• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ تراویح کا معنی بتادیں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لہٰذا مچھر کو اس مکھی والی حدیث پر قیا نہیں کیا جائے گا
لہٰذا مچھر کو اس مکھی والی حدیث پر قیا نہیں کیا جائے گا، بلکہ مچھر کا حکم عام حشرات کے حکم میں آئے گا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن نواز بھائی! جب کسی کو جواب ارسال کریں تو اُسے پہلے بغور ایک بار ضرور پڑھ لیں اور اگر کوئی املاء کی غلطی ہو تو اُسے درست کر کے آگے جواب دیں! جیسا کہ بالا اقتباسات میں لفظ "قیاس" مکمل نہیں لکھا گیا..
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔ جی شکریہ آئندہ احتیاط کرونگی۔۔۔۔
اور یہ ایک روایت سے کچھ لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اس کا مصداق سمجھتے ہیں۔ ؟ کیا آئمہ متقدمین نے بھی اس سے مراد یہی لی تھی۔ یا کچھ اور تھی اُن کی مراد؟ پلیز تفصیل سے بتادیں۔ @ابن داؤد

حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ۔

آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا ۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تب بھی ان لوگوں ( یعنی فارس والوں ) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا ۔
صحیح البخاری : 4897

Sent from my XT1058 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
جی ، انہوں نے اسکین کا مطالبہ کیا تھا۔ میں یہیں سے کاپی کرکے دے چکی ہوں انہیں۔ اللہ آپ ست راضی ہو اٰمین

Sent from my XT1058 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
یہ پکچر بھی دی ہے انہوں نے۔۔۔ @ابن داؤد


Sent from my XT1058 using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان شاء اللہ رات کو اس کا تفصیلی جواب لکھتا ہوں!
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔
جی ضرور۔۔۔۔
اور یہ لنک دیکھ لیں۔۔۔ اور طریقہ کار بتادیں اس فارم کو کس طرح پُر کرنا ہے۔ اور کچب سوالات کے جوابات بھی معلوم کرنے ہیں اسی میں سے۔۔۔۔

مكتب دعوت وارشاد ربوہ ریاض كی طرف سے سالانہ منعقد ہونےوالا ثقافی مسابقہ برائے اردو گذشتہ سالوں كی طرح سال رواں 1438 مطابق 2017 میں آن لائن پیش ہے ، سابقہ روایات كی طرح علمی مفید كتاب ، سوالات اور كامیاب ہونے والے خوش نصیبوں كے لئے انتہائی پر كشش انعام آپ تمام محبین اردو كی خدمت میں پیش ہے ، بڑی تعداد میں شریك مسابقہ ہوكر علمی و مادی فوائد سے مستفید ہوں ، آپ كی سہولت كی خاطر یہ لنك https://goo.gl/forms/hzfjb9BJSnOwz9NR2 دی جارہی ہے ،ممكن بھر اسے شیر اور سینڈ كریں ، اور اس دعوتی كام میں اپنی حصہ داری درج فرما كر دنیا و آخرت كی سرخروئی سے سرفراز ہوں،

Sent from my XT1058 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم۔۔۔۔۔ یہ اُنہوں نے لکھا ہے تقلید کے موضوع پہ۔۔۔۔

بیشک انسان غلطی کا پتلا ہے
بخاری شریف ہی میں لکھا کہ اگر مجتہد سے اجتہاد کرنے میں غلطی ہوتی ہے تب بھی اسے ایک نیکی ملے گی انشاءاللہ
کیونکہ انھونے کوشش تو کی جدوجہد تو کی ہے مسائل کا استنباط کرنے میں۔۔۔
جیسے علم فقہ کے چار بڑے امام ہیں اسی طرح سے قرآن کریم کی قرائت کے سات امام ہیں جن میں امام ابو عاصم کوفی رحمت اللہ علیہ کی قرائت کی تقلید کی جاتی ہے

