• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد افضل گورو کی شہادت

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
محمد افضل گورو کی شہادت


کشمیر کے حریت پسند کارکن محمد افضل گورو کو 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں ہفتہ کی صبح ساڑھے سات بجے تہاڑ جیل میں تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لئے وہیں دفن کر دیا گیا، ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں کرفیو لگا دیا گیا، ٹیلی فون سروس معطل کر دی گئی اور حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت متعدد حریت رہنماؤں کو نظربند کر دیا گیا۔ مرحوم افضل گورو کی لاش ان کے اہلخانہ کو نہ دیئے جانے کے بارے میں بھارتی حکومت نے بڑی ڈھٹائی سے کہا لاش لینے کے لئے کوئی آیا ہی نہیں جبکہ مرحوم کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ انہیں لاعلم رکھا گیا اور انہیں ٹی وی کی نشریات سے یہ معلوم ہوا کہ افضل گورو کو پھانسی دے دی گئی۔ افضل گورو کی موت کی خبر نشر ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ سید علی گیلانی نے کشمیری عوام سے اپیل کی ہے کہ 3 روز تک مرحوم کا سوگ منایا جائے۔ افضل گورو گزشتہ 11 سال سے زیادہ مدت سے قید تھے۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس نے افضل گورو کی پھانسی کو کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر پر حملہ قرار دیا ہے۔ ہمارے نزدیک حریت پسند افضل گورو کی پھانسی پر یہ ایک جامع اور حقیقت پسندانہ تبصرہ ہے۔ محمد افضل گورو کی شخصیت دنیا بھر کے امن پسند اور انسان دوست حلقوں کو اس بات پر غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ آخر کن حالات نے افضل گورو جیسے نوجوان کو علم و فن کے بجائے جدوجہد آزادی کی وادئ خار زار میں اترنے پر مجبور کر دیا۔ آزادی پسند کشمیری نوجوان گورو کا تعلق سوپور کے ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ گورو کے ہم جماعتوں کے بیان کے مطابق انہوں نے 1986ء میں میٹرک کیا اور ایف ایس سی کرنے کے بعد وہ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے۔ جب 1990ء میں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی تو افضل گورو ایم بی بی ایس کے تھرڈ ایئر میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تک ان کے دوست نوید حکیم عرف انجم عسکریت اختیار کر چکے تھے۔ اسی دوران میں سری نگر کے نواحی علاقے چھانہ پورہ میں بھارتی فوج اور پولیس وغیرہ کی کریک ڈاؤن کی کارروائیوں میں متعدد کشمیری خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ ان المناک واقعات سے افضل گورو کو اتنا گہرا صدمہ ہوا کہ انہوں نے اپنے دوست نوید سے رابطہ کیا اور بھارت مخالف جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہو گئے اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت لینے کے بعد تنظیم کی عسکری حکمت عملی کے شعبے کے سربراہ بن گئے۔ 1991ء میں انہوں نے مسلح جدوجہد ترک کر دی اور دلی یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کے بعد ایک امریکی بنک میں ملازمت کر لی۔ دہلی میں 7 سالہ قیام کے بعد افضل گورو اپنے گھر کشمیر آئے اور ایک پُرامن شہری کی زندگی گزارنے لگے لیکن کچھ عرصے بعد پولیس کی زیادتیوں نے ان کی سوچ کا دھارا ایک بار پھر موڑ دیا۔ 2000ء میں پولیس نے افضل کو گرفتار کیا اور سخت اذیتوں سے گزارنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا کہ وہ کشمیر سے باہر نہیں جائیں گے۔ لیکن پولیس کے تشدد نے ان کے خیالات کی دنیا بدل ڈالی تھی۔ انہوں نے سوپورچھوڑا اور زیادہ تر سری نگر اور دلی میں رہنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ جب 13 دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو افضل گورو دہلی میں موجود تھے۔ 15 دسمبر کو سوپور جاتے ہوئے انہیں گرفتار کیا گیا۔

افضل گورو کی موت پر انتہاپسند بھارتی قوم پرستوں اور کشمیریوں کے ایک دوسرے سے متضاد جذبات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کشمیری اپنے آپ کو بھارتی قوم کا حصہ نہیں سمجھتے جبکہ بھارتی قوت کے بل پر کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی کی خبر سن کر اہل کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تو انتہاپسند ہندوؤں نے خوشی منائی۔ نئی دہلی میں ایک طرف بجرنگ دل خوشی منا رہے تھے تو دوسری طرف کشمیری مسلمان احتجاج کر رہے تھے۔ دونوں گروہوں میں ہاتھاپائی کے مناظر اس امر کی ایک علامت ہیں کہ کشمیریوں کو بھارتی قوم کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ حیرت ہے کہ سوا لاکھ کشمیریوں کے قتل، پاکباز عورتوں کی آبروریزی اور ہزاروں نوجوانوں کے اغوا جیسی ریاستی دہشت گردی کے بعد بھی اس باطل خیال میں مبتلا ہیں کہ کشمیریوں کو بھارتی قوم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ بھارتی حکمران جس قدر جلد اس حقیقت کا اعتراف کر لیں کہ کشمیر کو مسلح قوت سے بھارت کا حصہ بنا کر نہیں رکھا جا سکتا، جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لئے اسی قدر بہتر ہو گا۔

افضل گورو کا کشمیر کا ایک افسانوی کردار بن کر ابھرنا، کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ افضل گورو کی پھانسی اپنے نتائج کے اعتبار سے بھگت سنگھ کی پھانسی سے مختلف نہیں ہو گی۔ وہ جدوجہد آزادی کے دوران ایک ایسی رومانوی، دلکش اور حریت و شجاعت کی پیکر شخصیت بن کر ابھرے ہیں جو کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کرتی رہے گی۔ ہم اس موقع پر بھارتی سیاستدانوں اور دانشوروں کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ برطانوی استعمار کے خلاف سو سالہ جدوجہد میں پورے برصغیر کے لوگوں نے اتنی قربانیاں نہیں دی تھیں جتنی کشمیریوں نے نصف صدی کے دوران دی ہیں۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تنازع کشمیر دو فریقوں کے درمیان کسی خطۂ ارض کی ملکیت کا جھگڑا نہیں، سوا کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔ بھارت اور پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فورم پر یہ عہد کر چکے ہیں کہ اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا۔ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لئے لازم ہے کہ اندھی طاقت پر انحصار کے بجائے بین الاقوامی برادری کے سامنے کئے گئے عہد کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔

لنک
 
Top