• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ مشرق کی دلالت (بحوالہ حدیث نجد)

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں یہ چاہتا تھا کہ آپ اچھی طرح اوپر میری آخری بات دیکھ لیں اور کوئی اعتراض ہے تو کر لیں اب جب آپ کا ہر طرح اطمینان ہو گیا ہے اور صرف قرآن و حدیث کی دلالت باقی رہ گئی ہے تو وہ پیش خدمت ہے
پہلے مرحلے میں بخاری کی احادیث مع قرآن کی آیت پیش خدمت ہیں اگلے مرحلے میں باقی احادیث پیش کروں گا

1-فاضربوا مشارق الأرض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بينكم وبين خبر السماء فانصرف أولئك الذين توجهوا نحو تهامة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بنخلة، عامدين إلى سوق عكاظ وهو يصلي بأصحابه صلاة الفجر،
تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے ۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے
یہاں جنوں کو کہا جا رہا ہے کہ مشرق اور مغرب میں پھیل جاؤ اب کوئی جاہل بھی یہاں سے یہ مراد نہیں لے سکتا یہ صرف سورج طلوع ہونے کہ جگہ اور صرف سورج غروب ہونے کہ جگہ پر پھیل جانے کا حکم ہے
مشارق الأرض ومغاربها یہاں جمع کا صیغہ کہا گیا ہے اس لئے یہ دلیل اس بحث سے خارج ہے کیونکہ آپ نے صرف مشرق کی سمت پر دلیل دینی ہے نہ کہ مشارق کی سمت پر
2-‏قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم‏-‏ فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم رجل ثم خرج بعد ما صلى، فمر على قوم من الأنصار في صلاة العصر نحو بيت المقدس فقال هو يشهد أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنه توجه نحو الكعبة‏.‏ فتحرف القوم حتى توجهوا نحو الكعبة‏.‏
آپ فرما دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب ، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے ۔ '' ( جب قبلہ بدلا تو ) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے ۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ ( کعبہ ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے ۔ پھر وہ جماعت ( نماز کی حالت میں ہی ) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا ۔
یہاں بھی کوئی کافر ہی مشرق اور مغرب کا معنی صرف سورج کے طلوع ہونے کی جگہ یا غروب ہونے کی جگہ کہ سکتا ہے
اس دلیل سے یہی ثابت ہورہا ہے کہ مشرق اور مغرب دو متضاد سمتیں ہیں ان کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر آپ جو اس آیت سے ثابت کرنا چاہتے ہیں اگر وہ بات مان لی جائے تو یہ کفر ہوگا کیونکہ جس طرح مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہے ایسی طرح شمال اور جنوب بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ پوری کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اگر سورج کے طلوع ہونے کی سمت کا ہی تعین کرنا ہے تو اس کے لئے دلیل بھی قرآن ہی فراہم کررہا ہے
قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ
البقر : 258
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے


یہاں کوئی نجدی ہی اس بات کا انکار کرسکتا ہے اللہ سورج کو مشرقی سمت سے طلوع کرتا
3-إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها، ولكن شرقوا أو غربوا ‏"‏‏.‏ قال أبو أيوب فقدمنا الشأم فوجدنا مراحيض بنيت قبل القبلة، فننحرف ونستغفر الله تعالى‏.
جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو اس وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پیٹھ کرو ۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف اس وقت اپنا منہ کر لیا کرو ۔ ابوایوب نے فرمایا کہ ہم جب شام میں آئے تو یہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے ( جب ہم قضائے حاجت کے لیے جاتے ) تو ہم مڑ جاتے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرتے تھے
4-ليس في المشرق ولا في المغرب قبلة، لقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تستقبلوا القبلة بغائط أو بول ولكن شرقوا أو غربوا ‏"‏‏.‏
اور ( مدینہ اور شام والوں کا ) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں ) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو ، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو ، یا مغرب کی طرف ۔ (باب : مدینہ اور شام والوں کے قبلہ کا بیان اور مشرق کا بیان)
یہاں مشرق یا مغرب سے مراد صرف سورج طلوع ہونے کی یا غروب ہونے کی جگہ نہیں کیوں کہ 45 درجہ زاویہ بھی تبدیل کر دیں تو جائز ہے
یہ حدیث تو آپ کے خلاف ہی جارہی ہے کیوں اس حدیث میں بیان ہوا کہ رفع حاجت کے وقت نہ کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا چاہئے نہ پیٹھ بلکہ اپنا رخ مشرق کی سمت کرلینا چاہئے یا مغرب کی طرف یعنی یہ مطلب ہوا کہ کعبۃ اللہ مدینے کی نہ مشرقی سمت ہے نہ مغربی سمت اس کا مطلب یہ ہوا کہ کعبۃاللہ مدینے کی شمال کی سمت ہے یا جنوبی سمت جدید جغرافیہ بھی یہی کہتی ہے کہ مدینہ منورہ سے کعبۃاللہ جنوبی سمت ہے واقع ہے اس حساب سے عراق مدینہ سے شمال کی سمت ہے اور سعودی نجد مدینہ کے مشرقی سمت واقع ہے اور یہ 45 درجہ کا زاویہ والی بات بھی خوب ہے کیا یہ کسی حدیث میں آئی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
وقت بہت کم ہوتا ہے اسلئے محتصر جواب دینے کی کوشش کروں گا
مشارق الأرض ومغاربها یہاں جمع کا صیغہ کہا گیا ہے اس لئے یہ دلیل اس بحث سے خارج ہے کیونکہ آپ نے صرف مشرق کی سمت پر دلیل دینی ہے نہ کہ مشارق کی سمت پر
میں نے آپ کی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ کبھی مشرق صرف سورج نکلنے کی جگہ کے لئے ہی ہوتا ہے لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ مشرق اس سے ہٹ کر معنی میں بھی ہو سکتا ہے پس جب جنوں کو سورج نکلنےکی ایک خاص جگہ کے علاوہ دوسرے مشرقوں میں بھی پھیلنے کا حکم ایک ہی جملے میں دیا جا رہا ہے تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے

اس دلیل سے یہی ثابت ہورہا ہے کہ مشرق اور مغرب دو متضاد سمتیں ہیں ان کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر آپ جو اس آیت سے ثابت کرنا چاہتے ہیں اگر وہ بات مان لی جائے تو یہ کفر ہوگا کیونکہ جس طرح مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہے ایسی طرح شمال اور جنوب بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ پوری کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے


اس آیت سے صرف مشرق اور مغرب کی سمتیں ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ اعتراض قبلہ کے تعین پر ہو رہا تھا جو شمالا جنوبا ہے نہ کہ مشق مغرب میں- پس اللہ نے انکو یہ بتایا ہے کہ جب ساری جگہ میری ملکیت ہے تو اختلاف کس بات کا-
مثلا اگر ایک باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ کیا تمھارا لاہور والا گھر میرا نہیں تو بیٹا کہتا ہے کہ میرا کراچی والا گھر آپکا ہے تو کیا باپ کی بات کی تصدیق کر رہا ہوتا- ہاں اگر بیٹا کہتا کہ میرے سارے گھر آپ کے ہیں تو پھر وہ باپ کی تصدیق کر رہا ہوتا
پس اسی طرح اگر شمالا جنوبا قبلہ پر اختلاف کرنے والوں کو یہ جواب دیا جاتا کہ مشرق مغرب اللہ کا ہے تو اختلاف کا فیصلہ نہ ہوتا پس یہاں مشرق مغرب سے مراد صرف سمتیں نہیں بلکہ تمام جگہیں ہیں جیسے سڑک والی مثال میں میں نے اوپر بتایا ہے یا جیسے کہا جاتا ہے کہ مشرق اور مغرب فلاں کی حکومت تھی تو اس سے مراد صرف سورج طلوع ہونے کی جگہ مراد نہیں ہوتا بلکہ ساری زمین ہوتا ہے
البتہ آپ کا جا اعتراض ہے کہ پھر تو یہ کہنا چاہئے کہ ساری کائنات اللہ کی ہے تو بھائی یہ ضروری نہیں جیسے اوپر مثال میں دیکھیں کہ چونکہ بات گھروں کی ہو رہی تھی تو کہا کہ میرے سارے گھر آپ کے ہیں پس اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ صرف بیٹے کے گھر ہی باپ کی ملکیت ہیں بلکہ اور بھی باپ کی ملکیت میں ہو سکتا ہے
منطقی باتیں اگر آپ کی سمجھ میں آئیں تو

اگر سورج کے طلوع ہونے کی سمت کا ہی تعین کرنا ہے تو اس کے لئے دلیل بھی قرآن ہی فراہم کررہا ہے
قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ
البقر : 258
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے
یہاں کوئی نجدی ہی اس بات کا انکار کرسکتا ہے اللہ سورج کو مشرقی سمت سے طلوع کرتا
اس کا انکار تو واقعی کوئی پاگل ہی کر سکتا ہے البتہ ہٹ دھرمی کوئی ابن سبا کی اولاد میں سے ہی کر سکتا ہے
میں بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ محل نزاع یہ نہیں کہ کبھی مشرق کا لفظ صرف سورج طلوع ہونے کے معنی میں ہوتا ہے بلکہ محل نزاع یہ ہے کہ مشرق کا لفظ اس کے علاوہ کسی معنی میں استعمال کبھی ہو ہی نہیں سکتا اور اسکے لئے میں نے یوم والی مثال بھی دی تھی کہ قرآن میں ایک جگہ ہوم سے صرف دن ہی مراد لیا جا سکتا ہے لیکن دوسری آیت میں اس سے مراد دن اور رات دونوں بھی آتے ہیں پس کوئی ہٹ دھرم اگر پہلی آیت کو لے کر کہے کہ چونکہ اس آیت میں یوم کا معنی صرف دن ہو سکتا ہے پس ہر جگہ یوم کا معنی دن ہی ہو گا تو اس کو کیا جواب دیں گے