Sent from my XT1058 using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور یہ ایک روایت سے کچھ لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اس کا مصداق سمجھتے ہیں۔ ؟ کیا آئمہ متقدمین نے بھی اس سے مراد یہی لی تھی۔ یا کچھ اور تھی اُن کی مراد؟ پلیز تفصیل سے بتادیں۔ @ابن داؤد

حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ۔

آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا ۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تب بھی ان لوگوں ( یعنی فارس والوں ) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا ۔
صحیح البخاری : 4897
یہ پکچر بھی دی ہے انہوں نے۔۔۔ @ابن داؤد
اول تو اس طرح کا اسکین کوئی حیثیت نہیں رکھتا، نہ یہ تحریر جلال الدین سیوطی کی ہے، اور نہ ہی معلوم چلتا ہے کہ یہ کس کتاب کا اسکین ہے!
بہر حال امام سیوطی رحمہ اللہ سے یہ بات ان کی کتاب تبييض الصحيفة في مناقب الإمام أبي حنيفة میں موجود ہے۔

سب سے پہلے تو اس روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ ثَوْرٍ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ.
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا ، ان سے ثور نے ، ان سے ابو الغیث سالم نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ” سورۃ الجمعہ “ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم الایۃ اور دوسرو ں کے لئے بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہادی اور معلم ہیں ) بیان کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا ۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تب بھی ان لوگوں ( یعنی فارس والوں ) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (سُورَةُ الجُمُعَةِ)
صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورۃ جمعہ کی تفسیر)

اب اس روایت میں ایک راوی اس بات میں شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجل کہا تھا یا پھر رجال کہا تھا!
رجل کے اثبات اور رجال کی نفی سے لازم آتا ہے کہ یہ بشارت ایک ہی شخص کے لئے ہو، جیسا کہ سیوطی نے اس کا اطلاق کیا ہے، اور بہت سے حنفی علماء سیوطی وغیرہ کے ان اقوال سے اس حدیث کا مصداق امام ابو حنیفہ کو باور کروانے کی سعی کرتے ہیں!

اور اگر رجال کا اثبات ہو ، تو ایک رجل بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے، یعنی کہ یہ بشارت کئی اشخاص کے حق میں ہے۔

اب صحیح بخاری کی اسی سے اگلی روایت دیکھتے ہیں:


