سمجھ رہی تھی، دراصل سی آئی اے کا منصوبہ تھا اور امریکی خفیہ اِدارے کے ہیڈ کوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ڈپٹی سیکرٹری رینک کا ایک امریکی، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور کچھ خفیہ ٹیلیفون کالز کے ذریعے برسوں تک پوری اشتراکی دنیا کو بیوقوف بناتے رہے، ان کے نظریات میں زہر گھولتے رہے، یہاں تک کہ کمیونزم کے ٹارگٹ ممالک میں مقامی سطح پر کمیونزم کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔

عرصے بعد جب این کاؤنٹر پراجیکٹ کا چیف، ثقافتی یلغار کے ایک سیمینار میں شرکت کے لئے پیرس گیا تو شرکاء نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ بوڑھے ریٹائرڈ امریکی نے ہیٹ اتار کر سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر جھک کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پوچھنے والوں نے پوچھا "سر! آپ نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟" بوڑھا امریکی مسکرایا اور پھر مائیک کو انگلی سے چھو کر بولا: "ینگ میں ویری سمپل، ہم نے کمیونزم کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا"۔ ایک اور نوجوان اٹھا اور بوڑھے سے مخاطب ہو کر بولا: "لیکن جریدے کے سارے منتظمیں تو کمیونسٹ تھے اور جہاں تک ہماری معلومات ہیں، سی آئی اے کا ان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا"۔

بوڑھے نے قہقہ لگایا اور پھر دوبارہ مائیک کو چھو کر بولا: "نوجوان ہاں، ہمارا این کاؤنٹر کی انتظامیہ، اس کے ایڈیٹوریل بورڈ اور اس کے کمیونسٹ ورکرز سے کوئے تعلق نہیں تھا، لیکن دنیا کے مختلف کونوں سے این کاؤنٹر تک پہنچنے والے مضامیں تو ہم لوگ ہی لکھواتے تھے"۔ ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور بوڑھے کو ٹوک کر بولا: "لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟" بوڑھا آہستہ سے مسکرایا اور پھر مائیک چٹکی میں پکڑ کر بولا: "بہت کچھ ہوتا ہے، ینگ مین! تم خود فیصلہ کرو، جو بائبل ایسے احکامات دے جو انسانی فطرت سے متصادم ہوں، جو انسان کو آزادی سے سوچنے، بولنے اور عمل کرنے سے روکتے ہوں، جو لوگوں کو بدبودار کپڑے پہننے، شیو نہ کرنے، دانت گندے رکھنے، اور گالے دینے کا درس دیتی ہو، وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہو گی؟ ہم نے یہی کیا۔ این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کو بے لچک، متشدد اور سخت مؤقف کے حامل افراد ثابت کر دیا جس کے بعد تیسری دنیا میں ان لوگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اٹھیں اور ہمارا کام آسان ہو گیا"۔ یہاں پہنچ کر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بوڑھا نشست سے اٹھا، دوبارہ ہیٹ اتار کر ہوا میں لہرایا، سینے پر ہاتھ رکھا اور سٹیج کے اداکاروں کی طرح حاضرین کا شکریہ ادا کرنے لگا۔

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور میں جب بھی محفلوں میں "پڑھے لکھے" خواتیں و حضرات کے منہ سے علماء کرام کے خلاف "فتوے" سنتا ہوں، نوجوانوں کو اسلام کو (نعوذ باللہ) قدیم، فرسودہ اور ناقابلِ عمل نظام قرار دیتے دیکھتا ہوں، شائستہ، خاموش طبعہ اورذکر اللہ سے جھکے ہوئے لوگوں کو "مولوی" کے نام سے مخاطب ہوتا دیکھتا ہوں، ہاں! میں جب مسجد کے سامنے کلاشنکوف بردار گارڈ دیکھتا ہوں، مختلف مذہبی رہنماؤں کو کیل کانٹے سے لیس باڈی گارڈز کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ اخبارات، رسائل و جرائد کی پھیلائی ڈس انفارمیشن پرمدرسوں کے معصوم بچوں کو سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے دیکھتا ہوں، تو میں سوچتا ہوں کہیں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے کسی کمرے میں بیٹھا کوئی ڈپٹی سیکرٹری، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور ٹیلی فون کی کچھ کالز کی مدد سے اسلام کو اسلامی دنیا میں اجنبی بنا رہے ہوں، اسے فرسودہ، ناقابلِ عمل اور انسانی فطرت کے خلاف نظام ثابت نہ کر رہے ہوں؟