یہ حدیث تو آپ کے خلاف ہی جارہی ہے کیوں اس حدیث میں بیان ہوا کہ رفع حاجت کے وقت نہ کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا چاہئے نہ پیٹھ بلکہ اپنا رخ مشرق کی سمت کرلینا چاہئے یا مغرب کی طرف یعنی یہ مطلب ہوا کہ کعبۃ اللہ مدینے کی نہ مشرقی سمت ہے نہ مغربی سمت اس کا مطلب یہ ہوا کہ کعبۃاللہ مدینے کی شمال کی سمت ہے یا جنوبی سمت جدید جغرافیہ بھی یہی کہتی ہے کہ مدینہ منورہ سے کعبۃاللہ جنوبی سمت ہے واقع ہے اس حساب سے عراق مدینہ سے شمال کی سمت ہے اور سعودی نجد مدینہ کے مشرقی سمت واقع ہے اور یہ 45 درجہ کا زاویہ والی بات بھی خوب ہے کیا یہ کسی حدیث میں آئی ہے

یعنی جب پیشاب کرتے ہوئے منہ اگر مشرق سے تھوڑا سا شمال کی طرف ہو جائے تو کیا حدیث کی مخالفت لازم آئے گی اگر آپ کہتے ہیں کہ آئے گی تو میں نے آج تک اسکا قائل کوئی نہیں دیکھا
اگر کہتے ہیں کہ حدیث کی مخالفت نہیں ہو گی تو ثابت ہوا کہ مشرق یا مغرب کی طرف جو منہ کرنے کا حکم ہے وہ 90 درجے سے خاص نہیں

یہ چونکہ صرف بخاری کی احادیث پیش کی تھی اب ترمذی کی ایک حدیث پیش ہے جو مندرجہ ذیل ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بَكْرٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ‏.‏ وَإِنَّمَا قِيلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ لأَنَّهُ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ‏.‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ‏"‏ ‏.‏ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلْتَ الْمَغْرِبَ عَنْ يَمِينِكَ وَالْمَشْرِقَ عَنْ يَسَارِكَ فَمَا بَيْنَهُمَا قِبْلَةٌ إِذَا اسْتَقْبَلْتَ الْقِبْلَةَ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ ‏"‏ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ‏"‏ ‏.‏ هَذَا لأَهْلِ الْمَشْرِقِ ‏.‏

اس سے دو چیزیں ثابت ہوئی
1-اھل مشرق کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے جس کا تعلق سورج کے طلوع کے ساتھ نہیں ہوتا اور اہل مشرق صرف سعودی نجد کو نہیں کہتے کیونکہ انکا قبلہ پھر جنوب کی طرف نہیں ہونا چاہئے
2-قبلہ کا رخ لازمی 90 کے درجے پر ہونا لازمی نہیں
3-بین المشرق والمغرب کو اگر سڑک والی مثال کے مطابق نہ پڑھیں اور سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے کی جگہ کے لحاظ سے دیکھیں تو پھر قبلہ کس طرف بنے گا ذرا وضاحت کر دیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
وقت بہت کم ہوتا ہے اسلئے محتصر جواب دینے کی کوشش کروں گا

میں نے آپ کی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ کبھی مشرق صرف سورج نکلنے کی جگہ کے لئے ہی ہوتا ہے لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ مشرق اس سے ہٹ کر معنی میں بھی ہو سکتا ہے پس جب جنوں کو سورج نکلنےکی ایک خاص جگہ کے علاوہ دوسرے مشرقوں میں بھی پھیلنے کا حکم ایک ہی جملے میں دیا جا رہا ہے تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے



اس آیت سے صرف مشرق اور مغرب کی سمتیں ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ اعتراض قبلہ کے تعین پر ہو رہا تھا جو شمالا جنوبا ہے نہ کہ مشق مغرب میں- پس اللہ نے انکو یہ بتایا ہے کہ جب ساری جگہ میری ملکیت ہے تو اختلاف کس بات کا-
مثلا اگر ایک باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ کیا تمھارا لاہور والا گھر میرا نہیں تو بیٹا کہتا ہے کہ میرا کراچی والا گھر آپکا ہے تو کیا باپ کی بات کی تصدیق کر رہا ہوتا- ہاں اگر بیٹا کہتا کہ میرے سارے گھر آپ کے ہیں تو پھر وہ باپ کی تصدیق کر رہا ہوتا
پس اسی طرح اگر شمالا جنوبا قبلہ پر اختلاف کرنے والوں کو یہ جواب دیا جاتا کہ مشرق مغرب اللہ کا ہے تو اختلاف کا فیصلہ نہ ہوتا پس یہاں مشرق مغرب سے مراد صرف سمتیں نہیں بلکہ تمام جگہیں ہیں جیسے سڑک والی مثال میں میں نے اوپر بتایا ہے یا جیسے کہا جاتا ہے کہ مشرق اور مغرب فلاں کی حکومت تھی تو اس سے مراد صرف سورج طلوع ہونے کی جگہ مراد نہیں ہوتا بلکہ ساری زمین ہوتا ہے
البتہ آپ کا جا اعتراض ہے کہ پھر تو یہ کہنا چاہئے کہ ساری کائنات اللہ کی ہے تو بھائی یہ ضروری نہیں جیسے اوپر مثال میں دیکھیں کہ چونکہ بات گھروں کی ہو رہی تھی تو کہا کہ میرے سارے گھر آپ کے ہیں پس اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ صرف بیٹے کے گھر ہی باپ کی ملکیت ہیں بلکہ اور بھی باپ کی ملکیت میں ہو سکتا ہے
منطقی باتیں اگر آپ کی سمجھ میں آئیں تو