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ أَخْبَرَنِي ثَوْرٌ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبدالوہاب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا ، انہیں ثور نے اور ان سے ابو الغیث نے ، انہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ” ان کی قوم کے کچھ لوگ اسے پالیں گے ۔ “
‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (سُورَةُ الجُمُعَةِ)
صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورۃ جمعہ کی تفسیر)
اس روایت میں بالجزم رجال کے الفاظ ہیں، بلا کسی شک و شبہ کے!
اس کے علاوہ اور دیگر کتب میں بھی رجال کے الفاظ سے یہ روایت موجود ہے! اس کے علاوہ ابناء الفارس کے الفاظ کے ساتھ بھی ہے؛ ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، - قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - أَوْ قَالَ - مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ».
یزید بن اصم جزری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اگر دین ثریا پر ہوتا تب بھی فارس کا کوئی شخص۔۔۔یا آپ نے فرمایا۔۔۔فرزندان فارس میں سے کوئی شخص اس تک پہنچتا اور اسے حاصل کرلیتا۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ فَضْلِ فَارِسَ)
صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: اہل فارس کی فضیلت)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا قَرَأَ: {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} [الجمعة: 3] قَالَ رَجُلٌ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ يَا رَسُولَ اللهِ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ: فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ: «لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ».
ابو غیث نے حضرت ابو ہریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ،کہا:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ نازل ہوئی اور آپ نے یہ پڑھا: ﴿ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا﴾"ان میں اور بھی لوگ ہیں جو اب تک آکر ان سے نہیں ملے ہیں۔"(الجمعۃ 62:3)تو ایک نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون لوگ ہیں؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا،حتیٰ کہ اس نے آپ سے ایک یا دو یا تین بار سوال کیا،کہا:اس وقت ہم میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہاتھ رکھا ،پھر فرمایا؛" اگر ایمان ثریا کے قریب بھی ہوتا تو ان میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیتے۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ فَضْلِ فَارِسَ)
صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: اہل فارس کی فضیلت)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ ذَكَرَ اللَّهُ إِنْ تَوَلَّيْنَا اسْتُبْدِلُوا بِنَا ثُمَّ لَمْ يَكُونُوا أَمْثَالَنَا قَالَ وَكَانَ سَلْمَانُ بِجَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخِذَ سَلْمَانَ وَقَالَ هَذَا وَأَصْحَابُهُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مَنُوطًا بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ فَارِسَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَى عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْكَثِيرَ و حَدَّثَنَا عَلِيٌّ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ و حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ مُعَلَّقٌ بِالثُّرَيَّا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے کہ اگر ہم پلٹ جائیں گے تو وہ ہماری جگہ لے آئے جائیں گے،اور وہ ہم جیسے نہ ہوں گے، سلمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پہلومیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺنے سلمان رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:' یہ اور ان کے اصحاب ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایمان ثریا ۱؎ کے ساتھ بھی معلق ہوگا تو بھی فارس کے کچھ لوگ اسے پالیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ عبداللہ بن جعفربن نجیح : علی بن المدینی کے والدہیں، ۲- علی بن حجرنے عبداللہ بن جعفر سے بہت سے احادیث راویت کی ہیں۔علی بن حجرنے ہمیں یہ حدیث بطریق:اسماعیل بن جعفر، عن عبداللہ بن جعفر، روایت کی ہے،نیز : ہم سے بشربن معاذ نے یہ حدیث بطریق'عبدالله بن جعفر، عن العلاء 'بھی روایت کی ہے مگراس طریق میں 'معلق بالثريا'کے الفاظ ہیں۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ)
جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورہ محمد سے بعض آیات کی تفسیر)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيْلِيُّ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَتَلَاهَا فَلَمَّا بَلَغَ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا فَلَمْ يُكَلِّمْهُ قَالَ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا قَالَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَلْمَانَ يَدَهُ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جس وقت سورہ جمعہ نازل ہوئی اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ نے اس کی تلاوت کی، جب آپ {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} ۱؎ پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے ہیں؟ (آپ خاموش رہے) اس سے کوئی بات نہ کی، سلمان (فارسی) رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان موجود تھے، آپ نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھ کر فرمایا:' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی (اتنی بلندی اور دوری پر پہنچ کر) ان کی قوم کے لوگ اسے حاصل کرکے ہی رہتے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اور عبداللہ بن جعفر ،علی بن المدینی کے والدہیں، یحییٰ بن معین نے انہیں ضعیف کہا ہے،۲- ثور بن زید مدنی ہیں، اور ثور بن یزید شامی ہیں، اور ابوالغیث کا نام سالم ہے ، یہ عبداللہ بن مطیع کے آزاد کردہ غلام ہیں، مدنی اورثقہ ہیں،۳- یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبیﷺ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔(اوراسی بنیادپرصحیح ہے)
جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ الْجُمُعَةِ)
جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورہ جمعہ سے بعض آیات کی تفسیر)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيْلِيُّ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَتَلَاهَا فَلَمَّا بَلَغَ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا فَلَمْ يُكَلِّمْهُ قَالَ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا قَالَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت سورہ ٔ جمعہ نازل ہوئی ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے، آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ } پر پہنچے تو آپ سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں جو ابھی ہم سے ملے نہیں ہیں تو آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، وہ کہتے ہیں: اور سلمان فارسی ہم میں موجود تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ سلمان کے اوپر رکھا اور فرمایا:' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریاّ پر بھی ہوگا تو بھی اس کے کچھ لوگ اسے حاصل کرلیں گے' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اور یہ متعدد سندوں سے ابوہریرہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے ۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ فِي فَضْلِ العَجَمِ)
جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں (باب: عجم کی فضیلت کے بیان میں)

