• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ابو بکر قدوسی صاحب کی تحریریں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کبھی اپنے سوے ہوۓ بچے کا ماتھا چوما ؟
کبھی راہ چلتے اس کا معصوم سا ، نازک سا ہاتھ تھاما ؟
جب کبھی وہ کندھوں پر سوار ہوا اور ہاتھ پاؤں کے بل اسے سیر کروائی ؟
جب ذرا سا بڑا ہوا تو امیدیں باندھیں ؟
جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے تو ہوں گے ؟
خواب کہ بڑا ہو کر آپ کی طاقت بنے گا ----
لیکن قیامت ہوتی ہے جب ان نرم نازک گلاب رخساروں کو کسی مصیبت میں دیکھیں - شدید بارش برسی ، بہت شدید ، اور امید تھی کہ اب تھم جاے گی یا اب - لیکن بستی میں ایک صاحب ایسے تھے جن کو امید نہیں خبر تھی کہ اب نہیں تھمے گی - وہ تھے اور ان کے کچھ ساتھی - طوفان کی شدت بڑھتی جا رہی تھی ، ان کو خبر تھی کہ یہ طوفان بہت دن تک چلے گا اور بچے گا بھی کچھ نہیں - وہ تو بس پانی کی سطح کے اوپر ہونے کے انتظار میں تھے - وہ پانی جو بارش میں بستی کی گلیوں میں ٹخنوں تک جا پہنچتا تھا اس کے قد آدم ہونے کا انتظار تھا -
کچھ ہی دیر میں پانی بڑھنے لگا - اور نوح اپنے ساتھیوں سمیت کشتی میں سوار ہو گئے - ہاں ان کو امید نہیں یقین تھا کہ مالک کا وعدہ بھی بھلا کبھی جھوٹا ہوتا ہے ؟-
بستی والے جو کل تک دیوہیکل کشتی کا ٹھٹہ اڑاتے تھے ، اب چیخ رہے تھے اور ان کی چیخوں کی آوازیں یہاں تک آ رہی تھیں - لیکن کشتی کے دروازے بند ہو چکے تھے -
اب کشتی پانی پر تیر رہی تھی ، بھاری پتھروں کے لنگر اس کی سمت درست کر رہے تھے - پہاڑوں کے دامن میں پھیلی بستی بہت حد تک پانی میں ڈوب چلی تھی - بچے کچھے لوگ زندگی کی امید میں اب پہاڑوں کا رخ کر رہے تھے -
کشتی کا رخ بستی طرف تھا ، بہت خوبصورت سا ایک جوان ایک چٹان کے پاس کھڑا تھا - نوح علیہ السلام کی نگاہ پڑی تو بے اختیار پکار اٹھے :
يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ
بیٹے ! آ جاؤ ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ نبی نوح کے دل کی حالت اس وقت کیسی ہو گی ، اپنے بیٹے کا بچپن ، اس کے گلاب سے رخسار ، معصوم سی شرارتیں سب کچھ ہی تو نگاہوں میں آ گیا ہو گا - اولاد مگر بہت ظالم ہوتی ہے کہاں جانتی ہے یہ سب کچھ - سو وہ بھی کہہ اٹھا کہ :
"نہیں نہیں میں اس پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور بچ جاؤں گا .."
لیکن نوح جانتے تھے کہ آج نہیں بچے گا - بیٹا آنکھوں کے سامنے غرقاب ہو گیا - دل پر چوٹ لگی ، بے اختیار بول اٹھے :
وَنَادَى نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ
اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا: اے میرے رب!
بیشک میرا لڑکا (بھی) تو میرے گھر والوں میں داخل تھا
اور یقینًا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے
....
اللہ نے جواب میں کہا :
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
ارشاد ہو: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے،
پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو،
میں تمہیں نصیحت کئے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے (نہ) ہو جانا-
- -----نوح علیہ السلام نے اپنی بات پر توبہ کی -
لیکن دیکھئے دین کی راہ میں انبیاء کو کیسے کیسے امتحان سے گزرنا پڑا - آنکھوں کے سامنے بیٹا چلا گیا - اتنا آسان نہیں ہوتا سب کچھ سہنا لیکن انبیاء ایسے ہی خاص نہیں ہوتے ، اپنے انہی اوصاف کے سبب ہی چنے ہوۓ افراد ہوتے ہیں -
ہاں ہم تو بہت کمزور سے بندے ہیں ، اللہ تو ہمیں ہمارے اولاد کے معاملے میں کبھی ایسی آزمائش میں مت ڈالنا ، ان کو کبھی مشرک نہ بنانا -

....ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرقہ واریت کا ایک بڑا سبب

الیکٹرانک میڈیا :


