• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ فقہ کا معنی ومفہوم

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لفظ فقہ کا معنی ومفہوم


لفظ فقہ اپنے لغوی معنی کے تعین میں کچھ تاریخی وتدریجی مراحل رکھتا ہے جن سے واقفیت صحیح فقہی مفہوم کے لئے بہت اہم ہوگی۔

پہلا مرحلہ:
لغت میں اس کا معنی ومفہوم
دوسرا مرحلہ:
خیرالقرون میں اس کا معنی ومفہوم
تیسرا مرحلہ:
متاخرین میں اس کا معنی ومفہوم۔

پہلا مرحلہ:
اہل لغت نے اس لفظ کے معنی ادراک، فہم، اور علم کے لئے ہیں۔مگر اکثر فقہ سے مراد فہم مطلق لیتے ہیں یافقہ کو فہم سے اخص کہتے ہیں کیونکہ فقہ متکلم کے کلام کی مراد کا فہم ہے۔وہ فقہ سے دقیق اور گہرے فہم کا معنی نہیں لیتے۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اس کی تعریف یہ کی ہے:
اَلْفِقْہُ: اَلْعِلْمُ بِالشَّیئِ وَالفَہْمِ لَہُ۔وَغَلَبَ عَلَی عِلْمِ الدِّیْنِ لِسِیَادَتِہِ وَشَرَفِہِ وَفَضْلِہِ عَلَی سَائِرِ أَنْوَاعِ الْعُلُومِ کَمَا غَلَبَ النَّجْمُ عَلَی الثُّرَیَّا۔
فقہ سے مراد کسی چیز کا علم اور اس کا فہم ہے۔ مگر علم دین پر اپنی سیادت ، شرافت اور فضیلت کی وجہ سے یہ تمام علوم پراس طرح حاوی ہو گیا ہے۔ جیسے ستارہ ُثریا پر۔

ابن فارس کہتے ہیں:
کُلُّ عِلْمٍ بِشَیْئٍ فَہُوَ فِقْہٌ، ثُمَّ اخْتُصَّ بِذَلِکَ عِلْمُ الشَّریْعَۃِ فَقِیلَ لِکُلِّ عَالِمٍ بِالْحَلالِ وَالْحَرامِ فَقِیْہٌ۔
کسی بھی چیز کا علم فقہ کہلاتا ہے۔ بعد میں یہ نام علم شریعت کے ساتھ مخصوص ہو گیا۔ اس لئے ہر وہ عالم جو حلال وحرام سے واقف ہو فقیہ کہلاتا ہے۔

عرب علم کو فقہ کہتے ہیں۔نحو کے امام ، ثعلب، احمد بن یحییٰ نحوی اس فہم کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آدمی کی سمجھ کے بارے میں درج ذیل الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً جب وہ علم میں کامل ہو جائے تو: فقُہ کہا جاتا ہے اوراگر معمولی سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو فقِہ کہہ دیا کرتے ہیں۔

اس کی مزید وضاحت امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں یوں کی ہے: فَقُہَ: قاف کے ضمہ کے ساتھ اگر یہ لفظ ہو تو وہ فقہ وفہم مراد ہے جو آدمی کے مزاج اور طبیعت میں رچ بس جائے۔ فَقِہَ یعنی کسرہ کے ساتھ ہو اس سے مراد سمجھ ہے۔ اور اگر فَقَہَ زبر سے ہو تو مراد فہم میں سبقت لے جانا ہے۔

لغوی معنی آیات میں:
قرآن مجید میں بھی لفظ فقہ، فہم کے معنی میں آیا ہے۔مثلاً:
{قالوا یا شعیب مانفقہ کثیرا مما تقول}(ہود:۹۱)
وہ کہنے لگے اے شعیب! بہت سی باتیں جو تم کہتے ہو ہم نہیں سمجھتے۔

اسی طرح یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وإن من شیء إلا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم۔}( ا لإسراء : ۴۴)
اور کوئی شے نہیں جو اللہ کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ مگر تم انسانو! ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔

موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا:
{ واحلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی}( طہ: ۲۸ )
اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں۔

لسان نبوی میں:
احادیث میں بھی یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔

آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دعا دیتے ہوئے فرمایا:

اللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔
اے اللہ! اسے دین کا فہم عطا فرما۔

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے:
إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیراً فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ کوئی بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔

مسند احمدؒ میں ہے:
کَانَ کَلَامُ النَّبِیِّ ﷺ فَصْلًا، یَفْقہُہُ کُلُّ أَحَدٍ، لَمْ یَکُنْ یَسْرُدُ سَرْدًا۔
آپ ﷺ کے کلمات بالکل الگ الگ ہوتے تھے جنہیں ہر کوئی سمجھ لیتا تھا۔ گفتگو لگاتار اور پے در پے نہیں ہوا کرتی تھی۔

…اہل نجد کا وہ شخص جو بکھرے بالوں کے ساتھ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ صحابہ اس کے بارے میں کہتے ہیں:
نَسْمَعُ دَوِیَّ صَوتِہِ وَلاَ نَفْقَہُ مَا یَقُوْلُ۔۔ (صحیح بخاری)
ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنتے تھے مگر سمجھ نہیں پاتے تھے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔

اس لغوی معنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ فقہ ، ا پنے معنی اور مفہوم کی وجہ سے کسی خاص فن یا فکرکا نام نہیں بلکہ ہر علم کے فہم کو فقہ کہا جاسکتا ہے جس کے مختلف نام و مراتب ہیں۔

نوٹ: بعض مستشرقین کی یہ رائے ہے کہ لفظ فقہ رومی زبان کے لفظ ( juris) سے ماخوذ ہے ۔ یہ رائے درست نہیں۔ اس لئے کہ اولا ًیہ لفظ قرآن مجید کے علاوہ قدیم عربی ادب میں بھی مستعمل ہے جو کسی بھی زبان سے مستعار نہیں بلکہ وہ اللہ کا کلام ہے دوسرا یہ کہ لفظ فقہ اور (juris) کے نطق میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسرا مرحلہ:

خیرالقرون میں :
اس دور کے فقہاء وعلماء نے فقہ کی متعدد تعریفات کی ہیں۔چند درج ذیل ہیں:
پہلا معنی:
علماء وفقہاء کے اختلافی دلائل کوجاننا فقہ کہلاتا ہیں۔ ہشام بن عبداللہؒؒ فرماتے ہیں۔
مَنْ لَمْ یَعْرِفْ اخْتِلاَفَ الْفُقَہَائِ فَلَیْسَ بِفَقِیْہٍ۔
جو علماء کے اختلاف کو نہیں جانتا وہ فقیہ ہی نہیں۔

امام قتادہ بن دعامہؒ فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ یَعْلَمْ الاِخْتِلَافَ لَمْ یَشُمَّ الْفِقْہَ بِأَنْفِہِ۔
جس نے علماء کے اختلاف کو نہیں جانا اس نے فقہ کو سونگھا ہی نہیں۔

امام مالکؒ سے دریافت کیا گیا۔ کیا علماء کے اختلاف سے اہل الرائے کااختلاف مراد ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ صحابہ کے اختلاف، ناسخ ومنسوخ اور مختلف الحدیث مراد ہیں۔ (جامع بیان العلم: ۳۴۵)۔ ایک اور ارشاد فرماتے ہیں: فتوی دینے کا مجاز صرف وہی شخص ہے جو اختلافی مسائل سے آگاہ ہو۔ (الموافقات ۴؍۱۶۰) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرمایاکرتے:
مَنْ کَثُرَ فِقْہُہ قَلَّ إنْکَارُہُ عَلَی الْمُخَالِفِیْنَ۔
جس کی فقہ زیادہ ہوگئی اس کی مخالفین کے بارے میں نفرت کم ہوگئی۔

أبو إسحاق الحوفی ؒکہتے ہیں:
َالْعُلُومُ ثَلاثۃٌ: عِلْمٌ دُنْیَاوِیٌّ، وَعِلْمٌ دُنیَاوِیٌّ وَأُخْرَوِیٌّ، وَعِلْمٌ لاَ لِلدُّنیاَ وَلاَ لِلدِّینِ، فَعِلْمُ الَّذِی لِلدنیاَ عِلْمُ الطِّبِّ وَالنُّجُوم ِوَمَا أَشْبَہُ ذَلِکَ، وَالْعِلمُ الذِی لِلدنْیا َوالآخِرۃِ عِلمُ القرآنِ وَالسُّنَنِ وَالْفِقْہُ فِیہِمَا، وَالعلمُ الذِی لَیسَ لِلدنیاَ وَلاَ للآخِرۃِ عِلمُ الشِّعرِ وَالشُّغلُ بِہِ۔
علوم تین ہوتے ہیں۔ دنیاوی علم، دنیا اور آخرت کا علم اور ایسا علم جو نہ دنیا کا ہے اور نہ آخرت کا۔ دنیا کاعلم، علم طب یا علم نجوم یا اس سے ملتے جلتے دیگر علوم ہیں۔ دنیا وآخرت کا علم، قرآن وسنت کا علم و فہم ہے۔ وہ علم جو نہ دنیا کا ہے اور نہ آخرت کا وہ علم شعر ہے اور اس سے دلچسپی ہے۔

امام مالکؒ فرماتے ہیں:
لَیْسَ الفِقْہُ بِکَثرۃِ الْمَسائِلِ، وَلٰکِنَّ الْفِقہَ یُؤتِیہِ مَن یشائَ فِی خَلْقِہِ۔۔(جامع بیان العلم ۳۴۴)
یعنی فقہ زیادہ مسائل جاننے کا نام نہیں بلکہ فقہ اللہ کی عطاء ہے جسے وہ چاہتا ہے اپنی مخلوق میں اسے عطا کردیتا ہے۔

ابن عبد البرؒ نے اپنی کتاب جامع بیان العلم میں فقہ، علم اور رائے سے متعلق بے حد مفید مواد جمع کیا ہے۔ جس سے فقہ کے مفاہیم کو مزید سمجھا جا سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسرا معنی:
فقہ سے مراد فہم قرآن ہے۔ حارث ؒبن یعقوب کہتے ہیں:
إِنَّ الْفَقِیْہَ کُلَّ الْفَقِیْہِ مَنْ فَقُہَ فِی الْقُرْآنِ وَعَرَفَ مَکِیْدَۃَ الشَّیْطَانِ۔
اصل فقیہ وہی ہے جو قرآن کو سمجھے اور شیطانی چالوں کو جانے۔