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَلَمَّا قَرَأَ {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} [الجمعة: 3] قَالَ: «مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَسُولَ اللهِ، فَلَمْ يُرَاجِعْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا» قَالَ: وَفِينَا سَلْمَانُ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ: «لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ».
السنن الكبرى للنسائي» كِتَابُ الْمَنَاقِبِ» مَنَاقِبُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالنِّسَاءِ» سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَزَلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا قَرَأَ {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} [الجمعة: 3] , قَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَسُولَ اللهِ؟، فَلَمْ يُرَاجِعْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ: «لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ».

السنن الكبرى للنسائي» كِتَابُ التَّفْسِيرِ» سُورَةُ الْجُمُعَةِ

اس کی شرح میں ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ هَذَا الشَّكُّ مِنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ بِدَلِيلِ الرِّوَايَةِ الَّتِي أَوْرَدَهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ شَكٍّ مُقْتَصِرًا عَلَى قَوْلِهِ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ وَهِيَ عِنْدَ مُسْلِمٍ وَالنَّسَائِيِّ كَذَلِكَ وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْإِسْمَاعِيلِيُّ مِنْ رِوَايَة بن وَهْبٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بِلَفْظِ لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ أَيْضًا بِغَيْرِ شَكٍّ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ الْمَذْكُورِ هُوَ الدَّرَاوَرْدِيُّ كَمَا جَزَمَ بِهِ أَبُو نُعَيْمٍ وَالْجَيَّانِيُّ ثُمَّ الْمِزِّيُّ
یہ قول سلیمان بن بلال کا شک ہے اس کی دلیل اس کے بعد والی روایت روایت ہے جس میں بلا شک کے ''ان لوگوں میں'' پر اقتصار یعنی محدود بیان کیا ہے۔ اور یہ مسلم اور نسائی کے ہاں بھی ہے۔ اسی طرح اسماعیلی نے بھی ''ان لوگوں میں'' کے الفاظ کے ساتھ ابن وهب سے سلیمان کے واسطے سے بغیر شک کے بیان کیا ہے۔ اس روایت میں عبد العزیر الدراوردی ہیں جیسا کہ ابو نعیم اور الجیانی نے بالجزم کہا ہے، اور پھر المزی نے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 698 جلد 10 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 511 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 522 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 521 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 642 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية

اور یہی بات علامہ عینی حنفی نے بھی اپنی شرح بخاری ، جو کہ اکثر ابن حجر العسقلانی کی شرح بخاری سے نقل کرکے لکھی ہے، بیان کی ہے؛
قَوْله: (رجل أَو رجال). شكّ من سُلَيْمَان بن بِلَال بِدَلِيل الرِّوَايَة الَّتِي أوردهَا بعْدهَا من غير شكّ مُقْتَصرا على قَوْله: (لَنَالَهُ رجال من هَؤُلَاءِ)، وَكَذَا هُوَ عِنْد مُسلم وَالنَّسَائِيّ،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 339 جلد 195عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 335 جلد 19عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الفكر، بيروت

امام االقسطلانی نے بھی یہی کہا ہے کہ سلیمان بن بلال کی روایت میں رجل یا رجال کا شک ہے اور اس سے ملحقہ روایت بغیر شک کے ہے؛
(لناله رجال أو رجل من هؤلاء) الفرس بقرينة سلمان، والشك من سليمان بن بلال للجزم برجال من غير شك في الرواية اللاحقة.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 383 جلد 07 إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري - أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) - المطبعة الكبرى الأميرية، مصر