قارئین کرام! اگر آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو آپ مجھ سے پورا اتفاق کریں گے کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی، مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا، مدرسے کو مدرسے کے ذریعے جتنا قابلِ نفریں ثابت کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام (نعوذ باللہ) کیا گیا، اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بیانات، خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔

یقین کیجئے، جب کوئی نوجوان بڑی نفرت سے کہتا ہے یہ "مولوی" تو فوراً میرے دماغ میں ایک بوڑھے امریکی کی تصویر اُبھر آتی ہے، جو مائیک کو چٹکی میں پکڑ کر کہتا ہے " ویری سمپل، ہم نے اسلام کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا" اور بوڑھا کہتا ہے: " ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ جس مذہب میں ایک مولوی دوسرے مولوی کے پاس بیٹھنے کا روادار نہیں، وہ مذہب جدید دنیا کے انسانوں کے لئے کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ جو لوگ معمولی سا اختلاف برداشت نہیں کرسکتے، اپنی مسجد میں کسی دوسرے مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے، وہ جمہوری روایات کی پاسداری کیسے کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں، جو ہر سوال کا جواب پتھر سے دیتے ہیں"۔
ہاں، رات کے آخرے پہر جب گلی کی ساری بتیاں کہر کی چادر اوڑھے سو چکی ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو "این کاؤنٹر پراجیکٹ ٹو" کی فائل پڑھ سکے۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
19
یوسف صاحب! میری تربیت عالَم اسلام کے عظیم عالِم مفتی اعظم پاکستان محمد ارشد القادری نے کی ہے۔ ورنہ میں بھی مناظرانہ طرزِ بیان اختیا کر لیتا۔ غالب نے کہا تھا ناں!
ہے کچھ ایسی ہی بات ،جو چپ ہوں
ورنہ ،کیا بات کر نہیں آتی​
آپ لاہور میں تشریف لے آئیں۔ ورنہ میری اردو محفل فورم کے چند احباب سے عیدالفطر والی عید ملن پارٹی میں ملاقات ہوئی تھی۔ ان میں ساجد، پردیسی، عاطف بٹ، باباجی(فراز شاہ) اور حسیب نذیر گل شامل ہیں۔ ان میں سے کسی سے رابطہ فرما لیں۔ جہاں تک آپ کے مضامین پیسٹ کرنے کا تعلق ہے تو میرے پاس کہیں زیادہ مستند تحقیقی مواد اور ہزار گناہ سخت لہجے میں بات کرنے کا راستہ بھی ہے۔ لیکن میں تو ایسا ہرگز نہیں کروں گا ان شاءاللہ خاص طور پر اپنی ذات کے دفاع میں کیونکہ میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے حلم۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے۔ ہمارا مزاج لٹھ بردار نہیں ہے۔ اور جاوید چودھری کے فتوے کی مجھے ہر گز پرواہ نہیں وہ قلم کی عزت بیچنے والوں میں سے ہے۔ میں اپنے ہر بیان کی دلیل میں ایک نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتا۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اور ہم سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
عبدالرزاق بھائی!
آپ بات کو کہاں سے کہاں لے گئے۔ مین مکلامہ کیا کرتا ہوں، مناظرہ نہیں۔ اگر آپ ایک عیسائی ادارے کی جانب سے قرآن کی ٹیچنگ پروگرام کو درست سمجھتے ہیں، تو سمجھتے رہئے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اللہ ہم سب کو دین کی تبلیغ کے لئے درست اسلامی طریقہ اپنانے کی توفیق دے آمین۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