اس کا انکار تو واقعی کوئی پاگل ہی کر سکتا ہے البتہ ہٹ دھرمی کوئی ابن سبا کی اولاد میں سے ہی کر سکتا ہے
میں بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ محل نزاع یہ نہیں کہ کبھی مشرق کا لفظ صرف سورج طلوع ہونے کے معنی میں ہوتا ہے بلکہ محل نزاع یہ ہے کہ مشرق کا لفظ اس کے علاوہ کسی معنی میں استعمال کبھی ہو ہی نہیں سکتا اور اسکے لئے میں نے یوم والی مثال بھی دی تھی کہ قرآن میں ایک جگہ ہوم سے صرف دن ہی مراد لیا جا سکتا ہے لیکن دوسری آیت میں اس سے مراد دن اور رات دونوں بھی آتے ہیں پس کوئی ہٹ دھرم اگر پہلی آیت کو لے کر کہے کہ چونکہ اس آیت میں یوم کا معنی صرف دن ہو سکتا ہے پس ہر جگہ یوم کا معنی دن ہی ہو گا تو اس کو کیا جواب دیں گے


یعنی جب پیشاب کرتے ہوئے منہ اگر مشرق سے تھوڑا سا شمال کی طرف ہو جائے تو کیا حدیث کی مخالفت لازم آئے گی اگر آپ کہتے ہیں کہ آئے گی تو میں نے آج تک اسکا قائل کوئی نہیں دیکھا
اگر کہتے ہیں کہ حدیث کی مخالفت نہیں ہو گی تو ثابت ہوا کہ مشرق یا مغرب کی طرف جو منہ کرنے کا حکم ہے وہ 90 درجے سے خاص نہیں

یہ چونکہ صرف بخاری کی احادیث پیش کی تھی اب ترمذی کی ایک حدیث پیش ہے جو مندرجہ ذیل ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بَكْرٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ‏.‏ وَإِنَّمَا قِيلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ لأَنَّهُ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ‏.‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ‏"‏ ‏.‏ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلْتَ الْمَغْرِبَ عَنْ يَمِينِكَ وَالْمَشْرِقَ عَنْ يَسَارِكَ فَمَا بَيْنَهُمَا قِبْلَةٌ إِذَا اسْتَقْبَلْتَ الْقِبْلَةَ ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ ‏"‏ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ‏"‏ ‏.‏ هَذَا لأَهْلِ الْمَشْرِقِ ‏.‏

اس سے دو چیزیں ثابت ہوئی
1-اھل مشرق کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے جس کا تعلق سورج کے طلوع کے ساتھ نہیں ہوتا اور اہل مشرق صرف سعودی نجد کو نہیں کہتے کیونکہ انکا قبلہ پھر جنوب کی طرف نہیں ہونا چاہئے
2-قبلہ کا رخ لازمی 90 کے درجے پر ہونا لازمی نہیں
3-بین المشرق والمغرب کو اگر سڑک والی مثال کے مطابق نہ پڑھیں اور سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے کی جگہ کے لحاظ سے دیکھیں تو پھر قبلہ کس طرف بنے گا ذرا وضاحت کر دیں
پہلے جو روایت پیش کی گئی ہے اس کا اردو ترجمہ فرمادیں پھر اس پر بھی بات کرلیتے ہیں !!!
جب تک مدینہ منورہ کی مشرقی سمت کے تعین کے لئے کچھ احادیث آپ کی خدمت میں پیش ہیں
مدینہ منورہ کی مشرقی سمت


[arbإنَّ أولَ جُمُعةٍ جُمِّعتْ ، بَعدَ جُمُعةٍ في مسجدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ، في مسجدِ عَبْدِ القيْسِ ، بِجُوَاثَى مِنَ البَحْرَينِ .][/arb]
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 892
ترجمہ داؤد راز
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔
صحیح بخاری کی اس حدیث میں بیان ہوا کہ مسجد نبویﷺ کے بعد جس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی گئی وہ مسجد قبیلہ عبدالقیس کی مسجد تھی جو کہ بحرین کے جواثی مقام پر تھی اس مسجد کے آثار آج بھی باقی ہیں یہ سعودی عرب کے صوبہ الاحساء کے شہر الھفوف کے قریب ہیں جس کی اب تعمیر جدید ہوچکی ہے

قبیلہ عبد القیس کی مسجد جواثا کے آثار


قبیلہ عبد القیس کی مسجد جواثا کی جدید تعمیر
بشکریہ: http://www.alriyadh.com/2011/09/03/article664158.html

آئیں اب دیکھتے ہیں کہ قبیلہ بنو عبدالقیس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے
رسول اللہﷺ نے فرمایا
خيرُ أهلِ المشرِقِ عَبدُ القَيْسِ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 3302
خلاصة حكم المحدث: صحيح

