• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بات کو بڑھا چڑھا کر یا بے فائدہ گفتگو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔
1824: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بال کی کھال اتارنے والے تباہ ہوئے (یعنی بے فائدہ موشگافی کرنے والے حد سے زیادہ بڑھنے والے اور تعصب کرنے والے )۔ تین بار یہی فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کی بددعا مومنین کے لئے رحمت ہی۔
1825: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دو شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور میں نہیں جانتی کہ انہوں نے آپﷺ سے کیا باتیں کیں کہ آپﷺ کو غصہ آ گیا تو آپﷺ نے ان دونوں پر لعنت کی اور ان کو بُرا کہا۔ جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ آپﷺ نے ان پر لعنت کی اور ان کو بُرا کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے ؟۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے میرے مالک! میں بشر ہوں، تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو بُرا کہوں تو اس کو پاک کر اور ثواب دے۔

1826: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی، جس کو اُمّ انس کہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا کہ! وہ لڑکی تو بڑی ہو گئی، اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو۔ وہ لڑکی یہ سن کر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس روتی ہوئی گئی تو اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیٹی تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی کہ رسول اللہﷺ نے مجھ پر بد دعا کی کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی اوڑھنی اوڑھتی ہوئی نکلیں اور رسول اللہﷺ سے ملیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا ہے اُمّ سلیم؟ وہ بولیں کہ اے اللہ کے نبیﷺ! آپ نے میری یتیم لڑکی کو بددعا دی؟ آپﷺ نے پوچھا کہ کیا بددعا؟ وہ بولیں کہ وہ کہتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمر دراز نہ ہو۔ یہ سن کر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے ؟ میری شرط یہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اے رب! میں ایک بشر ہوں اور خوش ہوتا ہوں جیسے آدمی خوش ہوتا ہے اور غصہ ہوتا ہوں جیسے آدمی غصہ ہوتا ہے ، پس میں اپنی امت میں سے جس کسی پر بددعا کروں، ایسی بددعا جس کے وہ لائق نہیں تو اس کے لئے قیامت کے دن پاکی کرنا اور طہارت اور اپنا قرب عطا کرنا۔ اور ابو معن نے اس حدیث میں تینوں جگہ "یَتِیْمَةٌ" کی بجائے "یُتَیِّمَةٌ" تصغیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔

1827: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اور میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ پس آپﷺ نے دستِ مبارک سے مجھے (پیار سے ) تھپکا اور فرمایا کہ جا معاویہ کو بلا لا۔ میں گیا پھر لوٹ کر آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے پھر فرمایا کہ جا اور معاویہ کو بلا لا۔ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔
ابن مثنیٰ نے کہا کہ میں نے امیہ سے کہا کہ "حَطَأَ" کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ آپﷺ نے گدی پر ابن عباسؓ کو مارا۔ (یہ حدیث بھی اسی معنی میں ہے جیسے پچھلی احادیث میں گزرا کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ پر شرط لگائی ہے کہ اگر کسی کے لئے خلاف واقعہ کوئی بات کر دوں تو اس کے لئے رحمت ہو جائے۔ اس لئے یہ حدیث معاویہؓ کے مناقب میں ہے )۔
کتاب: ظلم و ستم کے بیان میں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ظلم کرنا حرام ہے اور استغفار اور توبہ کرنے کا حکم۔
1828: سیدنا ابو ذرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے بیان فرمایا، اس نے فرمایا کہ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا، پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں راہ بتلاؤں پس تم مجھ سے راہنمائی طلب کرو میں تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو مگر جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے کپڑا مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم میرا نقصان نہیں کر سکتے اور نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں بڑا پرہیزگار شخص ہو تو میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہو گا اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سے سب سے بڑا بدکار شخص ہو تو میری سلطنت میں سے کچھ کم نہ ہو گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو وہ مانگے دیدوں، تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو (تو دریا کا پانی جتنا کم ہو جاتا ہے اتنا بھی میرا خزانہ کم نہ ہو گا، اس لئے کہ دریا کتنا ہی بڑا ہو آخر محدود ہے اور میرا خزانہ بے انتہا ہے۔ پس یہ صرف مثال ہے )۔ اے میرے بندو! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں، پھر تمہیں ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بہتر بدلہ پائے تو چاہئیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے (کہ اس کی کمائی بیکار نہ گئی) اور جو بُرا بدلہ پائے تو اپنے تئیں بُرا سمجھے (کہ اس نے جیسا کیا ویسا پایا)۔ سعید نے کہا کہ ابو ادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑتے۔

1829: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہیں (ظلم کو قیامت کے دن بوجہ تاریکی اور اندھیرے کے راہ نہ ملے گی) اور تم بخیلی سے بچو، کیونکہ بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کیا۔ بخیلی کی وجہ سے (مال کی طمع) انہوں نے خون کئے اور حرام کو حلال کیا۔