19
یوسف صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
گزرنا سن دو ہزار بارہ کا | اردو محفل فورم
مندرجہ بالا لنک میں عبدالرزاق قادری لکھتے ہیں کہ:
اکیس دسمبر 2011کو مجھے میرے دوست سید حسنین شاہ، محمود صاحب کے دفتر لے کر گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کہ ٹیلی-سیلز کی کمپنی ہے اور اب دوسرے ممالک میں قرآن مجید پڑھانے کے ادارے کا سوچ رہے ہیں۔میں نے چائے کے دوران اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔(میرا جی چاہ رہا تھا کہ مجھے چائے ملے) انہوں نے میرے خیالات سے ہم آہنگی ظاہر کی۔ مجھ سے میری تعلیم وغیرہ کا پوچھا۔ اور مطلوبہ تنخواہ کا بھی دریافت کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے شراکت دار کیریل قیسیڈی جارج سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں حیران ہوا کہ عیسائی پارٹنر کے ساتھ مل کر قرآن پاک کی تعلیمات عام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں
یہ اوپر والے الفاظ آپ ہی نے پیسٹ کیے ہیں۔ اگر پہلے پڑھ لیتے تو اچھا تھا۔
عبدالرزاق بھائی!
آپ بات کو کہاں سے کہاں لے گئے۔ مین مکلامہ کیا کرتا ہوں، مناظرہ نہیں۔ اگر آپ ایک عیسائی ادارے کی جانب سے قرآن کی ٹیچنگ پروگرام کو درست سمجھتے ہیں، تو سمجھتے رہئے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اللہ ہم سب کو دین کی تبلیغ کے لئے درست اسلامی طریقہ اپنانے کی توفیق دے آمین۔
آپ کو ابھی تک اردو محفل فورم پر لکھی ہوئی میری تحریر کی سمجھ ابھی تک نہیں آ سکی شاید۔ ایک بار دوبارہ سارا متن دیکھیں شاید کچھ پتہ چلے کہ میں نے کیا لکھا ہے وہاں۔ اور اپنا مزاج اور معلومات کے انبار سے زاویہ فکر بھی جانچیں کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں میں کیا عرض کر رہا ہوں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
عبدالرزاق بھائی،
ہمیں بیک گراؤنڈ کا علم نہیں ہے۔ اب تک کی گفتگو سے جو کچھ سمجھ آیا وہ یہ کہ کوئی عیسائی ادارہ بچوں کو قرآن کی تعلیم دلوا رہا ہے۔ اور یہ تعلیم دینے والے مسلمان بھی ہیں اور کم سے کم ایک عیسائی خاتون بھی ہیں جو قرآن کی تعلیم دے رہی ہیں۔ یوسف صاحب سمیت ہم سب کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کسی عیسائی ادارے کا قرآن کی تعلیم دلوانے میں کیا نیک جذبہ کارفرما ہو سکتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کو بھی شروع میں حیرانگی ہوئی، لیکن وہ حیرانگی زائل کیسے ہوئی، آپ کی تحریر میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔
جو احباب اس گفتگو میں شروع سے شامل نہیں، ان کے لئے اگر آپ تھوڑی وضاحت کر دیں کہ اس تعلیم قرآن کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں۔ تو ہم سب کو بات سمجھنے میں سہولت ہوگی۔ مناظرہ کرنا یا ایک دوسرے کے لئے سخت لب و لہجہ کا استعمال کرنا نہ تو کسی مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی افہام و تفہیم میں کوئی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ آپ دونوں حضرات صاحب علم ہیں، آپ سے اچھے انداز میں گفتگو کی توقع ہے۔
 
Top