• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختلف موبائل کمپنیوں نے صارفین کو ایڈوانس بیلنس کی سہولت ! کیا یہ سود ہیں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مختلف موبائل کمپنیوں نے صارفین کو ایڈوانس بیلنس کی سہولت ! کیا یہ سود ہیں ؟

سوال:

مختلف موبائل کمپنیوں نے صارفین کو ایڈوانس بیلنس کی سہولت دے رکھی ہے کہ اگر کبھی بیلنس ختم ہو جائے تو مخصوص نمبر ملانے سے بیلنس آجاتا ہے لیکن وہ دئیے ہوئے بیلنس سے زیادہ وصول کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید ایسے حالات کے متعلق پشین گوئی فرمائی تھی۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے: ’’لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی پروا نہیں کرے گا۔‘‘ (بخاری، البیوع: ۲۰۵۹)

حرام کی کمائی میں سودی کاروبار بھی شامل ہے، جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں پر وہ وقت آنے والا ہے کہ وہ بلا دریغ سود کا استعمال کریں گے، دریافت کیا گیا کہ آیا سب لوگ اس وباء میں مبتلا ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جو سود نہیں کھائے گا اسے سود کا دھواں یا غبار ضرور اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ (مسند امام احمد ص ۴۹۴، ج ۲)
صورت مسئولہ میں اسی قسم کا کاروبار ہے، مختلف موبائل کمپنیاں اپنا کاروبار چمکانے کیلئے اس طرح کی سہولیات صارفین کو دیتی ہیں۔ مثلاً:

٭ جاز کمپنی 10 روپے کا بیلنس دے کر 13.20 روپے کاٹتی ہے۔
٭ یوفون کمپنی 30 روپے دے کر 34 روپے واپس لیتی ہے۔
٭ ٹیلی نار والے 40 روپے دے کر 45.12 روپے وصول کرتے ہیں۔اور اسے سروس چارجز کا نام دیا جاتا ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق یہ سود ہے جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تم اس سود سے باز نہیں آئو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو جائو۔‘‘ (البقرۃ: ۲۷۹)

اس بناء پر ہمارا صارفین کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اس طرح کے ایڈوانس بیلنس کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیں جو ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔

http://www.ahlehadith.org/advance-balance/
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت مفید۔۔۔جزاک اللہ خیرا کثیرا بھائی۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

٭ جاز کمپنی 10 روپے کا بیلنس دے کر 13.20 روپے کاٹتی ہے۔
٭ یوفون کمپنی 30 روپے دے کر 34 روپے واپس لیتی ہے۔
٭ ٹیلی نار والے 40 روپے دے کر 45.12 روپے وصول کرتے ہیں۔اور اسے سروس چارجز کا نام دیا جاتا ہے۔
آپ اسے کیسے سود کہتے ہیں اس پر اگر کوئی معلومات ھے تو ضرور فراہم کریں۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

آپ اسے کیسے سود کہتے ہیں اس پر اگر کوئی معلومات ھے تو ضرور فراہم کریں۔

والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بھائی اس حدیث کے ساتھ لنک بھی دیا ہیں آپ اس کا بھی مطالعہ کر سکتے ہے۔

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے"

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی کوئی بھی حدیث مبارکہ یا قرآنی آیت کے ساتھ اپنی تقریر لکھنے سے مدعا ثابت نہیں کیا جا سکتا، فون والے سوال اور اس لنک والے سوال میں بہت فرق ھے۔ براہ مہربانی مزید لنک پیش نہ کریں، اگر لکھ کر بات کریں گے تو بہت کچھ سیکھنے سکھانے کو ملے گا۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

بھائی کوئی بھی حدیث مبارکہ یا قرآنی آیت کے ساتھ اپنی تقریر لکھنے سے مدعا ثابت نہیں کیا جا سکتا، فون والے سوال اور اس لنک والے سوال میں بہت فرق ھے۔ براہ مہربانی مزید لنک پیش نہ کریں، اگر لکھ کر بات کریں گے تو بہت کچھ سیکھنے سکھانے کو ملے گا۔

والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بھائی میں نے آپ کے سامنے حدیث پیش کی ہے ایڈوانس بیلنس بھی ایک قرضہ کی شکل ہیں جو ادھار لیا جاتا ہیں - کیا یہ جو لون موبائل کمپنی سے لیا جاتا ہیں کیا وہ قرض نہیں ہوتا بھائی - آپ دوبارہ حدیث پر غور کریں - اگر میں نے غلط سمجھا ہے تو اہل علم اس پر ضرور روشنی ڈالے -

انس بھائی

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے"
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
668
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
اس سلسلے میں میرا رجحان یہ ہے کہ یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا ہے ،جس کے دو بنیادی سبب ہیں۔
1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اضافی رقم کمپنی کے سروس چارجز اور حکومتی ٹیکس ہوتا ہے جو وہ ایزی لوڈ اور کارڈ لوڈ پر بھی کاٹ لیتے ہیں۔آج کل اگر 100 روپے کا کارڈ لوڈ کریں تو 75 روپے آتے ہیں،اب کیا ہم یہاں بھی یہ کہیں گے کہ کمپنی نے 75 دے کر ہم سے 100 روپے لئے ہیں۔یہاں ایسا کوئی بھی نہیں کہتا ہے،ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہ حکومتی ٹیکس اور سروس چارجز ہیں جو ہر کارڈ کے ساتھ ساتھ ہر کال پر بھی کٹتے رہتے ہیں اور یہ ایسے اصول ہیں جو سم لیتے وقت ہی کمپنی آپ کو بتا دیتی ہے کہ ہم ان ان شرائط پر آپ کو اپنی کمپنی کی سروس مہیا کریں گے،اور ہم کمپنی کی ان شرائط کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ تحریری معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ ہم کمپنی کی تمام شرائط سے متفق ہیں۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے کمپنی سے نقد رقم نہیں لی ہوتی بلکہ ایک سروس اور خدمت لی ہوتی ہے ،جس کے چارجز ہم خدمت کے حصول کے بعد ادا کرتے ہیں۔(جبکہ کارڈ یا ایزی لوڈ میں پہلے ہی ادا کر دیتے ہیں۔)اب اس کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے۔سود تو یہ ہے کہ نقدی رقم کے بدلے میں ہم زیادہ رقم ادا کر یں،یہاں تو ہم نے نقدی رقم لی ہی نہیں ہے۔اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ سروس چارجز ایزی لوڈ اور کارڈ پر کاٹے گئے چارجز سے کم ہیں۔فرق صرف تقدیم وتاخیر کا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
 
Top