1830: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، پس نہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو تباہی میں ڈالے۔ جو شخص اپنے بھائی کے کام میں رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے کام میں رہے گا اور جو شخص کسی مسلمان پر سے کوئی مصیبت دُور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر سے قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت دُور کرے گا اور جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ظالم کے لئے مہلت کا بیان۔
1831: سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل ظالم کو مہلت دیتا ہے (اس کی باگ ڈھیلی کرتا ہے تاکہ خوب شرارت کر لے اور عذاب کا مستحق ہو جائے )، پھر جب پکڑتا ہے تو اس کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ "تیرا رب اسی طرح پکڑتا ہے جب بستیوں کو پکڑتا ہے یعنی ان بستیوں کو جو ظلم کرتی ہیں بیشک اس کی پکڑ سخت دکھ والی ہے " (ھود: 102)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : آدمی کو چاہیئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔
1832: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے۔ ان میں سے ایک مہاجرین میں سے تھا اور ایک انصار میں سے۔ مہاجر نے اپنے مہاجروں کو پکارا اور انصاری نے انصار کو تو رسول اللہﷺ باہر نکلے اور فرمایا کہ یہ تو جاہلیت کا سا پکارنا ہے (کہ ہر ایک اپنی قوم سے مدد لیتا ہے اور دوسری قوم سے لڑتا ہے ، اسلام میں سب مسلمان ایک ہیں) لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! (کچھ بڑا مقدمہ نہیں ) دو لڑکے لڑ پڑے تو ایک نے دوسرے کی سُرین پر مارا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو کچھ ڈر نہیں (میں تو سمجھا تھا کہ کوئی بڑا فساد ہے )۔ چاہئیے کہ آدمی اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اگر وہ ظالم ہے تو یہ مدد کرے کہ اس کو ظلم سے روکے اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے (اور اس کو ظالم کے پنجہ سے چھڑائے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ان لوگوں کے متعلق جو لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں۔
1833: سیدنا عروہ بن زبیر سیدنا ہشام بن حکیم بن حزامؓ سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ (ہشام ملکِ) شام میں کچھ لوگوں کے قریب سے گزرے وہ دھوپ میں کھڑے کئے گئے تھے اور ان کے سروں پر تیل ڈالا گیا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سرکاری محصول دینے کے لئے ان کو سزا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ ان لوگوں کو عذاب کرے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب کرتے ہیں (یعنی ناحق۔ تو اس وہ عذاب داخل نہیں ہے جو حدًا یا تعزیراً ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اپنے آپ کر ظلم کرنے والی قوم کے مسکن میں مت جاؤ مگر یہ کہ ( تم اپنے رب سے ڈر کر) روتے ہوئے (گزرو)۔
1834: ابن شہاب سے روایت ہے اور وہ قوم ثمود کے مکانات جس کا نام حِجر ہے ، کا ذکر کر رہے تھے اور کہا کہ سالم بن عبد اللہ نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حجر پر سے گزرے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ظالموں کے گھروں میں مت جاؤ مگر روتے ہوئے اور بچو کہ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو اُن پر آیا تھا پھر آپﷺ نے اپنی سواری کو ڈانٹا اور جلدی چلایا، یہاں تک کہ حجر پیچھے رہ گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : معذب لوگوں کے کنوؤں سے پانی پینے کے بارے میں۔
1835: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ حجر (یعنی ثمود کے ملک میں) اترے تو انہوں نے وہاں کے کنوؤں کا پانی پینے کے لئے لیا اور اس پانی سے آٹا گوندھا تو رسول اللہﷺ نے ان کو اس پانی کے بہا دینے اور آٹا اونٹوں کو کھلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ پینے کا پانی اس کنوئیں سے لیں جس پر صالح علیہ السلام کی اونٹنی آتی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قصاص اور حقوق کی ادائیگی قیامت کے دن ہو گی۔
1836: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا، جو نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے کو بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا اور پانچویں کو مارا ہو گا۔ پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلے ختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی، آخر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

1837: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے دن حقداروں کے حق ادا کرو گے ، یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا (گو کہ جانوروں کو عذاب و ثواب نہیں لیکن قصاص ضرور ہو گا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: تقدیر کے بیان میں

باب : اللہ تعالیٰ کے قول: "ہم نے ہر چیز اندازۂ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے " کے بارے میں۔
1838: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں جھگڑتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو یہ آیت اتری کہ "جس دن اوندھے منہ جہنم میں گھسیٹے جائیں گے (اور کہا جائے گا کہ) اب جہنم (کی آگ) کا لگنا چکھو۔ ہم نے ہر چیز کو تقدیر کے ساتھ پیداکیا ہے " (القمر: 48-49)۔ (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں قدر سے یہی تقدیر مراد ہے اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم نے ہر چیز کو اس کے اندازے پر پیدا کیا یعنی جتنا مناسب تھا)۔
 
Top