اہل مشرق (یعنی مشرق کی جانب رہنے والوں )میں بنو عبدالقیس سب سے بہتر ہیں

جیسا کہ ہمیں حدیث بخاری سے معلوم ہوا کہ قبیلہ بنو عبدالقیس بحرین میں قیام پزیر تھا عہد نبویﷺ میں اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق اہل مشرق میں قبیلہ بنو عبدالقیس سب سے بہترین قبیلہ ہے یہ بات ہمیں البانی صاحب کی صحیح الجامع کی حدیث سے معلوم ہوئی
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کیا قبیلہ عبد قیس مدینہ کے مشرقی سمت میں آباد تھا یا کسی اور سمت میں اس کے لئے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے منعقدہ سیریت نگاری کے مقابلے میں اول انعام پانے والی صفی الرحمٰن مبارک پوری کی شہرہ آفاق کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہونے والے نقشے کی مدد لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بحرین اور قبیلہ عبدالقیس مدینہ منورہ کی مشرقی سمت میں ہے یا نہیں

الرحیق المختوم اردو ترجمہ صفحہ 42
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عہد نبویﷺ میں چونکہ قبیلہ عبد القیس مدینہ کے مشرقی سمت میں آباد تھا ایسی بناء پر رسول اللہﷺ نے اس قبیلے کو اہل مشرق کے لقب سے یاد فرمایا تھا اور اسی مشرقی سمت میں نجد سعودی بھی ہے
آج اگر ہم سعودی عرب کا میپ دیکھیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ سعودی عرب کے صوبہ الاحساء کا شہر الھفوف کہ جہاں مسجد جواثا ہے وہ مقام مدینہ منورہ کی مشرقی سمت ہی ہے


اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے کہ موجودہ جغرافیہ میں جو سمت کے تعین کا قاعدہ ہے وہ قرآن حدیث کے عین مطابق ہے قرآن کی آیت پہلے پیش کی گئی کہ اللہ سورج کو مشرق کی سمت سے طلوع فرماتا ہے اور اس کے بعد یہ احادیث کہ قبیلہ عبد قیس کو رسول اللہﷺ نے اہل مشرق کے خطاب سے مخاطب فرمایا اور مسجد جواثا کے آثار بھی مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں ہی ہیں اور الرحیق المختوم میں پیش کئے گئے نقشے کے مطابق قبیلہ عبدالقیس کا مقام بھی مدینہ کے مشرق میں دیکھایا گیا ہے

عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ
أنَّه قدِمَ رجلانِ مِنَ المشرقِ فخَطَبا ، فعَجِبَ النَّاسُ لبيانِهِما ، فقال رسولُ اللهِ _صلى الله عليه وسلم _: " إن مِنَ البيانِلسِحرًا ، أو : إن بعضَ البيانِ لسِحْرٌ" .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5767

ترجمہ داؤد راز
دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے، وہ مسلمان ہو گئے اور خطبہ دیا، نہایت فصیح و بلیغ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کرتی ہے۔

ان دو آدمیوں کے بارے جو کہ مدینہ منورہ کی مشرق کی طرف سے آئے تھے ابن کثیر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ دونوں قبیلہ بن تمیم کے وفد کے ساتھ آئے تھے ان کے نام بھی ابن کثیر نے ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا نام عطارد بن حاجب تھا انھوں نے بڑا فصیح و بلیغ خطاب کیا تھا
حوالہ : تاریخ ابن کثیر جلد 5 ، 9 ھجری کے واقعات میں وفد بنی تمیم کے بیان میں
صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہوئے نقشہ کے مطابق قبیلہ نبی تمیم کا مقام مدینہ منورہ کے عین مشرق میں دیکھایا گیا ہے اور یہ محمد بن عبدالواھاب نجدی کا قبیلہ ہے مسعود عالم ندوی اپنی کتاب محمد بن عبدالوھاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح میں فرماتے ہیں کہ" محمد بن عبدالوھاب کی جائے پیدائش عنیہ اور دعوت کا مقام درعیہ دونوں وادی حنفیہ میں واقع ہیں جو نجد کے قلب کی حثیت رکھتے ہیں " اور وادی حنیفہ اور یمامہ دونوں ہی مدینہ منور کے مشرق میں ہیں یہ تمام شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں نجد مدینہ منورہ کے مشرق میں ہے کیونکہ نجد سے آنے والے وفد بنی تمیم کو صحیح بخاری کے الفاظ کے مطابق مدینہ کی مشرق کی سمت سے آنے والے کہا گیا۔

امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے ​

کہا جاتا ہے کہ امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے آئیں امام بخاری کی فقہ کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ نجد مشرقی سمت ہے یا نہیں
امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الفتن میں ایک باب بندھا ہے کہ " قول النبي صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق " یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا اور ایسی باب کے تحت حدیث نجد کو بھی بیان کیا کچھ اس طرح سے
ذكر النبي صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا فيشأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا قال اللهم بارك لنا في شأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنافأظنه قال في الثالثة هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان
حوالہ : صحيح البخاري : كتاب الفتن : باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق : الصفحة أو الرقم: 7094