. کبھی پاکستان کا یہ ماحول ہوتا تھا کہ مخالف مسلک کے علماء کو بھی اپنے مذہبی جلسوں میں بلا لیا جاتا تھا ، میں اس بابت کتنے ہی قصے لکھ چکا ہوں - یوں جانئے کسی دل جلے کی پکار ہے جو کسی ویران اور اجڑے بے نور پرانے محل میں صدا دیتا ہے ........ لیکن محض بازگشت کہ لوٹ کے اسی کے کانوں کو مجروح کرتی ہے اور پھر وہی خاموشی کہ
سکوں ایسا ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
مسلک کا اختلاف صدیوں سے ہے ، عبادت کے طریق جدا ، عقائد میں اختلاف بجا لیکن ایک معاشرے میں مل کے رہتے تھے ، اختلاف تھا ، نفرت نہ تھی - نفرت تب پیدا ہوتی ہے جب دوسرے کو حقیر اور قا بل نفرت جانا جائے - مجھے یاد ہے کہ سمادھی گنگا رام کے علاقے میں اپنا بچپن گذرا - کسی روز اس کا بھی تذکرہ رہے گا ، لیکن ایک بات جو یادوں کے طاق میں آج بھی محبت کا دیپ جلائے رکھتی ہے کہ کبھی نماز میں سستی ہو جاتی ، یا کھیل میں مصروف اور نماز نکل رہی ہوتی تو کسی نہ کسی کونے سے آواز آ جاتی کہ :
"آوے وہابی ہو کے نماز نہیں پڑھتے "
اور ہم نکل بھاگتے ... کیا تھا یہ دوسرے کے عقائد اور اعمال کا احترام ہی تو تھا -
اغیارور دشمنوں کی ڈیوٹی پر یہاں بہت سے افراد اور طبقات ہیں لیکن جو کردار ہمارا میڈیا ادا کر رہا ہے وہ وطن دشمنی کے مترادف ہے -
پچھلے برس نیشنل ایکشن پلان آیا ، ہمارے اردو بازار میں یوں چھاپے پڑے کہ جسے ملک دشمن عناصر سب ادھر ہی آن بسے ہیں ....ہم نے سب حوصلے سے سہا کہ چلو مادر وطن کا چہرہ نفرت کی آگ سے زخمی زخمی ہے ، فرقہ وارانہ مواد الحمد للہ بہت حد تک ختم ہو گیا - البتہ اس گھن کے ساتھ گیہوں بھی پس گیا ، وہ یوں کہ بہت سی ایسی کتب جو سنجیدہ اختلاف کی مظہر تھی وہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئیں -
لیکن ان سب کے بیچ میں ایک طبقہ تھا جس کو کھلی چھٹی تھی کہ جیسے چاہے معاشرے کو تلپٹ کرے جس طرح چاہے آگ لگا دے ، نفرت کا الاؤ بھڑکا دے -یہ تھا ہمارے برقی میڈیا - ان نے یہ طریق اختیار کیا کہ مخالف مسلک کے لوگوں کو باہم لا بٹھاتا ہے اور اہتمام کیا جاتا ہے کہ ایسے لوگ ساتھ میں ضرور رکھے جائیں کہ جن کی وجہ شہرت ان کی تلخ نوائی ہو ، نفرت کے پرچار کی "صلاحیت " ہو - مقصد اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ آگ اور لگے -
دیکھئے جن مسائل پر ہمارے بڑے کتابیں لکھتے لکھتے پرلوک سدھار گئے اور ان کا فیصلہ نہ ہو سکا ، اختلاف حل نہ ہو سکا - ان مسائل کو لے کر علماء کو باہم متصادم کروانا اس کے علاوہ کیا ہے کہ اس ملک میں فرقہ پرستی کی آگ کو اور بھڑکا دیا جائے -
حیرت ارباب اختیار پر ہے کہ وہ آنکھیں ، اور کان بند کر کے یہ سب ہونے دے رہے ہیں - کیا پیمرا سوئی ہوئی ہے کہ ایک دو بندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو جی چاہے کریں ؟
آپ جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں ایک اینکر کی شہہ پر ایک مولوی صاحب نے پروگرام میں کھلی گالی دی کہ جو اس معاملے میں ہمارا ہم نوا نہیں وہ "حلال زادہ" نہیں - پچھلے برس ایک اینکر کے سامنے ایک صحابیہ کو برا کہا گیا - کیا پاکستان کا ٹوٹتا اور بکھرتا معاشرہ اس نفرت کا متحمل ہو سکتا ہے ؟
......ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مدارس کے نصاب خرابی کی جڑ ہیں ؟ :