الحديث السادس والأربعون بعد المائة:
[عن أبي هريرة قال: كنا جلوسًا عند النبي - صلى الله عليه وسلم -؛ فأنزلت عليه سورة الجمعة: {وآخرين منهم لما يلحقوا بهم} قال قائل منهم: من هم يا رسول الله؟ فلم يراجعه، حتى سأل ثلاثًا، وفينا سلمان الفارسي، فوضع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يده على سلمان، ثم قال: (لو كان الإيمان عند الثريا، لناله رجاله- أو رجل- من هؤلاء) لم يشك الراوي.
وفي رواية: (لو كان الدين عن الثريا لذهب به رجل من فارس- أو قال- من أبناء فارس حتى يتناوله)[.
* في هذا الحديث ما يدل على أن الإيمان والدين يكونان في فارس؛ وقد بان قول رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في صاحبي هذا الكتاب: وهما الإمامان: أبو عبد الله محمد بن إسماعيل، وأبو الحسين مسلم بن الحجاج، وكلاهما فارسيان. إلى غيرهما من أئمة العلم في فنون العلم، وأنواع أقسام الدين والفضائل، إلا أن الذي أراه: أنهما جمعا علم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الذي افترق في مذاهب المسلمين وأمور الدين (44/ ب) من أصوله وفروعه، والحلال والحرام، والواجب والمندوب والمستحب، والأخبار الماضية والملاحم وما يكون إلى يوم القيامة، وصورة البعث وقيام الأشهاد والحساب، ومنازل الجنة والنار لساكنيها إلى غير ذلك.

صحیحین کی اس حدیث کی لکھنے کے بعد اس کی شرح میں جید عالم اور عباسی سلطنت کے عادل وزیر أبو المظفر يحيى بن محمد ابن هبيرة (المتوفي: 560هـ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’ اس حدیث کا مضمون اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ :
فارس میں دین و ایمان ہوگا ، اور جناب رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذی شان ان دو کتابوں (صحیحین ) کے مصنفوں میں ظاہر ہوتا ہے ،
یہ دو عظیم الشان امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری اور دوسرے مسلم بن حجاج القشیری ہیں ،
یہ دونوں امام فارسی ہیں ،
جیسا کہ مختلف دینی علوم کے دیگر کچھ ائمہ علم بھی (اس حدیث شریف ) کے مصداق ہیں ،
لیکن جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ :
ان دونوں اماموں (بخاری و مسلم )نے پیغمبر اکرم ﷺ کا علم جو اہل اسلام کے مختلف گروہوں میں منقسم ہے ، اور دین کے مختلف امور کے متعلق ہے یعنی اصول و فروع کاعلم ، اسی طرح حلال و حرام کا علم ،اور فرائض و نوافل کا علم ہے ،
اسی طرح گذشتہ انسانی حالات و واقعات اور آئندہ واقع ہونے والے عظیم امور ،اور قیامت تک پیش آنے والے حالات ،اسی حشر ونشر کے حالات ،حساب محشر ، جنت و جہنم کے ساکنین کے احوال اور دیگر (بے شمار موضوعات ) یہ سب علوم نبوت سے ان دو اماموں نے جمع کردیا ہے

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 270 جلد 06 الإفصاح عن معاني الصحاح - يحيى بن (هُبَيْرَة بن) محمد بن هبيرة الذهلي الشيبانيّ، أبو المظفر، عون الدين (المتوفى: 560هـ) - دار الوطن

لیں جناب، سیوطی سے صدیوں پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق میں امام بخاری و امام مسلم کو شمار کیا گیا ہے!

