• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محبوب رب العالمین صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیاسی بصیرت .

طیب علی

مبتدی
شمولیت
جنوری 14، 2014
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
18
اللہ کے پاک نبی کریم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیؐ شب اسریٰ کے دولہا تمام دنیا کے انسانوں اور انبیاء کرام علیھم السلام کے سردار مکمل ضابطہ حیات لے کر اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے
اللہ کے پاک نبی کریم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیؐ شب اسریٰ کے دولہا تمام دنیا کے انسانوں اور انبیاء کرام علیھم السلام کے سردار مکمل ضابطہ حیات لے کر اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے۔ سرکار دوجہاںﷺ نے انفرادی و اجتماعی زندگی کا مکمل نمونہ بن کر دکھایا۔ آپؐ کی اپنی مبارک حیات کے پہلے سانس سے لے کر آخری سانس تک کے وہ تمام نشیب و فراز ایک ہی سیرت میں یکجا ،مکمل اور قابل تقلید ہیں اور اللہ کا یہ احسان اعظم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے حضرت محمد ؐ کو مبعوث فرمایا۔ جب آقائے نامدار ؐکو مبعوث کیا گیا تو اس وقت دنیا تاریکی، جہالت، ابتری و ذلت کے انتہائی پر آشوب دور سے گز رہی تھی۔ یونانی فلسفہ اپنی نا پائیدار اقدار کا ماتم کر رہا تھا، رومی سلطنت روبہ زوال تھی، ایران اور چین اپنی اپنی ثقافت و تہذیب کو خانہ جنگی کے ہاتھوں رسوا ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ہندوستان میں آریہ قبائل اور گوتم بدھ کی تحریک آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ ترکستان اور حبشہ میں بھی ساری دنیا کی طرح اخلاقی پستی کا دور دورہ تھا اور عرب کی حالت زار تو اس سے بھی دگرگوں تھی ۔سیاسی تہذیب و تمدن کا تو شعور ہی نہ تھا عرب وحدت مرکزیت سے آشنا نہیں تھے، وہاں ہمیشہ لا قانونیت ،باہمی جنگ و جدل کا دور دورہ رہا۔ اتحاد ،تنظیم ،قومیت کا شعور حکم و اطاعت وغیرہ جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی راہیں استوار ہوتی ہیں ان کے ہاں کہیں بھی نہ پائی جاتی تھیں۔ قبائل بھی اپنے اندرونی خلفشار کے ہاتھوں تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے۔ سیاسی وحدت یا بیرونی تہذیبوں سے آشنائی و رابطہ دور کی بات تھی۔ نبی پاک ؐ کی الہامی تعلیمات سے عرب ایک رشتہ وحدت میں پرو دئیے گئے اور وہ قوم جو باہمی جنگ و جدل ،ظلم و زیادتی کے علاوہ کسی تہذیب سے آشنا نہ تھی جہاں بانی کے مرتبے پر فائز کر دی گئی یہ سب اس بناء پر تھا کہ اسلام نے دنیاوی بادشاہت کے برعکس حاکمیت اقتدار اعلیٰ کا ایک نیا تصور پیش کیا جس کی بنیاد خدائے لم یزل کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت تھی۔ سرکار دوعالمؐ کی بعثت سے قبل دنیا کے تمام سیاسی نظام بادشاہت، آمریت یا شخصی حکومت مطلق العنانیت کی بنیاد پر قائم تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام حکومت و سیاست کی بنیاد میں شہنشاہیت کی گنجائش ہرگز نہ تھی اس رائج کردہ نظام میں امیر و غریب ،حاکم ومحکوم سب برابر ہیں اور ہر شخص اپنے مقام مرتبے و عہدے سے قطع نظر قانون خداوندی کا پابند ہے۔ مدینہ منورہ پہلی اسلامی ریاست ہے جہاں مکمل طور پر دستوری حکومت اور انتظامیہ ہر پہلو سے قانون الٰہی کی پابند ہے ۔حضور پاک ؐ کے10 سالہ دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ ؐجب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تمام عرب ایک قوم بن چکے تھے اور مدینہ منورہ محض ایک شہر ی ریاست کی بجائے مسلمانوں کی قومی ریاست کا دارالحکومت بن چکا تھا۔ حضور پاک ؐ کا سب سے پہلا اور بنیادی کام یہی تھا کہ دنیاوی قائدین نے اپنی دُکان چمکانے کے لئے جو غیر فطری اصول اور نعرے اپنا رکھے تھے ان کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ قومیت ،نسل ،زبان ،رنگ اور اسی نوعیت کے تمام بتوں کو پاش پاش کر دیا ۔ اللہ کے پاک رسول ﷺ نے اپنی قوم کو اللہ کی بندگی عالمگیر انسانی اخوت ہمہ گیر عدل و انصاف اعلائے کلمتہ اللہ اور خوف خدا کے محرکات سے جگایا اور ان سب سنہرے اصولوں پر عمل کر کے ایک اُمت وجود میں آئی۔ حضور اکرم ؐ نے سیاست کو عبادت کا درجہ عطا فرمایا اور اس کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا ۔ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ ،فریب ،بددیانتی کے مقابلے میں ایک صاحبِ اقتدار اور بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ۔ آپ ؐ نے ایک طویل عرصہ مظلومیت میں بھی بسر کیا ۔صاحب ِاقتدار اور حکمران کی حیثیت سے بھی آپؐ نے خاصا عر صہ گزارا ۔آپؐ نے حلیفوں اور دشمنوں سے مختلف قسم کے معاہدے بھی کیے، جنگ کے معرکے برپا ہوئے، مذاکرات کئے ،سفارتی وفد روانہ کیے، فوجی اقدامات کیے لیکن اپنے و غیر سب تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ؐنے کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا ۔غلط یقین دہانی نہ کرائی، کوئی بات کہہ کر یا کوئی عمل کرنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا ،کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ۔حلیفوں کا بدترین حالات میں ساتھ نہ چھوڑا دشمنوں کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا ،جو معاہدے کیے ان کی پوری پابندی کی۔ اسی معیار سیاست کی بدولت حضور کریمؐ کو سیاست کے میدان میں بھی کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آج کا سیاسی ڈھانچہ ہی مراعات حاصل کرنے اور اپنے اقرباء کو نوازنے پر قائم کیا گیا ہے جس کے ہاتھ جو اقتدار و اختیار آیا بس اپنے خزانوں کو اور اپنے متعلقین کو نوازنے کا کام شروع کر دیاگیا ۔جس نظام کی بنیاد ہی بد دیانتی پر مبنی ہو وہ کیسے فلاح دے سکتا ہے۔ حضور پاک ؐ کی قیادت میںکسی جانی نقصان ، مال و اسباب کی بربادی کے بغیر وسیع و عظیم پر امن انقلاب برپا ہوا اور یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ انقلاب کا عمل مکمل ہونے تک کسی کی عزت نفس مجروح نہیں کی گئی۔ عزت و حرمت کا جو تصور اس انقلاب میں نظر آتا ہے دنیا کی کوئی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی ۔ حضور اکرم ؐ کی سیاست و حکومت کا انداز کیسا نرالہ تھا کہ نہ کوئی خاص سواری ،نہ خاص دیوان،نہ باڈی گارڈ ،نہ خصوصی یونیفارم نہ ہی نمایاں نظر آنے کے لئے کوئی انتظام۔ اپنے صحابہ کرام ؓجو کہ مجلس شوریٰ اور وزراء و سفراء بھی ہوتے ساتھ چلتے تو حضور اکرم ؐ ان سب سے پیچھے چلنے کی کوشش کرتے۔ آپؐ سادہ لباس میں فرش نشین مسجد نبوی ؐکے صحن میں بیٹھ کر امور مملکت کے اہم ترین فیصلے صادر فرماتے اس سادگی و فقر اور درویشی کے عالم کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ روم وشام کے بادشاہوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اسوہ رسول ؐ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں مخلوق خدا اور اُمت رسول پاک ؐ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاکستان کو اسلام دشمنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین ٭
 
Top