خرابی کی جڑ نصاب میں ہے - اس جلمے کی خبر برادر عزیز نوفل ربانی کے ایک طویل مضمون سے ہوئی - ایک صاحب نے مدارس کی "اصلاح " کی خاطر "درد سے ڈوبا " کالم لکھا ، جس کا عمدہ جواب نوفل نے دیا -

مدارس اور ان کی بعض خرابیوں کے سبب ہمیں بھی شکوہ ہے ، لیکن یہ نہیں کہ اس کے نصاب کو ہی ہدف تنقیید بنایا جائے - حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں وہ لوگ بھی مدارس کے نصاب کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں ہیں کہ جن کا مدرسے سے بس اتنا لینا دینا ہوتا ہے کہ ابّا مرحوم ہو جائیں تو ان کے ختم پر مدرسے کے بچوں کی ضرورت آن پڑتی ہے کہ صاحب اور ان کی آل اولاد ، دادا کے لیے سورہ یٰسین بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے - گو صاحب مضمون تو ایسے نہیں لیکن مدرسے کے نصاب پر عمومی اعتراضات اسی لبرل اور روشن خیال طبقے کی طرف سے آتے رہے ہیں کہ جن کا مدرسے سے کچھ بھی لینا دینا کبھی بھی نہیں رہا -

اس اعتراض کا بنیادی سبب محض مغرب کی نقالی ہے ورنہ اعتراض کرنے والے سے اگر یہ سوال کر لیا جائے کہ :

"جناب خرابی تو مان لی ، اصلاح کی خاطر نصاب میں کچھ تبدیلی کی تجویز بھی دیجئے "

تو یقین کیجئے صاحب کی حالت دیکھنے والی ہو گی - اصل میں یہ اعتراض اہلیان مغرب کا ہے اور انہی کا اگلا ہوا لقمہ ہمارے ہاں کے لبرلز چباتے ہیں - اہلیان مغرب کا مسلہ مدرسہ نہیں مولوی ہے - وہی مولوی ، اسلام اور دین کہ جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کود ے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

جی ہاں یہ ملّا ہی تو ہے جس نے اس امت کو ڈیڑھ ہزار پرانی تھذیب سے یوں جوڑ رکھا ہے کہ جدا کرنے سے بھی جدا نہیں ہو پاتی - اس لیے مغرب نے ناکامی سے الجھ کر راگ بھیرویں کی طرح "نصب تبدیل کرو " کا راگ الاپنا شروع کیا ہوا ہے -

سوال یہ ہے کہ نصاب میں کیا تبدیلی کی جائے ؟

مدارس میں بچے دین کی تعلیم پڑھنے جاتے ہیں ، لامحالہ عربی پڑھنا اس کا بنیادی تقاضا ہے ، سو بچے پڑھتے ہیں اور ایسی اچھی عربی جانتے ہیں کہ ایک بار علامہ احسان الہی ظہیر فرمانے لگے کہ:

" مجھے ایک عرب استاد نے کہا کہ آپ کے ہاں کے مدرسے کے فارغ بچے جب ہماری یونیورسٹیوں میں مزید تعلیم کے لیے آتے ہیں تو ان کی عربی گرائمر اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ گاہے ہم بھی گھبرا جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی صرف ، نحو کی غلطی نہ ہوئی جائے "

رہے دوسرے اسلامی علوم ان پر بھی ہمارے مدارس میں ایسا ہی عمدہ معیار تعلیم ہے -

پھر اصل معاملہ کیا ہے ؟ جی جناب اصل معامله وہی ہے کہ :

روح محمد کو اس کے بدن سے نکال دو
میرے خاندان میں چونکہ دنیاوی اور دینی تعلیم کے حامل بچے یکسانیت سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں - سو مجھے خاصی معلومات ہیں ، ذاتی امور کو کم لکھتا ہوتا ہوں لیکن آج لکھ رہا ہوں کہ میری ایک بیٹی ڈاکٹر بن چکی ، بیٹا پاکستان کی سب سے اعلی یونورسٹی میں انجینئر ہو رہا ہے ، اور دوران تعلیم فکر انہی کی طرف رہی کہ تعلیمی اداروں کا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہو - الحمدللہ میں اس معاملے میں خوش قسمت رہا لیکن کیا سب کے ساتھ ایسا ہی ہے ؟

دوسری طرف ایک بھتیجا جو پنجاب یونورسٹی کے دو سمسٹر پڑھ کے مدرسے کو نکل گیا ، اس کی طرف سے خاصی بے فکری رہتی ہے -

