محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
اہل حدیث کی فکر کب سے ہے ؟
دوست نے سوت کاتا اور برباد کر دیا ، غنیم کے غنیم قلم کی کاٹ سے ہراساں تھے ، لیکن " لشکری " اپنے ہی لشکر پر چڑھ دوڑا - مجھے کل سے راجہ پورس یاد آ رہا ہے اور بہت یاد آ رہا ہے ، جہلم کے کنارے جس کی پامردی کھیت ہوئی ، ہر معرکے کا فاتح , دھرتی کا فخر راجہ پورس ، سکندر کے مقابل آیا - ممکن ہے تاریخ بدل جاتی لیکن اس کے ترپ کے پتے " ہاتھی " پلٹ کے واپس جو بھاگے اور اپنے ہی "گھر " کو روندا تو پورس راجہ ، اسکندر یونانی کی قید میں تھا -
انکار حدیث کے رد کا کام کرنے والے ہمیشہ ہی میری محبت کا مرکز رہے ، سو محبت اور عقیدت اب بھی ہے لیکن اگلے روز "دوست " گھر کی دیوار کو ہی ڈھانے آ گئے - لکھتے ہیں کہ :
"میری نظر میں بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث ، تینوں حنفیت سے ہی نکلے ہیں ۔ شیخ نذیر حسین دہلوی ، مولانا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہم اللہ حنفیوں میں سوچ کے تین انداز تھے جو آگے بڑھ کر تین مسلکوں کی صورت اختیار کر گئے-"
موخر الذکر بزرگوں کی بات کی جاتی تو ہمیں کیا اعتراض ہوتا - لیکن اگر برصغیر کی حد تک بھی کی جائے تو اہل حدیث کے باب میں بے بنیاد ہے - بجا کہ سید نذیر حسین رح کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور برصغیر میں اہل حدیث کی " نشاه ثانیہ " کچھ انہی کی مرہون منت ہے - لیکن یہ کہنا کہ ان کی سوچ کا انداز آگے بڑھ کے مسلک کی صورت اختیار کر گیا ، تاریخ سے لاعلمی ہے محض - میاں صاحب اپنے کلیدی کردار کے باوجود پچھلی تحریک کا پرتو ہیں ، آگے کی منزل ہیں ، سفر نو کا آغاز ہیں -
اہل حدیث اس دیس میں سیدنا فاروق اور سیدنا عثمان رض کے ادوار سے چلے آئے تھے ، کہ جب فقہی مسالک کی بنیاد تو کیا پڑتی ، ان کے لیے ابھی زمین بھی ہموار نہ ہوئی تھی کہ امت ابھی فکری کجی سے کوسوں دور تھی - ان کی بنیادیں بھی ابھی "عالم بالا" میں تھیں - اور ان مذاہب کے وہ بزرگ ، کہ جن کے نام پر یہ تشکیل پائے ، پیدا بھی نہیں ہووے تھے - سو ایسی صورت میں سوال تو اٹھے گا کہ تب ہندوستان کے کناروں یعنی سندھ ، مالا بار اور کیرالا کے مسلمان باشندوں کا مذھب کیا تھا ؟ - دیوبند اور بریلی کا قصہ تو بہت بعد کا ہے کہ جن کا باپ حنفیت کو قرار دیا جا سکتا ہے -
کس فقہی مذاھب کے وہ پیروکار تھے ؟ -
تاریخ کی کتب کھنگالیں کیا ملے گا ؟-
ما سوا اس کے کہ وہ سیدھے سیدھے اور سادے سادے اسلام پر عامل تھے ، جس میں احکام کا منبع قران اور حدیث ہے -
اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان تاریخی کتب کا کیا کیا جائے جو برصغیر میں اہل حدیث فکر کی موجودگی کو واضح کرتی ہے - خلافت راشدہ کے دور سے آگے نکل کے عرض کرتا ہوں - تب کی بات کر لیتے ہیں جب "فقہی مذاہب" وجود میں آ چکے تھے - ایک سیاح سندھ کی سیر کو آیا - شمس الدین المقدسی انبیاء کی سرزمین بیت المقدس سے آیا تھا - لکھتا ہے :
"یہاں (منصورہ ، سندھ کا قدیم دار الحکومت ) کے مسلمانوں میں سے اکثر اہل حدیث ہیں ،میں نے یہاں قاضی ابو مححمد منصوری کو دیکھا ،جو داوودی (ظاہری ) تھے ، بڑے شہروں میں حنفی فقہا بھی پائے جاتے ہیں ، یہاں مالکی اور حنبلی نہیں "-
اسی طرح ریاست ہباریه بھی سندھ میں تھی ، وہاں کا مذھب بھی اہل حدیث تھا - حوالے درجنوں موجود ہیں - قاضی اطہر مبارک پوری کی کتاب اور احسن التقاسیم جن سے بھری پڑی ہے - اور بھی کتب کہ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں -
پھر یہی معاملہ کیرالہ ،مالا بار ، دکن کے بعض علاقوں کا ہے - یہاں جو مسلمان پائے جاتے تھے ان کی اکثریت کا بھی کبھی مذھب تھا - پھر افغانستان سے حملہ آور آنے شروع ہووے تو ہندستان میں ملوک کے مذھب کی اشاعت کا زور ہوا اور انہی کے زیر اثر عام مذھب "حنفی" قرار پایا -
دوست مزید کرم فرمائی کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :
"پھر اس ملک میں فتنوں کے خلاف جو کردار دیوبند کے حلقے کو حاصل رہا ہے، وہ کسی اور حاصل نہیں ہے۔ ختم نبوت کے لیے سب سے زیادہ کام اسی حلقے نے کیا ہے۔ اسی طرح انکار حدیث کے فتنے کے خلاف اہل حدیث کیا بند باندھنے میں کامیاب ہو سکتے تھے، اگر انہیں دیوبند کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی؟ "-