ترجمہ داؤد راز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔

امام بخاری کی فقہ کے مطابق خطہ نجد کہ جہاں سے فتنہ اور شیطان کا سینگ طلوع ہونے کی پیشگوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے وہ مشرق کی سمت میں ہے یہ وہ ناقبل تردید شواھد ہیں جن تردید صاحب مضمون بھی نہیں کرسکتے اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ سعودی نجد ہی وہ خطہ ہے جس کو رسول اللہﷺ محل فتنہ قرار دیا ہے
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا
الإيمانُ ها هنا - وأشار بيدِه إلى اليمنِ - والجفاءُ وغلظُ القلوبِ في الفدَّادينَ - عند أصولِ أذنابِ الإبلِ ، من حيث يطلع قرنَا الشيطانِ - ربيعةَ ومضرَ
حوالہ جات
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4387
صحيح البخاري -الصفحة أو الرقم: 5303
صحيح مسلم -الصفحة أو الرقم: 51
صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2804

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایمان تو ادھر ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور بےرحمی اورسخت دلی اونٹ کی دم کے پیچھے پیچھے چلانے والوں میں ہے، جدھر سے شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں (یعنی مشرق) قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔

رسول اللہﷺ کے اس ارشاد پاک کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوئی کہ شیطان کے دونوں سینگ جس جانب سے نکلتے ہیں ایسی طرف قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر بھی رہتے تھے عہد رسالتمآب ﷺ میں اور یہی مشرقی سمت ہے
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے منعقدہ سیرت نگاری کے مقابلے میں اول انعام پانے والی کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہونے والے ابتداء نبوت کے زمانے میں جزیرہ نما عرب کےنقشے کے مطابق قبیلہ مضر کو مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں ہی دیکھایا گیا ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
صحیح بخاری کی حدیث
قام النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطيبًا ، فأشار نحو مسكنِ عائشةَ ، فقال : ( هنا الفتنةُ - ثلاثًا - من حيث يطلَعُ قرنُالشيطانِ ) .

الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3104
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسی طرف سے (یعنی مشرق کی طرف سے) فتنے برپا ہوں گے ' تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا کہ یہیں سے شیطان کا سر نمودار ہو گا۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے مسکن امی عائشہ کی جانب اشارہ کیا کہ اس جانب سے فتنے برپا ہونگے اور یہیں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا اور یہ بات آپ نے مسجد نبوی میں ممبر رسول ﷺ پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمائی اگر دور نبویﷺ کے مسجد نبوی کا لےآؤٹ پلان کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہوگا

لنک

اس لے آؤٹ پلان میں ایک جانب ممبر رسولﷺ ہے اور اسکی عین دوسری جانب امی عائشہ کا مسکن ہے کہ جہاں رسول اللہ ﷺ مدفن ہیں رسول اللہ ﷺ کے ممبر کی یہ پوزیشن آج بھی برقرار ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشادہ ہے کہ " میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہو گا۔ " اور ایسی طرح امی عائشہ کے حجرے کی پوزیشن آج بھی برقرار ہے اور اس میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ رسول اللہﷺ کی قبر انور ایسی حجرے میں ہے اگر آج کوئی خطیب ممبر رسول پر کھڑا ہو تو اس کی پشت قبلہ کی جانب ہوگی اور جدید جغرافیہ کی رو سے اس خطیب کی پشت جنوب کی سمت ہوگی اور اس کا چہرہ شمال کی جانب ہوگا اور جدید جغرافیہ کی رو سے اگر کوئی شمال کی جانب منہ کئے اور دونوں ہاتھوں پھیلائے کھڑا ہو تو اس کے دائیں ہاتھ کی جانب مشرقی سمت اور اس کے بائیں ہاتھ کی جانب مغربی سمت ہوگی یہ تو ہوئی جدید جغرافیہ کی بات اس دلیل کا جائزہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث لیا جائے تو اس سے معلوم ہوگا کہ جدید جغرافیہ اور اس حدیث بیان میں کی ہوئی مشرقی سمت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اگر آج کوئی خطیب ممبر رسول پر کھڑا ہو تو اس کی پشت قبلہ کی جانب ہوگی اور جدید جغرافیہ کے مطابق مدینہ منورہ سے قبلہ جنوبی سمت میں ہے اگر ممبر رسول پر کھڑا خطیب اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا لے تو اس کے دائیں ہاتھ کی جانب مسکن امی عائشہ ہوگا اور یہی مشرقی سمت ہوگی
ان سب دلائل سے معلوم ہوا کہ آج کے جدید جغرافیہ میں سمت کے تعین کا قاعدہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے جو لوگ ایسے قرآن و حدیث کے خلاف بتلاتے ہیں وہ غلطی پر ہیں انھیں چاہئے کہ وہ اپنی اس خطاء پر اصرار نہ کریں اور اس سے رجوع فرمالیں
یہ چند دلائل تھے میرے ناقص علم کے مطابق مشرق اور نجد کے بارے باقی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو بہتر علم ہے
والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

براہ مہربانی اوپن فارم پر "محمد بن عبدالوھاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح " اجتناب برتیں۔ شکریہ!