آج اس روشن خیالی کے سبب ان جدید تعلیمی اداروں کا ماحول کس درجہ برباد ہو چکا کہ دور سے اندازہ لگانا ہی ممکن نہیں - پریوائیٹ ادارے محض کاروباری جاگیر ہی نہیں بلکہ رقص و سرود کی محفلوں کے مرکز بن چکے ، ہر تیسرے دن کسی نہ کسی بہانے سے محفل موسیقی ہو رہی ہوتی ہے ، سرکاری ادارے بھی اس "کارخیر " میں کسی سے کم نہیں - گلی محلے کے ادارے بھی اپنی سالانہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر کسی "مزاحیہ فنکار " کو یا کسی گلوکار کو بلانا پسند کرتے ہیں - اگر طبع نازک پر بوجھ نہ ہو تو یاد دلاتا چلوں چند عشرے پہلے ہی ان "فنکاروں " کو کنجر کہہ کے پکارا جاتا تھا جو آج آپ کے تعلیمی اداروں کے مہمانان خصوصی ہو چکے ..اور کسے یاد نہیں کہ معروف ملزمہ "ایان علی " کو کراچی یونیورسٹی میں لیکچر کے لیے مدعو کا گیا تھا -

چلتے چلتے ایک اور بات بھی لکھتا چلوں ، اخبارات اٹھائیے اور پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے بڑے واقعات ہووے ہیں ان کے جو " ماسٹر مائنڈ " پکڑے گئے ان کی اکثریت انہی " ماسٹروں کی پڑھی ہوئی نکلتی رہی - بہتر ہے ان ماسٹروں کا "نصاب زندگی " بدلا جائے - یہ الگ موضوع ہے کہ مذھبی لڑائی کا روپ دھارتی اس جنگ کے ماسٹر مائنڈ مدارس کی بجائے یونیورسٹیوں اور کالجز کے سپوت ہی کیوں نکلتے ہیں ، مختصر یہ کہ یہ بھی آپ کی لبرل انتہا پسندی کا رد عمل ہے -

نصاب بدلنے کا سوال تو ہمارے ان جدید تعلیمی اداروں کے بارے میں بنتا ہے کہ جن سے پڑھے "بچوں " اور ' با صلاحیت " افراد نے ملک کو جہنم زار بنا رکھا ہے - یہ پڑھے لکھے افراد جدھر گئے داستان چھوڑ آئے - کرپشن کی داستانیں تو جو رقم کیں سو کیں ، انتظامی امور میں ایسے نا اہل ثابت ہووے کہ الامان --کس پہلو کا ذکر کیجیے
جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے
آپ کسی طرف نکل جائیے ، بیوروکریسی ہو یا عدلیہ ، مقننہ ہو یا انتظامیہ --سب چھوڑئیے روف کلاسرا کے کالم ہی پڑھ لیجیے ، یہاں کے پڑھے لکھوں کا اصل چہرہ سامنے آ جایے گا - سو حضور پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی "گناہ " نہ کیا ہو - ہاں ہم کہتے ہیں کہ آپ " پڑھے لکھے مل کر مدارس کو پہلا پتھر مارئے لیکن اس سے پہلے
پاکستان کی کسی ایک یونیورسٹی کو دنیا میں ٹاپ ٹین میں لے آئیے
یہاں کے نظام انصاف کو ایسا مضبوط کر دیجئے کہ کسی کو باد از وفات بے گناہ نہ قرار دینا پڑے
غربت کا خاتمہ کر دیجئے کہ بہتے آئل ٹینکر دو دو سو افراد کی ارتھی نہ جلا سکیں
یہاں غریب کا بچہ بھی محض کردار کے سبب الیکشن میں جیت سکے
یھاں کے حکمران خود کو عوام کا ملازم سمجھیں
تعلیمی ادارے جو "گروپ آف انڈسٹری " بن چکے ہیں ، علم کا میدان بن جائیں
ہم نہیں کہتے کہ مدارس میں ، وہاں کے نظام میں کوئی خرابی نہیں ، وہاں بھی سب اچھا نہیں - لیکن جن لوگوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا ، اس ملک کی ہر اینٹ گروی رکھ کے اپنی نسلیں سنوار لیں ، اس دیس کی ہر رگ سے لہو تک کو نچوڑ لیا ، ان کے منہ سے نکلے جملے کہ " مدارس کے نصاب میں خرابی ہے" کوئی اہمیت نہیں رکھتے -

.ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مذہبی جماعتوں کی مجرمانہ روش :