حضرت مجھ سا روادار یہاں اس سوشل میڈیا کے فورم پر کون ہو گا ؟ - لیکن پھر بھی دبے لفظوں میں کہوں انکار حدیث کے میدان میں " کون سی سپورٹ ، کیسی سپورٹ " - حضرت اگر خفی انکار اورانکار کی ہر دم حوصلہ افزائی سپورٹ ہے تو آپ درست کہتے ہیں ، ورنہ بخاری تک اب کوئی ایسی محبوب نہیں احباب کی محفلوں میں ، کسی درجہ "مغضوب " ہی ہے اب - جن احباب کے اصول "امام " کرخی نے طے کر دئیے حدیث کے باب میں اور آج تک کسی کو انکار کی توفیق نہ ہوئی وہ کیا سپورٹ کر سکتے ہیں ؟- کسی کی انفرادی کوشش کو جماعت کی سپورٹ کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا - لگے ہاتھوں امام کی عبارت دیکھ لیجئے :
"ان کل خبر یجیئی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی نسخ او علی انہ معارض بمثلہ "
رہے دوسرے فتنے ، کم اور زیادہ کی بحث کبھی بھی انجام کو نہیں پہنچتی - فضیلتوں کا مقابلہ ہمیشہ کار بے کار اور ناگوار ، کہ فیصلہ محبت کرتی ہے جو بینائی سے محروم ہوتی ہے -
جس نے زیادہ کیا ، جس نے کم کیا ، سب کا اللہ کے ہاں اجر ہے .. لیکن کبھی "دوستوں" سے بھی کچھ لکھوا دیکھیے ، کبھی ہمارا بھی کلیجہ ٹھنڈا ہو کہ ہاں ! ہندوستان میں جمعیت علمائے ہند کی بنا کی تحریک مولانا ثناء اللہ امرتسری نے دی تھی ، جو بعد میں ہمارے لیے ہی ایسی اجنبی ٹہری کہ مجبورا "کل ہند اہل حدیث کانفرنس " کا قیام عمل میں لانا پڑا ، مسلم لیگ کی تائید میں جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد میں مولانا سیالکوٹی بھی وسے ہی شریک اور محرک تھے جیسے مولانا شبیر احمد عثمانی ... آپ کو کبھی بھولے سے نام بھی مگر سننے کو نہیں ملے گا -
ختم نبوت کی تحریک اور مرزا غلام کے احتساب کا آغاز کس نے کیا ، اولین فتوی کس کا تھا ، مناظروں میں اسے کون آگے آگے بھگاتا پھرا ؟؟؟ - ہاں نا ! ختم نبوت کے باب میں کوئی ثناء اللہ امرتسری بھی تھا - تحریک نظام مصطفی میں کوئی احسان الہی ظہیر بھی تھا - آپ کبھی کسی "غیر " سے شاذ ہی ذکر سنیں گے - تو کیا رواداری ہماری ہی ذمے داری ہے ؟-
آپ شرارت سے "فرماتے" ہیں اور کیا غضب ڈھاتے ہیں ، اور ایسی "محبت"کے مظاہرے کہ جس میں سارا جہاں جل گیا ، زمین کیا آسمان بھی جل گیا ،اور جگر ہی نہیں دل بھی جل گیا ، لکھتے ہیں :
"ہاں البتہ بطور شرارت اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ حنفیوں میں سے جو پڑھ لکھ گئے، وہ دیوبندی کہلائے اور جو زیادہ پڑھ لکھ گئے، وہ اہل حدیث بن گئے۔ تو اہل حدیث ، حنفیوں سے اختلاف ضرور کریں لیکن مخالفت نہ کریں۔ باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے باپ ہونے کا انکار نہیں ۔ برصغیر میں حنفیت ، تینوں مسالک کے لیے باپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کوئی بھی اس کا انکار کرے گا تو اسے اپنا شجرہ مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور شجرہ سے مراد علمی شجرہ ہے کہ جسے علمی سند کہتے ہیں۔"
میں بھی " شرارت " سے کہوں .... چھوڑئیے اس بات کو کہ کون زیادہ پڑھ لکھ گیا کون کم ، لیکن اتنا عرض کردوں کہ باپ پہلے ہوتا ہے پھر بیٹا پیدا ہوتا ہے ، البتہ آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے اس کے باپ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ... جدید و قدیم کا تعین کیجیے اور پھر تاریخی "ڈی این اے" کر لیجیے ، باپ کا معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے ؟ - اور ہاں ! منوانا پھر آپ کی ذمے داری ...
اور یہ جو علمی شجرہ ہے نا اصل میں ہمارا ہی تھا - بیچ میں ذرا ادھر ادھر نکل گیا ، اور جب واپس آیا تو حضرت شاہ ولی اللہ کو بھی ساتھ لے آیا ورنہ حجتہ اللہ کی بیش قیمت عبارتیں احباب کو دکھا دیجیے کہ جو سورج سی روشن اور چاند سی تابناک ہیں -
اور اس غلط فہمی کو بھی اب دور ہو جانا چاہیے کہ " علمی شجرہ " برصغیر سے باہر نکلنے کے لیے حضرت شاہ صاحب کا محتاج ہے ، اس پر لیکن پھر بات ہو گی ... ان شا اللہ
ابوبکر قدوسی