- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
کہتے ہیں کہ جدید وسائل مثلا واٹس ایپ ، فیس بک وغیرہ نے حقیقی اجتماعیت کو نقصان دیا ہے ، لوگ انہیں میں لگے رہتے تھے ، جبکہ حقیقی دنیا میں آپس میں میل ملاپ بہت کم ہوگیا ہے ۔ یہ بات درست ہے ، لیکن بہرصورت یہ جدید وسائل بہت سارے اچھے اجتماعات ، مجالس اور میٹنگز کے منعقد ہونے کا بھی باعث بنا ہے ۔
آج سے چند سال پہلے مجموعہ علماء اہل حدیث کے نام سے ایک گروپ بنایا گیا تھا ، جس میں کئی ایک جید علماء شامل ہیں ، اس مجموعہ کے تحت ابھی تک پانچ کامیاب اجلاس ہوچکے ہیں ، پہلا لاہور میں شیخ مبشر ربانی صاحب کے ادارے میں ، دوسرا غالبا قاری صہیب احمد میر محمدی صاحب کے ادارے میں ، تیسرا شیخ ابتسام الہی ظہیر صاحب کے ادارے لارنس روڈ میں ، جبکہ چوتھا غالبا گوجرانوالہ میں کہیں ہوا تھا ، اور اب یہ پانچواں فیصل آباد کے ایک مشہور ادارے کلیۃ دار القرآن میں رکھا گیا تھا ، اس اجلاس کا شیڈول جو پہلے جاری کیا گیا ، یوں تھا :
آغاز اجلاس: 10:00 ص
10:00 تلاوت: قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ
10:10 – استقبالیہ : انس مدنی حفظہ اللہ مدیر کلیۃ القرآن
10:20 پہلی نشست بعنوان: اہل الحدیث مدارس کی زبوں حالی اسباب ور اسکا تدارك
نقابت قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ
10:25- یوسف انور حفظہ اللہ
10:45- یونس بٹ حفظہ اللہ- ادب الخلاف
11:15- عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ(دینی تعلیم کی افادیت کے باوجود کمی کا رحجان کیوں)
11:35- حافظ محمد شریف حفظہ اللہ - مدارس میں داخلہ کی کمی ‘ وجوہات‘ تدارک
12:00- ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ
12:15- محمد رفیق طاہر
12:30- مفتی عبید اللہ عفیف حفظہ اللہ
نماز ظہر
دوسری نشست - دعوت اہل الحدیث و اتفاق اہل الحدیث ممکنات۔
نقابت :عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ
قاری خلیل الرحمن جاوید حفظہ اللہ
ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ
عبد الوحید روپڑی حفظہ اللہ
عبد الغفار روپڑی حفظہ اللہ
قاری یعقوب شیخ حفظہ اللہ
ضياء الله شاه بخاري حفظہ الله
تعارفی نشست
(ہر ساتھی صرف اپنا نام اور موجودہ ذمہ داری اور مختصر تعلمی قابلیت بتائے گا فی کس بیس سے تیس سیکنڈ)
کھانا
نماز عصر
تیسری نشست - حدیث و اہل الحدیث
نقابت: عبد المنان راسخ حفظہ اللہ
4:50-ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ – دور جدید میں دفاع حدیث
5:10- مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ- انکار حدیث کے چور دروازے
5: 25- عبد العزیز العلوی حفظہ اللہ – دفاع بخاری
مختصر وقت کے لیے علماء اظہار خیال کریں گے فی کس تین سے پانچ منٹ
قبیل المغرب- حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ – اختتامی کلمات نصائح
تحائف اور دعاء
اجلاس کے مشارکین میں ایک پروفیسر محمد صارم صاحب بھی تھے ، جنہوں نے اس کی کاروائی کو یوں قلمبند کیا ہے :
مرتبہ:خادم العلم و العلماءمحمد صارمعفی عنہ
اجلاس کا اغاز۔۔۔10:30
فضیلة الشیخ قاری صہیب میر محمدی حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورة الفرقان کی اخری ایات کی پر سوز اواز میں تلاوت کی گئیں۔
اللہ پاک ہمیں کما حقہ اپنا بندہ بنائے امین
فضیلۃ الشیخ یونس بٹ صاحب حفظہ اللہ
نے ادب الخلاف پر خوبصورت گفت گو فرمائی۔
اختلاف کائنات کا حسن ہے۔ پھولوں کے رنگوں اور خوشبو کا اختلاف ان کے حسن کو بڑھاتا ہے۔
اختلاف جب عصبیت کی بنیاد بن جائے تو فساد کا باعث بنتا ہے کیونکہ عصبیت نفرت کو جنم دیتی ہے۔