سیدنا ابو الدرداءؓ کا قول ہے:
لَنْ تَفْقَہَ کُلَّ الْفِقْہِ حَتی تَرَی لِلْقرآنِ وُجُوہًا کَثیرۃً، (جامع بیان العلم ۳۴۳)
تم کبھی فقہ نہیں سمجھ سکتے جب تک قرآن کی کسی آیت یا سورت کی بہت سی وجوہ نہ دیکھ لو۔

تیسرا معنی:
آپ ﷺ نے اپنی حدیث کو بھی فقہ کا نام دیا۔حدیث کے فہم وعلم کا نام بھی فقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت کے بیشتر علماء کو عطاء کیا ہے۔جس میں مسائل کا ادراک ہے اور اجتہاد واستنباط وغیرہ بھی۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیہٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ۔
بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ یعنی نا سمجھ ہوتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فقہ کو ایسے شخص کو منتقل کردیتے ہیں جو اس حامل سے بھی زیادہ فقیہ اور سمجھ دار ہوتے ہیں۔
امام ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں:
فَسَمَّی الْحَدِیْثَ فِقْہًا مُطْلَقًا وَعِلْمًا۔
آپﷺ نے خود اپنی حدیث کو صرف فقہ اور علم سے تعبیر کیا ہے۔جس سے آپ ﷺ کی مراد حدیث کے الفاظ ومعانی کا بھرپور خیال کرنا ہے۔
نیز رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ سے مراد حدیث ہی تو ہے۔اسی طرح حدیث یہ بھی واضح کررہی ہے کہ فقیہ وہی ہوتا ہے جو دین میں صاحب بصیرت ہو۔جو نصوص کے معانی پر متنبہ ہو اور ان سے احکام وعبر اور فوائد وغیرہ مستنبط کرنے کا ملکہ رکھتا ہو۔أَفْقَہُ مِنہُ میں فقہاء کے درجات ہیں جن میں افقہ وہ ہے جو نصوص سے اللہ تعالیٰ کی مراد اور اس کے دیئے گئے احکام اور قوانین کو زیادہ سمجھتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چوتھا معنی :
وہ باتیں جو نفس کے لئے مفید یا مضر ہوں ان کا جاننا بھی فقہ کہلاتا ہے۔ یعنی علم الکلام یا عقائدوغیرہ بھی فقہ کہلاتے ہیں۔ یونانی علوم کی اشاعت کے بعد جب متکلمین نے مناظروں کا آغاز کیا اور تاویلات کی گرم بازاری ہوئی تو علم الکلام(یعنی اعتقاد، وجوب ایمان، اخلاق وتصوف اور اعمال) کو بھی فقہ سے تعبیر کیا گیا۔الفقہ الأکبر جو امام ابوحنیفہ ؒ کی طرف منسوب کتاب ہے۔ اس میں فقہ کا معنی یہ کیا گیا ہے:

اَلْفِقْہُ: مَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَہا وَمَا عَلَیہَا۔
یعنی نفس کی ذمہ داریوں (یعنی اس پر اور اس کی ذمہ داری)کے سمجھنے کا نام فقہ ہے۔
یہ تعریف امام محترمؒکے زمانہ میں بہت ہی مناسب تھی۔کیونکہ ان کے دور میں فقہ ، علوم شرعیہ سے الگ کوئی مستقل علم (Science) نہیں تھا۔( الفقہ الإسلامی وأدلتہ ۱؍۱۵)

پانچواں معنی:
فقہ سے مرادحکمت ، اورعلم دین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ}۔
تم اپنے گھروں میں پڑھی جانے والی آیات الٰہی کو اور حکمت کو یاد کرو۔

امام مالک ؒ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: حکمت سے مراد سراسر اللہ کی اطاعت،رسول کی اتباع اور دین الٰہی میں تفقہ اور عمل کا نام ہے۔بہت سی احادیث میں لفظ فقہ بمعنی علم دین مستعمل ہوا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
اَلنَّاسُ مَعَادِنُ، خِیارُہُم فِی الْجَاہِلِیۃِ خِیاَرُہُم فِی الإسْلامِ إِذا فَقِہُوا۔ (صحیح بخاری)
لوگ کانوں کی مانند ہوا کرتے ہیں۔ جاہلیت میں ان کا بہترین انسان اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہترین شمار ہوگا بشرطیکہ وہ دین کا گہرا فہم پالیں۔

صحیح بخاری ( ۴۳۹۰ ) میں آپﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے جو آپ ﷺنے اہل یمن کے بارے میں فرمایا:
أَتَاکُم أَہلُ الْیَمَنِ أَضْعَفُ قُلُوبًاوَ أََرقُّ أَفْئِدَۃً، اَلْفِقْہًُ یَمَانٍٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ۔
مسلمانو! تمہارے پاس یمنی آئے ہیں جوبہت نرم دل اور رقیق القلب لوگ ہیں، فقہ یمنی ہی ہے اور حکمت بھی یمنی۔

