روایت کے صحیح ہونے کے لئے جوشرائط ہیں ا ن میں دو شرائط درج ذیل ہیں:
- ہرراوی عادل ہو(سچا اوردیندار) ہو۔
- ہرراوی ضابط ہو(قوی حافظہ والا) ہو۔
مجہول کا مطلب جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ یہ عادل ہے یا نہیں اسی طرح ضابط ہے یا نہیں ، یعنی روایت میں مجہول کے ہونے سے مذکورہ دونوں شرطوں کا تحقق نہیں ہوتا۔
لہٰذا جب روایت کے قبول ہونے کی دو شرطیں مجہول کی روایت میں ثابت ہی نہیں ہوئیں تو نتیجۃ اس کی روایت بھی غیرمقبول ٹھہری۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والحق لأنها لَا تُقْبَلُ رِوَايَةُ مَجْهُولِ الْعَيْنِ وَلَا مَجْهُولِ الْحَالِ؛ لِأَنَّ حُصُولَ الظَّنِّ بِالْمَرْوِيِّ لَا يَكُونُ إِلَّا إِذَا كَانَ الرَّاوِي عَدْلًا وَقَدْ دَلَّتِ الْأَدِلَّةُ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ عَلَى الْمَنْعِ مِنَ الْعَمَلِ بِالظَّنِّ كَقَوْلِهِ سُبْحَانَهُ: {إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا} وَقَوْلِهِ: {وَلا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم} ؛ وَقَامَ الْإِجْمَاعُ عَلَى قَبُولِ رِوَايَةِ الْعَدْلِ فَكَانَ كَالْمُخَصِّصِ لِذَلِكَ الْعُمُومِ، فَبَقِيَ مَنْ لَيْسَ بِعَدْلٍ دَاخِلًا تَحْتَ الْعُمُومَاتِ وَأَيْضًا قَدْ تَقَرَّرَ عَدَمُ قَبُولِ رِوَايَةِ الْفَاسِقِ وَمَجْهُولُ الْعَيْنِ أَوِ الْحَالِ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ فَاسِقًا وَأَنْ يَكُونَ غَيْرَ فَاسِقٍ فَلَا تُقْبَلُ رِوَايَتُهُ مَعَ هَذَا الِاحْتِمَالِ لِأَنَّ عَدَمَ الْفِسْقِ شَرْطٌ فِي جَوَازِ الرِّوَايَةِ عند فَلَا بُدَّ مِنَ الْعِلْمِ بِوُجُودِ هَذَا الشَّرْطِ وَأَيْضًا وُجُودُ الْفِسْقِ مَانِعٌ مِنْ قَبُولِ رِوَايَتِهِ فَلَا بُدَّ مِنَ الْعِلْمِ بِانْتِفَاءِ هَذَا الْمَانِعِ.[إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول 1/ 148]۔