اگر کسی نے کسی حدیث کو رد کیا اپنے اصول پر جو اس کے خیال میں صائب تھا، تو بھی اس پر انکار حدیث کے فتوی پر سرعت مت کیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو رد کیا کہ یہ بھول بھی سکتی ہیں۔
اسی طرح فوری بدعت کے فتوی سے پرہیز کریں جیسے پہلی اذان کا اجرا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا۔
ہمیشہ دیکھیں کہ اپ کے فتوی کی زد کس پر پڑتی ہے۔ خود کا صائب و خاطئ ہونے کا خیال دامن گیر رہے۔
فضیلۃ الشیخ یوسف انور حفظہ اللہ
برصغیر کے چند اہل حدیث مدارس
اہل حدیث مدارس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اسلام کی۔
یہ اہل حدیث مدارس ہی کی ابیاری کا نتیجہ ہے کہ اردو کی پہلی مختصر و جامع تفسیر ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے کی۔
قاضی سلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ نے اردو میں پہلی جامع سیرت لکھی جس کے بغیر کسی مکتبہ فکر لائبریری مکمل نہیں۔
میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا درس حدیث کسے نہیں یاد کہ جس کا فیض بتوفیق اللہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں ان کے تلامذہ کی تدریس و تصنیف کے ذریعے پھیلا ہوا ہے۔
غزنوی ، لکھوی ، روپڑی اور دیگر اہل حدیث خاندانوں کی خدمات کا خوبصورت تذکرہ کیا جو ایمان افروزی کا سبب بنا۔
جزاہ اللہ خیرا ۔۔۔ امین
فضیلۃ الشیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ
کی مسحور کن اواز میں دینی تعلیم کی اہمیت کے باوجود مدارس میں داخلہ میں کمی کیوں؟
جیسے قیمتی موضوع پر گفتگو فرمائی :
میری گفتگو تنقیص مدارس پر نہیں بلکہ درد دل کے ساتھ چند گزارشات پر مشتمل ہے۔
زوال مدارس کے چند اسباب
سوچنا ہے کہ کن خاندانوں سے افراد اتے تھے؟ ہم نے اس پر توجہ چھوڑ دی۔
یہ خاندان اس لئے چھوڑ گئے کہ ائے دن ایجنسیوں کی طرف سے پوچھ پڑتال ہونے لگی۔ لوگ گھبرا گئے۔ اس کا سدباب ہونا چاہئے۔
عصری جدید تعلیمی اداروں کی طرف سے مفت تعلیم ہی نہیں بلکہ بھاری وظائف دیئے جاتے ہیں۔ اب جو مالی مشکلات سے گھرے ہوئے تھے ان کا دھارا بدل گیا۔
ہمارے چینلز تک پر مدارس کا تعارف کما حقہ نہیں کروایا گیا۔
بعض اہل مدارس کا دوسرے کی تنقیص کرنا۔
احیاء مدارس کے لیے چند ایک تجاویز :
جدید عصری تعلیم کو مدارس کا حصہ بنایا جائے۔
نئے خالص عصری تعلیمی ادارے بنائے جائیں جن میں دینی تعلیم کو لازم کیا جائے۔
دروس کا سلسلہ جاری کیا جائے۔
غربا سے تعلق کو مضبوط کیا جائے کیونکہ وہ چندہ تک محدود نہیں رہتے بلکہ دعا و افرادی قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔
سزاؤوں سے پرہیز کیا جائے۔
داخلہ مہم پر خصوصی توجہ دی جائے۔
نمایاں بچوں کی مختلف انداز سے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ کبھی وظائف سے، کبھی اس سے انٹرویو لے کر، کبھی اچھے انداز سے تعارف کروا کر۔
اساتذہ کے وظائف، ترقی کا بنیادی طریقہ کار، صحت و رہائش کی سہولیات کا نظام تو ہے مگر اسے مضبوط کئے جانے کی ضرورت ہے۔
وفاق کا کردار محض امتحانی ادارہ کا نہ ہو، بلکہ اسے مدارس کی درجہ بندی بھی کرنی چاہئے تاکہ مدارس بالائی درجات تک جانے کے لئے کاوش کریں۔ اس سے مجموعی طور پر معیار بہتر ہوگا۔
تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
میڈیا کے غلط پراپیگندا کا بھرپور رد کیا جائے۔
فضیلۃ الشیخ رفیق طاھر حفظہ اللہ
نے اسی موضوع کو اگے بڑھاتے ہوئے چند مزید مفید نکات بیان کئے
طلبا کے سامنے اسباق کے خلاصے کا اہتمام کیا جائے تاکہ استحضار مسائل پختہ ہو۔
طریقہ امتحان میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنی چاہئے تاکہ معیار میں بہتری ائے۔