بعض علماء نے دیگر احادیث کو سامنے رکھ کے فقہ سے مراد یہاں حکمت، علم و فہم دین اور سمجھ داری بھی لی ہے۔ جیسا کہ امام بدر الدین العینیؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔ حدیث میں فقہ سے مراد دین کا گہرا فہم ہے۔

اس مفہوم میں یہ مثال بطور ایک دلیل کے دی جاسکتی ہے کہ امام شافعی ؒ کو قرآن مجید میں سے اجماع کی حجیت چاہئے تھی۔ اس نیت سے انہوں نے قرآن مجید کو تین سو باربغور پڑھا مگر کچھ حاصل نہ ہو سکا۔پھر کوشش فرمائی تو اس بار انہیں قرآن مجید کی ایک آیت میں اجماع کی حجیت کی دلیل سوجھ گئی جو سورۃ النساء کی درج ذیل آیت تھی:
{ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جہنم و ساء ت مصیرا}۔( النساء: ۱۱۵)
جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اہل ایمان کے راستے کے علاوہ کی پیروی کرے گا تو ہم بھی جدھر وہ مڑتا ہے اسے موڑیں گے اور اسے جہنم پہنچا کر ہی چھوڑیں گے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

امام شافعیؒ کو دلیل یہ سوجھی کہ اس آیت میں سَبِیلُ الْمُؤمِنِین سے مراد اجماع ہے یعنی اہل ایمان نے کوئی راستہ بالاتفاق اپنایا ہوا ہے مگر کچھ لوگ یا فردواحد اس راستہ یا طریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ یا راستہ اپنا لیتے ہیں وہ گویا اجماع سے ہٹا ہوا راستہ ہے۔مثلاً عصر کی چار رکعتیں مسلمانوں پر فرض ہیں ۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ چار رکعت نہیں بلکہ تین یا پانچ رکعتیں ہیں تو یہ اجماع سے ہٹا ہوا راستہ ہے۔ یہ معلوم بھی ہوا کہ اجماع کی دلیل کے لئے نص (Text) کا ہونا ضروری ہے۔ امام شافعیؒ کواجماع کی دلیل کا سوجھنا ہی فقہ ہے۔

مندرجہ بالا معانی سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ فقہ محض مسلکی مسائل یا ایک ہی امام وعالم کی محدود اجتہادی کوششوں کا نام یا اختلاف علم و علماء وفقہاء نہیں بلکہ فقہ : دینی حکمت ، اور اللہ کے دین پر عمل اور نفس کی مفید یا مضر باتوں کا علم، یعنی علم الکلام یا عقائدوغیرہ سبھی کو محیط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مگر خیرالقرون میں لفظ فقہ صرف علم دین کے لئے مختص تھا۔جس کی نمائندگی اس دور میں صرف قرآن وسنت ِ رسول ہی کیاکرتے تھے۔ اسی طرح مذاہب اربعہ ہوں یا خمسہ، جن ائمہ کے نام سے یہ مذاہب ایجاد ہوئے ان کے بانی فقہاء کی علمی، دینی اور اجتہادی کاوشیں بھی فقہ کہلائی جاسکتی ہیں۔ اور جو علماء وفقہاء ان کے بعد آئے اور جنہوں نے اپنے دور کے امڈتے مسائل کا حل قرآن وحدیث کی فہم وفراست سے پیش کیا۔وہ بھی فقہ ہے۔

اسی لئے صدر اول کے علماء ، فقیہ سے مراد اس عالم کو لیتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے فہم میں سب سے آگے ہو۔محض کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ کو یاد کرلینے سے آدمی فقیہ نہیں بن جاتا۔

تیسرا مرحلہ:
لفظ فقہ متأخرین میں:
زمانہ خیر القرون کے بعد اس کا مفہوم بتدریج تبدیل ہوگیا۔ یہ کس طرح تغیر پذیر ہوا؟ ذیل میں ہم دو عظیم المرتبت فقہاء، دانشور اور مفکر حضرات کے اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہی ذوق اور اس کے مفہوم میں محدودیت اور بتدریج تبدیلی کی لہرکیسے آئی؟ مسلم الثبوت کے مصنف محب اللہ بن عبد الشکور بہاری (م: ۹۱۱ھ) اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:

فقہ کا لفظ ابتداء میں شریعت مطہرہ کے علم پر بولا جاتا تھا۔جن میں مہلکات اور منجیات سرفہرست تھیں۔ اسی لئے امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی تعریف یہ فرمائی: یہ نفس کی ذمہ داریوں کا نام ہے۔ اور عقائد میں لکھی گئی اپنی کتاب کا نام بھی انہوں نے الفقہ الأکبر رکھا۔۔۔۔ علم کلام کے بعد یہ لفظ تصوف اور اخلاق پر بھی بولا جانے لگا اسی لئے ریا اور حسد کی حرمت کو فقہ کہا گیا ہے۔ مدت تک یہی عرف رہا۔ پھر عرصہ بعد متاخر فقہاء کی کتب میں فقہ الفروع تو آگیا مگر علم طریقت سے وہ خالی ہوگئیں۔ مسلم، منہیہ: ۵

