• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متوکلین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متوکلین

اللہ رب العالمین کا فرمانِ گرامی ہے:
{إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o} [آل عمران:۱۵۹]
'' یقینا اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ''
توکل...: لغوی اعتبار سے کسی پر اعتماد اور عاجزی کے اظہار کا نام توکل ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے: '' وَکَّلْتُ أَمْرِیْ إِلیٰ فُـلَانٍ۔'' اس کا معنی ہوتا ہے: میں نے اپنا معاملہ فلاں تک پہنچایا اور اس پر اعتماد کیا۔ دوسری مثال یہ پیش کی جاتی ہے۔ '' وَکَّلَ فُـلَانٌ فُـلَانًا۔ '' بمعنی فلاں نے فلاں پر اعتماد کیا اور اپنا وکیل بنایا۔
اس مقام پر توکل سے توکل علی اللہ (اللہ پر بھروسہ اعتماد) مراد ہے اور یہ قلبی عمل ہے، زبان اور جوارح کا اس میں کوئی دخل نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق علوم و ادراکات کے باب سے ہے۔
اس کی مختلف تفاسیر کی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
...اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق اس کے ساتھ سیدھا ہونا۔
...مقدر پر راضی ہونا۔
...ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنا وغیرہ
حقیقی بات یہ ہے کہ توکل کئی امور کے مجموعہ کا نام ہے مثلاً:
(۱) ربّ تعالیٰ اور اس کی صفات کی معرفت
(۲) اسباب اور مسببات کا اثبات
(۳) توحید۔ توکل کے مقام پر دل کا پختہ ہونا، کیونکہ بندے کا توکل اس وقت تک سیدھا نہیں ہوتا جب تک اس کی توجیہ درست نہ ہو
(۴) دل کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا
(۵) اللہ تعالیٰ کے ساتھ ظن کو اچھا کرنا
(۶) دل کا اس کے لیے فرمانبردار ہونا
(۷) سپردگی
(۸) رضا مندی۔ یہ ہے توکل کا ثمر۔
جس نے توکل کی مذکورہ بالا تفسیر کی ہے درحقیقت اس نے اس کے بہت بڑے ثمرات اور فوائد کی تفسیر کی ہے۔
کیونکہ جب متوکل توکل کے حق کی طرح توکل کرتا ہے تو جو کچھ اس کا وکیل کرے اس سے راضی ہوجاتا ہے۔
علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ توکل محنت کرنے کے منافی نہیں کیونکہ توکل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک انسان خود محنت نہ کرے۔ اگر ایسا نہیں تو یہ فاسد اور باطل توکل ہے۔ چنانچہ توکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت ہے اور محنت آپ کی سنت ہے، تو جس نے محنت پر طعن کیا گویا اس نے سنت پر طعن کیا اور جس نے توکل پر عیب لگایا گویا اس نے ایمان پر عیب لگایا۔
توکل دین کی منازل میں سے ایک منزل اور یقین رکھنے والوں کے مقامات میں سے ایک مقام ہے بلکہ یہ مقربین کے عالی درجات سے ہے اور کس قدر یہ عظیم مرتبہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاحب توکل کے لیے اپنی محبت کا اعلان اور اس کے لیے کافی ہونے کی ضمانت اٹھائی ہے اور جس کا والی، محبوب اور نگہبان اللہ تعالیٰ ہو تو وہ بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوا کیونکہ محبوب کو نہ تو سزا دی جاتی ہے اور نہ ہی دھتکارا جاتا ہے۔
متوکلون: وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اعتماد کرتے اور اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے اور اپنے تمام امور اس کے سپرد کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ جاری ہونے والا ہے اور ضروری معاملات مثلاً کھانا، پینا، دشمن سے بچاؤ اور اسلحہ کی تیاری میں اور اللہ کی سنت جس چیز کے استعمال کا تقاضا کرتی ہے اس میں بھی اللہ کے نبی کی پیروی کرتے ہیں۔ حکم کے بغیر ان اسباب میں سے کسی پر مطمئن ہوتے ہیں نہ ہی ان کی طرف دل سے التفات کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر جھگڑتے ہیں کیونکہ اسباب نہ تو نفع لاتے اور نہ ہی نقصان دور کرتے ہیں بلکہ سبب اور مسبّب اللہ کا فعل ہے اور ہر چیز اس کی طرف سے اور اس کی مشیت (چاہت) سے ہوتی ہے۔