ممتاز طلبہ پر خصوصی توجہ دی جائے کہ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی کی طرز پر ان لائن یونیورسٹی قائم کی جائے تاکہ مزید سے مزید افراد کو حلقہ مدارس میں شامل کیا جائے۔
گو کہ یہ تلمذ کا متبادل نہیں لیکن بہر صورت کسی طور مفید ضرور ہے۔
دیگر زبانوں میں بھی ما فی ضمیر کے اظہار کرنا سیکھایا جائے۔
فضیلۃ الشیخ قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ
نے کیا ہی خوب نکتہ بیان کیا کہ
نہایت قابل احترام فاضل علماء جان لیں کہ کبار علما کے سامنے زانوئے تلمذ کا مثیل و بدل کوئی نہیں۔ ان سا رسوخ و للہیت کہیں نہیں مل سکتا۔ یہی ورثة الانبیاء ہیں
فضیلة الشیخ ابوبکر قدوسی حفظہ اللہ
نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا کہ
زبان و بیان کی شستگی و حلاوة ابلاغ کا اہم ترین وسیلہ ہے لہذا بیان کے ساتھ ساتھ تحریر کی پختگی پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہئے
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر طاھر محمود حفظہ اللہ
نے نہایت خوب چنیدہ کلمات سے اپنی گفت گو کا اغاز کیا اور واضح کیا کہ
اکثر دکاتیر انہی مدارس سے فیض یافتہ ہے لہذا ان کے کردار سے قطعا مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
لیکن بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ ان میں اصلاحات کی جائیں۔ کم استعداد والے افراد کو اس دھارے میں لایا جائے۔
ہر ایک محنت لازم ہے۔
اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے
فضیلۃ الشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروعی مسائل میں ترشی اس وقت اتی ہے جب اخوت کی بنیاد فروعی مسائل پر رکھی جاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ اخوت کی اساس توحید پر ہے۔
فضیلۃ الشیخ نجیب اللہ طارق حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی تعلیمی اداروں کو سوارنا ہے تو مشکل کتب پڑھائیں تاکہ راسخ علما پیدا ہوں
تنخواہ اصل مسئلہ نہیں۔ کم وسائل والے علماء نے زیادہ تحقیقی کام کئے ہیں جبکہ کثیر وظائف والوں کے کام اس کے مقابل کم ہیں۔ لہذا محنت کرو۔
فضیلۃ الشیخ قاری خلیل الرحمن جاوید حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء کو کسی بھی قسم کی احساس محرومی کا شکار نہین ہونا چاہئے۔
علماء احب البلاد الی اللہ مساجدھا میں رہنے والے ہیں۔ یہی ان کی شان ہے۔
دنیا میں راج اللہ کاہو اور رواج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ یہی اہل حدیث کا مرکزی نکتہ ہے۔
اگر مزید اشراک چاہتے ہیں تو اپنی پسند کو دین بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضب نہ کھائی لیکن دوسرں کو منع نہ کیا۔
نیز مسئلہ کا حوالہ قران و سنت ہونا چاہئے۔ اقوال مصدر نہیں ہوتے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الحمید عامر حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے اج ہم یہاں متحد ہیں ایسے ہی اللہ پاک ہمیں متحد رکھے اور وساوس سے پاک کرے۔
مل بیٹھنے سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔
معمولی باتوں سے درگزر فرمایا کریں۔
فضیلۃ الشیخ یعقوب شیخ حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعوت اہل حدیث عالمگیر دعوت ہے بلکہ یہی اسلام کی دعوت ہے۔
یہ دعوت نماز کے امتیازی مسائل تک محدود نہیں بلکہ معیشت، معاشرت، سیاست، عسکریت، اخلاقیات الغرض ہر شعبہ حیات کی کامل دعوت ہے۔ جب تک اس کا حجم اس کی مطلوبہ حدود ادخلوا فی الاسلام کافة تک نہ پہنچے گا، تب تک وہ کامل اثرات نہیں لائے گی۔
ہر محاذ ہی ہمارا محاذ ہے۔ اہل حدیث کا خلا سوائے اہل حدیث کے کوئی پورا نہیں کر سکتا۔