امام سیوطی کے استدلال کو تو انور شاہ کشمیری نے بھی رد کردیا ہے؛
انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:

4898 - قوله: (لَنَالَهُ رِجالٌ - أو رجل - من هؤلاء) والظاهِر أنَّ المرادَ منه هم العلماءُ الكِبار الذين أقامهم اللهُ تعالى لِنُصرةِ دِينه من العجم. وقال السيوطي: إنَّ فيه مَنْقبةً عظيمةً للإِمام أبي حنيفة. قلتُ: ولكنَّ لفظ الجمع يأباه، ومَحْمل هذه الأحاديث هم حَمَلةُ الشريعة في العجم، ولا ريب أن هؤلاء كَثُروا في العجم، حتى إن أصحاب «الصِّحاح» كلهم من العجم.
یعنی نبی مکرم ﷺ کا فرمانا کہ ( اگر دین ثریا پر بھی ہوتا تو ان لوگوں میں سے کچھ حضرات یا کوئی ایک آدمی اس تک پہنچ جاتا ) تو اس ارشاد سے ظاہر ہے مراد عجم کے وہ بڑے علماء ہیں جنہیں اللہ نے اس دین کی نصرت کیلئے کھڑا کیا ،
جبکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں امام ابو حنیفہ کی بڑی منقبت ہے ( کہ وہ ہی اہل فارس سے اس شان کے حامل تھے )
انور شاہ صاحب کہتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ حدیث میں وارد جمع کا لفظ (رجال ) ((سیوطیؒ کے دعوی کہ امام ابوحنیفہ اس کے مصداق ہیں )) کو قبول نہیں کرتا ۔
اور اس حدیث میں وارد بشارت کا محمل عجم کے علماء ہیں ، جو بلاشک کثرت سے ہیں ،
حتی کہ اصحاب صحاح (یعنی الصحیح کے عنوان سے کتب حدیث لکھنے والے محدثین ) سب اہل عجم ہیں

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 421 جلد 05 فيض الباري على صحيح البخاري - (أمالي) محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (المتوفى: 1353هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

یہاں تک کہ سیوطی نے خود بھی یہی کہا ہے کہ رجل کہنا سلیمان بن بلال کا شک ہے!
(أو رجل): شك من سليمان.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3078 جلد 07 التوشيح شرح الجامع الصحيح - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911 هـ) - مكتبة الرشد، الرياض

یہ بات تو بہر حال ثابت ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ایک شخص کےلئے بشارت نہیں، بلکہ اہل فارس کے کئی اشخاص کے لئے ہے۔

دوسری بات یہ آتی ہے کہ امام ابو حنیفہ ان لوگوں میں شامل ہیں یا نہیں، جن پر اس حدیث کی بشارت کا اطلاق ہوتا ہے، تو سیوطی سے قبل علماء کا قول پیش کیا جا چکا ہے، جس میں امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ کو اس بشارت کا مصداق کہا گیا ہے۔

رہی بات امام ابو حنیفہ کی تو ہم سیوطی سے قبل متقدمین علماء کے کچھ اقوال نقل کردیتے ہیں؛ اور دیکھئے کہ امام ابو حنیفہ کے ایمان کےمتعلق مؤقف کو ہی محدثین و فقہاء نے مردود قرار دیا ہے، چہ جائے کہ امام ابو حنیفہ کو ایمان کے حصول سے متعلق اس حدیث کا مصداق ٹھہرایا جائے!

امیر المومنین فی الحدیث اور جرح وتعدیل کے امام ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ مرجئ تھے ، اور علمائے اہل الحدیث نے ابو حنیفہ کی روایت کو بھی ترک کردیا ہے، اور ابو حنیفہ کی رائے یعنی فقہ کو بھی رد کردیا ہے۔

نُعمان بْن ثابت، أَبو حَنِيفَة، الكُوفيُّ.
مَولًى لِبَنِي تَيم اللهِ بْن ثَعلَبَة.
رَوَى عَنه عَبّاد بْن العَوّام، وابْن المُبارك، وهُشَيم، ووَكِيع، ومُسلم بن خالد، وأبو مُعاوية، والمُقرِئُ.