.
برس گذر گئے یہاں فیس بک کے فارم پر مولوی کا اور مذہبی جماعتوں کا دفاع کرتے ، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں ان تنظیموں کو ایسا کامل جانتا ہوں کہ ان میں کوئی خامی ہی نہیں .. لیکن خامیوں کا ذکر بھی کیوں کر یغی جماعت کہہ لیں ، بریلویوں کی دعوت اسلامی ، ڈاکٹر اسرار صاحب کی تنظیم اسلامی ... البتہ اہل حدیث میں ایسی کوئی تنظیم میرے علم میں نہیں - یہ خالص مذہبی تنظیمیں اپنے "مخصوص " اہداف کے لیے تو کوشاں ہیں لیکن ان کی "وسعت نظر" پر بہت سے سوال ہیں .. ان میں سے بیشتر اپنے نظریات کی اثیر ہو کر رہ گئیں ہیں -
اوپر عنوان میں "مجرمانہ روش " خاصی تلخ ترکیب ہے لیکن آپ احباب کے سامنے آج ایک سوال رکھنا چاہتا ہوں ، پھر فیصلہ کیجئے گا کہ میں نے ناروا طور پر مذہبی جماعتوں کو مطعون کیا یا میری بات وزن رکھتی ہے -
میرا سوال یہ ہے کہ :
دفاع دین کے لیے ان جماعتوں کا کیا کردار ہے ؟
انکار حدیث اور الحاد کے مقابلے میں ان تنظیموں کی طرف سے کیا منظم کوشش کی گئی ؟
نوجوان نسل کے دین کے بارے میں شبھات اور سوالات کا ان نے کیا جواب دیا ؟
دیکھئے ! سوشل میڈیا ایک مکمل دنیا بن چکا ، نوجوان یہاں موجود ہیں ، عمر رسیدہ افراد بھی باافراط پائے جاتے ہیں - اور دین کے مخالف ، دین کی بنیادوں کے دشمن ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر نہایت منظم انداز میں کام کر رہے ہیں - ان دین دشمنوں کی ویب سائٹ ، پیجز منصوبہ بندی کر کے تشکیک اور الحاد پر کام کر رہے ہیں - مقابلے میں ہمارے نوجوان الگ الگ ، بکھرے اور غیر منظم طریقے سے ان کا جواب تو دیتے ہیں مگر کب تک اور کس حد تک ؟؟؟
میں کسی جماعت کا نام نہیں لوں گا ، آپ بھی ، میں بھی ان میں سے ہی ہیں اور ہم نے بھی اپنے دلوں میں بت سجا رکھے ہیں ، ذرا سا کوئی تنقید کر دے ہم آستینیں چڑھا لیتے ہیں -
لیکن مجھے بتائیے کہ آپ کے محبوب لیڈر کے بارے میں کوئی ایک لفظ بولے تو آپ کو غصہ آ جاتا ہے لیکن کبھی اس محبوب لیڈر سے یہ سوال تو کیجئے کہ حضرت آپ کا "دفاع دین" کے بارے میں کیا ذہن ہے ، کیا سوچ ہے ، اور کیا عمل ہے ؟؟
درجن درجن افراد ان جماعتوں نے سائبر ٹیم میں بھرتی کر رکھے ہیں لیکن ان کا کام جماعت کے مخصوص "نظریات " کا یا جناب امیر صاحب کا دفاع کرنا ہے -
بجٹ ان کے پاس کروڑوں روپے کا ہے ، ان کے مراکز میں ایک وقت میں جتنے افراد کا کھانا بنتا ہے اتنے میں ایک "پیج " چلایا جا سکتا ہے ...
ایک تنظیم ہے اس میں ایک شعبے میں بعض افراد کی تنخواہ لاکھ لکھ روپے سے بھی زیادہ ہے، اتنے روپے میں نصف درجن علماء کو مختص کیا جا سکتا ہے سوشل میڈیا پر -
ایک مذہبی جماعت کا لاہور میں مرکزی دفتر کئی ایکڑوں میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کام کے لیے اس کے پاس فنڈ نہیں ہیں -
ایک جماعت کے مرکز میں شوق شوق میں بنی بنائی مسجد دوبارہ بن گئی لیکن .........
ایک تنظیم کی پاکستانی پارلیمان میں اچھی خاصی سیٹیں ہیں لیکن کبھی ان معاملات میں اس کو دلچسپی ہی نہیں ہوئی -
میں اپنے گھر والوں سے مخاطب ہو کے بات کر لیتا ہوں ، میں ابھی اہل حدیث کے کسی گروپ کے امیر کے بارے میں پوسٹ کرتا ہوں ، دیکھئے گا کیسے ہلچل ہوتی ہے ، تبصرے ، کمنٹ ، غصہ ، ناراضی ، محبت ، سب سودا حاضر ....ابھی ایک پوسٹ دفاع حدیث بارے کروں گا تو سب غائب ----
میں آپ کارکنان کو کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے امیر سے ، اپنے لیڈر سے تقاضا نہیں کرتے ، سوال نہیں کرتے ، احتجاج نہیں کرتے تو آپ بھی اسی غفلت کے مجرم ہیں جس میں لیڈر صاحب مبتلا ہیں - ان سے سوال کیجئے کہ:
حضرت ! انکار حدیث کے ، الحاد کے فتنے کے لیے کتنے علماء کو سوشل میڈیا پر باتنخواه مقرر کیا ہے .... ؟
کتنے سکالرز کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ میدان تشکیک کو گرم رکھنے والوں کے شکوک بارے نوجوانوں کی رہنمائی میں کام کریں ؟

