- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
لفظ فقہ کا معنی ومفہوم
لفظ فقہ اپنے لغوی معنی کے تعین میں کچھ تاریخی وتدریجی مراحل رکھتا ہے جن سے واقفیت صحیح فقہی مفہوم کے لئے بہت اہم ہوگی۔
پہلا مرحلہ:
لغت میں اس کا معنی ومفہوم
دوسرا مرحلہ:
خیرالقرون میں اس کا معنی ومفہوم
تیسرا مرحلہ:
متاخرین میں اس کا معنی ومفہوم۔
پہلا مرحلہ:
اہل لغت نے اس لفظ کے معنی ادراک، فہم، اور علم کے لئے ہیں۔مگر اکثر فقہ سے مراد فہم مطلق لیتے ہیں یافقہ کو فہم سے اخص کہتے ہیں کیونکہ فقہ متکلم کے کلام کی مراد کا فہم ہے۔وہ فقہ سے دقیق اور گہرے فہم کا معنی نہیں لیتے۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اس کی تعریف یہ کی ہے:
اَلْفِقْہُ: اَلْعِلْمُ بِالشَّیئِ وَالفَہْمِ لَہُ۔وَغَلَبَ عَلَی عِلْمِ الدِّیْنِ لِسِیَادَتِہِ وَشَرَفِہِ وَفَضْلِہِ عَلَی سَائِرِ أَنْوَاعِ الْعُلُومِ کَمَا غَلَبَ النَّجْمُ عَلَی الثُّرَیَّا۔
فقہ سے مراد کسی چیز کا علم اور اس کا فہم ہے۔ مگر علم دین پر اپنی سیادت ، شرافت اور فضیلت کی وجہ سے یہ تمام علوم پراس طرح حاوی ہو گیا ہے۔ جیسے ستارہ ُثریا پر۔
ابن فارس کہتے ہیں:
کُلُّ عِلْمٍ بِشَیْئٍ فَہُوَ فِقْہٌ، ثُمَّ اخْتُصَّ بِذَلِکَ عِلْمُ الشَّریْعَۃِ فَقِیلَ لِکُلِّ عَالِمٍ بِالْحَلالِ وَالْحَرامِ فَقِیْہٌ۔
کسی بھی چیز کا علم فقہ کہلاتا ہے۔ بعد میں یہ نام علم شریعت کے ساتھ مخصوص ہو گیا۔ اس لئے ہر وہ عالم جو حلال وحرام سے واقف ہو فقیہ کہلاتا ہے۔
عرب علم کو فقہ کہتے ہیں۔نحو کے امام ، ثعلب، احمد بن یحییٰ نحوی اس فہم کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آدمی کی سمجھ کے بارے میں درج ذیل الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً جب وہ علم میں کامل ہو جائے تو: فقُہ کہا جاتا ہے اوراگر معمولی سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو فقِہ کہہ دیا کرتے ہیں۔
اس کی مزید وضاحت امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں یوں کی ہے: فَقُہَ: قاف کے ضمہ کے ساتھ اگر یہ لفظ ہو تو وہ فقہ وفہم مراد ہے جو آدمی کے مزاج اور طبیعت میں رچ بس جائے۔ فَقِہَ یعنی کسرہ کے ساتھ ہو اس سے مراد سمجھ ہے۔ اور اگر فَقَہَ زبر سے ہو تو مراد فہم میں سبقت لے جانا ہے۔
لغوی معنی آیات میں:
قرآن مجید میں بھی لفظ فقہ، فہم کے معنی میں آیا ہے۔مثلاً:
{قالوا یا شعیب مانفقہ کثیرا مما تقول}(ہود:۹۱)
وہ کہنے لگے اے شعیب! بہت سی باتیں جو تم کہتے ہو ہم نہیں سمجھتے۔
اسی طرح یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وإن من شیء إلا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم۔}( ا لإسراء : ۴۴)
اور کوئی شے نہیں جو اللہ کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ مگر تم انسانو! ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا:
{ واحلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی}( طہ: ۲۸ )
اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں۔
لسان نبوی میں:
احادیث میں بھی یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دعا دیتے ہوئے فرمایا:
اللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔
اے اللہ! اسے دین کا فہم عطا فرما۔
اسی طرح صحیح بخاری میں ہے:
إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیراً فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ کوئی بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔
مسند احمدؒ میں ہے:
کَانَ کَلَامُ النَّبِیِّ ﷺ فَصْلًا، یَفْقہُہُ کُلُّ أَحَدٍ، لَمْ یَکُنْ یَسْرُدُ سَرْدًا۔
آپ ﷺ کے کلمات بالکل الگ الگ ہوتے تھے جنہیں ہر کوئی سمجھ لیتا تھا۔ گفتگو لگاتار اور پے در پے نہیں ہوا کرتی تھی۔
…اہل نجد کا وہ شخص جو بکھرے بالوں کے ساتھ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ صحابہ اس کے بارے میں کہتے ہیں:
نَسْمَعُ دَوِیَّ صَوتِہِ وَلاَ نَفْقَہُ مَا یَقُوْلُ۔۔ (صحیح بخاری)
ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنتے تھے مگر سمجھ نہیں پاتے تھے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔
اس لغوی معنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ فقہ ، ا پنے معنی اور مفہوم کی وجہ سے کسی خاص فن یا فکرکا نام نہیں بلکہ ہر علم کے فہم کو فقہ کہا جاسکتا ہے جس کے مختلف نام و مراتب ہیں۔
نوٹ: بعض مستشرقین کی یہ رائے ہے کہ لفظ فقہ رومی زبان کے لفظ ( juris) سے ماخوذ ہے ۔ یہ رائے درست نہیں۔ اس لئے کہ اولا ًیہ لفظ قرآن مجید کے علاوہ قدیم عربی ادب میں بھی مستعمل ہے جو کسی بھی زبان سے مستعار نہیں بلکہ وہ اللہ کا کلام ہے دوسرا یہ کہ لفظ فقہ اور (juris) کے نطق میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