كَانَ مُرجِئًا، سَكَتُوا عنه، وعَنْ رَأيِهِ، وعَنْ حديثه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 81 جلد 08 التاريخ الكبير - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري (المتوفى: 256هـ) - دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد – الدكن (تصوير دار الكتب العلمية، بیروت)

محدثین نے امام ابو حنیفہ کو ایمان کے متعلق اپنے مرجئ مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے حدیث میں گڑبڑ کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا ہے؛
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فَأَما رِوَايَة أبي سِنَان عَن عَلْقَمَة فِي متن هَذَا الحَدِيث اذ قَالَ فِيهِ ان جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام حَيْثُ قَالَ جِئْت أَسأَلك عَن شرائع الاسلام فَهَذِهِ زِيَادَة مُخْتَلفَة لَيست من الْحُرُوف بسبيل وانما أَدخل هَذَا الْحَرْف فِي رِوَايَة هَذَا الحَدِيث شرذمة زِيَادَة فِي الْحَرْف مثل ضرب النُّعْمَان بن ثَابت وَسَعِيد بن سِنَان وَمن يجاري الارجاء نَحْوهمَا وانما أَرَادوا بذلك تصويبا فِي قَوْله فِي الايمان وتعقيد الارجاء ذَلِك مَا لم يزدْ قَوْلهم الا وَهنا وَعَن الْحق الا بعدا اذ زادوا فِي رِوَايَة الاخبار مَا كفى بِأَهْل الْعلم وَالدَّلِيل على مَا قُلْنَا من ادخالهم الزِّيَادَة فِي هَذَا الْخَبَر أَن عَطاء بن السَّائِب وسُفْيَان روياه عَن عَلْقَمَة فَقَالَا قَالَ يَا رَسُول الله مَا الاسلام وعَلى ذَلِك رِوَايَة النَّاس بعد مثل سُلَيْمَان ومطر وكهمس ومحارب وَعُثْمَان وحسين بن حسن وَغَيرهم من الْحفاظ كلهم يَحْكِي فِي رِوَايَته أَن جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ يَا مُحَمَّد مَا الاسلام وَلم يقل مَا شرائع الاسلام كَمَا رَوَت المرجئة
ابی سنان کی علقمہ سے روایت کے متن میں کہا گیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے یہ کہا کہ میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ سے شرائع الاسلام کے متعلق سوال کروں، تو یہ ’’ شرائع ‘‘کے لفظ کی زیادتی ’’ خود ساختہ ‘‘ ہے۔ ان الفاظ کا کوئی (ثقہ روات سے کوئی ثبوت ) نہیں۔ اس زیادہ شدہ لفظ کو اس حدیث کی روایت میں ایک مختصر جماعت نے داخل کیا ہے، جیسے نعمان بن ثابت اور سعید بن سنان اور جو ارجاء کے قائل ہیں، انہوں نے ایمان کے متعلق اپنے قول اور ارجاء کے عقیدے کے کو صحیح ثابت کرنے کے ارادے سے اسے بیان کیا ہے۔ جبکہ اس سے بھی کچھ نہیں ہوگا سوائے کہ ان کا قول مزید کمزور ہوگا، اس کے روایت میں اس لفظ کا اضافہ کرنے کی بعد بھی۔(شرائع کے لفظ کی زیادتی )، جیساکہ ہم نے کہا، خود ساختہ ہے،اہل علم و دلیل کے پاس اس بات کا خاطر خواہ ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث میںجو عطاء بن السائب اور سفیان نے علقمہ کے واسطے سے روایت کی ہے دونوں نے(اس میں جبریل کا قول یہ نقل کیا ) کہ '' اے اللہ کے رسول ، اسلام کیا ہے،اور اسی کو لوگوں نے آگے روایت کیا، جیسے سلیمان، مطر، کھمس محارب، عثمان، اور حسین بن حسن وغیرہ نے ، جو حفاظ میں سے تھے۔ ان تمام کہ تمام نے اپنی روایات میں یہی بیان کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد ! اسلام کیا ہے؛ یہ نہیں کہا کہ شرئع الاسلام کیا ہے ، جیسا کہ مرجئہ روایت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 199 – 200 جلد 01 التمييز – امام مسلم بن الحجاج - وزارة المعارف السعودية
 
Last edited:
Top