.................ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا اس کے لیے بھی کوی جے آئی ٹی بنے گی :

>
سیدنا عمر نے کہا تھا کہ اگر ایک بے گناہ کے قتل میں فلاں علاقے کی تمام آبادی بھی شریک ہو گی میں سب کو قصاص میں قتل کر دوں گا
جی ہاں اسی حاکم عظیم نے فرمایا تھا کہ فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر جائے گا تو قیامت کو کیسے جواب دوں گا ؟
میرے دیس میں روز بیسیوں قتل ہوتے ہیں ، ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں ، طبی سہولتیں نہ ملنے سے درجنوں جان کی بازی ہار جاتے ہیں ..لیکن کچھ "قتل " ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا قصاص وجاب ہوتا ہے ورنہ بستی کی بستی پر عذاب آ جاتا ہے -
یہ ایسا ہی 'قتل " ہے ، ہم کو فرصت نہیں نیٹ سے ، کیبل سے ، ڈرامے دیکھنے سے ڈرامے کرنے سے . ہم میں کسی کا کیا حال ہے ، اس کی خبر رکھنے کو فرصت ہے نہ ضرورت .
..مذھب کو ذاتی زندگیوں سے دیس نکالا دے دیا گیا ..اگر مذھب کہیں بچ بھی گیا تو اس کو زندگی سے نکالنے کی بھر پور جدجہد جاری ہے ..وہ مذھب کہ جس تعلیم یہ ہے کہ اگر ہمسایہ بھوکا سو گیا تو عبادات بے کار رہیں گی -اور وہ مذھب کہ جس میں ہر حال میں جینا ، تنگی میں بھی حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنا لازم ہے ، اور کشی حرام ہے -
کیسے ممکن ہے کہ ایک گلی میں کوئی نادار ہو ، غریب ہو اور اہل محلہ کو خبر نہ ہو ؟
حضور سب خبر ہوتی ہے ، لیکن ہم سب اپنے حال میں مست ہوتے ہیں ، میں بھی مجرم ہوں آپ بھی مجرم ہیں ..کا ہم کبھی نکلتے ہیں محلے میں اور ایسے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ، اور سوال کرتے ہیں کہ بھائی بچے بھوکے تو نہیں ، کوئی ضرورت تو نہیں ؟؟
دیکھئے کوئی مانے نہ مانے میں کہوں گا بستی کی بستی مجرم ہے ، تمام معاشرہ اس قتل میں شریک ہے -

خبر یہ ہے کہ :

فیصل آباد میں بچی کے لیے دودھ نہ ہونے کر میاں بیوی میں جھگڑا ہوا ، خاوند نے دلبرداشتہ ہو کر گندم میں رکھنے والی زہریلی گولیاں کھا لیں ، اور بیوی کو بتا دیا ، بیوی نے بھی کھا لیں ، اور دونوں جان کی بازی ہار گئے


.................ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اس حمام میں سب ننگے ہیں