امام غزالیؒ بھی اس سلسلے میں اپنی منفرد رائے رکھتے ہیں اور جسے خاصا سراہا گیا ہے ۔ یہ رائے انہوں نے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین ۱؍۲۴میں دی ہے اور جس کا تذکرہ کاتب چلبی نے کشف الظنون ۲؍ ۹۱میں اور طاش کبرٰی زادہ نے مفتاح السعادۃ ۲؍۶میں بغیر کسی تنقید کے کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

شرعی علوم میں مذموم اور نا پسندیدہ علوم کا اختلاط اور التباس اس لئے ہوا کہ علوم کے اچھے نام جو زمانہ سلف میں بولے جاتے تھے بعد میں اپنی فاسد اغراض کے لئے بدل دیے گئے اور ان کے ایسے معنی ومفہوم لئے گئے جن پر خیر قرون میں قطعاً اطلاق نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی ائمہ سلف ان الفاظ سے یہ مطالب مراد لیتے تھے۔ یہ پانچ نام ہیں: فقہ، علم، توحید، تذکیر اور حکمت۔ یہ بہت اچھے نام ہیں۔ان کے جاننے والوں کا دین میں بڑا مقام تھا۔ لیکن اب ان کو مذموم معانی پر بولا جانے لگاہے۔ ان کے جاننے والوں سے اب دل نفرت کرتا ہے کیونکہ ان ناپسندیدہ معانی پر ان کا اطلاق عام ہوگیا ہے۔پہلا لفظ فقہ ہے جس کے مفہوم میں روایت اور سلف کی طرف نسبت کی بجائے ان لوگوں نے تخصیص پیدا کردی ہے ۔ اب فتووں میں لفظ فقہ، غیر معروف اور حیرت انگیز فروع پر بولا جاتا ہے۔ اس پر طویل گفتگو اور بال کی کھال اتارنے اور ان کے وجوہ وعلل میں تعمق کا نام فقہ رکھ دیا گیا ہے۔ جو ان میں زیادہ وقت ضائع کرے اسے افقہ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ خیر القرون میں نفس کے امراض کی پہچان اور علوم آخرت کی معرفت پر بولا جاتا تھا۔ اور آیت قرآنی سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ دین کے فہم سے جو انذار اور خوف پیدا ہوتا ہے اسے فقہ سے تعبیر کیا جاتا ۔ طلاق ، عتاق، لعان، سلم ، اجارہ وغیرہ مسائل کے جاننے سے نہ انذار ہوتا ہے اور نہ خوف۔ بلکہ ایسے مسائل میں مشغولیت کی وجہ سے دل مزیدسخت ہو جاتا ہے۔

خیرالقرون میں فقہ کا مفہوم وسیع تھا جس میں عقائد، اعمال، اخلاق، آداب سبھی شامل تھے بعد میں علوم کی جب تقسیم ودرجہ بندی ہوئی تو پھر یہ علم بھی سکڑ گیا ۔ اس تقسیم میں معتزلہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ عقائد کی بحث کو فقہ سے الگ کرکے انہوں نے پہلے پہل ان مسائل سے اپنی جان پہچان کرائی اور پھر اصول فقہ میں اپنی برتری۔ہمارے یہاں صرف اعمال سے متعلق مسائل کا نام فقہ رکھ دیا گیا۔ مسلکی رجحانات نے فقہ کی بتدریج مزید تقسیم در تقسیم کردی اور ہر فقیہ کی فقہ ایک مستقل نام پاگئی اور یوں فقہ اسلامی کے وسیع وجہاں گیربہتے سمندر سے اور اس کی گہرائی میں پھوٹنے والے شیریں وشفاف چشموں سے دریاؤں اور ندیوں کو نکال کر فقہ کو محدود معنی دے دیا گیا۔ جس کی وسعت سے عام وخاص بھی محروم ہوگئے۔پھر تعصبات کے جنگل نے محنت، فکر، تدبر، دانش اور ترقی تک کی سعادت ان سے چھین لی۔ حق بکھر ا تو خود بھی بکھر گئے مگر اپنی پارہ پارہ حالت کو حق سمجھ بیٹھے۔ اسی طرح قرآن ، حدیث، عقائد یا اصول دین، اخلاق وآداب اور توحید وغیرہ کے الگ الگ علوم متعارف کرائے گئے اور جن کے متخصصین ظاہر ہوئے۔اور کئے بھی گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی تعریف :
ذیل میں دی گئی فقہ کی یہ تعریف خیرالقرون کے بعد کے علماء نے پیش کی ہے:
عِلْمُ الْفِقْہِ : ہُوَ الْعِلْمُ بِالأحْکامِ الشَّرْعِیَّۃِ الْفَرْعِیَّۃِ الْمُتَعَلِّقَۃِ بِأفْعالِ الْعِبَادِ، فِی عِباداتِہِمْ، وَمُعامَلاتِہِمْ، وَعَلاقاتِہِمُ الأُسَرِیَّۃِ، وَجَنَایَاتِہِمْ، وَالْعَلاَقَاتِ بَینَ الْمُسلِمِینَ بَعْضُہُمْ وَبَعْضٍ، وبَیْنَہُمْ وَبَینَ غَیْرِہِمْ، فِی السَّلْمِ وَالْحَرْبِ، وَغَیرِ ذَلِکَ۔ وَالْحُکْمُ عَلَی تِلْکَ الأَفْعَالِ بِأَنَّہَا وَاجِبَۃٌ، أَو مُحَرَّمَۃٌ، أَومَنْدُوبَۃٌ، أَو مَکْرُوہَۃٌ، أَو مُبَاحَۃٌ، وَأَنَّہَاصَحِیحَۃٌ، أَو فَاسِدَۃٌ أَو غَیْرُ ذَلِکَ، بَنَائً علَی الأدِلَّۃِ التَّفْصیلِیَّۃِ الْوَارِدَۃِ فِی الْکِتابِ وَالسُّنَّۃِ وَسَائِرِ الأَدِلَّۃِ الْمُعْتَبَرَۃِ۔
علم فقہ، شریعت کے ان فروعی احکام کے علم کا نام ہے جن کا تعلق بندوں کے افعال سے ہے مثلاً ان کی عبادات ومعاملات، ان کے خاندانی تعلقات، دین کے حق میں ان کی زیادتیاں،زمانہ امن وجنگ میں مسلمانوں کے اپنوں اور غیروں سے تعلقات وغیرہ۔ پھر ان افعال کے بارے میں اس حکم کا علم کہ یہ واجب ہیں یا حرام، مندوب ہیں یا مکروہ یا مباح یا یہ کہ وہ صحیح ہیں یا غلط وفاسد وغیرہ۔ اس علم کی اٹھان ان تفصیلی دلائل پرہی ہوگی جوکتاب وسنت اور دیگر معتبر دلائل سے ماخوذ ہوں۔