البرکة مع اکابرکم کے تحت سب کو ہی تمام تنظیمی سربراہاں کا احترام کرنا چاہئے۔
فضیلۃ الشیخ ضیاء اللہ شاہ بخاری حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل حدیث کے لئے قربانیان دینے والوں کے پشتی بان بنیں۔ ان کے مخالف نہ بنیں۔
فضیلة الشیخ ابتسام الہی ظہیرحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل حدیث جب بھی بات کرتا ہے وہ توحید پر بات کرتا ہے اور توحید ہماری مشترک اساس ہے۔ ہماری کسی بھی تنظیم کے فورم پر غیر اللہ کی دعوت نہیں دی جاتی۔
دوسری قدر اشتراک و اتفاق شخصیت پرستی سے اجتناب کے ساتھ ساتھ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع و اطاعت ہے۔
مسلکی استحصال کی اجازت ہرگز نہیں ۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز علوی حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے زائد انحطاط عصری تعلیمی اداروں میں ہے مگر وہ کبھی اپنے ادارے کی تنقیص نہیں کرتے لہذا ہمیں بھی دینی اداروں کی تنقیص نہیں کرنی چاہییں۔
فضیلۃ الشیخ شفیع طاھر حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنظیمی اختلافات ہوں یا ائمہ و منتظمین کے مابین اختلاف ہو، اسے حل کرنے کے لئے مستقل متفقہ کمیٹی بنائی جائے تاکہ اختلافات کو عوامی بنانے کی بجائے حل کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم کہلانے والوں میں سے قران کا واضح انکار کسی نے نہیں کیا
البتہ حدیث کا کلی، جزوی ہر دو طرح کا انکار کیا گیا ہے۔
کسی نے خبر واحد کے نام پر ایک بڑے ذخیرہ حدیث کا انکار کر دیا اور دوسری طرف ضعیف نہیں بلکہ موضوع احادیث کو مستدل بنایا گیا۔
کسی نے اپنی عقل کے تابع قران سے تقابل کیا اور عقلی ناپختگی کے سبب حدیث کے ایک حصے کا انکار کر دیا۔
کسی نے خود ساختہ ضوابط بنائے اور پھر ان ذاتی وضعی ضوابط کے تابع کئی ایک احادیث کا انکار کیا۔ انہی وضعی ضوابط میں سے ایک ضابطہ بنایا کہ اگر راوی غیر فقیہ ہو تو اس کی روایت کو رد کر دیاجائے۔ اس طرح انہوں نے حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ کے غیر فقیہ کے نعرہ کے تحت اپنے مسلک کے مخالف احادیث کو رد کیا۔
فضیلة الشیخ مفتی عبد الستار الحمادحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منکرین و مستخفین حدیث کا طریق یہ رہا ہے کہ سابق محدثین نے اپنے زمانے کے منکرین حدیث کے اعتراضات ذکر کئے اور انہی کے تحت و متصل ان کے جوابات بھی ذکر کئے۔
اب موجودہ ملحد و منکر ان اعتراضات کو تو ذکر کرتا ہے اور جوابات کو حذف کر دیتا ہے لہذا ان اعتراضات کے مسکت جواب بھی وہیں سے ذکر کئے جائیں۔
فضیلة الشیخ ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام قائدین و تنطیمی سربراہان کو باہمی میل ملاقات کرنی چاہیے اس سے ان کے کارکنان میں تحمل پیدا ہو گا۔ ان شاء اللہ
فضیلة الشیخ الاستاذ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعہ کا نام ہے مجموعہ علماء اھل الحدیث۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اہل الحدیث میں سے کسی کو دیکھتا ہوں تو ایسے محسوس کرتا ہوں کہ گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں۔ لہذا اپنا مقام پہچانیں۔
اس لئے ہر اہل الحدیث کو کبر، غضب، حسد، غرور سے دور ہوتے ہوئے انکساری، تواضع، حلم، رفق کی صفات حمیدہ پیدا کرنی چائیں۔
دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔ دوسرے کو اجتہاد کی اجازت دیں۔ فتوے بازی سے پرہیز کریں۔
جو بھی نصاب بنائیں اس کے اھداف واضح ہوں۔
