• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مؤرخ اہل حدیث کا حافظہ (مولانا اسحاق بھٹی)

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
مؤرخ اہل حدیث کا حافظہ

ملک عطاء محمد جنجوعہ​
اللہ سبحانہ نے بنی نوع انسان کو ماحول کی مناسبت سے جداگانہ خوبیوں سے نوازہ ہے اہل عرب میں حافظہ کی خوبی بدرجہ اتم موجود تھی جسکی نظیر دنیا کے کسی علاقے میں نہیں ملتی۔عر ب قبائل کو ایک دوسرے کا حسب و نسب ازبر یاد ےتھا۔
اونٹ تجاتی لحاظ سے ریگستانی جہاز ہے۔چنانچہ وہ ان کی نسل سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے تھے ۔اہل عرب محفل کی گفتگو سن لیتےجو کمپیوٹر کی طرح ان کے سینوں میں محفوظ ہوجاتی۔صحابہ کرام مرشد کامل محمدﷺ کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔چند صحابہ کرام نے اپنی زندگی خدمت حدیث کے لیے وقف کر د۔سرور کائنات ﷺکی زبان اطہر سے جو الفاظ نکلتے وہ اس کویادکر لیتے،پھر اس کولکھ لیتے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے 5374 ' سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ2630' او ر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 2286' احادیث مروی ہیں۔
برصغیر میں عرب کی نسبت حافظہ کی خوبی قدرے کم تھی۔وقت گزرنےکے ساتھ حافظہ کی صلاحیت تدریجی لحاظ سے کم ہوتی چلی گئ حتیٰ کہ ایک دن کی گفتگو دوسرے دن تو یادرہے لیکن ہوبہو الفاظ یاد نہیں رہتے۔یہ تو اللہ کاکرم ہےکہ انسان نے اللہ کی عطا کردہ عقل کو بروئے کا رلا کر موبائل ایجاد کیاجو آواز اور حرکات و سکنات کو محفوظ کر لیتا ہے۔چنانچہ اس دور کے عام فہم شخص کے ذہن میں شک گزرتا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس قدر احا دیث اور ان کی روایات کو کس طرح لفظ بہ لفظ یاد کر لیا؟
قرون اولیٰ کے محدثین کے حافظے کی تصدیق کے لیے عصر حاضر میں خال خال اہل علم موجود ہیں جن کو حافظہ قوی ہے۔اس فہرست میں بر صغیر کے نامور اہل قلم مولانا اسحاق بھٹی بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک ہزار کے لگ بھگ مذہبی و سیا سی شخصیات کے خاکے تحریر کیے۔تاریخ و سوانح پر ان کی چالیس کتب مارکیٹ میں آکر علمی حلقوں میں مقبول ہوچکی ہیں۔جنہیں پڑ ھ کرقاری یوں محسوس کرتاہےجیسا وہ عدم کے راہی کو چلتا پھرتا اور تقریر کرتا دیکھ رہا ہے۔
مولانا ااسحاق بھٹی 1925ء میں پید اہوئے وہ عمر کی ستر بہا ریں دیکھ چکے تھے۔اگر چہ جسمانی طورپر کمزور اور نحیف ہو چکے ہیں تاہم ان کا حافظہ قوی تھا۔انہوں نےجن شخصیات سے ملاقاتوں کا تذکرہ علمی بحث و مباحثہ کی گفتگو اور تقاریر کے اہم اقتباس کو قلمبند کیا ان کو بڑھاپے میں یاد ہیں۔اس کا مشاہدہ اس طرح ہوا کہ عزیز عبدالروف بن حافظ محمد دین کی دعوت پر مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی 24 جولائی 2015 ء کو خطبہ جمعہ کے لیے چک نمبر 23 الف جنوبی سرگودھا علی الصبح تشریف لائے،جماعتی احباب ان کی خدمت میں تشریف لائے اور اسلاف کی خدمات اور حالات سے متعلق استفسار کرتے رہے۔جناب مولانا اسحاق بھٹی صاحب تاریخی واقعات کو لفظ بہ لفظ اس طرح بیان کیا جس طرح کتب میں انہوں نے تحریر کیا ہوا ہے۔پندرہویں صدی ہجری کا انسان ستر برس کی عمر میں ایک ہزار شخصیات کی گفتگو اور خطاب کو لفظ بہ لفظ یاد رکھ سکتا ہے تو قرون اولیٰ کے صحابہ تابعیں یقینا مرشد کامل محمد ﷺ کی زبان اقدس سے نکلے بکھرے موتیوں کو احسن طریق سے د ل کی تختی پر محفوظ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔اللہ ان کی قبروں پر رحمت کی بر کھا برسائے جنہوں نے علم حدیث ہم تک پہنچایا۔
(ملک عطاء محمد جنجوعہ، ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘، 25 تا 31 دسمبر، 2015ء)
 
Last edited:
Top