والسلام
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
اس تھریڈ میں اس موضوع پر کافی بحث ہوئی تھی، اس تھریڈ کے قارئین کے لئے اس تھریڈ کا لنک نیچے دے رہا ہوں، میں یہ جاننا چاہوں گا کہ یہ بہرام صاحب اور علی بہرام صاحب کیا دو الگ الگ شخصیات ہیں، شکریہ!

http://forum.mohaddis.com/threads/مدینے-کے-مشرق-کی-تلاش-حرکات-شمس-کی-مدد-سے-گوگل-ارتھ-کی-مدد-سے-کیے-گئے-بریلوی-پراپیگینڈہ-کا-رد.6470/page-2
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پہلے جو روایت پیش کی گئی ہے اس کا اردو ترجمہ فرمادیں پھر اس پر بھی بات کرلیتے ہیں !!!
ترجمہ تو آپ کو آتا ہے البتہ جو بات آپ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے اسی حدیث کی وضاحت محدچین نے کس طرح کی ہے کچھ لکھ دیتا ہوں کہ جس سے آپ کو آرام آ جائے

وقال ابن المبارك ما بين المشرق والمغرب قبلة هذا لأهل المشرق ) قال الشوكاني في النيل : وقد يستشكل قول ابن المبارك من حيث إن من في المشرق إنما يكون قبلته المغرب فإن مكة بينه وبين المغرب ، والجواب عنه أنه أراد بالمشرق البلاد التي يطلق عليها اسم المشرق كالعراق مثلا فإن قبلتهم أيضا بين المشرق والمغرب ، وقد ورد مقيدا بذلك في بعض طرق حديث أبي هريرة : ما بين المغرب والمشرق قبلة لأهل العراق ، رواه البيهقي في الخلافيات وروى ابن أبي شيبة عن أبي شيبة عن ابن عمر أنه قال : إذا جعلت المغرب عن يمينك والمشرق عن يسارك فما بينهما قبلة لأهل المشرق ، انتهى . وقال الطيبي :
[ ص: 269 ] يريد ما بين مشرق الشمس في الشتاء وهو مطلع قلب العقرب ومغرب الصيف وهو مغرب السماك الرامح ، والظاهر أنها قبلة أهل المدينة فإنها واقعة بين الشرق والغرب وهي إلى الطرف الغربي أميل ، انتهى ، ويدل عليه قوله صلى الله عليه وسلم : إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها ولكن شرقوا أو غربوا ( واختار عبد الله بن المبارك التياسر لأهل مرو ) قال في القاموس : مرو بلد بفارس ، انتهى . وقال العلامة محمد طاهر في المغني : مدينة بخراسان ، انتهى . وقال في الصراح مرو شهرى ست ازخراسان سروزي منسوب إليه على غير قياس وهم مراوزة ، انتهى . والتياسر ضد التيامن والأخذ في جهة اليسار قاله في القاموس قال المظهر في شرح حديث الباب : يعني من جعل من أهل المشرق أول المغارب وهو مغرب الصيف عن يمينه وآخر المشارق وهو مشرق الشتاء عن يساره كان مستقبلا للقبلة ، والمراد بأهل المشرق أهل الكوفة وبغداد وخوزستان وفارس وعراق وخراسان وما يتعلق بهذه البلاد ، انتهى كذا في المرقاة .

ہائلائٹ کیے گئے الفاظ کا مطلب بتا دیتا ہوں تاکہ ٹھنڈے ہوں جائیں

أنه أراد بالمشرق البلاد التي يطلق عليها اسم المشرق كالعراق مثلا فإن قبلتهم أيضا بين المشرق والمغرب
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرق سے مراد وہ ممالک تھے جن پر مشرق کا لفظ کا اطلاق ہوتا ہے جیسے کہ عراق کیونکہ اسکا قبلہ بھی مشرق اور مغرب کے درمیان ہے

يعني من جعل من أهل المشرق أول المغارب وهو مغرب الصيف عن يمينه وآخر المشارق وهو مشرق الشتاء عن يساره كان مستقبلا للقبلة ، والمراد بأهل المشرق أهل الكوفة وبغداد وخوزستان وفارس وعراق وخراسان
یعنی اھل مشرق میں سے جس نے پہلی مغرب (گرمی والی) کو دائیں طرف اور آخری مشرق (سردی والی) کو بائیں طرف کر لیں گے تو پھر قبلۃ کی طرف منہ ہو گا اور اھل مشرق سے مراد اھل کوفہ بغداد خوزستان اور خراسان اور متعلقہ شہر شہر ہیں

جب تک مدینہ منورہ کی مشرقی سمت کے تعین کے لئے کچھ احادیث آپ کی خدمت میں پیش ہیں
پھر وہی تیڑھی دم کہ میں بار بار کہ رہا ہوں کہ جیسے ایک جگہ ہوم کا معنی قرآن میں صرف دن ہی کیا جا سکتا ہے اور دوسری جگہ یوم کا معنی دن اور رات دونوں کرنا لازمی ہے تو کیا یہ اپس میں متعارض ہیں
پس آپ دلیل یہ دیں کہ اللہ کے بنی نے کہا ہو یا معاشرہ کہتا ہو کہ لازمی مشرق کا معنی 90 درجے پر مشرق ہی ہوتا ہے
میرے خیال میں یہاں اب بات ختم کر دینی چاہیئ کیونکہ ٹائم کا ضیاع ہی ہو رہا ہے محترم شاکر بھائی اور محترم کنعان بھائی بتا سکتے ہیں
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
بریلوی دوستوں کے لیے