ہر اچھے کام کو اپنا کام سمجھیں اور تعاونوا علی البر والتقوی کے تحت دست و بازو بنیں تاکہ اختلافات کم سے کم ہوں جائیں۔ مزید یہ کہ قائدین کے اعتماد والی کمیٹی بن جائے جو اختلافات کو حل کریں۔
آج سے چند سال پہلے مجموعہ علماء اہل حدیث کے نام سے ایک گروپ بنایا گیا تھا ، جس میں کئی ایک جید علماء شامل ہیں ، اس مجموعہ کے تحت ابھی تک پانچ کامیاب اجلاس ہوچکے ہیں ، پہلا لاہور میں شیخ مبشر ربانی صاحب کے ادارے میں ، دوسرا غالبا قاری صہیب احمد میر محمدی صاحب کے ادارے میں ، تیسرا شیخ ابتسام الہی ظہیر صاحب کے ادارے لارنس روڈ میں ، جبکہ چوتھا غالبا گوجرانوالہ میں کہیں ہوا تھا ، اور اب یہ پانچواں فیصل آباد کے ایک مشہور ادارے کلیۃ دار القرآن میں رکھا گیا تھا ، اس اجلاس کا شیڈول جو پہلے جاری کیا گیا ، یوں تھا :
شیڈول اجلاس علماء اہل الحدیث
آغاز اجلاس: 10:00 ص
10:00 تلاوت: قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ
10:10 – استقبالیہ : انس مدنی حفظہ اللہ مدیر کلیۃ القرآن
10:20 پہلی نشست بعنوان: اہل الحدیث مدارس کی زبوں حالی اسباب ور اسکا تدارك
نقابت قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ
10:25- یوسف انور حفظہ اللہ
10:45- یونس بٹ حفظہ اللہ- ادب الخلاف
11:15- عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ(دینی تعلیم کی افادیت کے باوجود کمی کا رحجان کیوں)
11:35- حافظ محمد شریف حفظہ اللہ - مدارس میں داخلہ کی کمی ‘ وجوہات‘ تدارک
12:00- ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ
12:15- محمد رفیق طاہر
12:30- مفتی عبید اللہ عفیف حفظہ اللہ
نماز ظہر
دوسری نشست - دعوت اہل الحدیث و اتفاق اہل الحدیث ممکنات۔
نقابت :عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ
قاری خلیل الرحمن جاوید حفظہ اللہ
ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ
عبد الوحید روپڑی حفظہ اللہ
عبد الغفار روپڑی حفظہ اللہ
قاری یعقوب شیخ حفظہ اللہ
ضياء الله شاه بخاري حفظہ الله
تعارفی نشست
(ہر ساتھی صرف اپنا نام اور موجودہ ذمہ داری اور مختصر تعلمی قابلیت بتائے گا فی کس بیس سے تیس سیکنڈ)
کھانا
نماز عصر
تیسری نشست - حدیث و اہل الحدیث
نقابت: عبد المنان راسخ حفظہ اللہ
4:50-ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ – دور جدید میں دفاع حدیث
5:10- مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ- انکار حدیث کے چور دروازے
5: 25- عبد العزیز العلوی حفظہ اللہ – دفاع بخاری
مختصر وقت کے لیے علماء اظہار خیال کریں گے فی کس تین سے پانچ منٹ
قبیل المغرب- حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ – اختتامی کلمات نصائح
تحائف اور دعاء
اجلاس کے مشارکین میں ایک پروفیسر محمد صارم صاحب بھی تھے ، جنہوں نے اس کی کاروائی کو یوں قلمبند کیا ہے :
مجموعہ علماء اھل الحدیث کے پانچویں اجلاس میں مشائخ کی گفتگو کا خلاصہ
مرتبہ:خادم العلم و العلماءمحمد صارمعفی عنہ
اجلاس کا اغاز۔۔۔10:30
فضیلة الشیخ قاری صہیب میر محمدی حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورة الفرقان کی اخری ایات کی پر سوز اواز میں تلاوت کی گئیں۔
اللہ پاک ہمیں کما حقہ اپنا بندہ بنائے امین
فضیلۃ الشیخ یونس بٹ صاحب حفظہ اللہ
نے ادب الخلاف پر خوبصورت گفت گو فرمائی۔
اختلاف کائنات کا حسن ہے۔ پھولوں کے رنگوں اور خوشبو کا اختلاف ان کے حسن کو بڑھاتا ہے۔
اختلاف جب عصبیت کی بنیاد بن جائے تو فساد کا باعث بنتا ہے کیونکہ عصبیت نفرت کو جنم دیتی ہے۔
اگر کسی نے کسی حدیث کو رد کیا اپنے اصول پر جو اس کے خیال میں صائب تھا، تو بھی اس پر انکار حدیث کے فتوی پر سرعت مت کیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو رد کیا کہ یہ بھول بھی سکتی ہیں۔