علماء فقہ نے لفظ فقہ کی اصطلاحی تعریف یہ کی ہے:
ہُوَ الْعِلْمُ بِالأحْکامِ الشَّرْعِیَّۃِ الْعَمَلِیَّۃِ الْمُکْتَسَبِ مِنْ أَدِلَّتِہَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ۔
شریعت کے ان عملی احکام کا علم جو ادلہ تفصیلیہ سے ماخوذ ہو۔

چند الفاظ کی وضاحت: درجہ بالا تعریف میں:
علم … دراصل جہل اور اس کی تمام انواع کی ضد ہے۔ علم کسی شے کے مکمل ادراک کو کہتے ہیں۔جیسے کل جزء سے بڑا ہوتا ہے۔ یا نیت، عبادت میں شرط ہے۔ اس میں یقین اور ظن دونوں شامل ہیں۔اس لئے کہ کچھ فقہی احکام یقینی اور قطعی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو دلیل ظنی سے ثابت ہوتے ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نصوص صحیحہ وضعیفہ سے عقلی راہنمائی لی جاتی ہے اس لئے اجتہاد واستنباط کی غالب تعداد ظنی علم ہے۔

احکام شرعیہ… اس کی لفظی ومعنوی وضاحت یہ ہے:
حکم:کی جمع احکام ہے ۔ لغت میں حکمکسی کام میں مثبت یا منفی چیز ثابت کرنا کو کہتے ہیں۔ مثلاً آگ جل رہی ہے۔ یہ ایک حکم ہے جو مثبت ہے ۔ یا آگ نہیں جل رہی ہے۔یہ بھی ایک حکم ہے جو منفی ہے۔شارع بھی اپنی بات سے ایک حکم جب دیتا ہے تو دراصل وہ ایک مثبت یاکسی منفی چیز کا کہہ رہا ہوتا ہے۔

اصطلاحاً:
جو خبر بھی ہو اس میں صحیح غور وفکر کے نتیجے میں حتمی یا ظنی طور پر مطلوب تک پہنچنا ۔حکم کہلاتا ہے ۔ خبر کا یہی مطلوب، حکم شرعی کہلاتا ہے۔فقہاء کرام لفظ حکم کو فیصلہ شدہ شرعی مسئلے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

حکم سے مراد:
شارع جب مکلف سے خطاب کرتا ہے تو اس میں کسی کام کے کرنے کا تقاضا ہوتا ہے یا اسے اختیار دیتا ہے یا وہ وضعی ہوتا ہے۔اس خطاب کا اثرجب بندے میں نظر آئے تو یہی حکم مراد ہوتا ہے۔مثلاً: نماز ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اب بندے میں اس کا اثر نظر آئے۔حکم کو حکم سمجھے یعنی اسے واجب گردانے۔ اسی طرح دیگر احکام ہیں۔بندہ مومن کو ان افعال کا فرض، مندوب، حرام ، مکروہ، مباح، صحیح، فاسد یا باطل ہونا معلوم ہو۔ یعنی یہ کیوں فرض ہے اس کی دلیل کیا ہے؟ کیونکہ دلیل ہی کے ضمن میں حکم آجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شَرْعِیَّہ سے مراد وہ احکام ہیں جو شرعی ہوں یعنی جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہوں خود ساختہ نیک وبد اعمال شرعی احکام نہیں کہلائیں گے۔ کیونکہ ان پر شریعت کا رنگ نہیں چڑھا ہوتا۔فقیہ کا یہ فرض ہے کہ اپنے فکر وتأمل اور قوت استدلال کے ذریعے احکام اور ان کے دلائل میں اس منطقی ارتباط کو سمجھے جو دونوں میں موجود ہے۔ غیر شرعی احکام اس لفظ سے از خود خارج ہوگئے۔مثلاً عقلی احکام جہاں عقل کا استعمال ہوتا ہے مثلاً ایک دو کا آدھا ہے۔اور شرعیہ کہنے سے لغوی احکام بھی خارج ہوگئے جیسے: فاعل کے احکام کیا ہیں۔ یا مبتدا اور خبر کا حکم کیا ہے یا حسی احکام بھی خارج ہوجاتے ہیں جیسے: برف ٹھنڈی ہے۔

عَمَلِیَّہ:
اس شرط سے علمی اور اعتقادی احکام اب نکل گئے۔جیسے ایمان کے مسائل جو علم عقیدہ اور اصول دین کہلاتا ہے۔ اسی طرح بعض علماء کے نزدیک اصول فقہ بھی عملیہ کی قید سے خارج ہوگیا۔علمی سے مراد تمام فقہی احکام نہیں بلکہ ان کی اکثریت علمی ہے۔جب کہ ان میں سے کچھ نظری بھی ہیں جیسے: اختلاف دین وراثت میں مانع ہوتا ہے۔

فَرْعِیَّہ:
سے مراد وہ احکام جن کا تعلق اصول سے نہیں بلکہ فروع سے ہو۔ اصول تو مصادر ہیں یا نصوص۔ جو شریعت کی اصل ہیں۔درخت کے تنے سے جس طرح ٹہنیوں یا شگوفوں کا جو تعلق ہوتا ہے وہی فروع کا اصل سے ہے۔

المُکْتَسَب:
یہ علم کی صفت ہے۔ جس کا معنی ہے: کہ فقہ ایسا علم ہے جو کتاب وسنت کے دلائل سے مستنبط کیا ہوا ہوتا ہے۔

أفعال العباد:
بندوں کے کام۔ ان کا تعلق قلب سے بھی ہے جیسے نیت کرنا، اور غیر قلب سے بھی۔جیسے انسان کی اپنی ممارست قرأت، یا نماز پڑھنا وغیرہ۔ یہ ظاہری وباطنی اعضاء کا عمل ہوتا ہے۔

بناء:
بنیاد: مراد یہ کہ اس علم فقہ کی بنیاد قرآن وسنت میں غوروفکر اور اجتہاد پر مبنی اور مستنبط ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ادلہ:
proofs,evidences or indications دلیل کی جمع ہے لغت میں دلیل مرشد وراہنما کو کہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:
إذَا کَانَ الْغُرَابُ دَلِیْلَ قَومٍ سَیَہْدِیْہِمْ طَریْقَ الْہَالِکِیْنَا
جب کوئی کوا کسی قوم کا مرشد وراہنما ہو تو وہ انہیں ہلاکت والا راستہ ہی دکھائے گا۔

٭…یہ دلائل قرآن کریم کی آیات ہیں یا صحیح وحسن احادیث نبویہ ہیں۔ان دونوں ادلہ پر سب فقہاء کرام کا اتفاق ہے۔ نیز اجماع وقیاس بھی دلائل ہیں مگر ذیلی۔جس پر بعض فقہاء کرام کا اختلاف بھی ہے۔

٭…یہ بھی امت مسلمہ مانتی ہے کہ تمام مجتہدین اگر کتاب وسنت یا قیاس سے مستنبط حکم پر متفق ہو جائیں تو وہ خطا سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایک تیسری اصل پیدا ہوئی جسے اجماع کہا جاتا ہے جو قیاس سے زیادہ قوی ہے۔ اجماع، چونکہ حکم قطعی یا حکم ظنی کا فائدہ دیتا ہے اور قیاس، حکم ظنی کا۔ اس لئے یہ بھی ادلہ ہیں۔

٭…مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت کے تمام احکام مصالح اور علل پر مبنی ہیں۔ اس لئے کتاب وسنت سے ایک چوتھی اصل متفرع ہوئی جسے قیاس کہا جاتا ہے۔

٭… اس طرح ادلہ احکام چار ہوئے۔ کتاب ، سنت، اجماع اور قیاس۔

٭… ادلہ احکام ہونے کی حیثیت سے ان چاروں پر امت کے سواد اعظم کا اتفاق ہے۔

ان کے علم سے مراد یہ ہے کہ:

٭… فقیہ کو ان کی حجیت کے بارے میں علم ہوکہ استدلال کے مراتب کیا ہیں؟

٭…نص کیا مفہوم اور دلیل دے رہی ہے؟

٭…اجماع کا معنی کیا ہے؟اس کی شرائط کیا ہیں۔

٭… قیاس کی تعریف ،اقسام اور اس کی شرائط صحت وغیرہ کیا ہیں؟

٭…ابو القاسم محمد بن احمدبن جزیؒ(م۔ ۷۴۱ھ) نے تقریب الوصول میں متفقہ وغیر متفقہ مصادر کی تفصیل دیتے ہوئے ان کی تعداد بیس بتائی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ ادلہ دو قسم کے ہیں:
ادلہ عقلیہ اور ادلہ نقلیہ۔