1۔سورہ رحمان: آیت نمبر ١٧: ترجمہ کنزالایمان: مجدد ملت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی اور تفسیر: نعیم الدین مراد آبادی

احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

دونوں پورب کا رب اور دونوں پچھم کا رب
اور اسی آیت کی تفسیر نعیم الدین صاحب لکھتے ہیں

دونوں پورب اور دونوں پچھم سے مراد آفتاب کے طلوع ہونے کے دونوں مقام ہیں گرمی کے بھی اور جاڑے کے بھی اسی طرح غروب ہونے کے بھی دونوں مقام ہیں


2۔سورہ رحمان، آیت نمبر 17 ،تفسیر ضیا القرآن پیر کرم شاہ سجادہ نشین آف بھیرہ شریف



پیر صاحب اوپر پیش کردہ آیت کا ترجمہ لکھتے ہیں


وہی دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب ہے

اور اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں:

موسم گرما کا مشرق اور ہے اور موسم سرما کا مشرق اور۔ اسی طرح دونوں کے مغرب بھی الگ الگ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دوںوں کا مشرق و مغرب الگ ہے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔


3۔سورہ معارج آیت 40 کا ترجمہ اور تفسیر : از احمد رضا خان اور نعیم الدین مراد آبادی



اگر اس ضمن میں اور ثبوت درکار ہوں تو بریلوی تفاسیر اور شروح کے مزید حوالہ جات فراہم کیے جا سکتے ہیں

مدینہ کا مشرق محض ریاض و گردونواح کو ہی قرار دینا، قرآن، حدیث ، علم جغرافیہ اور علم فلکیات سے لاعلمی یا دوسرے الفاظ میں ہٹ دھرمی کی کھلی مثال ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
صحیح بخاری کی حدیث
قام النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطيبًا ، فأشار نحو مسكنِ عائشةَ ، فقال : ( هنا الفتنةُ - ثلاثًا - من حيث يطلَعُ قرنُالشيطانِ ) .

الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3104
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسی طرف سے (یعنی مشرق کی طرف سے) فتنے برپا ہوں گے ' تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا کہ یہیں سے شیطان کا سر نمودار ہو گا۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے مسکن امی عائشہ کی جانب اشارہ کیا کہ اس جانب سے فتنے برپا ہونگے اور یہیں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا اور یہ بات آپ نے مسجد نبوی میں ممبر رسول ﷺ پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمائی اگر دور نبویﷺ کے مسجد نبوی کا لےآؤٹ پلان کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہوگا

لنک

اس لے آؤٹ پلان میں ایک جانب ممبر رسولﷺ ہے اور اسکی عین دوسری جانب امی عائشہ کا مسکن ہے کہ جہاں رسول اللہ ﷺ مدفن ہیں رسول اللہ ﷺ کے ممبر کی یہ پوزیشن آج بھی برقرار ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشادہ ہے کہ " میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہو گا۔ " اور ایسی طرح امی عائشہ کے حجرے کی پوزیشن آج بھی برقرار ہے اور اس میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ رسول اللہﷺ کی قبر انور ایسی حجرے میں ہے اگر آج کوئی خطیب ممبر رسول پر کھڑا ہو تو اس کی پشت قبلہ کی جانب ہوگی اور جدید جغرافیہ کی رو سے اس خطیب کی پشت جنوب کی سمت ہوگی اور اس کا چہرہ شمال کی جانب ہوگا اور جدید جغرافیہ کی رو سے اگر کوئی شمال کی جانب منہ کئے اور دونوں ہاتھوں پھیلائے کھڑا ہو تو اس کے دائیں ہاتھ کی جانب مشرقی سمت اور اس کے بائیں ہاتھ کی جانب مغربی سمت ہوگی یہ تو ہوئی جدید جغرافیہ کی بات اس دلیل کا جائزہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث لیا جائے تو اس سے معلوم ہوگا کہ جدید جغرافیہ اور اس حدیث بیان میں کی ہوئی مشرقی سمت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اگر آج کوئی خطیب ممبر رسول پر کھڑا ہو تو اس کی پشت قبلہ کی جانب ہوگی اور جدید جغرافیہ کے مطابق مدینہ منورہ سے قبلہ جنوبی سمت میں ہے اگر ممبر رسول پر کھڑا خطیب اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا لے تو اس کے دائیں ہاتھ کی جانب مسکن امی عائشہ ہوگا اور یہی مشرقی سمت ہوگی
ان سب دلائل سے معلوم ہوا کہ آج کے جدید جغرافیہ میں سمت کے تعین کا قاعدہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے جو لوگ ایسے قرآن و حدیث کے خلاف بتلاتے ہیں وہ غلطی پر ہیں انھیں چاہئے کہ وہ اپنی اس خطاء پر اصرار نہ کریں اور اس سے رجوع فرمالیں
یہ چند دلائل تھے میرے ناقص علم کے مطابق مشرق اور نجد کے بارے باقی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو بہتر علم ہے
والسلام



ذرا اس حدیث کی بھی وضاحت کر دیں
najd iraq hai.jpg
 
Top