اسی طرح فوری بدعت کے فتوی سے پرہیز کریں جیسے پہلی اذان کا اجرا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا۔
ہمیشہ دیکھیں کہ اپ کے فتوی کی زد کس پر پڑتی ہے۔ خود کا صائب و خاطئ ہونے کا خیال دامن گیر رہے۔
فضیلۃ الشیخ یوسف انور حفظہ اللہ
برصغیر کے چند اہل حدیث مدارس
اہل حدیث مدارس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اسلام کی۔
یہ اہل حدیث مدارس ہی کی ابیاری کا نتیجہ ہے کہ اردو کی پہلی مختصر و جامع تفسیر ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے کی۔
قاضی سلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ نے اردو میں پہلی جامع سیرت لکھی جس کے بغیر کسی مکتبہ فکر لائبریری مکمل نہیں۔
میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا درس حدیث کسے نہیں یاد کہ جس کا فیض بتوفیق اللہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں ان کے تلامذہ کی تدریس و تصنیف کے ذریعے پھیلا ہوا ہے۔
غزنوی ، لکھوی ، روپڑی اور دیگر اہل حدیث خاندانوں کی خدمات کا خوبصورت تذکرہ کیا جو ایمان افروزی کا سبب بنا۔
جزاہ اللہ خیرا ۔۔۔ امین
فضیلۃ الشیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ
کی مسحور کن اواز میں دینی تعلیم کی اہمیت کے باوجود مدارس میں داخلہ میں کمی کیوں؟
جیسے قیمتی موضوع پر گفتگو فرمائی :
میری گفتگو تنقیص مدارس پر نہیں بلکہ درد دل کے ساتھ چند گزارشات پر مشتمل ہے۔
زوال مدارس کے چند اسباب
سوچنا ہے کہ کن خاندانوں سے افراد اتے تھے؟ ہم نے اس پر توجہ چھوڑ دی۔
یہ خاندان اس لئے چھوڑ گئے کہ ائے دن ایجنسیوں کی طرف سے پوچھ پڑتال ہونے لگی۔ لوگ گھبرا گئے۔ اس کا سدباب ہونا چاہئے۔
عصری جدید تعلیمی اداروں کی طرف سے مفت تعلیم ہی نہیں بلکہ بھاری وظائف دیئے جاتے ہیں۔ اب جو مالی مشکلات سے گھرے ہوئے تھے ان کا دھارا بدل گیا۔
ہمارے چینلز تک پر مدارس کا تعارف کما حقہ نہیں کروایا گیا۔
بعض اہل مدارس کا دوسرے کی تنقیص کرنا۔
احیاء مدارس کے لیے چند ایک تجاویز :
جدید عصری تعلیم کو مدارس کا حصہ بنایا جائے۔
نئے خالص عصری تعلیمی ادارے بنائے جائیں جن میں دینی تعلیم کو لازم کیا جائے۔
دروس کا سلسلہ جاری کیا جائے۔
غربا سے تعلق کو مضبوط کیا جائے کیونکہ وہ چندہ تک محدود نہیں رہتے بلکہ دعا و افرادی قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔
سزاؤوں سے پرہیز کیا جائے۔
داخلہ مہم پر خصوصی توجہ دی جائے۔
نمایاں بچوں کی مختلف انداز سے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ کبھی وظائف سے، کبھی اس سے انٹرویو لے کر، کبھی اچھے انداز سے تعارف کروا کر۔
اساتذہ کے وظائف، ترقی کا بنیادی طریقہ کار، صحت و رہائش کی سہولیات کا نظام تو ہے مگر اسے مضبوط کئے جانے کی ضرورت ہے۔
وفاق کا کردار محض امتحانی ادارہ کا نہ ہو، بلکہ اسے مدارس کی درجہ بندی بھی کرنی چاہئے تاکہ مدارس بالائی درجات تک جانے کے لئے کاوش کریں۔ اس سے مجموعی طور پر معیار بہتر ہوگا۔
تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
میڈیا کے غلط پراپیگندا کا بھرپور رد کیا جائے۔
فضیلۃ الشیخ رفیق طاھر حفظہ اللہ
نے اسی موضوع کو اگے بڑھاتے ہوئے چند مزید مفید نکات بیان کئے
طلبا کے سامنے اسباق کے خلاصے کا اہتمام کیا جائے تاکہ استحضار مسائل پختہ ہو۔
طریقہ امتحان میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنی چاہئے تاکہ معیار میں بہتری ائے۔
ممتاز طلبہ پر خصوصی توجہ دی جائے کہ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی کی طرز پر ان لائن یونیورسٹی قائم کی جائے تاکہ مزید سے مزید افراد کو حلقہ مدارس میں شامل کیا جائے۔
