محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِہٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْہَرُ۰ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۲۳۲ وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ۰ۭ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَكِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا۰ۚ لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ۰ۤ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ۰ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا۰ۭ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۲۳۳
دودھ انسان کی پہلی خوراک ہے جس سے بچے کے ہونٹ آشنا ہوتے ہیں اور یہ پہلی غذا ہے جو تولید لحم ودم میں بیشتر حصہ لیتی ہے ۔ اگر اسے زیادہ عرصہ تک جاری رکھا جائے تو بعض اعضاء نشوونما سے بالکل رک جائیں گے اور بچہ باوجود بڑھنے کے اور بڑا ہونے کے کمزورو ناتواں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حیوانات بھی دوسال سے زیادہ بچوں کو دودھ نہیں پلاتے۔امکان یہ تھا کہ ماں بتقاضائے محبت رضاعت کو زیادہ وسیع کردے، اس لیے قرآن حکیم نے جو بجائے خود شفائے کامل ہے ، دوسال کی تحدید کردی ۔
موجودہ تہذیب کے لاتعداد امراض میں سے ایک مرض احساس ''انفرادیت'' بھی ہے جس کے بقا سے مہرو محبت کا قدرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ قرآن حکیم اسی لیے فرماتا ہے کہ مائیں بچوں کو حتی الوسع اپنی آغوش شفقت سے الگ نہ کریں اور ابتداء سے ان کو ''اجتماعیت'' کا عملی درس دیں۔ تربیت اور اخلاق کا یہ کتنا اہم نکتہ ہے جو قرآن حکیم نے یونہی بیان فرمادیا ہے۔
۳؎ ان آیات میں مندرجہ ذیل مسائل بتائے ہیں:
(۱) باپ بچوں کی ماں کا کفیل ہے ۔ رزق وکسوت اس کے ذمہ ہے ۔
(۲) رزق وکسوت عرف عام کے تحت ہونا چاہیے اور اس میں وسعت وطاقت کا پورا پورا خیال رہے ۔
(۳) بچہ کی وجہ سے ماں خاوند کو کوئی ناجائز تکلیف نہ دے اور نہ باپ بیوی کو۔
(۴) بچے کے دودھ چھڑانے میں دونوں کی رضا جوئی ضروری ہے ۔
(۵) بچے دایہ کے سپر د کیے جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اس کا حق اسے دے دیا جائے ۔
(۶) ان سب معاملات میں اتقاء ضروری ہے ۔
ان مسائل کو سیاق طلاق میں اس لیے بیان فرمایا کہ درحقیقت طلاق ہی کی صورت میں بچہ کے متعلق مشکلات پیش آتی ہیں۔
۱؎ عضل کے معنی روکنے اور مشکل میں ڈالنے کے ہیں۔ دجاجۃ معضلۃ اس مرغی کو کہتے ہیں جو بمشکل انڈے دے۔ عضلت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی کے لیے بچہ جننا مشکل ہوجائے۔ داء عضال اس بیماری کا نام ہے جو بمشکل دور ہو۔مقصد یہ ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد عورت کو دوسرے نکاح کا حق حاصل ہے اور تمہارے لیے جائز ودرست نہیں کہ تم ان کے نکاح میں روڑا ا ٹکاؤ اور ان کو مشکلات میں نہ ڈالو۔آیت کا روئے سخن یا تو پہلے خاوندوں سے ہے اور یا اولیاء سے ۔ عام طورپر جاہل خاوند طلاق دینے کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ ان کی سابقہ بیوی کسی دوسرے سے نکاح نہ کرسکے، اس لیے کہ یہ بظاہر ان کی عزت کے خلاف ہے ۔ وہ ان کے خلاف لوگوں کو اکساتے ہیں۔ یہ ناجائز ہے ۔ اولیاء اور عورت کے دوسرے بزرگ بھی بعض دفعہ انھیں دوسرے نکاح سے روکتے ہیں۔ یہ بھی مصالح کے خلاف ہے، اس لیے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ حالات ومستقبل کا علم تمھیں نہیں، اللہ کو ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا، اس لیے جو حق اللہ نے انھیں دے رکھا ہے ، تمھیں اس سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا وجائز نہیں۔اور جب تم عورتوں کو طلاق دو۔ پھر وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو ان کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے ۱؎ نہ روکو جب کہ وہ حسب دستور آپس میں راضی ہو جائیں۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے خدا اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے ۔ اس میں تمہارے لیے پاکیزگی اورستھرائی زیادہ ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(۲۳۲) اوربچے والی عورتیں اپنے بچوں کو پورے دوبرس۲؎ دودھ پلائیں۔ جو کوئی دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے اوربچے کے باپ پران عورتوں کا کھانا کپڑا ہوگا دستور کے موافق۔ کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی۔نہ ماں کو اس کے بچے کے سبب۳؎ سے ضرر پہنچایاجائے اور نہ باپ کو اس کے بچے کے سبب سے اور وارث پر بھی یہی ذمہ ہے ۔ پھر اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں ہے اور اگر تم(اے مردو) یہ چاہو کہ اپنی اولاد کو دودھ پلاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں جب کہ تم دستور کے مطابق مقررہ اجرت حوالہ کردو اور خدا سے ڈرو اور جانو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے دیکھتا ہے۔(۲۳۳)
۲؎ اسلام ایسا کامل نظام مذہب ہے کہ اس میں جزئیات تک کو فراموش نہیں کیا گیا لیکن اس حد تک کہ شگفتگی باقی رہے۔بظاہر رضاعت کا مسئلہ اتنا اہم نہیں کہ قرآن حکیم ایسی اصولی کتاب اس کی تفاصیل پر روشنی ڈالے مگر جب بغور دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ یقینا اس کی ضرورت تھی۔مدت رضاعت
دودھ انسان کی پہلی خوراک ہے جس سے بچے کے ہونٹ آشنا ہوتے ہیں اور یہ پہلی غذا ہے جو تولید لحم ودم میں بیشتر حصہ لیتی ہے ۔ اگر اسے زیادہ عرصہ تک جاری رکھا جائے تو بعض اعضاء نشوونما سے بالکل رک جائیں گے اور بچہ باوجود بڑھنے کے اور بڑا ہونے کے کمزورو ناتواں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حیوانات بھی دوسال سے زیادہ بچوں کو دودھ نہیں پلاتے۔امکان یہ تھا کہ ماں بتقاضائے محبت رضاعت کو زیادہ وسیع کردے، اس لیے قرآن حکیم نے جو بجائے خود شفائے کامل ہے ، دوسال کی تحدید کردی ۔
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ کہہ کر قرآن حکیم نے اخلاق کے بہت بڑے مسئلے کو حل فرمادیا ہے ۔ عام طور پر لوگوں کی نگاہیں اخلاق کے اس پہلو تک نہیں پہنچیں،حالانکہ تربیت اطفال کے لیے یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔'' ماں کی گود بچے کی تعلیم گاہ ہے۔'' مشہور فقرہ ہے قرآن حکیم فرماتا ہے کہ بے شک ماں درسگاہِ اطفال میں پہلی معلمہ ہے مگر اس کا طریق تعلیم دودھ ہے۔ وہ اپنے دودھ کے ذریعے سے بچے کی رگ رگ میں عادات واخلاق غیر محسوس طریق پر داخل کردیتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ مائیں اور نیک عورتیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں اور ادنیٰ درجہ کے اخلاق کی عورتوں کے سپرد نہ کریں۔دودھ کون پلائیں؟
اس طرح اگر مائیں اپنے بچوں کو اپنی چھاتی سے دودھ پلائیں تو ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بچوں کے دل میں ابتدا ہی سے محبت وشفقت مادری کے گہرے نقوش کندہ ہوجائیں گے جو آئندہ زندگی میں انھیں سعادت مند اور نیک ''اولاد'' ظاہر کرنے میں زیادہ ممدومعاون ہوں گے۔ بخلاف اس کے وہ بچے جو پیداہوتے ہی نرسوں کے سپر دہوجائیں۔ بڑے ہوکر کسی ا سکول میں محصور کردیے جائیں اور جب ہوش آئے تو یورپ کے کالجوں میں پڑھ رہے ہوں۔ کیا ان سے سعادت مندی اور نیاز مندی کے جذبات کی توقع رکھی جاسکتی ہے ؟ایک اور فا ئدہ
موجودہ تہذیب کے لاتعداد امراض میں سے ایک مرض احساس ''انفرادیت'' بھی ہے جس کے بقا سے مہرو محبت کا قدرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ قرآن حکیم اسی لیے فرماتا ہے کہ مائیں بچوں کو حتی الوسع اپنی آغوش شفقت سے الگ نہ کریں اور ابتداء سے ان کو ''اجتماعیت'' کا عملی درس دیں۔ تربیت اور اخلاق کا یہ کتنا اہم نکتہ ہے جو قرآن حکیم نے یونہی بیان فرمادیا ہے۔
۳؎ ان آیات میں مندرجہ ذیل مسائل بتائے ہیں:
(۱) باپ بچوں کی ماں کا کفیل ہے ۔ رزق وکسوت اس کے ذمہ ہے ۔
(۲) رزق وکسوت عرف عام کے تحت ہونا چاہیے اور اس میں وسعت وطاقت کا پورا پورا خیال رہے ۔
(۳) بچہ کی وجہ سے ماں خاوند کو کوئی ناجائز تکلیف نہ دے اور نہ باپ بیوی کو۔
(۴) بچے کے دودھ چھڑانے میں دونوں کی رضا جوئی ضروری ہے ۔
(۵) بچے دایہ کے سپر د کیے جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اس کا حق اسے دے دیا جائے ۔
(۶) ان سب معاملات میں اتقاء ضروری ہے ۔
ان مسائل کو سیاق طلاق میں اس لیے بیان فرمایا کہ درحقیقت طلاق ہی کی صورت میں بچہ کے متعلق مشکلات پیش آتی ہیں۔
{الرَّضَاعَۃُ}دودھ پلانا۔{اَلْمَوْلُوْدُ لَہٗ} باپ۔{ تَشَاوُرٍ} باہم مشورہ کرنا۔ {تَسْتَرْضِعُوْا} مصدر اِسْتِرْضَاعٌ۔ دودھ پلوانا۔حل لغات