• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرم الحرام 1435ھ .... اسلامی سال نو کا آغاز

شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
محرم الحرام 1435ھ .... اسلامی سال نو کا آغاز
ازقلم : محمد رفیق طاہر
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ اور اسلامی سال کو سن ہجری کہا جاتا ہے ۔ یہ سن ہجری ہجرت کے پرشکوہ واقعہ کی یاد کو تازہ کرتا ہے ۔ اور ہر سال نو کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی ﷺ کے عظیم واقعہ کی یاد دلا کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر تنگیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، اہل اسلام پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جائیں ، ان پر عرصہء حیات کو تنگ کر دیا جائے تو ایسے کڑے وقت میں وہ کفر کے ساتھ مداہنت اور رواداری والا رویہ اپناتے ہوئے اپنے عقائد ونظریات میں لچک پیدا نہ کریں بلکہ اپنے دین وایمان کی حفاظت میں اپنا سب کچھ لٹانا پڑے تو لٹا دیں لیکن انکے پائے استقامت میں لغزش نہ پیدا ہونے دیں ۔
عقائد کے پختگی کے نتیجہ میں ہونے والی ہجرتیں ایک بنیاد پرست ریاست کے قیام کا سبب بنتی ہیں ، اور پھر وہ ریاست کفار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے ، اوروہ اسے مٹانے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں ۔ کبھی اکیلے اکیلے اور کبھی ملت کفر کا اتحاد بنا کر ۔ لیکن بہر دو صورت انہیں شکست وریخت کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس مملکت اسلامیہ کی بنیاد مضبوط عقائد پر ہوتی ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلامی سلطنت پر حملہ آور باطل قوتوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور بالآخر وہ مسلمانوں کے آگے سرنگوں ہو جاتی ہیں ۔
ہجرت نبوی ﷺ کی طرف ایک طائرانہ نظر دوڑا کر دیکھیے کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر عرصہ ء حیات تنگ کیا گیا وہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو کفار کو اسلام کا یوں پنپنا ہضم نہ ہوسکا ۔ انہوں نے ایک بہت بڑا اتحاد جمع کرکے مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا جسکے نتیجہ میں غزوہ احزاب یا غزوہ خندق ہوا ۔ وہ اس سے قبل بدر واحد میں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کے تجربات کر چکے تھے ۔ لیکن اب کی بار بھی کفر کے اتحاد نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے کامرانی کے دروازے کھول دیے ۔ اتحادیوں کے پاؤں اکھڑتے ہیں مدینہ کے ارد گرد میں موجود تمام تر یہودی قبائل اللہ نے مسلمانوں کے آگے زیر کر دیے ، امارت اسلامیہ پھلنے پھولنے لگی ، اموال غنائم سے مسلمانوں کی معاشی حالت فورا سنبھل گئی اور فتوحات کا یہ سلسلہ فتح مکہ تک جا پہنچا ، جسکے بعد فتوحات اسلامیہ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
آج کل ہمارے حالات بھی کچھ اسی طرح کے بنے ہوئے ہیں ۔ کہ ملت کفر اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔روس کے ٹوٹنے کے بعد افعانستان میں حدود اللہ کا قیام ، بتوں کا ٹوٹنا ، غیر اللہ کی پرستش کا مٹنا ، نماز وزکاۃ کے نظام کا قیام ، داڑھی وبرقعہ کے کلچر کا احیاء ، عالم کفر کو ناگوار گزرا تو انہوں نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر ساری ملت کفر کو جمع کرکے افعانستان پر آتش وآہن کی بارش کردی ۔ آزاد کشمیر کے زلزلہ کے بعدجب انہیں معلوم ہوا کہ پاکستانی قبائل بھی حدود اللہ کا نفاذ کیے ہوئے ہیں تو ایک جعلی فلم بنوا کر طالبان اور اسامہ کے تلاش کا بہانہ ساتھ ملا کر وزیرستان پر ڈرونوں کی بارش شروع کر دی ۔ اور اس سے قبل وہ فکری طور پر مسلمانوں پر ایسی یلغار کر چکے ہیں کہ آج کلمہ پڑھنے والے بھی نماز ، روزہ سے بے نیاز ، مذہب کی پابندی سے آزاد ، سنت نبویہ کا مذاق اڑانے والے ، اور دین فطرت سے اعراض کرنے والے بن چکے ہیں ۔وہ ہر میدان میں اہل اسلام پر یلغار کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن سال نو کا آغاز ہمیں وہی پرانا سبق یاد دلاتا ہے کہ :
وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ * إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاءَ وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِین* (آل عمران : ١٣٩،١٤٠)
کمزوری نہ دکھاؤ، غم نہ کھاؤ، اگر تم مؤمن ہو تو غلبہ تمہارا ہی ہوگا ۔اگر تمہیں زخم لگے ہیں تو اسی طرح کے زخم انہیں بھی لگے ہیں ، اور ہم تو ان دنوں کو لوگوں کے درمیان گھماتے رہتے ہیں تاکہ اللہ جان لے کہ حقیقی ایمان والا کون ہے اور تم میں سے شہداء کا انتخاب کرے ، اور اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں فرماتا ۔
یعنی آج بھی اگر کفر پھر سے اتحاد بنا کر اسلام کو کچلنے کے لیے دنیا بھر میں محاذ گرمائے ہوئے ہے ، تو کوئی بات نہیں سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ (القمر: ٤٥)عنقریب اتحادی شکست خوردہ ہو جائیں گے اور دم دبا کے بھاگ اٹھیں گے۔ (ان شاء اللہ)۔ اور آج الحمد للہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ ۲۰۱۴ میں افغانستان سے انخلاء کی تیاریاں کر رہاہے ۔کفر تباہی کے دھانے پر ہے ، اور اسکے بعد ان شاء اللہ پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجے گا ، اور مسلمانوں کا دور ہوگا ۔
سال ہجری کا آغاز ہجرت نبوی کی یاد دلا کر بتا تا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دین نہیں بلکہ یہ تو قربانی ، فیاضی ، فدا کاری ، عزت انسانی کے تحفظ ، بنی نوع انسان کی آزادی ، اور انکے حقوق کی حفاظت کا دین ہے ۔یہ دین غموں اور پریشانیوں میں آنسو بہانے اور رونے پیٹنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ جرأت وبسالت کی داستانیں رقم کرنے کا کہتا ہے ، اخوت وبھائی چارے کی تاریخ قائم کرتا ہے ، ایثار وقربانی کے انمٹ نقوش پیدا کرتا ہے ۔
لیکن صد افسوس کہ بظاہر اسلامی معاشرہ میں شامل ایک مخصوص طبقہ اسلامی سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی رونے دھونے اور ماتم ونوحہ کاآغاز کرکے یہ شعور دلاتا ہے کہ شاید اہل اسلام کی ڈکشنری میں گزشتہ واقعات کو یاد کرکے آنسو بہانے اور رونے پیٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ حالانکہ نبی کریمﷺ نے نوحہ وماتم پر سخت نکیر فرماتے ہوئے اسے حرام قرار دیا اور فرمایا :
لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُیُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَی الجَاہِلِیَّۃِ
(صحیح بخاری:١٢٩٧)
جس نے رخسار پیٹے ، گریبان چاک کیے ، اور جاہلیت کے سے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
اور کاش یہ لوگ جن کا ماتم کرتے ہیں انکے بابا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہی فرمودات اپنی ہی کتابوں سے پڑھ لیتے ، انہوں نے تو رسول اللہ ﷺ کی وفات پر فرمایا تھا : ولو لا أنک أمرت بالصبر ونہیت عن الجزع لأنفذنا علیک ماء الشؤون (نہج البلاغہ ج ٣ ص ٢٥٦، ط: مصر)
اگر آپ ﷺ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا ، اور جزع فزع سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم رو رو کر آنکھوں کا پانی ختم کر دیتے ۔
اسی طرح انکے معتبر امام معصوم جعفر صادق رحمہ اللہ‘ اللہ تعالی کے فرمان ولا یعصینک فی معروف کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ معروف سے مراد یہ ہے کہ عورتوں اپنے کپڑوں کو مت پھاڑیں ، چہرے نہ پیٹیں ، واویلا نہ کریں ، میت کے پیچھے قبر تک نہ آئیں ، سیاہ ماتمی لباس نہ پہنیں ، اور اپنے بال نہ بکھیریں
(فروع کافی، کتاب المعیشۃ ، باب صفۃ مبایعۃ النبی ﷺ النساء ، ج٥ ص ١٦٧)
صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے اقوال اسی گروہ کے مسلمہ رہبران دین سے ماتم ونوحہ کی مذمت میں منقول ہیں ۔ لیکن صد افسوس کہ آج وہ ان فرمودات مقدسہ کی طرف کان نہیں دھرتے ۔ اور ستم بالائے ستم کہ نام نہاد اہل السنہ کا ایک بڑا طبقہ بھی انکے ساتھ ان کاموں میں شریک ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ انکے اعلی حضرت احمد رضا خاں بریلوی نے نہایت سختی کے ساتھ ایسے کاموں کو سوگ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ تمام کام سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے (احکام شریعت حصہ اول ، ص١٧)