گو کہ یہ تلمذ کا متبادل نہیں لیکن بہر صورت کسی طور مفید ضرور ہے۔
دیگر زبانوں میں بھی ما فی ضمیر کے اظہار کرنا سیکھایا جائے۔
فضیلۃ الشیخ قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ
نے کیا ہی خوب نکتہ بیان کیا کہ
نہایت قابل احترام فاضل علماء جان لیں کہ کبار علما کے سامنے زانوئے تلمذ کا مثیل و بدل کوئی نہیں۔ ان سا رسوخ و للہیت کہیں نہیں مل سکتا۔ یہی ورثة الانبیاء ہیں
فضیلة الشیخ ابوبکر قدوسی حفظہ اللہ
نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا کہ
زبان و بیان کی شستگی و حلاوة ابلاغ کا اہم ترین وسیلہ ہے لہذا بیان کے ساتھ ساتھ تحریر کی پختگی پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہئے
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر طاھر محمود حفظہ اللہ
نے نہایت خوب چنیدہ کلمات سے اپنی گفت گو کا اغاز کیا اور واضح کیا کہ
اکثر دکاتیر انہی مدارس سے فیض یافتہ ہے لہذا ان کے کردار سے قطعا مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
لیکن بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ ان میں اصلاحات کی جائیں۔ کم استعداد والے افراد کو اس دھارے میں لایا جائے۔
ہر ایک محنت لازم ہے۔
اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے
فضیلۃ الشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروعی مسائل میں ترشی اس وقت اتی ہے جب اخوت کی بنیاد فروعی مسائل پر رکھی جاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ اخوت کی اساس توحید پر ہے۔
فضیلۃ الشیخ نجیب اللہ طارق حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی تعلیمی اداروں کو سوارنا ہے تو مشکل کتب پڑھائیں تاکہ راسخ علما پیدا ہوں
تنخواہ اصل مسئلہ نہیں۔ کم وسائل والے علماء نے زیادہ تحقیقی کام کئے ہیں جبکہ کثیر وظائف والوں کے کام اس کے مقابل کم ہیں۔ لہذا محنت کرو۔
فضیلۃ الشیخ قاری خلیل الرحمن جاوید حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء کو کسی بھی قسم کی احساس محرومی کا شکار نہین ہونا چاہئے۔
علماء احب البلاد الی اللہ مساجدھا میں رہنے والے ہیں۔ یہی ان کی شان ہے۔
دنیا میں راج اللہ کاہو اور رواج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ یہی اہل حدیث کا مرکزی نکتہ ہے۔
اگر مزید اشراک چاہتے ہیں تو اپنی پسند کو دین بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضب نہ کھائی لیکن دوسرں کو منع نہ کیا۔
نیز مسئلہ کا حوالہ قران و سنت ہونا چاہئے۔ اقوال مصدر نہیں ہوتے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الحمید عامر حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے اج ہم یہاں متحد ہیں ایسے ہی اللہ پاک ہمیں متحد رکھے اور وساوس سے پاک کرے۔
مل بیٹھنے سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔
معمولی باتوں سے درگزر فرمایا کریں۔
فضیلۃ الشیخ یعقوب شیخ حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعوت اہل حدیث عالمگیر دعوت ہے بلکہ یہی اسلام کی دعوت ہے۔
یہ دعوت نماز کے امتیازی مسائل تک محدود نہیں بلکہ معیشت، معاشرت، سیاست، عسکریت، اخلاقیات الغرض ہر شعبہ حیات کی کامل دعوت ہے۔ جب تک اس کا حجم اس کی مطلوبہ حدود ادخلوا فی الاسلام کافة تک نہ پہنچے گا، تب تک وہ کامل اثرات نہیں لائے گی۔
ہر محاذ ہی ہمارا محاذ ہے۔ اہل حدیث کا خلا سوائے اہل حدیث کے کوئی پورا نہیں کر سکتا۔
البرکة مع اکابرکم کے تحت سب کو ہی تمام تنظیمی سربراہاں کا احترام کرنا چاہئے۔
