باب : نبیﷺ کی بددعا مومنین کے لئے رحمت ہی۔
1825: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دو شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور میں نہیں جانتی کہ انہوں نے آپﷺ سے کیا باتیں کیں کہ آپﷺ کو غصہ آ گیا تو آپﷺ نے ان دونوں پر لعنت کی اور ان کو بُرا کہا۔ جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ آپﷺ نے ان پر لعنت کی اور ان کو بُرا کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے ؟۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے میرے مالک! میں بشر ہوں، تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو بُرا کہوں تو اس کو پاک کر اور ثواب دے۔
1826: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی، جس کو اُمّ انس کہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا کہ! وہ لڑکی تو بڑی ہو گئی، اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو۔ وہ لڑکی یہ سن کر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس روتی ہوئی گئی تو اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیٹی تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی کہ رسول اللہﷺ نے مجھ پر بد دعا کی کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی اوڑھنی اوڑھتی ہوئی نکلیں اور رسول اللہﷺ سے ملیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا ہے اُمّ سلیم؟ وہ بولیں کہ اے اللہ کے نبیﷺ! آپ نے میری یتیم لڑکی کو بددعا دی؟ آپﷺ نے پوچھا کہ کیا بددعا؟ وہ بولیں کہ وہ کہتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمر دراز نہ ہو۔ یہ سن کر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے ؟ میری شرط یہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اے رب! میں ایک بشر ہوں اور خوش ہوتا ہوں جیسے آدمی خوش ہوتا ہے اور غصہ ہوتا ہوں جیسے آدمی غصہ ہوتا ہے ، پس میں اپنی امت میں سے جس کسی پر بددعا کروں، ایسی بددعا جس کے وہ لائق نہیں تو اس کے لئے قیامت کے دن پاکی کرنا اور طہارت اور اپنا قرب عطا کرنا۔ اور ابو معن نے اس حدیث میں تینوں جگہ "یَتِیْمَةٌ" کی بجائے "یُتَیِّمَةٌ" تصغیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔
1827: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اور میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ پس آپﷺ نے دستِ مبارک سے مجھے (پیار سے ) تھپکا اور فرمایا کہ جا معاویہ کو بلا لا۔ میں گیا پھر لوٹ کر آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے پھر فرمایا کہ جا اور معاویہ کو بلا لا۔ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔
ابن مثنیٰ نے کہا کہ میں نے امیہ سے کہا کہ "حَطَأَ" کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ آپﷺ نے گدی پر ابن عباسؓ کو مارا۔ (یہ حدیث بھی اسی معنی میں ہے جیسے پچھلی احادیث میں گزرا کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ پر شرط لگائی ہے کہ اگر کسی کے لئے خلاف واقعہ کوئی بات کر دوں تو اس کے لئے رحمت ہو جائے۔ اس لئے یہ حدیث معاویہؓ کے مناقب میں ہے )۔
کتاب: ظلم و ستم کے بیان میں