متوکل وہ ہے جو نفع کی امید اور نقصان کے خوف اور طلبِ صحت اور بیماری سے بھاگنے میں تدابیر کو چھوڑ دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور تدابیر و اختیار کے ساتھ وہ اکیلا ہے، لہٰذا یقینا بندے کے حق میں اللہ کی تدبیر بندے کی اپنے حق میں اپنی تدبیر سے بہتر اور عمدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ مصلحت جانتا ہے اور اس مصلحت کی تحصیل اور ترسیل پر بندے سے زیادہ قادر ہے اور بندے کے لیے خود اس کے نفس سے زیادہ خیر خواہ اور زیادہ رحم کرنے والا اور زیادہ نیکی کرنے والا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی علم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے آگے اور پیچھے ایک قدم بھی رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ اس کی تقدیر اور فیصلے سے نہ تو کوئی آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے رہ سکتا ہے۔ چنانچہ اپنا نفس وہ اللہ کے سامنے رکھ دیتا اور تمام امور اس کے سپرد کردیتا ہے اور جیسے کمزور غلام اپنے غالب اور طاقت ور آقا کے سامنے اپنا آپ گرا دیتا ہے اور اپنے آپ پر اختیار ختم کرلیتا ہے، سارا تصرف اور اختیار مالک کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، ایسے ہی یہ بھی ربّ تعالیٰ کے سامنے کرتا ہے۔ چنانچہ اس وقت یہ بندہ غموں، پریشانیوں اور حسرتوں سے نجات پاجاتا ہے اور اپنی ضروریات، بوجھ اور مصالح ایسی ذات کے سپرد کردیتا ہے جو ان کے اٹھانے میں کسی قسم کی کوئی مشقت و پریشانی اور بوجھ محسوس نہیں کرتی، لہٰذا اللہ تعالیٰ ان اشیاء کا والی بن جاتا ہے اور اس بندے کو پھر اپنا لطف، رحمت اور احسان دکھاتا ہے اور بندے کو کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ اور مشقت بھی نہیں ہوتی کیونکہ بندے نے اپنے سارے غم اس کی طرف پھیر کر صرف اسی کو اپنے لیے کافی سمجھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کی حوائج و ضروریات اور دنیا کے مصالح کے غم دور کردیے اور اس کا دل ان سے صاف اور فارغ کردیا۔
جب اللہ تعالیٰ نے بندے کو کوئی حکم دیا اور اس کے بدلہ میں ضمانت اٹھائی، چنانچہ اگر بندہ سچائی اخلاص اور خیر خواہی کی نیت سے اس کے حکم پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے جو اس کے رزق، مدد اور ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت اٹھائی ہے، اسے پورا کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی عبادت کرنے والے اور اپنے اوپر توکل کرنے والے اور مدد طلب کرنے والے کے لیے مدد اور رزق کی ضمانت دی ہے جو صرف اللہ کو کافی سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عزوجل نے اس کو کفایت کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جو اس سے مغفرت مانگے، اسے معاف کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جو کوئی حاجات کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد، بھروسہ اور امید کو قوی رکھتا ہے اور اس کے فضل اور سخاوت کی طمع رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی حاجات پوری کرنے کی ضمانت اٹھائی ہے۔
فرمایا:
{وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ o} [الطلاق:۳]
'' اور جس نے اللہ پر توکل کیا تو وہ اسے کافی ہے۔ ''
مزید فرمایا:
{وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّأَبْقَی لِلَّذِیْنَ ئَ آمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o} [الشوریٰ: ۳۶]
'' اور جو اللہ کے پاس ہے وہ (اس دنیا سے) بدجہا بہتر اور پائیدار ہے اور وہ ان کے لیے ہے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ ''
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top