اَدِلَّہ َنقْلِیَّہ:
یہ کتاب وسنت ہیں اور ان کے ذیلی مختلف فیہ ادلہ، اجماع ، عرف، ہم سے پہلے کی شریعت اور قول صحابی وغیرہ ہیں۔یعنی یہ روایت ونقل کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔

اَدِلَّہ عَقْلِیَّہ:
یہ قیاس ، مصالح مرسلہ، استحسان، سد ذرائع اور استصحاب جیسے ادلہ ہیں۔ عقل ان سے دلائل لے کر پیش کرتی ہے۔یہ بھی مختلف فیہ ہیں۔

اَدِلَّہ تَفْصِیْلِیَّہ :
٭…آیات کتاب اور احادیث ِسنت ہیں۔ وہ نصوص جو کسی بھی معین مسئلہ کے بارے میں دلیل اور حکم کی تفصیل بتادیں۔ انہیں ادلہ تفصیلیہ کہتے ہیں۔مثلاً:
{أقیموا الصلوٰۃ}۔ نماز قائم کرو۔ یہ آیت تفصیلی دلیل ہے جو ایک مخصوص مسئلہ نماز کی اقامت کے بارے میں حکم دے رہی ہے۔
{ وآتوا حقہ یوم حصادہ}۔ اور فصل کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کر دو۔ یہ بھی ایک اور مخصوص مسئلے عشر کا حکم بتارہی ہے اور اس کی دلیل ہے۔ اسی طرح :
{وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر}۔کھائو پیو یہاں تک کہ سفید دھاری کالی دھاری سے فجر کی ظاہر ہو جائے۔ یہ بھی ایک خاص مسئلے کی تفصیلی دلیل ہے اور وہ سحری فجر تک کھانا ہے۔

٭ … ان میں ہر آیت فقہ کے مختلف ابواب میں سے ایک معین باب کے بارے میں حکم بتا رہی ہے۔

٭ … انہیں ادلہ تفصیلیہ یا ادلہ جزئیہ بھی کہتے ہیں۔یعنی ایسے ادلہ جو جزئی اور مفصل ہوں۔ان کا مبحث فقہ یا علم الخلاف ہوا کرتے ہیں۔یہی فقہاء کا موضوع بحث ہوتا ہے۔

٭… رہے وہ ادلہ جو اجمالی ہیں یا کلی، وہی دراصل مصادر شریعہ (کتاب وسنت، اجماع وقیاس، عام وخاص اور امر ونہی) ہیں یا ان سے متعلق قواعد۔ یہ اہل اصول کا موضوع بحث ہوا کرتے ہیں۔ اسلامی فقہ کے یہ سب دلائل اپنے مسائل کے ساتھ بطور دلیل ہمراہ ہوتے ہیں۔

تبصرہ:
متاخرین کی یہ تعریف فقہ، کتاب وسنت یا متقدمین کے ہاں وارد لفظ فقہ کے مفہوم کے مقابلے میں بہت محدود ہے کیونکہ کتاب وسنت میں لفظ فقہ ، شریعت وعقیدے دونوں کو شامل ہے۔جیسے امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی یہ تعریف کی:
مَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَھَا وَمَا عَلَیْھَا۔
یعنی نفس کی کیا ذمہ داری ہے اور کیا نہیں؟
اس کی معرفت کا نام فقہ ہے۔ جن میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات، اس کی وحدانیت اور تمام نقائص سے اس کے پاک ہونے کا اقرار، اس کی خشیت، حقوق اللہ کی معرفت، اور انبیاء ورسل کی معرفت جہاں شامل ہے وہاں اخلاق وآداب کا علم اور سچی بندگی کے لئے محض اللہ کے لئے قیام وغیرہ بھی شامل ہیں جسے علم التوحید کہتے ہیں۔اس لئے کہ عقیدہ کا صحیح فہم نہ ہو یا وہ خراب ہوتو فروعی فقہی مسائل کی حیثیت باقی کیا رہ جاتی ہے۔

نوٹ: احکام شرعیہ کی وضاحت سے غیر شرعی احکام مثلاً عقلی احکام اس علم سے خارج ہوگئے۔ جیسے ایک دو کا آدھا ہوتا ہے۔لغوی احکام بھی اس سے نکل گئے۔ جیسے: فاعل، مبتدا اور خبر کے احکام وغیرہ۔ متاخر فقہاء کی غالب اکثریت یہی معنی لیتی ہے۔نیزان کے نزدیک احکام شرعیہ کا تعلق عمل یعنی عبادات اور معاملات سے ہوتا ہے نہ کہ عقائدو ایمانیات اوراخلاق سے۔

٭…یہ احکام غوروفکر اور استدلال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ محض نقالی یا بے سوچی سمجھی بات نہیں ہوتی۔ مثلاً حرمت علیکم أمھاتکم۔تم پر تمہاری مائیں حرام کردی گئی ہیں۔ اس آیت میں مسئلہ مائوں کے ساتھ نکاح کا ہے۔اوراس مسئلہ کے بارے میں ایک مقررہ حکم کو بتاتی ہے۔ وہ حکم ہے {حرمت علیکم أمھاتکم}، أی حرمت نکاح أمھاتکم۔ جو ایک دلیل ہے۔

فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top