.
شراب ، شباب اور کباب ان کی زندگی کا لازمہ ہے - گو یہ ہمارے نمائندگان ہیں لیکن اخلاقی طور پر قطعا ہماری نمائندگی نہیں کرتے - مدت گزری اخبارات میں ایک خبر چھپی تھی کہ جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے تو ان دنوں اسلام آباد میں شراب کے نرخ بڑھ جاتے ہیں - لڑکیاں تو اس بازار میں جنس عام ہوئیں -
میرے ایک واقف حال دوست کہ جو ایک اسلام آباد کے ایک بڑے اخبار میں بہت ہی اہم پوسٹ پر ہیں بتاتے ہیں کہ ایک اعلی عہدے دار بتاتے ہیں کہ وہ کو لاہور سے آئے ہووے کچھ خاص مہمانوں کی مہمانی کرنے کی ضرورت آن پڑی سو اس کے لیے لڑکیوں کی تلاش ہوئی - "میڈم " سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سب لڑکیاں ایک "سیاسی ہنگامے " پر موجود ہیں اور اچھل کود میں مشغول ہیں - بصد مشکل ان کو بلایا گیا -
میرا ایک عزیز دوست اس داستان کو جب مزے لے لے کر سناتا ہے کہ جب بےنظیر کی حکومت چلی گئی اور رات گئے خبریں آئیں تو چنبہ ہاؤس لاہور میں وزیر صاحب ہڑبڑتتے ہووے کمرے سے باہر نکلے ننگی ٹانگوں کو ڈھانپنے کے لیے بیڈ شیٹ کو اپنے گرد لپیٹے ہووے ..آوازیں دے رہے ہیں "او جلدی آؤ ، بوتلیں سمیٹو " جی ہاں شراب کی بوتلیں ...اور موصوف کا محکمہ اوقاف کا تھا جس میں مذھب سے گہرا تعلق ہوتا ہے -
زنا کاری ہمارے اس معاشرے میں ایسے پھیل چکی ہے کہ شریف بندے کو جب حقائق کا دسواں حصہ بھی بتایا جائے تو اس کا منہ کھل جاتا ہے اور سر انکار میں حرکت کرنے لگتا ہے -
اور رہی ہماری یہ الیٹ کلاس اس میں شراب اور زنا کاری فیشن ہے محض ، کوئی برائی نہیں جناب --- برائی یہ تب شمار ہوتی ہے کہ جب کھل جائے یا اخبارات میں آ جائے - اور اس کا بھی نقصان صرف یہ ہے کہ ان کو مذہبی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے - ورنہ تو ہماری عوام بھی خاصی لبرل ہوتی جا رہی ہے کہ جس معاشرے میں یہ محاورہ ہو کہ :
"مرد نہایا دھویا گھوڑا ہوتا ہے "
سو جو بھی جی چاہے کرے اس کو فرق نہیں پڑتا ، ہاں عورت کی عزت کا مسلہ ہے - تف ہے ایسے معاشرے پر اور ایسی سوچ پر -
لوگ بھول جاتے ہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ کس طرح دو سال پہلے فیصل آباد کے ایک خاندان کی چھوٹی عمر کی کنیا حاملہ ہو گئی ...خاندان بھی پاکستان کا امیر ترین شمار کیا جاتا ہے اور کارنامہ بھی پاکستان کے ٹاپ فائیو کے سیاست دان کا تھا ..پاکستانی میڈیا تو اس معاملے میں خاموش رہا تھا لیکن بین الاقوامی میڈیا اس چٹ پٹی کہانی کو خوب مزے لے کر بیان کرتا رہا - خود میں نے یہ قصہ انڈیا کے ایک انگریزی اخبار میں دیکھا تو حیران ہو گیا کہ ہمارا میڈیا کیسے اس سیاستدان کو پاک پوتر اور کرپشن سے پاک بنا کے پیش کرتا ہے -
اور لاہور کی سڑکوں پر چار سال پہلے ایک بچی کو اٹھائے احتجاج کناں عورت کس کو بھول گئی ہو گی کہ جس نے اپنی بچی کی شناخت مانگی - اس بے چاری کا تو دعوی بھی یہ تھا کہ بچی شادی کا نتیجہ ہے گناہ کا نہیں -لیکن اس کے ساتھ کیا ہوئی ، سب جانتے ہیں ...اور موصوف بھی ہمارے چھوٹے موٹے بادشاہ ہی تو تھے -
کوئی ایک قصہ ہو تو بیان کیجئے - نام لینا میرا مزاج نہیں کہ شریعت کے تقاضے بہت الگ ہیں - ورنہ ہمارے یہ حکمران ، اپوزیشن کے رہنماء ، اعلی درجے کی بیوروکریسی اس گناہ میں گلے گلے تک دھنسی ہوئی ہے -
ایران فتح ہوا مسجد نبوی میں سیم و جواہر کے ڈھیر لگے ہوے تھے - سیدنا عمر تشریف لائے - دولت کے انبار دیکھے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ..لوگوں نے کہا "امیر آج تو خوشی کا دن ہے یہ آنسو کس لیے ؟"
فراست کے بادشاہ نے کہا :
"تم دولت کے انبار دیکھ رہے ہو ، میں ان کے ساتھ در آنے والے گناہ دیکھ رہا ہوں "
ہمارے ہاں عدلیہ ، مقننہ ، انتظامیہ سب ہی اس خیال میں مست ہیں
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مجھے یاد ہے ایک صحافی دوست نے ایک مشھور و معروف منصف صاحب کا قصہ سنایا تب میں بہت ہنسا اور مگر آج رونے کو جی چاہتا ہے - ایس ایچ او نے لاہور کے نہر کنارے ہوٹل پر چھاپہ مارا - ممکن ہے تھانے دار کو منتھلی نہ ملی ہو اور ناراض ہو - اندر سے منصف صاحب حسب معمول "بیڈ شیٹ " لپیٹے نکلے ...اور تاریخی جملہ ارشاد فرمایا :
"میں یہیں عدالت قرار دے کر تم کو برخاست کر دوں گے چلے جاؤ "
ننگی عدالت ، حہھہ میں یہی کہہ کے رہ گیا -
سو دوستو :
اور خاص طور پر اہل حدیث اور دیوبندی دوستو کہ جن کی مذھب سے گہری وابستگی ہے ان سے عرض ہے کہ ان "گندے اور غلیظ " سیاست دانوں کے لیے جذباتی نہ ہوا کریں ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر ...اس حمام میں سب ننگے ہیں -

..ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہم اپنی نسلوں کے قاتل :


.....ابوبکر قدوسی
..
ہماری آنے والی نسلیں سوال تو کریں گی کہ جو ان کے آبا تھے ایسے ہی کم فہم تھے کہ ان کے لیے جینے کا کوئی سامان بھی نہ چھوڑا -
ہمارے دور بیٹھے دوست اخبارات میں رنگ برنگے اشتہارات اور ٹی وی چینلز پر چلتی خیرہ کن اشتہاری فلمیں دیکھ کر حسرت بھری نظروں سے ہمارے پنجاب کے حکمرانوں کو دیکھتے ہیں ، اور کینہ پرور طور پر اپنے اپنے "قائم علی شاہوں " کو -
ان کا خیال ہے کہ ہمارے پنجاب میں اور خاص طور پر لاہور میں بہت ترقی ہو رہی ہے - بہت بار مجھے کچھ دوستوں نے کہا کہ آپ دور بیٹھے ہیں آپ کو کیا خبر ہم کس عذاب میں ہیں -
ہم یہی کہتے ہیں کہ جناب دور کے ڈھول سہانے اگر سڑکوں کی بات کرتے ہیں تو آپ درست لیکن اگر ترقی اس کے علاوہ بھی ہے تو ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں -
خبر ہے کہ صرف تین برس بعد لاہور کے زیر زمین پانی کے وسائل نہ قابل استعمال حد تک کم یا ختم ہو جائیں گے - جو بچے گا کھارا پانی - سبب اس کا یہ ہوا کہ مسلم لیگ نے ہر گلی محلے میں بڑا سا ٹیوب ول گاڑ دیا - لوگوں کو پینے کے لیے پانی کی طلب تھی لیں اب بہانے کے لیے بھی ہزاروں گیلن وافر دستیاب ہے - آبادی ان کے دور میں چار گنا بڑھی لیکن پانی کا استعمال بے شمار گنا - اگر اس پانی کی راشن بندی کر دی جاتی ، اور میٹھے پانی کی اس نعمت کو آنے والی نسلوں کا حق بھی جانا جاتا تو کیا برا تھا ؟
لیکن برا ہو ووٹ لینے کی سیاست کا ، جو صرف اپنے آج کا سوچتی ہے - اور عوام تو وہ تو ڈھور ڈنگر ہیں صرف زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں - دریائے راوی کی کنارے آباد شہر کچھ برسوں میں پانی کو ترسے گا -
عمران خان نے ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا - اب ہمارے دوست اس کی مخالفت میں کے پی کے کی زمین کو "فٹا " لے کے ناپ رہے ہیں ، پھر حساب لگاتے ہیں کہ جی اتنی زمین ہے اتنے درخت لگ ہی نہیں سکتے - بھائی آپ کی بات مان لیتے ہیں - عمران خان جھوٹ بولتا ہے - اس کی بات کو دس پر تقسیم کر لیں نو حصے جھوٹ شمار کر کے ایک حصہ مان لیں - کام تو کیا ، اگلی نسل کو چند کروڑ ہی سہی درخت دیے تو -
یہاں پنجاب میں آپ نے سریے کے اور سیمنٹ کے درخت لگا دیے ہیں -آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم نے آنے والی نسلوں سے صاف ہوا بھی چھین لی - ہر برس بہار کے موسم میں محکمہ شجر کاری بینر لگا دیتا کہ درخت لگائیں ثواب کمائیں - ان ہزاروں بینروں اور اس تشہیری مہم سے بھی کمیشن کما کے موج اڑای جاتی ہے ، لیکن عملی صورت یہ ہے کہ اس حکومت نے لاکھوں درخت اب تک کٹوا دئیے ہیں -
اگر انے والی نسلوں کی فکر ہوتی تو اصول بنا لیا جاتا کہ جتنے درخت کٹیں گے ، ایک کے عوض دس نئے لگیں گے - لیکن جن کی نسلوں نے برطانیہ میں رہنا ہے یہ ان کا درد سر نہیں
 
Top