اور اسی طرح تعزیہ داری ، اور اس پر نذرو نیازکو بدعت سیئہ وممنوع ونا جائز قرار دیتے ہیں ( تعزیہ داری:١٥)
الغرض اہل اسلام کے تمام تر مکاتب فکر کے زیرک افراد نے مروجہ ماتم ونوحہ وغیرہ کو ناجائز ہی قرار دیا ہے ۔کیونکہ یہ مہینہ انتہائی مقدس ، اور احترام کا مہینہ ہے ۔ اللہ نے اسے اشہر حُرم میں شامل فرمایا ہے ۔ اور نبی کریم ﷺ نے اس مہینے کو اللہ تعالی کا مہینہ قرار دیا ہے اور اسکی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ، صِیَامُ شَہْرِ اللہِ الْمُحَرَّمِ (صحیح مسلم : ١١٦٣)
رمضان کے مہینے کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم الحرام کے روزے ہیں ۔
اور پھر اس مہینے کی نو تاریخ کا روزہ بہت فضیلت کا حامل ہے ۔ ابتدائے اسلام میں نبی ﷺ نے یوم عاشوراء یعنی دس محرم الحرام کے روزہ کو فرض قرا ر دیا تھا (بخاری:٢٠٠٥) ۔پھر رمضان المبارک کے روزوں کے فرضیت کے بعد آپ ﷺ نے اسے نفل قرار دیا(بخاری: ٢٠٠٣) ۔ اور یہ وہ دن تھا جس دن اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام اور انکی قوم کو فرعون سے نجات دی تھی (بخاری: ٢٠٠٤) لیکن پھر آپ ﷺ نے بعد میں یہود کی مخالفت کرتے ہوئے روزہ رکھنے کی تاریخ بدل دی اور نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا :لَئِنْ بَقِیتُ إِلَی قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ (مسلم : ١١٣٤)
اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔
اور مخالفت کا یہ طریق نہایت زبر دست ہے کہ جس دن یہود روزہ رکھیں مسلمان اس دن افطار کریں اور جس دن وہ نہ رکھیں اس دن اہل اسلام روزہ کے ساتھ ہوں اس طرح انکی مخالفت تامہ حاصل ہوتی ہے ۔ اور سیدنا موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے رات کے وقت نکلنے کا حکم دیا تھا (الشعراء :٥٢) تو نبی کریم ﷺ نے رات کے ابتدائی حصہ کا اعتبار کرتے ہوئے فرعون سے آزادی کی خوشی میں روزہ منانے کا دن یہود کی مخالفت میں نو محرم الحرام کو مقرر فرما دیا ۔ جبکہ یہود رات کے آخری حصہ کا اعتبار کرتے ہوئے دس محرم الحرام کو فرعون سے آزادی کی خوشی میں روزہ رکھتے تھے ۔ اور یہی معاملہ پاکستان اور بھارت کے یوم آزادی کا ہے کہ دونوں ملکوں کی آزادی کا فیصلہ ایک ہی رات میں کیا گیا تھا لیکن اہل پاکستان چودہ اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں اور اہل بھارت پندہ اگست کو ، اور دونوں کے ہاں مقصود ایک دوسرے کی مخالفت ہے ۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نو تاریخ کا روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا لیکن آپ ﷺ آئندہ سال تک زندہ نہ رہ سکے ۔ لہذا یہی وہ دن ہے کہ جس دن کے روزہ کو نبی کریم ﷺ نے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے ۔ (مسلم :١١٦٢)
مسند احمد(٢١٥٥) میں ایک روایت ایسی بھی موجود ہے جس میں یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم ہے اور اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھنے کا کہا گیا ہے ۔ اور عوام الناس میں یہی بات زیادہ معروف ہے کہ یا تو نوا ور دس محرم کا روزہ رکھاجائے یا پھر دس اور گیارہ کا ۔ اور اسکی بنیادیہی روایت ہے لیکن درحقیقت وہ روایت پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی ہے جو کہ سیء الحفظ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
پھر کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نوتاریخ کا روزہ رکھنے کا عزم تو فرمایا لیکن دس تاریخ کا روزہ رکھنے سے منع نہیں کیا ۔ تو انکی خدمت میں عرض ہے کہ عربی زبان میں لفظ التاسع میں حصر پایا جاتا ہے ۔ جو اپنے ماقبل اور مابعد دونوں کی نفی کرتا ہے ۔ تو جب نبی کریم ﷺ نے لأصومن التاسع فرمایا تو حصر کی وجہ سے آٹھ اور دس کی خود بخود نفی ہوگئی ۔ اسکی آسان مثال آپ یوں سمجھیں کہ جب آپ کہیں کہ میرا بچہ نویں کلاس میں پڑھتا ہے تو اسکا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ نویں میں ہی پڑھتا ہے نہ آٹھویں میں اور نہ ہی دسویں میں ۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ میرے بچے نے نو کلاسیں پڑھی ہیں تو اس سے یہ مفہوم بالضرور نکلتا ہے کہ اس نے آٹھ بھی پڑھی ہیں یہی معاملہ تاسع اور تسعۃ کا ہے تاسع کا معنی ہے نویں یا نواں ،اور تسعۃ کا معنی ہے نو، اور ان دونوں میں فرق صاف ظاہر ہے ۔
اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فتوی دیا ہے کہ یوم تاسع یعنی نویں محرم کو روزہ رکھا جائے بلکہ انہوں نے تو یہاں تک فرمایا دیا کہ نبی ﷺ اسی طرح روزہ رکھا کرتے تھے ۔(مسلم : ١١٣٣) یعنی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عزم صمیم کو حقیقتِ واقعہ سے تعبیر فرما دیا ۔
الغرض نو محرم الحرام کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور یہ بہت فضیلت اور اہمیت کا حامل روزہ ہے۔
لیکن اکثر لوگ ان ایام کی فضیلتوں سے نہ آشنا ہیں۔اور اس شہر اللہ کے تقدس وحرمت سے ناواقف ہیں۔ جسکی بناء پر وہ اس ماہ مقدس ومحترم کی فضیلتوں اور برکتوں کو سمیٹنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ ان ایام میں بدعات وخرافات کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ حتی کہ صحابہ کرام پر تبرا بازی کا دور چلتا ہے ۔ ان نفوس قدسیہ کی عزت وحرمت کو پامال کیا جاتا ہے ۔ ادب واحترام کے تمام تر تقاضے بھلا دیے جاتے ہیں ۔حتی کہ بہت سے نام نہاد اہل السنہ بھی واقعہ کربلا کو ایک خاص رافضی رنگ میں بیان کرتے ہیں جو کہ رافضیت کی ایک خاص آئیڈیالوجی کا غماز ہے ۔جس میں سانحہ کربلا کو کفر واسلام کی جنگ قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سانحہء فاجعہ ایک حادثاتی نوعیت کا واقعہ ہے ، اگر یہ واقعتا کفر واسلام کی جنگ ہوتی تو اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ضرور شرکت فرماتے اور کبھی نواسہ رسول ﷺ کو تنہا نہ چھوڑتے ۔ اور صرف تنہاء چھوڑنے تک ہی بات نہیں بلکہ تمام تر بہی خواہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اس سفر سے منع کیا اور پیش آمدہ ممکنہ خطرات سے آگاہ فرمایا تھا۔
اور خود سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر پہنچی تو انہوں نے راستہ سے ہی واپس پلٹ جانے کا ارادہ فرما لیا تھا لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں کے اصرار پر وہ انکے ساتھ ہو لیے اور شام کی طرف سفر کا آغاز کیا ۔ کیونکہ مدینہ سے کوفہ کے راستہ میں کربلا نہیں آتا بلکہ یہ شام کے راستہ میں ہے ۔ اور پھر ابن زیاد کے سامنے بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تین تجاویز رکھیں کہ یا تو مجھے واپس لوٹ جانے دو ، یا اسلامی سرحدوں پر جانے دو ، یا یزید کے پاس لے چلو ۔ لیکن انکی کوئی تجویز بھی منظور نہ ہوئی اور ظالموں نے دھوکہ سے انہیں شہید کر ڈالا ۔
[البدایہ والنہایہ ج۸ ص۱۷۱, تاریخ الطبری ج4 ص ۲۹۳]
اور شہادت ایک ایسا اعزاز ہے کہ اہل اسلام اس پر ماتم وشیون، آہ وبکاء نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے ہیں ۔
اور پھر اس واقعہ کا ماہ محرم کی فضیلت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کیونکہ دین اسلام تو نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی مکمل ہو چکا تھا ۔اور تکمیل دین کے بعد اس میں کسی بھی قسم کا اضافہ بدعت کہلاتا ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ ماہ محرم الحرام اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ اور یہ ہجرت نبوی ﷺ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے بہت سی عبرتیں ، نصیحتیں ، اور یادیں سموئے ہوئے ہے ۔ اور یہ اشہر حرم میں شامل ہونے کی وجہ بلند عزت واحترام کا حامل ہے ۔ اور اس ماہ کے روزے رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ترین روزے ہیں۔ اور نو محرم الحرام کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔واقعہ کربلا کا اس مہینے کی حرمت وفضیلت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں دین حق کی سمجھ عطاء فرمائے اوراس پر عمل پیرا ہونے والا بنا دے۔ آمین
 
Top