تجدد اور الحاد کا باہمی تعلق
زاہد صدیق مغل
عیسائیت کی شکست و ریخت اور جدید تنویری الحاد کے غلبے کی تاریخ بتاتی ہے کہ لوگ یک دم مذہب ترک کرکے الحاد قبول نہیں کرلیتے بلکہ یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا آغاز تجدد پسندی سے ہوتا ہے۔
اس کا مختصر نقشہ کچھ یوں ہے:
الف) پہلے (ایک مخصوص تناظر میں) مذہب کی تاریخی تشریح و تعبیر کو رد کر کے مذہب کی انفرادی تعبیرات اختیار کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا جاتا ہے.
ب) یہ مذہب کو اجتماعی زندگی سے بےدخل کرکے ذاتی زندگی تک محدود کرنے کی ابتداء ہوتی ہے کیونکہ تاریخی تناظر نظرانداز کردینے کے بعد محض الفاظ باقی رہ جاتے ہیں جن کی درجنوں تعبیرات ممکن ہوتی ہیں اور ان میں یہ طے کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہوتا کہ کون سی تشریح درست تشریح ہے، لہذا مذہب لازما ایک ذاتی شے بن جاتا ہے اور یہ اجتماعی زندگی سیکولرائز کرنے کا مذہبی جواز ہوتا ہے
ج) یہ جدید انفرادی تشریحات مذہب کی ایک معروضی (حاضروموجود) تناظر میں تفہیم وضع کرنے کی کوشش کرتی ییں۔ کیونکہ حاضر و موجود تناظر مذہب سے نہیں بلکہ اس سے ماوراء کسی دوسرے تاریخی تناظر (مثلا تنویری تناظر) سے برآمد ہوکر آتا ہے، لہذا اب مذہب کی تعبیر ایک دوسری تاریخ اور علمیت کے مطابق کی جانے لگتی ہے۔ گویا تجدد کے نتیجے میں فی الواقع جو تبدیلی رونما ہوتی ہے وہ یہ نہیں کہ اب مذہب کی ماورائے تاریخ کوئی آفاقی عقلی تشریح پیش کردی جاتی ہے (جیسا کہ یہ متجدیدین دعوی کرتے پیں) بلکہ صرف اتنی تبدیلی آتی ہے کہ مذہب کا معتبر حوالہ خود اس کی اپنی تاریخ کے بجائے ایک غیر مذہبی تاریخ کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے، اور بس۔ یہ مذہب کو غیر معتبر بنانے کی ابتداء ہوتی ہے.
د) اس غیر مذہبی تاریخ اور علمیت میں جب مذہب کو سمونے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہاں مذہب کی حیثیت انتہائی کمزور ہوتی ہے، یہاں مذہب کو انفرادی شناخت کے حوالے سے تاریخی تقدس بھی حاصل نہیں ہوتا۔ لہذا مذہب یہاں کبھی قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک تابع مہمل بن کر رہتا ہے۔ ہر وہ مقام جہاں خدا کی بات (چاہے وہ کتنی ہی قطعی کیوں نہ ہو) معروضی تناظر کے خلاف ہو، لازما اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس معاملے میں خدا اپنی رائے تبدیل کرے، بصورت دیگر یہ بات رد کر دینے لائق ہے (اور جدید تناظر میں خدا کی ایسی بےشمار باتیں ہوتی ہیں)
ھ) اگر خدا کو بالآخر وہی کہنا اور ماننا پڑتا ہے جو معروضی تناظر طے کرتا ہے تو ایسے خدا سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہی کیا ہے، اس مقام پر پہنچ کر لوگ مذہب کا نفسیاتی قلادہ بھی اتار پھینکتے ہیں۔ یہ الحاد کی مذہبی تابوت میں آخری میخ ہوتی ہے۔
لہذا خوب یاد رہنا چاہیے کہ مذہب کو سمجھنے کا درست طریقہ اس کی تاریخیت (historicity) سے جڑے رہنا ہوتا ہے نہ کہ معروضی (objective) پیمانے اختیار کرتے چلے جانا، کیونکہ جنہیں معروضی حقائق سمجھ کر قبول کیا جارہا ہوتا ہے وہ درحقیقت غیر اقداری و نیوٹرل نہیں بلکہ ایک ماورائے مذہب تاریخ، تہذیب و علمیت سے برآمد ہو رہے ہوتے ہیں اور جن کے بذات خود ٹھیک ہونے کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ہوتی، چہ جائیکہ ان کی بنیاد پر مذہب کی مرمت شروع کر دی جائے۔ ایسی تقریبا ہر جدوجہد کا نتیجہ تجدد کے ذریعے الحاد کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ عیسائیت کی شکست چلا چلا کر یہ سبق سنا رہی ہے اور اسلامی دنیا کے معاملات بھی اس تاریخ سے کچھ مختلف عندیہ نہیں دے رہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
انھی معنی میں ہم کہتے ہیں کہ احیائے اسلام کا اصل مطلب خیرالقرون کی طرف مسلسل مراجعت ہے، اس کے علاوہ احیائے اسلام کا کوئی دوسرا معنی نہیں۔ جدید معروضی تناظر میں وضع کیا جانے والا احیائے اسلام کا ہر معنی اسلام کو تنویری تاریخ، علمیت و تہذیب میں ضم کر دینے کا ہم معنی ہے۔