فضیلۃ الشیخ ضیاء اللہ شاہ بخاری حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل حدیث کے لئے قربانیان دینے والوں کے پشتی بان بنیں۔ ان کے مخالف نہ بنیں۔
فضیلة الشیخ ابتسام الہی ظہیرحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل حدیث جب بھی بات کرتا ہے وہ توحید پر بات کرتا ہے اور توحید ہماری مشترک اساس ہے۔ ہماری کسی بھی تنظیم کے فورم پر غیر اللہ کی دعوت نہیں دی جاتی۔
دوسری قدر اشتراک و اتفاق شخصیت پرستی سے اجتناب کے ساتھ ساتھ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع و اطاعت ہے۔
مسلکی استحصال کی اجازت ہرگز نہیں ۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز علوی حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے زائد انحطاط عصری تعلیمی اداروں میں ہے مگر وہ کبھی اپنے ادارے کی تنقیص نہیں کرتے لہذا ہمیں بھی دینی اداروں کی تنقیص نہیں کرنی چاہییں۔
فضیلۃ الشیخ شفیع طاھر حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنظیمی اختلافات ہوں یا ائمہ و منتظمین کے مابین اختلاف ہو، اسے حل کرنے کے لئے مستقل متفقہ کمیٹی بنائی جائے تاکہ اختلافات کو عوامی بنانے کی بجائے حل کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم کہلانے والوں میں سے قران کا واضح انکار کسی نے نہیں کیا
البتہ حدیث کا کلی، جزوی ہر دو طرح کا انکار کیا گیا ہے۔
کسی نے خبر واحد کے نام پر ایک بڑے ذخیرہ حدیث کا انکار کر دیا اور دوسری طرف ضعیف نہیں بلکہ موضوع احادیث کو مستدل بنایا گیا۔
کسی نے اپنی عقل کے تابع قران سے تقابل کیا اور عقلی ناپختگی کے سبب حدیث کے ایک حصے کا انکار کر دیا۔
کسی نے خود ساختہ ضوابط بنائے اور پھر ان ذاتی وضعی ضوابط کے تابع کئی ایک احادیث کا انکار کیا۔ انہی وضعی ضوابط میں سے ایک ضابطہ بنایا کہ اگر راوی غیر فقیہ ہو تو اس کی روایت کو رد کر دیاجائے۔ اس طرح انہوں نے حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ کے غیر فقیہ کے نعرہ کے تحت اپنے مسلک کے مخالف احادیث کو رد کیا۔
فضیلة الشیخ مفتی عبد الستار الحمادحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منکرین و مستخفین حدیث کا طریق یہ رہا ہے کہ سابق محدثین نے اپنے زمانے کے منکرین حدیث کے اعتراضات ذکر کئے اور انہی کے تحت و متصل ان کے جوابات بھی ذکر کئے۔
اب موجودہ ملحد و منکر ان اعتراضات کو تو ذکر کرتا ہے اور جوابات کو حذف کر دیتا ہے لہذا ان اعتراضات کے مسکت جواب بھی وہیں سے ذکر کئے جائیں۔
فضیلة الشیخ ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام قائدین و تنطیمی سربراہان کو باہمی میل ملاقات کرنی چاہیے اس سے ان کے کارکنان میں تحمل پیدا ہو گا۔ ان شاء اللہ
فضیلة الشیخ الاستاذ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعہ کا نام ہے مجموعہ علماء اھل الحدیث۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اہل الحدیث میں سے کسی کو دیکھتا ہوں تو ایسے محسوس کرتا ہوں کہ گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں۔ لہذا اپنا مقام پہچانیں۔
اس لئے ہر اہل الحدیث کو کبر، غضب، حسد، غرور سے دور ہوتے ہوئے انکساری، تواضع، حلم، رفق کی صفات حمیدہ پیدا کرنی چائیں۔
دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔ دوسرے کو اجتہاد کی اجازت دیں۔ فتوے بازی سے پرہیز کریں۔
جو بھی نصاب بنائیں اس کے اھداف واضح ہوں۔
ہر اچھے کام کو اپنا کام سمجھیں اور تعاونوا علی البر والتقوی کے تحت دست و بازو بنیں تاکہ اختلافات کم سے کم ہوں جائیں۔ مزید یہ کہ قائدین کے اعتماد والی کمیٹی بن جائے جو اختلافات کو حل کریں۔
Last edited: